دين و دانش
اللہ اكبر
تحسين اللہ خان
میں اکثر اس کا ذکر کرتا ہوں کہ اگر آپ مسلمان ہیں اور آپ اسٹرونومی کے بارے میں نہیں جانتے، تو آپ اللّٰہ اکبر کا صحیح مفہوم نہیں جان سکتے۔آپ اسٹرونومی کے بغیر دنیا کی تمام کتابيں بھی پڑھ لیں، كائنات کے مالک کے بارے میں بھی کما حقہ نہیں جان سکتے، کیونکہ ستارے سے نیچے کائنات کا 0٠000000000000001 فیصد بھی نہیں ہے تو آپ کیسے اس لفظ کا صحیح "مفہوم" سمجھ سکتے ہیں؟ ہم جب بار بار ہر نماز میں اللّٰہ اکبر کہتے ہیں۔ کیا اس کا صحیح مفہوم بھی سمجھتے ہیں؟ ہرگز نہیں ۔۔۔۔کیونکہ اللّٰہ اکبر کا صحیح مفہوم آپ کو فلکیات ہی سكھا سکتی ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں، کہ پاکستان کے ہر مدرسے میں ایک کلاس فلکیات پر بھی ہونی چاہیٔے۔ کیونکہ ایک تو فلکیات بہت ہی دلچسپ فیلڈ ہے، اور دوسری بات یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی کبریائی کا صحیح مفہوم جاننے کے لیے علم فلکیات بہت ہی ضروری ہے۔
یہ اس قدر دلچسپ سبجیکٹ ہے کہ اس میں آپ کبھی جنت نظیر وادیاں دیکھتے ہیں تو کبھی جہنم صفت سیارے کبھی خلا میں پانی کے بڑے بڑے "سمندر" دیکھتے ہیں، تو کبھی جلتی ہوئی آگ۔کائنات میں ایک طرف شدید ٹھنڈ دیکھنے کو ملتی ہے، تو دوسری طرف آگ سے بھی ہزاروں گنا جلتی آگ۔
کائنات کی"وسعتیں" دیکھ کر انسان کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ یہاں سے کروڑوں نوری سال دور چلا جائے، تو دوسری اپنی عمر کو دیکھ کر "مایوس" ہو جاتا ہے کہ ساٹھ 60 سالہ زندگی میں پانچ نوری منٹ دور جانا بھی مشکل ہے۔کروڑوں نوری سال دور جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ناسا والے کائنات میں مسلسل "زندگی" ڈھونڈنے میں مصروف ہے لیکن ابھی تک زمین کے علاوہ کہیں اور زندگی نہیں ملی۔ابھی تک کوئی ایسی وجہ بھی سامنے نہیں آئی جس کی بنا پر یہ پختہ طور پر کہا جا سکے،، کہ "زندگی" زمین کے علاوہ کہیں اور موجود نہیں-
کائنات کے مالک نے انسان کو اپنی بھیجی ہوئی،، کسی بھی آسمانی کتاب میں یہ نہیں بتایا کہ تمہارے علاوہ اس کائنات میں اور بھی مخلوقات بستی ہیں لیکن "خالق کائنات" نے اس بات کی نفی بھی نہیں کی۔شاید اسلئے کہ انسان کے اندر کا ''تجسس'' ختم نہ ہو جائے،، اور وہ دنیا میں آنے کا مقصد، صرف کھانے پینے سونے اور جانوروں کی طرح زندگی گزارنے ہی کو نہ سمجھ لے۔ یعنی خالق خود چاہتا ہے، کہ اسکی مخلوق کائنات کی وسعتوں میں جھانکے اور ان عجائبات کو دیکھ کر اپنے خالق تک پہنچے۔ اپنے بنانے والے کی کبریائی کو جانے۔
لفظ "اللّٰہُ اکبر" کی پہچان کرے۔۔۔۔ خالق کائنات کی شان و عظمت کس قدر بلندو بالا اور بڑی ہے، اسکو سمجھنا ممکن نہیں، لیکن اس کی نشانیاں کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں اگر دیکھا جائے تو حسین کائنات کی سب سے بڑی، عجیب اور حیران کن تخلیق ستاروں، سیاروں، اور بلیک ہولز وغیرہ کی تخلیق ہے۔انسان جیسے جیسے اس تخلیق اور کائنات کو سمجھنے کے لئے آگے بڑھ رہا ہے، ویسے ویسے انسان پر یہ واضح ہورہا ہے کہ جو کچھ اس نے دیکھا، سمجھا، اور پرکھا ہے، وہ تو کائنات کا ایک چھوٹا سا جزو بھی نہیں۔ ایک وقت تھا کہ جب انسان سورج میں اپنے تصوّراتی معبود کو ڈھونڈتا تھا اور سورج ہی کو زمین پر زندگی کی ضمانت قرار دیتا تھا-اسی نظریئے کو بنیاد بنا کر سورج کی عبادت کی جاتی تھی لیکن آج پوری انسانیت یہ جانتی ہے کہ سورج بھی کسی سسٹم کی پیروی کر رہا ہے۔ سورج بھی ہماری کہکشاں کے مرکز کے تابع ہے۔ اس میں ایک بلیک ہول کو فالو کر رہا ہے اور معبود کسی بھی چیز کا، کسی بھی سسٹم کا فالور نہیں ہو سکتا۔ ایسے ہی ستاروں سیاروں کی عظیم الشان دنیاؤں میں انسان نے اپنا "تحقیقاتی" قدم رکھا اور انکی لامحدود وسعت اور عقل میں نہ آنے والی ساختوں کے سبب انہیں بھی خدا کا درجہ دے ڈالا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان پر یہ واضح ہوتا گیا، کہ خالق وہ نہیں جو بجھ جائے،خالق وہ نہیں جو غروب ہو جائے۔خالق وہ نہیں جو کسی کی پیروی میں لگا ہو، بلکہ خالق کائنات وہ ہے، جس نے ان سب ستاروں سیاروں اور خلاء کی وسعتوں میں پھیلی تمام چیزوں کو پیدا کیا، اور اپنی اپنی ڈیوٹیوں پر لگا رکھا ہے۔ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ
نہ تُو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے--جہاں ہے تیرے لیے، تُو نہیں جہاں کے لیے
اس شعر میں اقبال نے انسان کا قرآنی تصور پیش کیا ہے جو یہ ہے کہ یہ ساری کائنات اللّٰہ نے انسان کےلیے پیدا کی ہے کہ وہ اس کی "قوتوں" کو مسخر کرے، اور اپنے "فائدے" کے لیے استعمال کرے، جبکہ انسان کو اللّٰہ نے اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ اسکی اطاعت کرے اور زمین میں اس کی نیابت کا فرض انجام دے۔ بہ الفاظ دیگر انسان اس لیے پیدا نہیں ہوا، کہ وہ دنیا کی لذتوں میں غرق ہو جائے،،، اور اپنا مقصد حیات بھلا دے۔ انسان کی زندگی کا مقصد صرف اللّٰہ کی عبادت یعنی اطاعت ہے۔
سائنس دانوں کے مطابق قابلِ مشاہدہ کائنات کا ريڈی ايس تقریباً 46 ارب نوری سال، اور قطر 93 ارب نوری سال ہے۔ یہ لمحہ بہ لمحہ روشنی کی رفتار سے بھی، زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ رہنمائی کے لیے بتاتا چلوں کہ 93 ارب نوری سال اتنا بڑا عدد ہے کہ اس میں نمایاں تبدیلی کے لیے کروڑوں سال درکار ہوں گے۔اس لئے کائنات کے اس قدر تیز پھیلاؤ کے باوجود سالوں سے ہم کائنات کا قطر 93 ارب نوری سال لکھتے آ رہے ہیں۔ہم اس قدر کمزور ہیں کہ اس وُسعت کا ادراک ہمارا ذہن کر ہی نہیں سکتا- کیوں کہ ایک نوری سال بھی تقریباً 94 کھرب، 60 ارب اور 80 کروڑ کلومیٹر پر مشتمل ہوتا ہے۔
ویسے بہت ہی عجیب بات نہیں ہے کہ 93 ارب نوری سال پر پھیلی ہوئی، کائنات کی ایک چھوٹی سی ملکی وے کہکشاں کے ایک چھوٹے"سولر سسٹم" کے ایک چھوٹے سے سیارے کے ایک کم رقبے پر پھیلے ہوئے"ملک" کے ایک چھوٹے سے صوبے کے ایک چھوٹے سے ضلع کے، ایک چھوٹے سے گاؤں اور شہر کے ایک چھوٹے سے گھر میں بیٹھا ہوا شخص یہ گمان رکھتا ہے کہ اس حسین کائنات کا مالک نہیں ہے، بلکہ یہ خود بخود بن گئی ہے۔