سیرت النبی ﷺ
صلاحیتوں کی پہچان اور اسوہ نبویؐ
محب اللہ قاسم
دنیا میں تمام انسان صلاحیتوں کے لحاظ سے ایک جیسے نہیں ہیں۔کسی میں کوئی صلاحیت ہوتی ہے تو کسی میں کوئی اور،کسی میں کم توکسی میں زیادہ۔ اسی وجہ سے دنیاکا ہرکام ہرانسان بخوبی انجام نہیں دے سکتا اورنہ وہ تنہا اجتماعی اہداف کے حصول میں کامیاب ہوسکتاہے۔ بلکہ جس میں جس کام کی صلاحیت موجود ہو وہ اس کام کو ہی بہ خوبی انجام دے سکتاہے۔اس لیے کاموں کی صحیح طریقے سے انجام دہی کے لیے افراد سازی ضروری ہے۔ لیکن افرادکو وہی مقام دینا ہوگا جو ان کے شایان شان ہو۔عربی میں اسے وضع الشی فی محلہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ معاملہ گھر سے لے کر دفتر،کمپنی اور اقتصادیات کے تمام شعبوں سے جڑا ہوا ہے۔ ایک کامیاب امیرکارواں کی یہ بہت بڑی خوبی مانی جاتی ہے کہ اس میں منصوبے کو بروئے کارلانے کے لیے افرادسازی کا ملکہ ہو،اسے صلاحیتوں کوپرکھنے کا کمال اورتفویض کار کا ہنر حاصل ہو۔آج معاشرے میں جوخرابیاں درآئی ہیں ان میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ کسی اہم ترین کام کی ذمہ داری کسی ایسے شخص کے حوالے کردی جاتی ہے جوکسی بھی لحاظ سے اس کا اہل نہیں ہوتا۔ دوسری طرف ایک باکمال اورباصلاحیت شخص کو نظرانداز کردیاجاتاہے۔جس کی صلاحیتوں سے قوم وملت اور معاشرے کی بہتری ہوسکتی ہے۔نبی کریم نے ایک عام اصول بیان فرمایاہے انزلواالناس منازلہم (ابوداود)’’لوگوں سے ان کے اپنے مرتبے کے مطابق پیش آو‘‘۔
اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ کسی نااہل شخص کواتنابڑامرتبہ نہ دے دیاجائے جس کا وہ اہل نہ ہو اورنہ کسی باصلاحیت آدمی کو نظراندازکردیاجائے۔نبی کریم صحابہ کرام کے اندرچھپی ہوئی صلاحیتوں کو پرکھ لیتے تھے ، مزیدبہتر بنانے کے لیے ان کی تربیت بھی کرتے تھے اوران کے مطابق انھیں ذمہ داری سونپ کران سے کام لیتے تھے۔افراد شناسی اورلوگوں کی صلاحیتوں سے استفادے کے لیے ان کو صحیح مقام ومرتبہ دینا ایک بہت ہی اہم مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں نبی کریم کا طریقہ ہماری رہنمائی کرتا ہے۔درج ذیل صحابہ کرام کو آپ نے ان کی صلاحیت ،فہم وبصیرت اور ہنرمندی کے پیش نظر ان کو مختلف ذمہ داراریاں سونپی تھیں۔
خلفاے راشدین میں سے حضرت ابوبکر کو رفیقِ سفرِ ہجرت مقررکرنااور امام مقرر کرنا، حضرت عمر کے لیے قبول اسلام کی دعا کرنا، شیخین کو قضا کے معاملات سونپنا اور انہیں اپنا مشیر بنانا،حضرت عثمان کو اپنا داماد بنانا، اور اپنی عدم موجودگی میں مدینہ میں اپنا نائب مقرر کرنا،حضرت علی کو داماد بنانا، خیبر کی جنگ میں انہیں علم سونپنا وغیرہ شامل ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالدبن ولید کو فوجی قیادت سونپی چناں چہ انھوں نے بھی اپنے اس فن میں ماہر ہونے کی حیثیت سے وہ کارنامے انجام دیے جوایک بہادر فوجی لیڈرکے شایا نِ شان تھے اور آپ کے فہم وبصیرت اورجرات وبہادری سے بہت سے مقامات فتح ہوئے۔جس پر ان کو سیف اللہ کا خطاب بھی دیا گیا۔
حضرت زید کوعلم فرائض اورترجمے کاکام سونپاگیا۔حضرت ابی بن کعب کوحفظ قرآن مجید کے سلسلے میں ذمے داری دی گئی جنھوں نے بہت سے حفاظ کرام تیارکیے۔ جب تلاوت کرتے تو اپنی خوش الحانی سے فضاکوروح پروربنادیتے تھے۔حتی کہ آپ کی قرات سننے کے لیے فرشتے بھی آپ کے گردمنڈلانے لگتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا عباس کو کسی معاملے کا والی بنایاتوفرمایاکہ ’اے میرے چچا! میں اس معاملے میں کسی دوسرے کومناسب نہیں سمجھتاکہ اسے والی بناؤں۔‘ اسی بناپر عمر نے فرمایا:’ جس نے قرابت یاآپسی محبت کی بنیاد پر کسی کووالی یاامیربنایااس نے اللہ اوراس کے رسول کے ساتھ خیانت کی‘‘۔
حضرت معاذبن جبل زودفہمی ،قوت استدلال، خوش بیانی اوربلندہمتی کے لحاظ سے ایک منفردممتازمقام رکھتے تھے۔ان کی تعریف وتوصیف اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمائی :
اعلم امتی بالحلال والحرام معاذبن جبل۔ان کے اسی علم وفہم، سوجھ بوجھ کے پیش نظر اللہ کے رسول نے انھیں یمن کا گورنربناکر بھیجا۔ روانہ کرتے وقت آپ نے ان سے پوچھا: تم لوگوں میں کیسے فیصلہ کروگے؟ معاذ نے جواب دیامیں پہلے اللہ کی کتاب کے ذریعے فیصلہ کروں گا ،اگراس میں حکم نہ ملا تو سنت میں تلاش کروں گا اگراس میں بھی نہ ملاتو پھراجتہادکے ذریعے فیصلہ کروں گا۔ آپ نے بہت سے مقامات پر ان کو ذمے دار بنایا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی بہت سی ذمے داریاں ان کو سونپی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اچھے اوصاف سے متصف لوگوں کی تعریف کرتے تھے۔آپ کا ارشادہے: خیارکم فی الجاہلیہ خیارکم فی الاسلام’’جولوگ زمانہ جاہلیت میں اچھے تھے وہ زمانہ اسلام میں بھی بہترہیں‘‘۔
آپنے حضرت ابوعبید بن الجراح کی خوبیوں کے پیش نظرانھیں ’’امین ‘‘ کا خطاب عطاکیا۔’’ایک موقع سے یمن کے کچھ لوگ آئے ،اورآپ سے دریافت کیا کہ ہمیں کوئی ایسا شخص دیجئے جوہمیں اسلام اورسنت سکھائے آپ نے حضرت ابوعبیدہ کا ہاتھ تھاما اور فرمایا : ہذاامین ہذہ الامۃ یہ ہیں اس امت کے امین۔ ایک مرتبہ آپ نے ارشاد فرمایا: لکل امۃ امین وامین ہذہ الامۃابوعبیدہ (متفق علیہ)’’ ہرامت کا ایک امین ہوتاہے اس امت کے امین ابوعبیدہ ہیں‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نیک، دانش منداور کم سن نوجوان صحابی جواکثرمیدان جنگ میں شرکت کے لیے کوشاں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شرکت کی اجازت کے لیے بے تاب رہتے تھے۔آپ نے ان کے اس حوصلے اور دانش مندی کے سبب ان کو محض بیس سال کی عمرمیں رومیوں سے جنگ کی قیادت سونپی۔انھیں ایسی فوج کا کمانڈربنایاجس میں بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ موجودتھے۔اس کم سن قائد کا قافلہ آپ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر کے زمانہ خلافت میں روانہ ہوا۔ان کی بہادری نے رومیوں کا خوف مسلمانوں کے دل سے نکال پھینکا اوریہ فاتح جوان مدینہ میں بہت سے مال غنیمت کے ساتھ واپس لوٹا۔سیرت صحابہ سے واقف حضرات کے لیے اس کم سن جوان کی پہچان کے لیے ان کا نام کافی ہوگا۔ ان کا نام حضرت اسامہ بن زید ہے۔ جنھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قابلیت اورصلاحیت کی بنیاد پر اتنی بڑی ذمے داری سونپی۔ حضرت عمر اسامہ سے ملتے توکہتے :مرحباً یاامیری میرے امیرخوش آمدیداس پر لوگ تعجب کا اظہار فرماتے توفرماتے: ’’رسول اللہ نے ان کو میرا امیر مقرر فرمایا تھا۔‘‘
امارت وحکومت یا کسی معاملہ کی ذمہ داری ایک بہت بڑی امانت ہے۔ اس کے لیے بہت غوروخوض کے بعد فیصلہ لیناچاہیے اوراس کے لیے جوشخص مناسب ہو تو اسے کسی مخالفت کے بغیرذمہ داری دینی چاہیے اورجواس کے لیے مناسب نہ ہوتو اس کوذمے داری ہرگزنہیں سونپنی چاہیے۔ ورنہ وہ کام تو خراب ہوگاہی ساتھ ہی معاشرہ بھی بہت سی پریشانیوں اوراختلافات کا شکار ہوکر رہ جائے گا۔کیوں کہ معاشرے کے بہت سے معاملات اس سے جڑے ہوتے ہیں اوربہت سے حقوق اس سے وابستہ ہوتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلیت کی بنیاد پر ذمہ داریوں کی تقسیم کاری کی۔جولوگ اس میں غیرذمہ دارانہ رویہ اختیارکرتے ہیں یا پھرامارت ومنصب محض تعلق اور رفاقت کی بنیادپر بانٹ دیتے ہیں ،ایسے لوگوں کے سلسلے میں سخت پہلواختیارکرتے ہوئے آپ نے ارشادفرمایا:مامن راع یسترعیہ اللّٰہ رعیۃ، یموت یوم یموت، وہوغاش لہا، الا حرم اللّٰہ علیہ رائحۃ الجنۃ۔ مسلم’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ لوگوں کا ذمہ داربنائے اور وہ اس میں خیانت کرے تو اللہ اس پر جنت کی خوشبو حرام کردے گا‘‘۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
من ولی من امرالمسلمین شیا، فامر علیہم احدا محابہ، فعلیہ لعنہ اللّٰہ، لایقبل اللّٰہ منہ صرفا، ولاعدلا،حتی یدخلہ جہنم۔جس شخص کو عام مسلمانوں کی ذمے داری سپردکی گئی ہو پھراس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی وتعلق کی وجہ سے بغیراہلیت معلوم کیے دے دیا ،اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ اللہ اس کا کوئی عمل قبول نہیں کرے گا،یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہوجائے گا۔ (مسنداحمد)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو تنبیہ فرمائی ہے کہ وہ امارت وولایت کی تمنا نہ کریں اور نہ اس کی خواہش میں لگے رہیں۔ آپ نے حضرت عبدالرحمن بن سمرہ کو ہدایت فرمائی :
اے عبدالرحمن تم عہدہ امارت طلب مت کرو،اگر تم کوطلب کرنے کے بعد امارت عطا کی گئی توتم اسی کے سپردکردیے جاوگے اگربلامطالبہ تمہیں یہ عہدہ مل گیاتو اس پر تمہاری مدد کی جائے گی۔‘‘ (متفق علیہ)
ذمے داری سونپنے کا معاملہ انتہائی نازک ہے۔ اس سے یہ ہرگز نہ سمجھنا چاہیے کہ جس کو لوگوں کے کسی معاملہ کی کوئی ذمہ داری نہیں دی گئی وہ مرتبہ میں کم ہے۔ حضرت ابوذر کوآپکے نزیک بہت قدرومنزلت حاصل تھی۔بہت ہی متقی وپرہیزگار صحابی تھے۔ مگرآپ نے ان کوکسی معاملہ میں ذمہ دارنہیں بنایا۔آپ نے ان سے ارشاد فرمایا:
یا ابا ذر،انی اراک ضعیفا، وانی احب لک ما احب لنفسی، لا تامرون علی اثنین، ولاتولین مال یتیم۔مسلم
’’اے ابوذرمیں تمھیں کمزورپاتاہوں میں تمہارے لیے وہی پسند کرتاہوجواپنے لیے پسند کرتاہوں،تم دولوگوں پر بھی ذمہ دارنہ ہونا اورنہ مال یتیم کا ولی بننا ‘‘۔دوسری جگہ حضرت ابوذر کو مخاطب کرتے ہوئے ارشادفرمایا:انہا امانہ ،وانہا یوم القیامۃ خزی وندامۃ، الا من اخذہا بحقہا، وادی الذی علیہ فیہا(مسلم )
’’یہ امانت ہے اور یہ قیامت کے دن رسوائی و ندامت کا سبب بنے گی۔ سوائے اس کے جواس کا حقدار ہو اوراپنی ذمہ داری کوصحیح طریقے سے انجام دے‘‘۔
سلف صالحین کا طریقہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسل کے تربیت یافتہ صحابہ کرام بھی اس کی اہمیت اورنزاکت کے سبب اس معاملہ میں بڑی احتیاط سے کام لیتے تھے۔حضرت عمر کا قول ہے:
من ولی من امرالمسلمین شیا فولی رجلا لمودۃ اوقرابۃ بینہما، فقد خان اللّٰہ ورسولہ والمسلمین۔
’’جس شخص کو مسلمان کے کسی معاملے کا ذمے داربنایاگیا اور اس نے دوستی اورقرابت کی بنیاداس کا کوئی کام کیا۔ اس نے اللہ اوراس کے رسول کے ساتھ خیانت کی‘‘۔
اسی طرح کا معاملہ تابعین وتبع تابعین کا بھی تھا۔
عمربن عبدالعزیز خلیفہ بنائے گئے۔انھوں نے اپنے پہلے خطاب میں کہا:مجھ سے خلافت کی بیعت لی گئی جب کہ میں اس کا متمنی نہیں تھا۔لہٰذا آپ لوگ جسے چاہیں اپنا خلیفہ متعین کرلیں۔اس پر مجمع روپڑااوراپنی بھرائی ہوئی آواز میں کہا: اے محترم ہم نے آپ کا انتخاب کیاہے اور آپ سے خوش ہیں۔توعمربن عبدالعزیز بھی روپڑے اورکہا اللہ مددگارہے۔پھر منبرکے گرد موجودلوگوں کویہ کہتے ہوئے نصیحت کی کہ میں تمہیں اللہ سے تقوی اختیارکرنے کی وصیت کرتا ہوں۔جواللہ کی اطاعت کرے گا، اس کی اطاعت واجب ہے اورجواللہ کی نافرمانی کرے گا اس کی کوئی اطاعت نہیں۔پھراپنی آواز بلندکرتے ہوئے کہا :تمہارے درمیان جب تک میں اللہ کی اطاعت کروں تم میری اطاعت کرنا اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں توتمہارے ذمہ میری اطاعت لازم نہیں ہوگی۔پھرقصرخلافت کی طرف روانگی کے لیے لوگوں نے سواری پیش کی توآپ نے کہا کہ میں بھی عام مسلمانوں کی طرح ایک مسلمان ہوں،اس لیے میری آمدورفت بھی اسی طرح ہوگی اورقصرخلافت کے بجائے اپنے مکان کا رخ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ جواللہ کی خاطرتواضع اختیار کرے گا اللہ اسے بلندمقام عطا کرے گا۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف ذمہ داری کی نزاکت اورآخرت میں جواب دہی کے احساس کے سبب اسے قبول کرنے سے کتراتے تھے۔بہت سے لوگ جیلوں میں ڈال دیے گئے ، ان پر کوڑے برسائے گئے۔لیکن انھوں نے کوئی منصب قبول نہیں کیا۔کیوں کہ ان کے سامنے اپنے بزرگوں کے تاریخی احوال موجودتھے اور ان کے تقوی و دیانت داری کے قصے سنائے جاتے تھے۔ لہٰذا ان کی نگاہ میں اس احساس ذمے داری کے ساتھ کسی منصب یا ذمے داری کو قبول کرلینا معمولی بات نہیں تھی۔
حاصل کلام یہ کہ قائدین امت کو اس مسئلے پرپوری دیانت داری کے ساتھ توجہ دینی چاہیے۔ان پر لازم ہے کہ اپنے بعد آنے والوں کو عمدہ دینی تربیت دیں اور افرادسازی کے ساتھ ساتھ تفویض کارمیں بھی باریک بینی سے کام لیتے ہوئے ذمے داری سونپنے کا فریضہ انجام دیں۔ کیوں کہ یہ ایک امانت ہے جس میں کسی ذاتی منفعت کے پیش نظرخیانت کرنا کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔اس سے امت بحران کا شکار ہوگی اورملت کوبہت بڑے نقصان کا سامناہوگا۔ اس لیے کہ اللہ کی نصرت ایسے ذمہ داروں پر نہیں ہوتی جوکسی مفادکے پیش نظرکسی عہدے پر فائز ہوں۔***