عقيدہ رسالت اور تفسير" تدبر قرآن"
محمد صديق بخاری
توحید کے بعد اسلام کا اہم ترین عقیدہ رسالت ہے ۔ایک مسلمان کے لیے عقیدہ رسالت بنیادی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کے پاس اللہ کی پسند و ناپسند جاننے کا واحد ذریعہ رسول ہی ہوتا ہے ۔رسالت اصل میں اللہ اوربندوں کے د رمیان communication کا ایک channel ہے۔اللہ تعالی انسانو ں سے براہ راست کلام نہیں کرتے ۔ وہ بذریعہ رسول ہی کلام کرتے ہیں۔اس لیے رسولوں پر ایمان لائے بغیر نہ تو توحید کی حقیقت کا علم ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس دنیا اور آخرت کی حقیقت کا۔
توحید اور اس کے تقاضوں پر ایمان لاتے ہی اللہ تعالی کے احکام جاننے اور اس کی رضا حاصل کرنے کا سوال کھڑا ہوجاتا ہے۔ کیونکہ جب بھی ایک انسان اپنے پروردگار کا اطاعت گزار بن کر رہنے کا فیصلہ کرے گا تو وہ جاننا چاہے گا کہ اس کے مالک کے احکام کیا ہیں۔ وہ کن باتوں کو پسند کرتا ہے اور کن باتوں کو ناپسند کرتا ہے۔ اس کا وفادار رہنے کے لئے اسے کیا کرنا چاہئے اور اس کی نافرمانی سے محفوظ رہنے کے لئے اسے کن چیزوں سے بچنا چاہیے۔ ان ساری باتوں کو جانے بغیر اطاعتِ الہی کی راہ میں پہلا قدم نہیں اٹھایا جاسکتا۔ اس صورت حال کا منطقی تقاضاتھا کہ اس معاملے میں انسان کو بھٹکنے کے لئے چھوڑنے کے بجائے اس کی رہنمائی کی جاتی کیونکہ اس کی فکری اور روحانی قوتوں میں یہ صلاحیت نہ تھی کہ وہ خدا کی منشا کو براہ راست جان لیتا اور دوسری طرف اللہ کی صفت رحمت اور عدل کاتقاضا تھاکہ وہ انسان کو یوں بھٹکنے کے لئے نہ چھوڑ دے بلکہ وہ انسان کے لئے اخلاقی، دینی، روحانی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے انتظام کرے۔ یہی وہ انتظام ہے جسے دین کی اصطلاح میں رسالت کہاجاتا ہے۔
اس عقیدے کی اسی اہمیت کے پیش نظر مولانا اصلاحی نے بھی ’’تدبرقرآن‘‘ میں پوری کوشش کی ہے کہ یہ عقیدہ اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ ایک مومن کے دل میں جاگزیں ہو جائے ۔ آئیے تدبر سے اس امر کی چند مثالیں ملاحظہ کریں۔
رسول کا بنیادی فریضہ دعوت ہے اور دعوت کے دو پہلو ہيں انذار اور بشارت ۔ مولانا اصلاحی انذار اور بشارت کی وضاحت میں لکھتے ہیں۔
انبیا کی دعوت اور انذار کی حقیقت
’’انذار کے معنی ڈرانے، ہوشیار کرنے اور خبردار کرنے کے ہیں۔ انبیا علیہم السلام کی دعوت و تبلیغ ایک طرف تو نہایت ٹھوس انفسی و آفاقی دلائل پر مبنی ہوتی ہے۔ دوسری طرف اس میں انذاروتبشیر کا پہلو بھی ہوتا ہے۔ تبشیر کا مفہوم اس فوزوفلاح اور اس کامیابی وکامرانی کی بشارت دینا ہے جو نبی کی دعوت قبول کر لینے اور اس کی بتائی ہوئی صراط مستقیم اختیار کر لینے سے دنیا اور آخرت دونوں میں حاصل ہوتی ہے۔ انذار کا مفہوم ان خطرات ومہالک سے آگاہ کرنا ہے جن سے نبی کی تکذیب کرنے والوں کو دنیا اور آخرت دونوں میں لازماً دوچار ہونا پڑتا ہے۔ انبیا علیہم السلام عام حالات میں یہ دونوں ہی فرض انجام دیتے ہیں۔ لیکن جہاں ضدی اور ہٹ دھرم لوگ مقابل میں آن کھڑے ہوتے ہیں جن کی مخالفت کسی غلط فہمی کی بنیاد پر نہیں بلکہ محض حسد اور عناد کی بنیاد پر ہوتی ہے، وہاں قدرتی طور پر نبی کی دعوت میں انذار کا پہلو غالب ہوجاتا ہے کیونکہ اس وقت حالات اسی کے متقاضی ہوتے ہیں۔ نبی کریم کا تعلق ان مخالفین ومعاندین سے تھاجو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کسی غلط فہمی کی بنا پر نہیں کر رہے تھے بلکہ یہ جانتے ہوئے کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی برحق ہیں اور قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ انذار ہو یا تبشیر دونوں کی حقیقت ان قدرتی نتائج سے آگاہ کرنا ہے جو ایمان یا کفر کے اندر مضمر ہیں۔ جس طرح ایک طبیب اپنے زیر علاج مریض کو دوا اور پرہیز کے فوائد اور بدپرہیزی اور مرض سے غفلت کے نتائج سے آگاہ کرتا ہے اسی طرح پیغمبر بھی اپنی قوم کو اپنی دعوت کے ماننے اور نہ ماننے کے فوائد اور نتائج سے آگاہ کرتا ہے۔ بعض لوگ انذار کی اس حقیقت سے بے خبر ہونے کے سبب سے مذہب کے خلاف یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ یہ موہوم خطرات کے ڈراوے سنا سنا کر لوگوں کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتا ہے، انسان کی عقل سے اپیل نہیں کرتا۔ یہ معترض عموماً دو باتوں سے بے خبر ہیں، ایک تو یہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ قرآن کی دعوت صرف انذار وتبشیر پر ہی مبنی نہیں ہے بلکہ وہ اپنے اندر نہایت مضبوط انفسی وعقلی دلائل بھی رکھتی ہے، انذار وتبشیر اس کی دعوت کا صرف ایک پہلو ہے۔ دوسری چیز جس سے یہ بے خبر ہیں وہ ایمانی واخلاقی اقدار کی قدروقیمت ہے۔ یہ لوگ اس بات سے تو واقف ہیں کہ سنکھیا کھا لینے سے آدمی مرجاتا ہے لیکن یہ حقیقت ان کی سمجھ سے بالا تر ہے کہ کفر، نفاق اور جھوٹ سے بھی انسان ہلاک ہوجایا کرتا ہے۔ پیغمبر کو چونکہ اخلاقی اقدار کے ثمرات ونتائج کا اچھی طرح علم ہوتا ہے اس وجہ سے وہ لوگوں کو ان سے آگاہ کرتا ہے اور اسی انداز بیان میں آگاہ کرتا ہے جو انداز بیان اس کے علم ویقین کے شایان شان ہوتا ہے۔ اسی چیز کو قرآن مجید انذار کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے۔ ‘‘(اصلاحی، امین احسن ،تدبر قرآن ، ج1، ص 109، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
عصمتِ رسول کا مومنانہ دفاع
عبس وتولی۔۔۔۔اما من استغنی ۔۔۔۔
عتا ب آپ پر نہیں بلکہ کفا رپر ہے
سورہ عبس کے بارے میں اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ اس میں آپ ﷺ پر عتاب ہوا ہے ۔لیکن یہاں مولانانے انتہائی علمی اور دعوتی اسلوب اپناتے ہوئے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ یہ عتا ب آپ پر نہیں بلکہ کفار پر ہے ۔ دیکھیے مولانا کی خوبصورت توجیہ:
’’یہ وہ اصل تنبیہ ہے جو اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمائی گئی کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو اپنی اصلاح کے طالب بن کر آئیں اور ان کے اندر خدا کے حضور پیشی کا خوف ہو وہ آپ کی توجہ کے اصل مستحق قرار پائیں لیکن ہو یہ رہا ہے کہ جو بے پروا و بے نیاز ہیں آپ ان کو دعوت دینے کے لیے تو اپنے رات دن ایک کیے ہوئے ہیں حالانکہ وہ اگر اپنی اصلاح نہیں چاہتے تو اس کی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے۔ آپ پر اصل ذمہ داری ان لوگوں کی ہے جو ذوق و شوق سے آپ کے پاس آتے ہیں لیکن آپ ان سے غفلت برتتے ہیں۔ چند باتوں کی وضاحت: ایک یہ کہ ان میں بظاہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو عتاب ہے اس کا اصل رخ آپ کی طرف نہیں بلکہ قریش کے ان نااہل لیڈروں کی طرف ہے جن سے کسی خیر کی امید باقی نہیں رہی تھی۔ اس وجہ سے ضروری ہو گیا تھا کہ آپ ان سے صرف نظر کر کے اپنی ساری توجہ کا مرکز ان غریبوں کو بنائیں جو اسلام لا چکے تھے اور آپ کی تعلیم و تربیت کے اصل حق دار تھے۔ دوسری یہ کہ حضور کو کسی فرض کی ادائیگی میں کسی کوتاہی پر نہیں ٹوکا گیا ہے بلکہ اس بات پر ٹوکا گیا ہے کہ آپ نے اس سے زیادہ ذمہ داری اپنے اوپر اٹھا لی ہے جتنی اللہ تعالیٰ نے آپ پر ڈالی ہے۔ گویا یہ اسی طرح کا پرمحبت و جاں نواز عتاب ہے جو’لَعَلَّکَ بَاخِع نَّفسَکَ اَلَّا یَکْونْوا مْؤمِنِینَ‘ (الشعراء ۶۲: ۳) (معلوم ہوتا ہے تم اپنے آپ کو ان کے پیچھے ہلاک کر کے رہو گے کہ وہ مومن نہیں بن رہے ہیں۔) اور اس مضمون کی دوسری آیات میں گزر چکا ہے۔ تیسری یہ کہ ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رہنمائی دی گئی ہے کہ اسلام کی اصل دولت وہ غریب ہیں جن کے اندر خدا کی خشیت ہے نہ کہ وہ امیر جن کے سینے خدا کی خشیت سے خالی ہیں۔ اس وجہ سے آپ اپنی توجہ کا اصل مرکز انہی کو بنائیں جو اہل ہیں۔ ان کے پیچھے اپنا وقت نہ ضائع کریں جن کے اندر خیر کی کوئی رمق باقی نہیں رہی ہے۔ اس عتاب کی ایک حقیقت افروز تمثیل: استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر سورۃعبس میں اس عتاب کے رخ کو ایک تمثیل سے سمجھایا ہے جو نہایت حقیقت افروز ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’اس کو ایک مثال سے سمجھو۔ فرض کرو ایک نہایت مستعد اور فرض شناس چرواہا ہے۔ اس کے گلے کی کوئی فربہ بھیڑ گلے سے الگ ہو کر کھو جاتی ہے۔ چرواہا اس کی تلاش میں نکلتا ہے ہر قدم پر اس کی کْھر کے نشانات ملتے جا رہے ہیں۔ جنگل کے کسی گوشے سے اس کی آواز بھی آ رہی ہے۔ اس طرح وہ کامیابی کی امید میں دور تک نکل جاتا ہے اور اپنے اصل گلے سے کچھ دیر کے لیے غافل ہو جاتا ہے۔ جب وہ واپس لوٹتا ہے تو آقا اس کو ملامت کرتا ہے کہ تم پورے گلے کو چھوڑ کر ناحق ایک دیوانی بھیڑ کے پیچھے ہلکان ہوئے۔ اس کو چھوڑ دیتے، بھیڑیا کھا جاتا، وہ اسی کے لائق تھی۔ بتاؤ، اس میں عتاب کس پر ہوا؟ چرواہے پر یا کھوئی ہوئی بھیڑ پر۔ بالکل یہی صورت معاملہ یہاں بھی ہے۔ عتاب کا رخ بظاہر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ضرور ہے لیکن غصے کا سارا زور منکرین و مخالفین پر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تو اس عتاب کے اندر نہایت دل نواز شفقتیں مضمر ہیں۔‘‘
(اصلاحی، امین احسن ،تدبر قرآن ، ج9، ص200، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
انبیا اور رسل کی شان اور عظمت کے بارے میں مزید چند اقتباسات دیکھیے۔
نبی کی شان
’’سید کے معنی سردار کے ہیں۔ نبی اپنی فطرت، اپنی دعوت اور اپنے مشن کے لحاظ سے سردار ہوتا ہے۔ وہ داعی بن کر لوگوں کو پکارتا، منذر بن کر لوگوں کو جگاتا اور ہادی و مرشد بن کر لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ اس کام کے لیے وہ قدرت کی طرف سے تمام لوازم و اسلحہ سے مسلح ہوتا ہے۔ اس کا سینہ خلق کے لیے شفقت و رافت سے لبریز ہوتا ہے، اس کے کلام میں بے پناہ سطوت و جلالت ہوتی ہے، اس کی آواز اور اس کے انداز میں ہیبت ہوتی ہے، اس کی تاب ناک پیشانی اس کی عظمت و صداقت کی گواہی دیتی ہے۔ اگرچہ وہ کمل کی پوشاک پہنتا ہو اور جنگلی شہد اور ٹڈیوں پر گزارہ کرتا ہو لیکن اس کے رعب و دبدبہ سے بادشاہوں پر لرزہ طاری ہوتا ہے۔ ‘‘ (اصلاحی، امین احسن ،تدبر قرآن ، ج ۲، ص ا۸، فاران فاؤنڈیشن لاہور(
رسول کی اطاعت خود خدا کی اطاعت کے ہم معنی ہے
وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ۔۔۔۔۔
’’رسول کا اصلی مرتبہ: اب یہ رسول کا صحیح مرتبہ واضح فرمایا کہ رسول صرف مان لینے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ وہ اس لیے آتا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے۔ وہ صرف عقیدت ہی کا مرکز نہیں بلکہ اطاعت کا مرکز بھی ہوتا ہے۔ اس کی حیثیت صرف ایک واعظ و ناصح ہی کی نہیں بلکہ ایک واجب الاطاعت ہادی کی بھی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے اذن کے تحت اس کو اس لیے مامور فرماتا ہے کہ لوگ جملہ معاملات میں اس کےاحکام کی اطاعت کریں اس لیے کہ اس کی اطاعت ہی بالواسطہ خدا کی اطاعت ہے۔ جو لوگ رسول کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اس کے سیاسی اقتدار کو تسلیم نہیں کرتے یا اس سے اپنے آپ کو آزاد رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا دعوائے ایمان جھوٹا ہے۔‘‘ (اصلاحی، امین احسن ،تدبر قرآن ، ج ۲، ص328، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
رسول سے اعراض اللہ سے اعراض ہے
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْہُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْن
’’رسول سے اعراض اللہ سے اعراض کے ہم معنی ہے: ’اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ‘میں فعل اپنے کامل معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی اللہ و رسول کی اطاعت اس طرح کرو جس طرح ایمان کا تقاضا ہے۔ ’وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ‘ کے الفاظ ان کے رویہ کی شناعت کو ظاہر کر رہے ہیں کہ جب تم رسول کی موجودگی میں ٹھوکر کھاؤ گے تو کل کو تمہارا کیا حال ہو گا؟ جو لوگ پورے دن کی روشنی میں گرتے ہیں ان کے پاس ان کے گرنے کے لیے کوئی عذر نہیں ہو سکتا۔ ’عنْہ‘ کی ضمیر رسول کی طرف لوٹتی ہے حالانکہ اوپر ذکر اللہ و رسول دونوں کا ہے۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ رسول سے اعراض اللہ سے اعراض کے ہم معنی ہے۔ جس نے رسول سے منہ موڑ لیا اس نے خدا سے منہ موڑ لیا۔ خدا سے تعلق اور اس کی اطاعت کا واحد ذریعہ اس کا رسول ہی ہے۔‘‘ (اصلاحی، امین احسن ،تدبر قرآن ، ج 3، ص456، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
نبی نذیر مبین ہوتا ہے
قل یا یہاالناس انما انا لکم نذیر مبین
’’عربوں میں یہ طریقہ تھا کہ قبیلہ یا قافلہ جہاں ڈیرا ڈالتا وہاں سے کسی اونچی جگہ پر ایک نگران پہرہ دیتا اور اگر وہ کسی طرف سے کوئی خطرہ محسوس کرتا تو اپنے کپڑے اتار کر ننگا ہو جاتا اور خطرے کا اعلان کرتا جس کے بعد قبیلے یا قافلے کے سارے مرد تلواریں سونت کر مدافعت کے لیے تیار ہو جاتے۔ اس کو ’نذیر عریاں‘ کہتے تھے۔ یہ تعبیر چونکہ ناشائستہ تھی، نبی کے لیے اس کا استعمال موزوں نہ تھا، اس وجہ سے قرآن نے اس کو ’نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ‘ کی شکل میں شائستہ بنا لیا ہے لیکن اس میں تلمیح ’نذیر عریاں‘ ہی کی طرف ہے۔ مطلب یہ کہ جس طرح ایک ’نذیر عریاں‘ قوم کو خطرے سے آگاہ کرتا ہے تم ایک ’نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ‘ بن کر لوگوں کو آنے والے وقت سے آگاہ کر دو۔ لیکن بس آگاہ کر دو۔ نہ اس خطرے کو دکھا دینا تمہاری ذمہ داری ہے نہ اس سے لوگوں کو بچانا تمہاری ذمہ داری ہے۔ اگر لوگ تمہارے اس واضح انذار کے بعد بھی متنبہ نہ ہوں گے تو نتائج کی ذمہ داری خود ان پر ہے۔ یہ مضمون ’اِنَّمَا‘ کے اندر جو حصر کا مفہوم ہے اس سے نکلتا ہے۔‘‘ (اصلاحی، امین احسن ،تدبر قرآن ، ج5، ص 267فاران فاؤنڈیشن لاہور)