سیرت النبیﷺ
سیرتِ رسول ؐکے دواہم پہلو
مولاناصدرالدین اصلاحیؒ
یوں تو پیغمبرؐ اسلام کی سیرت کا کوئی گوشہ نہیں جو کمالِ انسانیت کا آئینہ دار نہ ہو، لیکن اس کے دو اہم پہلو ایسے ہیں جو سب سے زیادہ بنیادی اور اہم ہیں:
ایک تو یہ کہ آپ کے پاس جو حق تھا اسے آپ نے خلق تک، جوں کا توں پہنچادیا۔ کبھی اس بات کو روا نہ رکھا کہ اس کا کوئی جزو لوگوں پر واضح ہونے سے رہ جائے۔ آپ کو حکم تھا اور نہایت زوردار لفظوں میں تھا کہ:
یایہا الرَّسْولْ بَلِّغ مَا انزِلَ الیکَ مِن رَّبکِ واَن لمَّ تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رِسَالَتہَ (المائدہ)
’اے رسول! جو کچھ تمہارے رب کی جانب سے تم پر نازل کیا گیا ہے، اسے جوں کا توں لوگوں تک پہنچادو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کا پیغام پہنچانے کا حق ادا نہ ہوگا۔‘
گمان نہیں کیا جاسکتا کہ آپ نے اتنے زبردست فرمان کی تکمیل میں کوئی کسر اٹھا رکھی ہوگی۔ جب کہ آپ کو یہ بھی صاف صاف سنایا جاچکا تھاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایتوں کا چھپانے والا لعنتی ہوتا ہے:
انَّ الَّذین یکتمون مَااَ نزَلنا مِنَ البیَِّنَاتِ وَالْہدیَ مِن بَعدِ مَا بَینَّاہ لِلنَّاسِ فیِ الکِتَابِ اولئک یلعنہم اللہ و یلعنہمْ اللَّاعِنْونَ (البقرۃ۱۵۹)
اس لیے عقلاً ممکن نہیں کہ آپ نے اللہ کے دین کو پورا پورا اور جوں کا توں لوگوں تک نہ پہنچا یاہو۔ یہ صرف قیاس اور عقیدت کی بات نہیں ہے، بلکہ واقعات کی قطعی اور کھلی ہوئی شہادت بھی یہی ہے۔ تئیس۲۳ برس کی پیغمبرانہ زندگی میں ایک ثبوت بھی اس بات کا نہیں مل سکتا کہ آپ نے اس فرمان الٰہی کی تعمیل میں کوئی کوتاہی دکھائی ہو۔ حالانکہ جو کچھ آپ کو دنیا کے سامنے اس بے لاگ طریقے پر رکھنا ہوتا تھا بسا اوقات وہ ماحول کے لیے یکسر نامانوس اور سننے والوں کے لیے سرتاسر ناقابل برداشت ہوتا تھا۔ لیکن ماحول کی مصلحتوں اور سننے والوں کے جذباتی ردعمل کا آپ نے کبھی ذہنی دباؤ قبول نہیں کیا اور نہ کبھی دعوتِ حق کا مفاد آپ نے اس میں سمجھا کہ اس کے ایسے اجزا کو جن سے لوگوں کے بھڑک اٹھنے کا زیادہ اندیشہ ہو، ’قابلِ گوارا‘ بنا کر اور ان کے ’رنگ توحش‘کو کچھ ہلکا کرکے پیش کریں۔ ایک طرف تو عرب کی سرزمین تھی جو سینکڑوں خداؤں کی نیازمندی اور پرستش میں غرق تھی، دوسری طرف قرآن کا تصور توحید تھا جس میں کسی بھی زندہ یا مردہ ’خدا‘ کی خدائی کے لیے کوئی گنجایش سرے سے موجود ہی نہ تھی اور جو ضروری قرار دیتا تھا کہ ایک ایک غیراللہ کی خدائی کا انکار کیا جائے۔ شرک کے ایسے زبردست مرکز میں توحید کے ایسے بے آمیز تصور کی منادی کیا کسی حال میں بھی قابل برداشت سمجھی جاسکتی تھی؟ آج کریملین کے اندر کھڑے ہوکر مار کس از م کے خلاف بولنا پھر بھی بہت آسان ہے، لیکن مکہ میں اور کعبہ کے سامنے کھڑے ہوکر لا الٰہ الا اللہ کی منادی کرنا اس سے کہیں زیادہ مشکل تھا۔مگر دنیا جانتی ہے کہ آپ نے یہ منادی ٹھیک انھی لفظوں میں کی، ہر مقام اور ہر موقع پر کی اور اس طرح کی کہ نہ تو کبھی آپ کے لب ولہجے میں کوئی کمزوری آئی اور نہ ان لفظوں کے معنی ومفہوم کو خوش نما بنانے کا آپ کے اندر کبھی کوئی رجحان پیدا ہوا۔ حالاں کہ اس طرح کی ’روادارانہ پالیسی‘ کے اختیار کرلینے کا خود مخالف کیمپ سے بھی کھلا اشارہ کیا گیا تھا اور اس وقت کیا گیا تھا جب طاقت واقتدار کے اعتبار سے وہ آپ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تھا۔ لیکن ان باتوں کا بھی اور وہ بھی ایسے سخت حالات میں، آپ کے برملا اعلان حق پر کوئی اثر نہیں پڑا، اگر پڑا تو صرف یہ کہ اس میں اور زیادہ شدت آتی گئی اور مخالفین کا ہرتازہ اظہار ناپسندیدگی دعوت توحید کی ایک تازہ تلقین وتوضیح کا سبب بنتا چلا گیا۔
جب توحید جیسے انقلابی اور ماحول کے لیے سب سے زیادہ ناقابل برداشت تصور کے بارے میں آپ کی صاف بیانی کا یہ حال تھا تو اسلام کے دوسرے عقائد اور تعلیمات کے بارے میں کسی اخفا یا التوا کا سوال ہی کہاں باقی رہ جاتا ہے؟
سیرت پاک کا دوسرا اہم ترین پہلو یہ تھا کہ داعی اسلام ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ’اَوَّلْ المْسلِمِین‘ بھی تھے۔ آپ نے جس عقیدے، جس اصول اور جس ہدایت کی بھی دوسروں کو تلقین کی اس کے تقاضوں پر سب سے پہلے خود عمل کیا۔ آپ جس حق کے مبلغ تھے اس کی تبلیغ آپ نے بیک وقت اپنی زبان اور اپنے عمل، دونوں سے کی۔ اپنے ساتھیوں کو اگر یہ تاکید فرمائی کہ ذکرِ الٰہی اور حمدوتسبیح میں زیادہ سے زیادہ مشغول رہو تو دنیا نے آپ کو بھی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ یادِ مولیٰ میں مشغول دیکھا۔ اگر دوسرے اہل ایمان کو آپ کی یہ نصیحت تھی کہ دشمنان حق کی پیہم ایذارسانیوں کا صبر سے مقابلہ کرتے رہو تو ان کے سامنے خود بھی سراپا صبروثبات بنے رہے۔ جب زبانِ مبارک نے یہ اعلان کیا کہ ان ظالم دشمنوں کا اب ہاتھ سے مقابلہ کرو تو میدان جنگ کی طرف سب سے پہلے اٹھنے والے قدم آپ ہی کے تھے اور اگر کبھی غیرمعمولی حالات پیدا ہوجانے کے باعث ساتھی میدان چھوڑ بیٹھے تو اس وقت بھی حق کا یہ ستون اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ جنگی ضرورت سے اگر خندقیں کھودنے کا فیصلہ ہوا تو دوسروں کی طرح آپ کے ہاتھوں سے بھی پھاوڑے چلتے دیکھے گئے۔ تنگ حالی کے عالم میں اگر اوروں کے پیٹ پر ایک ایک پتھر بندھے تھے تو دامن مبارک کے نیچے دو دو پتھر بندھے پائے گئے۔ غرض دینی احکام وہدایت کا کوئی جزو نہیں اور بندگی کا کوئی پہلو نہیں جس میں آپ کا اپنا عمل دوسروں کی رہنمائی کے لیے آگے آگے موجود نہ رہا ہو۔ یہ صرف آپ کا جذبہ عمل ہی نہ تھا بلکہ آپ کو حکم بھی اسی بات کا تھا:
قْل انی اِّمِرتْ انَ اعبْدَ اللہَّ مْخلِصًا لہ الدین (الزمر ۱۱)
’اے نبی! کہہ دو مجھے حکم ہے کہ اللہ کی بندگی کروں اطاعت کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے، اور مجھے حکم ہے کہ میں سب سے پہلا طاعت گزار بنوں۔‘
اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ کے ’اَوَّلْ المْسلِمِینَ‘ ہونے کی اہمیت اتنی زیادہ تھی کہ بعض اوقات جب مصالح نے تقاضا کیا تو آپ کی نجی زندگی کی وہ آزادی بھی باقی نہ رہنے دی گئی جو شریعت کی طرف سے ہر شخص کو ملی ہوئی ہے۔ مثلاً نکاح کا معاملہ انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ اس بات کا فیصلہ کرنے میں وہ بالکل آزاد ہے کہ شرعی حدود اور معروف کے اندر وہ جس عورت سے چاہے نکاح کرے اور جس سے چاہے نہ کرے۔ مگر ایک خالص دینی مصلحت کی بنا پر آں حضرت کو ایک خاتون حضرت زینب سے نکاح کرلینے کا مکلف بنا دیا گیا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ یا بیوہ سے نکاح عرب جاہلیت میں جائز نہیں سمجھا جاتا تھا۔ دوسری تمام جاہلی اور غلط رسوم کی طرح اس رسم کوبھی اسلام نے موقوف قرار دے دیا۔ مگر پرانی رسموں کا اثر مسلسل تعامل کی وجہ سے سماج کے ذہن میں جس گہرائی تک اترا ہوا ہوتا ہے، اس کی وجہ سے اس رسم کے خلاف عمل کی ابتدا کرنا سخت مجاہدے کی بات تھی۔ اتفاق کی بات ہے کہ حضرت زید بن حارثہ نے جو آں حضرت کے منہ بولے بیٹے تھے، اپنی بیوی حضرت زینب کو طلاق دے دی۔ اگرچہ بعض اہم مصالح کا تقاضا آپ یہی سمجھتے تھے کہ حضرت زینب کو اپنے عقد نکاح میں لے لیں۔ مگر وہی منہ بولے بیٹے کی مطلقہ ہونے کی بنا پر اس بات کا قوی اندیشہ تھا کہ معاشرے میں اس نکاح کا اچھا خاصا خراب ردعمل ہوگا، جھجھک میں ڈالے ہوئے تھا۔ ظاہر ہے کہ جہاں تک معاملے کی عام نوعیت کا تعلق تھا یہ آپ کا بالکل نجی معاملہ تھا اور آپ کے لیے اس لحاظ سے دونوں راہیں کھلی تھیں، نکاح کرلینے کی بھی اور نہ کرنے کی بھی۔ مگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہوا کہ آپ کو یہ نکاح ضرور کرنا چاہیے۔ بلکہ قرآن مجید کے ظاہر الفاظ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ ہی نے اس رشتہ نکاح کو جوڑ کر اس کا اعلان فرمادیا زَوَّجنَاکَھَا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس ذاتی معاملے میں آپ کی آزادی عمل کیوں برقرار نہ رہنے دی؟ اس کا جواب خود اسی کے لفظوں میں سنیے:
’... زَوَّجنَاَکہالکیلایکون علی المومنین حرج فی ازواج ادعیاۂم اذا قضوا منہن وطرا(الاحزاب:۳۷)
’’... ہم نے اسے تمہارے نکاح میں دے دیا تاکہ اہل ایمان کے لیے اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے، جب کہ وہ ان سے اپنی غرض پوری کرچکیں، نکاح کرلینے میں کوئی تنگی نہ رہ جائے۔‘
چونکہ امت پر سے ایک ناروا بندش کو ختم کرنا تھا اور اس سلسلے میں دوسروں کے لیے زبردست نفسیاتی رکاوٹیں تھیں، اس لیے یہ ’اول المسلمین‘ ہی کا کام تھا کہ آگے بڑھے اور بڑھ کر راہ عمل کھول دے۔
اس ایک مثال سے پوری صورت واقعی اچھی طرح سمجھ میں آ جاسکتی ہے اور اندازہ کرلیا جاسکتا ہے کہ آں حضرت کے’اول المسلمین‘ ہونے کے کیا معنی تھے؟
اب ذرا اس بات پر بھی غور کیجیے کہ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم یہ دونوں امتیازی خصوصیتیں زندگی بھر اتنی مضبوطی سے کیوں اپنائے رہے؟ کیا بات تھی کہ سیرت پاک کے سراپے میں یہ دونوں اوصاف اتنی نمایاں اہمیت کے ساتھ موجود نظر آرہے ہیں؟ بلاشبہ اس کا آسان اور سیدھا جواب تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا آپ کو حکم ہی اس طرح کا تھا۔ لیکن اس جواب پر پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم تھا کیوں؟ آخر اس حقیقت کو تو حقیقت ہی مانا جائے گا کہ اس کا کوئی حکم بلاوجہ نہیں ہوتا بلکہ ہر حکم کسی نہ کسی گہری حکمت پر ہی مبنی ہوتا ہے۔ پھر سوچیے کہ آپ کو جو کام سپرد کرکے بھیجا گیا تھا اور جو دین حق کی تبلیغ واقامت کے سوا اور کچھ نہ تھا، اس کے پیش نظر ان دونوں باتوں کا حکم کن مصلحتوں اور حکمتوں کا حامل ہوسکتا ہے؟ جہاں تک معروف انداز فکر کا تعلق ہے وہ تو کسی ایسی غیرمعمولی انقلابی دعوت وتحریک کے سلسلے میں، جو انسانی ڈھانچے کو پوری طرح ادھیڑ دینا اور ادھیڑ کر بالکل نئی بنیادوں پر پھر سے تعمیر کرنا چاہتی ہو، اس طرح کی باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ کوئی اہمیت نہیں دیتا، بلکہ پہلی چیز کو تو دانش مندی کے بھی خلاف سمجھتا ہے۔ اس بارے میں اس کا فیصلہ یہ ہے کہ جس تحریک کا منشا سماج میں کوئی غیرمعمولی تبدیلی لانا ہو ابتدا ہی میں اس کا واضح اور صاف صاف تعارف عوامی جذبات کو لازماً بھڑکا دیا کرتا ہے۔ اس لیے حسن تدبر کا تقاضا یہی ہے کہ اپنے اصل اور آخری مدعا کا پہلے ہی قدم پر کیا، مدتوں پتا نہ چلنے دیا جائے۔ بلکہ لوگوں کی نگاہیں دیکھ کر باتیں کی جائیں اور ان کی قوت برداشت کی حد تک اسے کم وحشت انگیز بلکہ خوش نما بنا کرپیش کیا جائے۔ پھر جب ایک خاص حد تک لوگ ہموار ہوجائیں اور کچھ طاقت بھی فراہم کرلی جائے تب کہیں جاکر اپنے اصل مدعا کا برملا اظہار کیا جائے۔ یہ فیصلہ کچھ آج ہی کے ’معروف انداز فکر‘ کا نہیں ہے بلکہ خود اس زمانے میں اور اس ملک میں بھی لوگوں کے سوچنے کا انداز کچھ اسی طرح کا تھا جس میں آپؐ مبعوث فرمائے گئے تھے۔ چنانچہ آپ کو اور آپ کے مخلص ساتھیوں کو اسی بنا پر ایک مدت تک، العیاذ باللہ، فریب خوردہ اور بے وقوف قرار دیا جاتا رہا۔ اب اگر اللہ تعالیٰ کا حکم اور رسول خدا کا طریق کار اس معروف انداز فکر وطریق کار کے بالکل مخالف رہا تو اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ دعوت حق کا مفاد اسی بات کا متقاضی تھا۔ کیوں کہ یہ بات حکیم وخبیر خدا کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنے رسول کو ایسی پالیسی اختیار کرنے کی ہدایت کرے جو اس کے مقصد بعثت کے حصول میں مفید ہونے کے بجائے الٹا اسے نقصان پہنچانے والی ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ غیر اسلامی تحریکوں پر اسلامی دعوت کو قیاس کرنا بنیادی طور پر غلط ہے۔ غیر اسلامی تحریکوں کے لیے اپنے مقصد کا گول مول اظہار اور اپنے اصول ونظریات کا پنچ رخا تعارف ضرور مفید مطلب ہوتا ہے، بلکہ شاید ضروری بھی ہوتا ہے کیوں کہ یہی پالیسی ان کے مزاج سے ہم آہنگ اور ان کی فطری بے مایگی کے حسب حال ہوتی ہے۔ مگر دعوت حق کو یہ پالیسی کبھی راس نہیں آسکتی۔ کیونکہ اس کا اختیار کرنا خود اس بات کی دلیل بن جائے گا کہ اس دعوت کو اپنی غرض وغایت کی حقانیت پر خود ہی اطمینان نہیں ہے، اور عملاً ہوگا یہ کہ ابتدا کے ساتھی درمیان ہی میں ساتھ چھوڑ جائیں گے، موثر الزامات اور معقول اعتراضات کا اک طوفان اٹھ کھڑا ہوگا اور اگر بہ ہزار دقت ورسوائی کسی منزل تک رسائی ہو بھی گئی تو وہ قیامِ دین کی منزل بہرحال نہ ہوگی۔ اس کے علاوہ اس پالیسی سے دعوت حق کا مزاج بھی کسی طرح میل نہیں کھاتا۔کیوں کہ اپنے مقصد ومدعا کا یہ طرز تعارف بجائے خود ایک مہذب قسم کا جھوٹ ہے اور جھوٹ کا سہارا پکڑنے کا ننگ، خواہ وہ کتنا ہی مہذب کیوں نہ ہو، اس حق کی خوددار اور بے لا گ فطرت کبھی گوارا نہیں کرسکتی جو زمین پر آیا ہی اسی لیے ہے کہ اسے جھوٹ اور باطل سے یکسر پاک کردے۔ ان وجوہ کو اگر سامنے رکھیے تو معلوم ہوگا کہ اپنے مقصد دعوت کا واضح اعلان واظہار محض آپ کی جرات حق گوئی کا نتیجہ نہ تھا بلکہ اس کے پیچھے یہ ضرورت بھی کام کررہی تھی کہ اسلام کی تبلیغ واقامت اور لِیْظہِرَہ‘ عَلَی الدِّینِ کْلِّہٰ کی منزل تک رسائی اس کے بغیر ممکن ہی نہ تھی۔
رہا سیرت پاک کا دوسرا پہلو، تو اگرچہ دوسری تحریکوں میں اسے خلاف دانش نہیں سمجھا جاتا، مگر ضروری بھی نہیں مانا جاتا۔ چنانچہ اس طرح کی تحریکوں کا اگر آپ جائزہ لیں تو پائیں گے کہ ان کے علم بردار اپنے مسلک کے چاہے بڑے اچھے ’مسلم‘ رہے ہوں مگر ’اول المسلمین‘ ہرگز نہیں تھے اور اس کے باوجود بھی وہ کامیاب ہوگئیں۔ لیکن دعوت اسلامی کا معاملہ اس باب میں بھی بالکل مختلف ہے۔ اگر اس دعوت کا پیش کرنے والا ایک طرف تو اسے خدا کی طرف سے آئی ہوئی کہتا اور اس کی پیروی ہی پر دارین کی فلاح موقوف ٹھیراتا ہو، دوسری طرف اس کا اپنا عمل اس کے اعلیٰ تقاضوں کی زندہ مثال نہ پیش کرتا ہو تو دنیا اس کی طرف کبھی نہیں آسکتی۔ اس قسم کی ’تبلیغ حق‘ کو تبلیغ حق کہنا ہی غلط ہے۔ اسے تو حق کی بس پیشہ ورانہ وکالت کہہ سکتے ہیں۔
اسلام کی تصوریت ’عملیت‘ کا جامہ کس طرح پہنتی ہے، یہ بات اس وقت تک جانی نہیں جاسکتی تھی جب تک قرآن کے ساتھ رسول بھی نہ آتا اور وہ اپنی پوری زندگی کو اسلامی تصورات کی، اسلامی اعمال کی اور اسلامی اخلاق کی ایک جیتی جاگتی تصویر بناکر لوگوں کے سامنے نہ رکھ دیتا۔ اس لیے حقیقت واقعی یہ ہے کہ سیرت رسولِ کے بغیر اسلام کو ٹھیک طور سے سمجھا ہی نہیں جاسکتااور اگر ایک چیز کے بغیر اسلام کو ٹھیک ٹھیک سمجھا بھی نہیں جاسکتا تو ظاہر بات ہے کہ اس کی ٹھیک ٹھیک پیروی کا امکان تو اور بھی دور جا پڑتا ہے۔اس حقیقت کے پیش نظر سیرت نبوی کا ذکر و مطالعہ تسکین عقیدت کا نہیں بلکہ حفاظت دین و ایمان کااور ادائے حقوق اسلام کا مسئلہ بن جاتا ہے اس لیے اس تذکرے اور مطالعے کی اصل ضرورت یہ ہے کہ اس سے مومن ہونے کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کا طریقہ معلوم کیا جائے۔
سیرت رسول کا مطالعہ اگر اس صحیح نقطہ نظر سے کیا جائے تو صاف محسوس ہوگا کہ سیرت کے یہ دونوں پہلو، جن کا اوپر کی سطروں میں ایک مختصر سا جائزہ لیا گیا ہے، اپنی اصل حیثیت ہی کے لحاظ سے اہم ترین نہیں ہیں، بلکہ آج کل ملت اسلامیہ جس حالت میں ہے اس کے لحاظ سے بھی اہم ترین ہیں۔ آج کوئی آنکھ نہیں جو ملت کا حال دیکھ کر ٹھنڈی رہ جائے اور کوئی زبان نہیں جو اس پر ماتم سرا نہ ہو۔ یہ صورت حال جس وجہ سے پیدا ہوئی ہے اس کی اس سے زیادہ صحیح اور موزوں تعبیر اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ان دونوں پہلووں سے، جو سب سے زیادہ اہم تھے، ملت نے سب سے زیادہ غفلت اختیار کررکھی ہے۔ اسلام جتنا کچھ اور جیسا کچھ ہے، اسے جوں کا توں ظاہر کرنا احتیاط اور زمانہ شناسی کے خلاف سمجھا جاتا ہے اور ایسا
سمجھنا دانش مندی کا فیشن بن گیا ہے اور اگر بعض حلقوں میں ایمانی خودی کچھ زور دکھاتی بھی ہے تو صرف زبانی اعتراف واظہار خیال کی حد تک۔ ورنہ جہاں تک عملی اقدام کا تعلق ہے، اس کی راہ میں یہاں بھی وہی احتیاط پسندی چٹان بن کر آکھڑی ہوتی ہے۔ اس طرز فکروعمل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اسلام کے جن حصوں پر عمل کی کوشش ماحول کو پسند نہیں ہوتی ان کا یا تو زبان پر ذکر نہیں آنے پاتا، یا پھر عقیدت وتحسین کا خراج ادا کرکے خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے اور ان کی حد تک عملی زندگی بدستور دوسری لائنوں ہی پر سفر کرتی رہتی ہے۔ جس شخص کو بھی اسلام کے مطالعے کا موقع ملا ہے وہ اس حقیقت کو مانے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ بندگی کا ایک جامع نظام ہے، جس سے انسانی زندگی کا کوئی گوشہ بھی باہر نہیں۔ وہ اپنے پیرووں سے جس اطاعت کا مطالبہ کرتا اور جس بندگی رب کی بجا آوری چاہتا ہے اس کی حدیں اگر مسجد کے گوشہ ذکر سے شروع ہوتی ہیں تو مملکت کے نظم وانصرام سے پہلے ختم نہیں ہوتیں۔ لیکن کیا آج ملت کو دیکھ کر نہ سہی، اس کی باتوں کو سن کر ہی کوئی اسلام کو ایسا جان اور سمجھ سکتا ہے؟ یقیناً نہیں۔ کیوں کہ ہماری بہت بڑی اکثریت یا تو اس امر حق سے واقف ہی نہیں، یا اسے زبان پر لانے کی بھی جرأت کھو بیٹھی ہے۔ وہ اسلام کی وضاحت عموماً اس انداز میں کرتی رہتی ہے جس سے وہ ہماری زندگی کے ایک پرائیویٹ معاملے سے زیادہ اور کچھ نہیں ثابت ہوتا، جس کے ساتھ اجتماعی زندگی میں کسی بھی ’ازم‘ کو لاکر بہ آسانی جوڑدیا جاسکتا ہو، بلکہ زیادہ ’محتاط‘ لوگ تو علانیہ فرمایا کرتے ہیں کہ دین کو دنیا سے اور مذہب کو سیاست سے کوئی واسطہ نہیں، دونوں کے دائرے بالکل الگ الگ ہیں۔ اس ’بڑی اکثریت‘ سے آگے بڑھیے تو ان لوگوں میں سے بھی، جو بحمد اللہ اس جہل اور اس کتمان حق دونوں بیماریوں سے محفوظ ہیں، بہتوں کو ایک دوسرا روگ چمٹا دکھائی دے گا۔ وہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں یہ فرماتے تو ضرور نظر آئیں گے کہ اسلام ہی ایک برحق دین ہے، انسانی اور عالمی مذہب ہے، ایک جامع نظام حیات ہے، دنیا کو امن وسلامتی کی تلاش ہے تو یہ تریاق اسے اسلام ہی عطا کرسکتا ہے اور انسانی زندگی کے سارے مسائل کا حل اسی کی تعلیمات میں مل سکتا ہے، لیکن ان کی عملی دلچسپیوں کو
دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ یہ ان کی صرف ’حدیث بزم‘ ہے، جس کے اندر ’حدیث رزم‘ بننے کی کوئی امنگ بہ مشکل ہی محسوس کی جاسکتی ہے۔ اظہار اس ایمان، عقیدے اور یقین کا کہ انسانیت کی فلاح صرف اسلام سے وابستہ ہے اور انسانی مسائل کی کنجی صرف قرآن ہے، مگر لائحہ عمل میں ہر نظام کی خدمت گزاریوں کے لیے پوری پوری جگہ، اگر جگہ نہیں تو صرف اسلامی نظام کی خاطر سعی وجہد کے لیے۔ بلاشبہ حالات کا دباؤ کم سخت نہیں مگر ’اول المسلمین‘ کا اسوہ حسنہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس کے تقاضے پورے کیے جائیں۔کاش سیرت رسول کا مطالعہ امت رسول کو یہ حقیقت سجھا دیتا کہ اس کی کھوئی دولت واپس نہیں مل سکتی، جب تک کہ سیرت پاک کے ان دونوں اہم ترین پہلووں کا جرأت اور بے خوفی سے اتباع نہ کیا جائے۔
ماخوذ از: سہ روزہ دعوت دہلی کی خصوص پیش کش ’سیرتِ طیبہ‘، جلد۷، شمارہ۸۱، ۱۶ستمبر ۱۹۵۹/۱۲ربیع الاول۱۳۷۹