قرآنيات
قرآن پر چند اعتراضات کے جواب
ایک صحافی کہتے ہیں کہ ’مَیں مسلمان تھا،لیکن قرآن کریم کے نزول اور تحفظ کے بارے میں شبہات کی بنا پر اب قرآن کریم کو الہامی کتاب تسلیم نہیں کرتا، بلکہ ایک یا ایک سے زائد مصنّفین کی کاوش سمجھتا ہوں‘۔ پھر موصوف نے اپنے مفروضوں پر مبنی متعدد سوالات مرتب کرکے سوشل میڈیا پر پھیلا دیئے ہیں۔اگر وہ صرف ایک بات سمجھنے پر آمادہ ہو جائیں تو پھر ان سوالات کی ضرورت نہیں رہتی اور وہ بات بڑی آسان سی ہے۔
اس کتاب کے نازل کرنے والے نے خود ہر دور کے انسانوں کو دعوت دی ہے کہ وہ اگر اس جیسی دس سورتیں، ایک سورت یا اس جیسی ایک بات تصنیف کر سکتے ہوں تو کر کے لے آئیں۔ یہ دعوت ان عربوں کو بھی دی گئی تھی، جو دورِ نبویؐ میں اپنی عربی زبان پر عبور پر نازاں تھے،اور بعد کے تمام اَدوار میں نہ صرف عربی زبان میں بلکہ کسی بھی زبان کے بولنے والوں کو تاقیامت دعوت ہے کہ قرآن میں جس انداز میں نازل کردہ اخلاقی ،قانونی ،معاشرتی، معاشی، سیاسی، تعلیمی، ثقافتی اور دیگر معاملات کے بارے میں اصول و ہدایات بیان کیے گئے ہیں ،ان کے معیارکی کوئی آیت یا سورۃ تحریر کرکے پیش کریں ۔
تاریخ گواہ ہے کہ آج تک عربی زبان کے تمام ماہر یا دیگر زبانوں اور علوم کے ماہر بشمول اُن مستشرقین، جنھوں نے قرآن و حدیث کے انڈکس مرتب کیے ہیں، کوئی فرد اس کھلی دعوت کا جواب نہیں دے سکا۔ اگر مذکورہ صحافی اپنے بارے میں یہ زعم رکھتے ہیں کہ وہ عتبہ اور دیگر شعرائے عرب جاہلی سے زیادہ ادبی اور شعری صلاحیت رکھتے ہیں تو انتظار کرنے کی ضرورت نہیں، متبادل کلام پیش کریں اور اصحابِ علم ان کی تحریر کی معنویت،ادبیت اور علمی عظمت کا فیصلہ معروضی طور پر کرنے کے بعد یہ بتائیں کہ کیا ان کی تصنیف میں وہ جامعیت، فصاحت و بلاغت اور ہدایت پائی جاتی ہے، جو قرآن کا امتیاز ہے ؟ جہاں تک محض سوالات داغنے کا تعلق ہے، تو کسی بھی معقول بات پر جب اور جتنے چاہيں سوال اٹھائے جا سكتے ہيں- لیکن محض لایعنی سوالات کسی مستند بات کو مشتبہ نہیں بناسکتے۔
رہے یہ سوالات ،تو یہ کوئی نئے سوالات نہیں ہیں۔ علوم القرآن سے عدم واقفیت رکھنے والوں کے ذہن میں ان سے بھی زیادہ سوالات ابھر سکتے ہیں۔ قرآن کریم خود انسانوں کو سوالات اٹھانے کی دعوت دیتا ہے۔ کیوں کہ اس کتاب کا مقصد تفہیم و تعلیم اور تذکیر کے ذریعے اپنا پیغام انسانوں تک پہنچانا ہے، لیکن سوال کرنے والے کا محض سوال اٹھانا کافی نہیں ہے، بلکہ موضوع کو سمجھ کر سوال کرنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ جتنا منتشر الخیال سوال ہوتا ہے، اتنا ہی جواب کے باوجود بھی غیرواضح رہتا ہے،اور یہ ایک ایسا سنجیدہ عمل ہے، جس میں کٹ حجتی تو بالکل نہیں ہونی چاہیے۔ اپنے سوالات بیان کرنے سے قبل ہی مذکورہ صحافی نے اپنی مدح میں یہ بات بیان کی ہے کہ میرے سوالات ایسی نوعیت کے ہیں کہ کوئی دو اصحاب بھی ان کے جواب پر متفق نہیں ہو سکتے۔ بہرحال، یہاں ہم انتہائی اختصار سے سوالات میں اٹھائے گئے شبہات پرترتیب وار بنیادی معلومات درج کر رہے ہیں:
پندرہ سو سال سے امت کے تمام اہلِ علم کا اجماع ہے کہ قرآن کریم نہ صرف من جانب اللہ، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے بلکہ اس کا ہر حرف جیسا نازل ہوا ویسا ہی محفوظ ہے۔ جس کی ایک زندہ مثال ۱۵۰۰ سال میں ہر سال رمضان کریم کے دوران دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان پائے جاتے ہیں، ہر رات کم از کم ایک پارہ مسجد میں موجود سیکڑوں افراد کے سامنے تلاوت کیا جاتا ہے۔ جس میں خود کئی حافظ قرآن ہوتے ہیں اور خصوصی طور پر مقرر کردہ سامع ہر لفظ کو غور سے سنتے ہیں اور اگر قاری کہیں بھول رہا ہو تو فوراً اس کی اصلاح کر دیتے ہیں۔ اس طرح ہرسال ، اور تواتر سے پندرہ سو سال سے بلا کسی ناغہ كے اس کتاب کو سنا جا رہا ہے ۔ اس طرح تواتر سے اس کتاب کے ہر لفظ کا صحیح مخرج اور صحیح حرکات کے ساتھ بغیر کسی تبدیلی کے تلاوت کیا جا نا اس کے صحیح شکل میں محفوظ ہونے کا عملی ثبوت ہے ۔ یہ کوئی قیاسی دلیل نہیں ہے ایک ایسی عینی شہادت ہے جس کی مثال دنیا کی کسی بھی اور کتاب کے حوالے سے نہیں پائی جاتی۔ اس زندہ روایت کی موجودگی میں اس بات کا امکان نہیں رہتا کہ کوئی شخص اپنی مرضی کے مطابق کوئی تحریف کر لے۔ یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے ایسے ہی جاری ہے۔ جس سال آپؐ کا وصال ہوا حضرت جبرئیل امینؑ نے دو مرتبہ آپؐ سے اس پورے کلام کو سنا اور ساتھ ہی صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت نے بھی سن کر اپنی یادداشت کی توثیق کی۔
عموماً رمضان میں تراویح میں حفاظِ قرآن کی تین نسلیں ایک وقت میں قرآن کریم کو آغاز سے اختتام تک سنتی ہیں۔ چنانچہ ایک پوتا اور اس کا والد اور اس کا دادا ایک ہی وقت میں کلام الٰہی کو سن رہے ہوتے ہیں۔ یہ قرآن کریم کی باحفاظت اسی شکل میں پائے جانے کی ایک عینی شہادت ہے، جو ہر سال دنیا کے تمام گوشوں میں کوئی مسلمان ہو یا غیر مسلم خود مشاہدہ کر سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں پوری دنیا میں تلاوت کیے جانے والے قرآن کریم میں وہ افریقہ میں کیا جا رہا ہو یا امریکا اور آسٹریلیا میں یا پاکستان اور ترکی اور ملایشیا، ہر جگہ وہی ایک قرآن ہے، جو الفاتحہ سے والناس تک ہر مسلمان گھرانے میں پایا جاتا ہے۔ اس عینی شہادت کے بعد یہ کہنا کہ ہر دور میں آیات بڑھائی اور گھٹائی جاتی رہی ہیں، ایسا ہی ہے کہ روشن سورج کے سامنے آنکھیں بند کر کے سورج کے نہ ہونے کا دعویٰ کیا جائے۔
جہاں تک تمثیلی انداز میں قرآن کی عظمت کے حوالے سے یہ کہا جانا کہ اس سے زمین اور پہاڑ بھی لرز اٹھتے تو حقیقت واقعہ یہی ہے کہ جو اس کلام کو سمجھ کر تو جہ کے ساتھ پڑھتا یا سنتا ہے ،اس پر خشیت طاری ہو جاتی ہے اور ذمہ داری کے احساس میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن جو اسے شک و شبہ اور اعتراض برائے اعتراض کی نگاہ سے پڑھتا ہے ،اس کے دل کی سختی میں اضافہ کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔ قرآن نے خود یہ بات واضح کر دی ہے کہ پہاڑ ہوں یا دریا اور درخت ہوں یا پرندے، ہرایک اللہ کے بتائے ہوئے قانون پر عامل ہوتے ہوئے سب پہلے مسلم ہیں۔
سائل کا کہنا ہے کہ ’چھ دن میں کائنات بنانے والا جو خدا ہے ،اس کو اس کتاب کے لکھنے میں ۲۳ سال لگ گئے‘، حالانکہ قرآن خود یہ کہتا ہے کہ اس پوری کتاب کو رب کریم نے ایک قدر والی رات میں نازل فرمایا اور اسے ایک مقام پر محفوظ کر دیا اور آئندہ ۲۳ سال میں پیش آنے والے واقعات کی مناسبت سے متعلقہ آیات کو ۲۳ برسوں میں ہر موقعے کے لحاظ سے اس کی آیات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی جاتی رہیں۔ اس میں حیرت کس بات پراورسائل خود طےکرے کہ ان کے سوال کی کوئی بنیاد ہے؟
قرآن مجید انسانی تصنیف یا الہامی کلام ؟ قرآن کو انسانی تصنیف قرار دینے کے لیے سائل کو صرف دو باتیں ایسی ملیں، جو کوئی بھی انسان کہہ سکتا ہے یعنی ’گھریلو معاملات‘ اور ’چچا کے ہاتھ ٹوٹ جائیں‘۔ صحافت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جو بات کسی سے منسوب کی جائےوہ اس کے اپنے الفاظ میں ہو۔ کیا قرآن نے کہیں یہ کہا ہے کہ چچا کے ہاتھ ٹوٹ جائیں؟‘ یا یہ کہا ہے کہ تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَہَبٍ وَّتَبّ۱ۭ (الہب ۱۱۱:۱) کہ جس کا مفہوم ہے : ’’ٹوٹ گئے ابو لہب کے ہاتھ اور نامراد ہو گیا وہ‘‘۔ یہاں قرآن کریم نے ابو لہب کا نام اسی طرح لیا ہے، جس طرح کسی اور مقام پر فرعون کا لیا گیا ہے۔ جس کا واضح مفہوم جہاں ایک خاص فرد کی طرف اشارہ ہے، وہیں اس فرد سے وابستہ عمل کے بارے میں متوجہ کیا جا رہا ہے ۔یعنی جو فرد بھی ایسا طرزِ عمل اختیار کرے گا، اس کا انجام بھی اسی نوعیت کا ہوگا تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور کے فرعون کا غرور ٹوٹا ہے۔ ایسے ہی ہر دور کے ابو لہب کے ہاتھوں کا ٹوٹنا بھی قرآن کی صداقت ظاہر کرتا ہے ۔
تفصیلات میں جائے بغیر یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ عرب جاہلیہ میں بھی بعض اقدار کا غیر معمولی اہتمام کیا جاتا تھا، جن میں صلہ رحمی کی بڑی اہمیت تھی۔ خون کے رشتے کے لحاظ سے ابولہب آپؐ کا چچا تھا، جو انتہائی قریبی رشتہ ہے۔ وہ آپؐ کا سب سے زیادہ قریبی پڑوسی بھی تھا، لیکن اسلام دشمنی میں سب سے زیادہ پیش پیش تھا۔ چنانچہ جب آپؐ مختلف مواقع پر دعوتِ دین کے لیے نکلتے تو وہ آپؐ کے پیچھے چلتے ہوئے آپؐ کی ایڑیوں پر پتھر سے نشانہ لگاتا حتیٰ کہ آپؐ کی ایڑیاں خون آلود ہو جاتیں۔اس کی بیوی آپؐ کے گھر کے سامنے غلاظت اور کانٹے ڈالتی رہتی۔ آپؐ کے دوسرے عزیز بھی آپؐ سے اختلاف رکھتے تھے، جنھوں نے اسلام قبول نہیں کیا لیکن جس شدت کے ساتھ ابو لہب نے قطع رحمی جاری رکھی، وہ اس بات کی متقاضی تھی کہ قرآن کریم ایک جانب قطع رحمی کی مذمت کرے اور دوسری جانب ابو لہب کو اس دنیا میں ہی خبردار کر دے کہ رسولؐ کو زخمی کرنے والے ہاتھ لازماًمستحق ہیں کہ ٹوٹیں ۔ چنانچہ وہ اپنی تمام تر دولت کے باجود اسلام دشمنی کی بنا پر نامرادہی رہے گا۔ یہ قرآن کریم کی جامعیت ہے کہ ان چند الفاظ میں ایک حقیقی واقعہ کی طرف صرف اشارہ کیا گیا اور اس اشارہ کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر دین کی مخالفت چچا بھی کرے گا تو اس کی سزا اور انجام دیگر مشرکین سے مختلف نہ ہوگا۔
قرآن اور وحی کی کتابت پر اعتراضات : اوّلاً آپؐ کی نبوت کا مقصد نہ صرف قرآن کریم کی دعوت کو مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں تک پہنچانا تھا کیوں کہ اس بات کو خود قرآن کہتا ہے کہ یہ کتابِ ہدایت تمام انسانوں کے لیے ہے۔ اس کے ساتھ یکساں اہم مقصد قرآن کریم کی تعلیمات کو عملاً اپنی زندگی کے ذریعے قابلِ محسوس انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرنا تھا، جسے قرآن کریم آپؐ کا اسوۂ حسنہ کہتا ہے۔چنانچہ قرآن کی ہدایات عبادات سے متعلق ہوں کہ نماز قائم کی جائے ، روزہ رکھا جائے اور زکوٰۃ دی جائے، یا جہاد کے بارے میں ہوں، یا نظم مملکت کے بارے میں ہوں، یا مقدمات کے فیصلے ہوں یا زندگی میں پیش آنے والے مختلف مواقع پر ایک مسلمان کا طرزِ عمل کیا ہو ، اس کا عملی ثبوت فراہم کرنا آپؐ کا فریضہ تھا جسے آپؐ نے بدرجۂ کمال ادا فرمایا۔رہا کتابی شکل میں اپنی زندگی میں قرآن مجید کا تحریر کروا دینا تو اگر سوال کرنے والے فرد، قرآن کریم کے جمع کرنے کی تاریخ پر کسی تعارفی تحریر کا مطالعہ کرلیتے تو سوال کا جواب مل جاتا۔ ہرنزول کے موقعے پر ہمہ وقت موجود کاتبین وحی میں سے کسی کاتب کو آپؐ اسی لمحہ وہ قرآنی وحی تحریر فرما دیا کرتے تھے۔ قرآن اپنے بارے میں کہتا ہے کہ اسے ہاتھ نہ لگایا جائے، جب تک کوئی فرد پاک یا طاہر نہ ہو، یہ مکی دور کی آیت ہے۔اس حوالے سے حضرت عمر ؓ کے قبولِ اسلام کے واقعہ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے چھ نبوی میں اسلام قبول کیا اور اس طرح قبول کیا کہ و ہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی نیت سے نکلے تھے کہ راستے میں معلوم ہوا کہ ان کی بہن اور بہنوئی بھی مسلمان ہوگئے ہیں ۔یہ پہلے ان کی طرف گئے تو قرآن کی تلاوت کی آواز سنی۔ دستک دی اور پکارا تو بہن اور بہنوئی نے جن صفحات سے وہ پڑھ کر تلاوت کر رہے تھے انھیں چھپا دیا ۔ حضرت عمر ؓ کے اصرار پر انھیں وہ کاغذ دکھائے گئے، لیکن یہ کہا گیا کہ جب تک وہ غسل نہ کر لیں انھیں ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ واقعہ کی تفصیل میں جائے بغیر اس سے یہ ثابت ہوا کہ چھ نبوی میں صحابہ کرامؓ کے پاس قرآن کے اجزا تحریری شکل میں موجود تھے اور پڑھنے کے لیے استعمال کیے جا رہے تھے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہنا کہ قرآن آپ ؐکے وصال کے بعد ضبط ِتحریر میں لایا گیا اور جس نے جو چاہا لکھ کر منسوب کر دیا، ایک بے بنیاد مفروضہ ہے
یہ بات بھی تاریخی طور پر ثابت ہے کہ روزِ اوّل سے قرآن کی ہر وحی نہ صرف آپؐ کے حافظہ میں اس ترتیب سے جس میں قرآن آج پایا جاتا ہے محفوظ ہو جاتی تھی، بلکہ اسے فوری طور پر کاتبین وحی، جن کا کام ہی یہ تھا کہ وہ ہمہ وقت آپؐ کے پاس موجود رہیں اور جب بھی وحی آئے اسے تحریر کریں۔وہ وحی کو آپؐ کی موجودگی میں تحریر کرلیتے تھے۔ رہا یہ سوال کہ اسے کتابچہ یا کتابی شکل میں کیوں مرتب نہیں کیا گیا؟ تو اس ضمن میں یہ بات بڑی واضح ہے کہ وحی کا عمل جاری تھا اور کسی کو علم نہیں تھا کہ وحی کی تکمیل کب ہوگی ۔ تدوین اسی وقت کی جاتی ہے جب متن تکمیل کو پہنچ جائے۔ مزید یہ کہ چونکہ جو کچھ وحی ہوا ،وہ اسی ترتیب کے ساتھ لکھا جا رہا تھا جس ترتیب سے اسے قیامت تک محفوظ ہونا تھا اور وہ سب تحریرات محفوظ تھیں، اس لیے ان پر ایک جلد میں جلد سازی کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اس کام کے متوازی ایک دوسرا معجزانہ طریقہ حفاظت ِقرآن کا یہ اختیار کیا گیا تھا کہ اسے ترتیب ِنزولی کی جگہ اُس ترتیب سے جو حضرت جبرئیلؑ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کرتے تھے، یادداشتوں میں محفوظ کر لیا جاتا تھا۔جسے ہم نے معجزانہ طریقہ کہا ہے ،وجہ ظاہر ہے کہ دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں جس کے تمام نسخے حاصل کر کے آپ سمندر میں ڈال دیں، اور اس کا کوئی ایک حافظ، بلکہ خود مصنف اسے دوبارہ جوں کا توں زبانی بیان کر سکے یا تحریری شکل میں تخلیق کر ڈالے۔ یہ صرف قرآن کریم ہے جس کو ان دو واسطوں سے روزِ اوّل سے محفوظ کیا گیا۔ اس لیے یہ کہنا بے بنیاد ہے کہ قرآن کریم آپؐ کی حیات مبارکہ میں ایک کتابی شکل میں کیوں جمع نہ کر لیا گیا؟اگر یہ کتاب کسی انسان یا انسانوں کی اجتماعی تحریر ہوتی ،تو عین ممکن ہے کہ وہ لوگ اسے ترتیبِ زمانی سے ہی لکھتے۔لیکن قرآن کریم الہامی کتاب ہے، جس میں ربِّ کریم نے مکی دور میں پیش آنے والی آزمائش وابتلا کے حوالے سے اور اسلام کے بنیادی عقیدے پر ہدایات دی ہیں اور اس بیان کو آگے بڑھاتے ہوئے مدنی دور میں نہ صرف عقیدہ بلکہ معاملات، قانون ،مسائل اور بین الاقوامی تعلقات پر جامع ہدایات دی ہیں۔ گو،یہ ہدایات ہر لمحہ پیش آنے والے واقعات کے سیاق میں نازل ہوئیں، لیکن بغیر کسی تبدیلی و تغیر کے ان ہدایات کا اطلاق قیامت تک ایسے سب مواقع پر ہوگا، جن میں ابتلا و آزمائش پیش آرہی ہو ۔
تیرہ سال اہل ایمان کو مکہ میں ابتلا و آزمائش کے پیش آئے اور جو آیندہ کسی بھی دور میں پیش آ سکتے ہیں۔ ایسے ہی مدنی دور میں تعمیرِ سیرت، معاشرہ ،معیشت، سیاست کے اصول بیان کر دیے گئے۔ اور پھر قرآن کریم کو اس طرح یک جا کر دیا گیا کہ وہ زمانی قید سے بلند ہو جائے اور تاریخی دستاویز کی جگہ تاریخ ساز ہدایت بن کر قیامت تک تمام مسائل کے حل کا راستہ دکھا سکے۔ اگر ایک مرتبہ قرآن کی حکمت ِترتیب کو سمجھ لیا جائے تو نہ کسی تفسیری مباحث میں جانے کی ضرورت ہے، نہ مغربی تصوّرِ ارتقا اور تجرباتی بنیاد پر بدلتی سائنس کی بنیاد پر مطالعے کی ضرورت باقی رہتی ہے۔بلکہ تجزیاتی تحقیق کرنے کے لیے اس آفاقی کتاب کے اصولوں کو استعمال کر کے جدید ترین مسائل کا انسانیت دوست اور عادلانہ حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔یہ کتابِ اخلاق ہے، جو ہر شعبۂ حیات کے عملی اخلاق کا ضابطہ فراہم کرتی ہے۔اس میں معاشی اخلاقیات بھی ہیں اور سیاسی اخلاقیات بھی، نیز بین الاقوامی اخلاقیات بھی۔ یہ ثقافت کی بنیاد بھی فراہم کرتی ہے اور عقلی اور تجرباتی علوم کے لیے انسانیت دوست اصول بھی سکھاتی ہے۔ یہ سب اس لیے کہ اسے کسی محدود عقل والے انسان یا انسانوں نے نہیں بلکہ انسانوں کے خالق نے اپنے منتخب کردہ بندے پر ہدایت کی شکل میں نازل کیا ہے۔ ایک الہامی کتاب میں انسانی تحریر کی خصوصیات تلاش کرنا عقل کے منافی ہے۔ اگر موصوف کے بیان کے مطابق قرآن کے ۱۰پارے کوئی بکری کھا گئی تو اول تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ قرآن اتنی کثرت سے تحریری شکل میں موجود تھا کہ بکریاں تک ضرورت پڑنے پر اسے سبز گھاس سمجھ کر کھا لیا کرتی تھیں ۔ ایسی مضحکہ خیز افسانہ سازی کسی سنجیدہ جستجو سے مناسبت نہیں رکھتی۔ دوسرے اس خیالی واقعے سے صحافی صاحب کی اس بات کی تردید ہو جاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں قرآن کریم کے اجزاء تحریری شکل میں موجود نہیں تھے۔اگر قرآن تحریر نہیں کیا گیاتھا تو بکری نے اسے کیسے کھا لیا؟تیسرے، یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اس واقعے کے وقت کیا مدینہ منورہ کے اندر اور باہر صرف وہی ایک مسودہ تھا جسے بقول ’’صحافی بکری نے کھا لیا، اور دس پارے ضائع ہوگئے؟‘‘ یاسیکڑوں، ہزاروں سینوں میں اور سیکڑوں صحابہ کے گھروں میں وہ اوراق موجود تھے، جن کا مطالعہ وہ دن رات کرتے تھے؟حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام کے واقعہ کی طرف اس سے قبل اشارہ کیا گیا ہے۔ان کی بہن اور بہنوئی قرآنِ کریم کے جس حصے کی تلاوت کررہے تھے اس میں کہا گیا تھا کہ اسے مت چھوئیں سوائے ان کے جو پاک اور طاہر ہوں۔ ظاہر ہے کہ یہ حکم حافظہ سے قرآن کی تلاوت کے بارے میں نہیں ہو سکتا اور اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن تحریری شکل میں صحابہ کے زیر مطالعہ دورِ نبویؐ میں ہی تھا۔
تاریخی طور پر حضرت ابوبکرؓ کے دور میں حضرت زید ؓ بن ثابت نے ایک مقررہ معیارِ شہادت کے بعد قرآن کے کاتبینِ وحی کے تحریر کردہ اجزاء کو قبول کرنے کے لیے یہ شرط رکھی کہ صرف وہ صفحات جن پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست سن کر قرآن لکھا گیا اور جن کے تحریر کیے جانے کے وقت دو صاحب ِایمان عینی شاہد موجود تھے، صرف ان تحریری اجزاء کو قبول کیا جائے گا۔ اس اصول کے بعد یہ بات سراسر لاعلمی یا فتنہ انگیزی پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن کے بعض حصے بنی امیہ کے دور میں اپنے مفاد کے پیش نظر لکھ کر شامل کر دیے گئے۔ اس نوعیت کی قیاس آرائی مستشرقین صدیوں سے کر رہے ہیں۔ سوال کرنے والے نے اس بات کو اٹھا کر کسی ذہانت کا ثبوت نہیں دیا۔ حضرت زیدؓ اور صحابہ کرامؓ نے جس لہجے میں آپؐ کے سامنےقرآن تلاوت کیا تھا، اسی لہجہ ولحن میں ، اسی ترتیب کے ساتھ اسے یک جا کر دیا گیا،جسے مصحفِ حفصہؓ کا نام دیا گیااور اُم المومنین حضرت حفصہؓ کے ہاں اسے محفوظ کر دیا گیا ۔جس کی نقول کروا کے حضرت عثمانؓ نے اہم مراکز مکہ، کوفہ، بصرہ، مدینہ وغیرہ میں رکھوا دیں تاکہ لوگ اپنے مصحف کی اس کے مطابق تصحیح کرلیں۔اس کی نقول آج بھی تاشقند، برلن اور استنبول کے اسلامی عجائب گھر میں موجود ہیں۔ تاشقند کا نسخہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ یہ تفصیلات اور مزید تفصیلات علوم القرآن سے متعلق کتب میں موجود ہیں، اگر ان پر ایک نظر ڈال لی جاتی تو بلا وجہ کے اشکال پیدا ہی نہ ہوتے۔
ابتدائی وحی اور فرائض نبوت : یہ کہنا کہ حضرت جبرئیلؑ نے نبی کریمؐ کو ذمہ داریوں کی تفصیل نہ بتائی، جس پر وہ پریشان ہوگئے۔یہ بات بجائے خود سائل کی نفسیاتی دیوانگی کا عکس پیش کرتی ہے کہ وہ نبوت کو کسی کمپنی میں بڑے عہدے کی ملازمت کی طرح قیاس کر رہے ہیں۔نبوت نہ صرف اسلام میں بلکہ یہودیت میں بھی ایک ملازمت نہیں تھی، جس کے لیے امیدوار درخواست دیں، انٹرویو دیں اور کسی ایک کا انتخاب کرلیا جائے ۔ حضرت موسٰی جب آگ کی تلاش میں کوہِ طور پر گئے تھے تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نےانھیں اپنا پیغام بنی اسرائیل کو پہنچانے کے لیے منتخب کر لیا ہے۔نہ انھیں اس موقع پر کوئی ’شرائط ِ ملازمت‘ پکڑائی گئی تھیں،نہ کوئی نبوت کے امیدوار کھڑے تھے کہ انھیں ملازم رکھ لیا جائے! اس لیے پہلے سائل اپنے تصوّرِ ہدایت اور تصوّرِ نبوت کی اصلاح کر لیں پھر اپنے سوال پر غور کریں ۔جو بات مصدقہ روایات سے واضح ہے وہ یہ کہ ایک غیر متوقع صورت حال پیش آنے کی بناپر آپؐ نے صرف سیّدہ خدیجہؓ سے یہ کہا کہ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔ مجھے کچھ اوڑھا دو اور پھر وہ تفصیل انھیں بتلائی جس میں حضرت جبرائیلؑ کا آنا اور آپؐ کو سینہ سے لگا کر تین مرتبہ گرم جوشی سے بغل گیر ہونا تھا۔ ظاہر ہے کہ ایک غیر متوقع واقعہ اگر ہو تو ہر انسان پر اس کا اثر ہونا چاہیے۔ اس سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حضرت موسٰی کی طرح یہ طلب اور خواہش نہیں تھی کہ انھیں نبی بننا ہے اور نہ وہ اس کے اُمیدوار ہی تھے، بلکہ اس کے برعکس نبوت کے لیے منتخب کیا جانا ان کے لیے حیران کن تجربہ تھا۔
ایک معمولی سی بات جو سائل کے ذہن میں نہیں ابھری وہ یہ ہے کہ اگر قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے بلکہ انسانوں کا کلام ہے، تو ایسے ارفع و اعلیٰ کلام کے خالق انسان کو چاہیے تھا کہ وہ جو ساری عمراہل مکہ کے درمیان صادق و امین کے نام سے پکارا جاتا تھا ،خوشی خوشی کہتا کہ لوگو یہ میری تخلیق ہے،میرا کمال ہے، تم میری عظمت کو مانو اور میری پیروی کرو! وہ بجائے کریڈٹ لینے کے یہ کیوں کہتا ہے کہ یہ میرا کلام نہیں ہے،یہ من جانب اللہ مجھ پر نازل ہوا ہے؟کیا ایک ایسی شخصیت جس کے جانی دشمن بھی اس کی صداقت و امانت پر شہادت دیتے ہوں اور اعلانِ نبوت کے بعد بھی یہ کہتے ہیں کہ امانت اور صداقت میں آپ سے بہتر کوئی شخص مکہ میں نہیں ہے، ایسا شخص اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ سکتا ہے کہ یہ کلام اس کا نہیں بلکہ اللہ کا ہے؟
یہ بات اس کلام الٰہی کی ہو رہی ہے، جس کے بارے میں عربی دان اور معروف شاعر عتبہ سن کر یہ کہتا ہے کہ ’’یہ نہ شعر ہے، نہ سحر، نہ کہانت بلکہ کچھ اور ہے‘‘۔یعنی یہ انسانی فکر اور انسانی صلاحیت سے ماورا ایک منفرد کلام ہے۔ اگر کوئی اس کلام کو سمجھنا نہ چاہتا ہو یا وہ سمجھنے کا طریقہ استعمال نہ کرنا چاہتا ہو، جو الہامی کلام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے، تو یہ اس کا اپنا ذاتی معاملہ ہے۔ لیکن بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے مشرکین مکہ کی طرح یہ بات کہنا کہ ’’یہ کسی انسان نے لکھا ہے یا لکھوا دیا ہے ‘‘ ایک بےبنیاد بات سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔
ناسخ اور منسوخ آیات کی حکمت اورتفہیم : قرآن کریم میں ناسخ و منسوخ پر اعتراض اُٹھانے کو ایک معمولی فہم کا انسان بھی اگر قرآن سے تھوڑی سی واقفیت رکھتا ہو ، سمجھ سکتا ہے۔ قرآن کریم ہی نہیں تورات بھی اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کو (Yahweh:یہوواہ) حاکم، خالق، مالک اور اعلیٰ ترین ہستی قرار دیتی ہے ۔جو اپنے بندوں کی آسانی کے لیے انھیں وقتاً فوقتاً ہدایات دیتا ہے اور اس غرض کے لیے اس نے انبیائے کرام ؑ کو ذریعہ بنایا ہے۔ اس ہستی کے اختیارات اور قوت لامحدود ہے۔ یہ قوانین فطرت بنا کر نافذ کرنے والی ہستی ہے، جو ان قوانین میں جب چاہے استثنا واقع کرسکتی ہے۔ یہی ہستی ہے جس نے قرآن کریم اور تورات کے بیان کے مطابق حضرت موسٰی اور ان کی اُمت کو بحر احمر کو پار کرانے کے لیے اپنے حکم سے پانی کو بہنے سے روک کر درمیان میں راستہ پیدا کر دیا کہ حضرت موسٰی اور ان کی قوم سلامتی سے اس راستے سے گزر جائیں ، اور ان کے گزرنے کے بعد فرعون اور اس کی ذُریت کو اسی پانی میں غرق کر کے فرعون کی لاش کو آنے والوں کے لیے بطور عبرت محفوظ کر دیا۔ یہی وہ ہستی ہے جس نے قرآن کے مطابق اور خود عیسائی کتب کے حوالے سے حضرت عیسیٰ ؑ کو بغیر کسی مرد کے حضرت مریمؑ کو ہاتھ لگائے پیدا کیا اور انھوں نے پنگھوڑے سے اپنے نبی ہونے کا اعلان کیا ۔یہ نہ تو تاریخی دیومالائی روایات ہیں اور نہ رومی افسانے، یہ وہ حقائق ہیں جو اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی قوتِ تسخیر کے ثبوت ہیں کہ وہ جب اور جہاں چاہے فطری قوانین کے خلاف ایک کام محض ایک حکم (کن) کے ذریعے کر سکتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے پچھلی شریعتوں میں جو ہدایات بنی اسرائیل اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیروی کرنے والوں کے لیے نازل فرمائی تھیں،ان میں سے جن کو چاہا منسوخ کر کے ان کی جگہ ان جیسی یا ان سے بہتر ہدایات قرآن کریم میں ارشاد فرما دی ہیں ۔یہ بات اللہ تعالیٰ کے علیم اور قدیر ہونے کی واضح دلیل ہے۔ وہ پہلے سے علم رکھتا ہے کہ اس کے بندوں کے لیے کس وقت کون سی ہدایت زیادہ مفید اور سود مند ہے۔اس کی رحمت اور بندوں کی بھلائی اسے اس طرح کی تبدیلیوں پر آمادہ کرتی ہے، کیونکہ وہ سب سے زیادہ رحیم ہے۔لیکن قرآن کے نزول کے بعد قرآن نے خود یہ اعلان کر دیا کہ شریعت مکمل کر دی گئی ہے، اب اس میں کسی کو رَد و بدل کا اختیار نہیں ہے۔ اب صرف اس کتاب اور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت نجات کا باعث ہوسکتی ہے۔
قرآن کریم میں نسخ کے حوالے سے قرآن کریم سورۃ الانفال میں خود مثال دےکر واضح کر دیتا ہے کہ اگر ۲۰ صابر اہل ایمان میں ہوں تو وہ ۲۰۰ مشرکین پر غالب آئیں گے۔ پھر اگلی آیت میں فرمایا کہ اگر ایمان کا معیار وہ نہ ہو، تب بھی سو صابر دو سو مشرکین پر غالب آئیں گے۔اس آیت میں نہ کہیں کسی صاحب ِفہم کے لیے تضاد ہے، نہ یہ کوئی نظر ثانی ہے بلکہ زمینی حقائق پر مبنی ایک صداقت بیان کی گئی ہے۔ گویا نسخ کا مفہوم لغوی طور پر یہاں پر تبدیل کرنے کا نہیں بلکہ تخصیص (qualification) کا ہے ۔جو کسی بھی قرآنی علوم سے آگاہ شخص کے لیے حیرت کا باعث نہیں ہو سکتا ۔اللہ کے کلام میں یہ وسعت ہی اسے عالم گیر بناتی ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات میں مسائل کے حل کی طرف راہنمائی کرتا ہے ۔جہاں تک سوال حضرت عمر ؓ سے منسوب روایت کا ہے، قرآن کریم کے اس اعلان کے بعد کہ: الْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ ۵:۳)’’آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے‘‘ ( لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کی گئی ہیں ان کی پابندی کرو)۔ یہ کہنا کہ اس میں کوئی حکم یا آیت جو پہلے تھی اب نہیں ہے، قرآن کے قطعی اعلان کے منافی ہے فقہاء اور مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ ہرمعاملے میں قرآنی حکم کو فوقیت حاصل ہوگی ۔
دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ محض مفروضے کے طور پر اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ قرآن کا کوئی حکم آیا تھا جو ایک بوڑھے اور بوڑھی کے زنا کی حد ِسنگسار کو بتاتا تھا لیکن سورۂ نور کی آیت نے اسے منسوخ کر دیا، حقیقتِ واقعہ کے بالکل خلاف بے بنیاد تصور ہے۔ کیونکہ نہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ حضرت عمر ؓ اور حضرت علیؓ اور بعد کے آنے والوں نے غیر شادی شدہ کے زنا پر کوڑے اور شادی شدہ کو سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک قرآنی حکم کے خلاف یہ صاحبانِ علم ایک ایسا کام کرتے؟ مزید یہ پہلو بھی سامنے رہے کہ ’شریعت‘ جس چیز کا نام ہے وہ صرف قرآن نہیں بلکہ قرآن و سنت دونوں کے مجموعے کا نام شریعت ہے۔ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ کے زنا کرنے پر حد جاری فرمائی ہے تو یہ خود شریعت ہے ۔اس بنا پر امام شافعی الرسالہ میں یہ بات وضاحت سے فرماتے ہیں کہ سنت ِرسولؐ ’شارع‘ بھی ہے اور ’شارح‘ بھی۔یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ صحابہ کرامؓ خصوصاً خلفائے راشدین کے ہاں قرآن کا علم اور خصوصاً آیات الاحکام سے ان کی واقفیت سب سے زیادہ معتبر تھی۔ اس قسم کی بے بنیاد بات کا صرف ایک مقصد ہوسکتا ہے کہ قرآن کے اپنے بیان: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ۹ (الحجر۱۵:۹) ’’ہم نے اس کو نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں‘‘، کو مشتبہ بنا کر غلط قرار دینے کے لیے ایک بات کو حضرت عمرؓ سے منسوب کر دیا جائے تاکہ لوگ گمراہی میں مبتلا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فتنہ پھیلانے والوں کو ہدایت دے۔
تخلیق انسانی کے بارے میں قرآنی راہنمائی پر اعتراض : قرآن میں انسانی تخلیق کے تذکرے پر اعتراض بھی دیگر بیانات کی طرح ایک دلیل کے بغیر بات ہے۔اگر وہ اس سائنسی تحقیق کی بنیاد پر جو ہر تھوڑے عرصے میں بدلتی رہتی ہے، قرآن کو جانچنا چاہتے ہیں تو پہلے اپنے جانچنے کے پیمانے کے خود اضافی ہونے پر غور کریں۔ جو سائنسی نظریات ہر لمحہ تبدیل ہو رہے ہوں، کیا کوئی صاحب ِعقل ان کو معیار بنا کر ایک الہامی صداقت کو جانچنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے؟ اگر یہ نہیں تو کم از کم انسان کی مادی پیدائش کے حوالے سے میڈیکل کی مصدقہ اور جدید کتب پر ایک نظر ڈال کر اس مسئلہ پر اظہارِ خیال کرنے کی زحمت گوارا کرلی جاتی۔ ہم صرف ایک نصابی کتاب کا حوالہ دیتے ہیں جو کینیڈا کے میڈیکل کالجوں میں بطور نصابی کتاب کے استعمال ہوتی ہے۔ کتاب کے مصنف ٹورنٹو یونی ورسٹی میں میڈیکل کے شعبہ کےسربراہ ہیں:
The Developing Human Clinically Oriented in Embryology, Keith L. Moore Chair, Department of Anatomy, University of Toronto, 1983
قرآن کریم نے انسانی تخلیق کے جن مدارج کا ذکر کیا ہے، اس نصابی کتاب میں ان کی تصدیق کرتے ہوئے تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ قرآن کریم وہ عالمی اصول بیان کرتا ہے کہ جو تمام علوم میں ہدایت فراہم کرتے ہیں ۔ یہ تفصیلات میں نہیں جاتا اور ان کو اہلِ تحقیق کے ذمے کر دیتا ہے۔
واقعہ معراج اور مسجد اقصیٰ کی تعمیر پر اعتراضات: مسجد اقصٰی کے وجود پر اعتراض کا سبب دراصل معترض کے فہم اور معلومات کے ذخیرہ کا کمزور ہونا ہے۔ قریشِ مکہ اچھی طرح جانتے تھے کہ بیت المقدس کے اس احاطے کا نام ’اقصٰی‘ہی ہے۔ اس لیے انھوں نے اس بات پر اعتراض نہیں کیا، بلکہ وہاں جانے کی بات کا مذاق اُڑانے کی کوشش کی۔ ’اقصٰی‘ سے مراد بیت المقدس کی وہ جگہ ہے جہاں آپؐ کی امامت میں انبیائے کرام ؑ نے نماز ادا کی اور آپؐ کو براق کے ذریعے آسمانوں پر لے جایا گیا‘۔ اس بات پر مفسرین کا مکمل اتفاق پایا جاتا ہے۔ عام طور پر ’قُبۃ الصخرۃ‘ کو لوگ مسجد اقصٰی سمجھتے ہیں ،جب کہ وہ مسجد اقصٰی جو دور بنی امیہ میں تعمیر ہوئی وہ قُبۃ الصخرۃ سے فاصلے پر اس جگہ تعمیر کی گئی، جہاں حضرت عمرؓ نے عیسائی عبادت گاہ سے باہر نکل کر نماز ادا کی تھی ۔موصوف کا یہ اعتراض کہ یہ آیت بنی امیہ کے دور میں حکمران طبقہ نے اپنی اہمیت کے لیے داخل کر دی، ایک بے بنیاد افسانہ سازی ہے۔ قرآن کریم کی یہ سورہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تلاوت فرمائی۔ آپؐ کے وصال کے بعد دورِ خلافت راشدہ میں جوں کی توں قرآن کریم کا حصہ رہی۔ اس لیے سائل کی یہ ذہنی اُلجھن محض تاریخ سے نا واقفیت کا نتیجہ ہے۔
سورۃالنجم کی آیات کے بارے میں چند اشکالات :نبی کریم ؐ کی تلاوتِ قرآن سن کر مشرکین کا حرمِ کعبہ میں سجدے میں گر جانا بھی سائل کو پریشان کر رہا ہے۔ یاد رہے قرآن کریم میں ایک نہیں کئی مقامات پر مشرکین کے بتوں کے نام لے کر ان کو رد کیا گیا ہے۔ ابلیس کا اصل مقصد صرف ایک ہے کہ وہ لوگوں کو توحید سے دور کرے۔اصل مسئلہ مشرکینِ مکہ کی اپنی سمجھ کا تھا کہ وہ ان بتوں کے نام سن کر یہ سمجھے کہ ان کی تعریف ہو رہی ہے، جب کہ ان کا انکار یا رد کیا جا رہا تھا۔پھر سائل کا یہ کہنا کہ رسولؐ اللہ نے نعوذ باللہ، نادرست آیات کی تلاوت کی تھی۔ ایسی بے سروپا بات وہی کرسکتا ہے جس نے سورہ نجم کی آیات کا ترجمہ تک نہ پڑھا ہو۔ اگر کسی نے سورۂ نجم کی آیات کا ترجمہ ہی پڑھا ہو اُس میں کہاں ہے یہ بات کہ نعوذ باللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب چاہتے اللہ سے منسوب کر کے کوئی بات بطور آیت فرما دیتے تھے ۔اگر واقعی اس قیاس میں کچھ صداقت ہوتی تو پھر اہل مکہ کوآپ ؐ کو فوراً ہی اپنا بادشاہ اور سربراہ بنالینا چاہیے تھا! اور یہ جھگڑا کس بات کا تھا؟ اگر آپؐ توحید کا انکار اور بتوں کا اقرار کر رہے تھے تو اہل مکہ کی مسلسل مخالفت اور ظلم و تشدد کیوں تھا؟اور خصوصاًمکی دور میں اس میں مسلسل شدت کیوں آتی رہی ؟کاش! سائل اپنے نفسیاتی مفروضوں سے نکل کر خود اپنے قائم کردہ مفروضوں پر غور کریں توانھیں اپنے موقف کی کمزوری کا علم ہو جائے گا ۔قرآن کریم کی حفاظت کی ضمانت اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے خود دی ہے، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی قرآنی آیت میں تبدیلی، تاخیر یا تعجیل کرنے کا اختیار نہیں رکھتے تھے۔ قرآن کریم روزِ اوّل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حافظے اور بے شمار صحابہ کرامؓ کے حافظے میں جیسا کہ وہ ہے، بالکل اسی طرح محفوظ رہا ہے ۔ اس لیے کسی چھوٹے بڑے شیطان کی سازش سے اس میں کوئی تبدیلی اور تحریف نہ عقلاً ممکن ہے، نہ واقعتاً ہو سکتی ہے۔
زمین و آسمان کی چھ دنوں میں تخلیق سے مراد؟ زمین و آسمان، سمندروں اور نظامِ فلکی کی تخلیق کے بارے میں قرآن کریم کے بیان پر اعتراض کی نوعیت بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔قرآن کریم کے اس واضح فرمان کے بعددنوں، ہفتوں اور مہینوں کا حساب لگانا ایک طفلانہ حرکت ہے۔ قرآن کریم نے ایسے تمام معاملات کے بارے میں جو اصول خود بیان کر دیا ہے، وہ بڑا آسان ہے، یعنی اس کتاب میں جو واضح احکام و ہدایات ہیں ،ان پر شعوری طور پر عمل کیا جائے اور جو معاملات انسان کی محدود عقل سے بالا ہوں، ان پر ایمان بالغیب لایا جائے۔ پھر یہ بات بھی واضح کر دی کہ جن کے دل میں ٹیڑ ھ ہے، وہ اپنا سارا وقت انھی باتوں پر صرف کرتے ہیں جو مشتبہ بنا دی گئی ہیں ۔ظاہر ہے کہ جو بات واضح اور متعین ہے، اس پر کسی قسم کا شبہ عقل کے منافی ہے۔ صرف جو بات مشتبہ محسوس ہو یعنی ہمارے احساسات کی پہنچ سے باہر ہو، اسی پر قیاس آرائی کی جا سکتی ہے ،جسے قرآن نے واضح الفاظ میں منع کیا ہے۔یہ ایسے ہی ہے کہ جس علم کو طبیعیاتی (Physical knowledge)یا تجرباتی علم (Experimental knowledge) کہا جاتا ہے اور جس کی domain ظاہری مادی اشیاء تک ہے ،اس کے ایک ماہر سے یہ سوال کیا جائے کہ جنت میں پھلوں کا رنگ اور ذائقہ کیا ہو گا ؟ یا اللہ تعالی ٰجس عرش پر ہیں اس کا سائز کیا ہے؟ وہ کس چیز کا بنا ہوا ہے؟ تو کیا یہ سوالات جن کا تعلق مابعد الطبیعیات سے ہے،ایک طبعیات کا ماہر ان کے جواب دینے کی صلاحیت کا دعویٰ کر سکتا ہے ؟
الہامی کتب کی تاریخ : اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ کتب جن کا ذکر قرآن نے کیا ہے، ان میں سابقہ کتب تورات، انجیل اور زبور کے حوالہ سے نہ صرف قرآن بلکہ خود ان کتب کے ماننے والے اور مرتب کرنے والے ان کے اپنے علما اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ کتب مختلف اَدوار میں لکھی گئیں اور پھر مختلف مدارج سے گزرنے کے بعد اصل نزول کے ایک طویل عرصہ بعد تحریر میں لائی گئیں۔ بائبل ہر کتب فروش کے ہاں دستیاب ہے ،اسے خود اٹھا کر دیکھ لیں کہ ’مرقس‘، ’میتھیو‘ ’لوقا‘ اور ’جان‘ یا دیگر کتب کس طرح وجود میں آئیں، اور کن کن اَدوار میں ان کے مصدقہ نسخے جاری کیے گئے؟ کنگ جیمز(James) کے دور میں جو بائبل طبع کی گئی اور جوآج اوکسفرڈ یونی ورسٹی کا ایڈیشن ہے، یا جو امریکی بائبل ایسوسی ایشن کا نسخہ ہے، ان میں جو تحریفات اور تضادات ہیں، وہ عیسائی اور دیگر اہلِ علم سے پوشیدہ نہیں ہیں۔
قرآن کریم انھی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اصلاً تورات اور اناجیل کا بھیجنے والا صرف اللہ وحدہٗ لا شریک ہے۔ اسی بنا پر ان کتب اور قرآن کریم میں بہت سی تعلیمات مشترک نظر آتی ہیں۔ سبب یہ نہیں ہے کہ قرآن کریم ان کتب سے اخذ کیا گیا ہے بلکہ ان سب کا بھیجنے والا ایک ہی رحمٰن اور رحیم ہے۔ سابقہ کتب میں تحریف و تبدیلی کے اسباب جو قرآن کریم نے اور جو خود ان مذاہب کے ماننے والوں نے بیان کیے ہیں، وہ معروف ہیں۔ یعنی اُن مذہبی رہنماؤں کا اپنی رائے کو اللہ تعالیٰ سے منسوب کر کے پیش کر دینا اور بعض احکام کو اپنے مفاد کے منافی ہونے کی بنا پر جان بوجھ کر چھپانا۔اس طرح اصل تعلیم گم ہو گئی، اور شرک کی مختلف شکلیں رواج پا گئیں۔ قرآن پاک میں ان اُمور کی تصحیح کر کے اصل تعلیمات کو واضح کر دیا گیا ہے۔
ظاہر سی بات ہے ’تثلیث‘ اور ’توحید‘ دو الگ چیزیں ہیں۔ توحید میں تحریف شدہ اُمور کی اصلاح کے لیے قرآن کریم کو نازل کیا گیا اور اس کی حفاظت کے دو بڑے ذرائع اختیار کیے گئے۔ ایک اس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں،ہر وحی کے نزول کے وقت پہلے سے مقرر کردہ کاتبین کا تحریر کر لینا، اور ساتھ ہی ہر وحی کا حافظے میں اس ترتیب سے محفوظ کرنا، جو آغاز سے آج تک قرآن کریم میں پائی جاتی ہے۔ان دو ذرائع کے بعد یہ امکان نہیں رہتا کہ قرآن میں کوئی تبدیلی یا تحریف کی جا سکے۔قرآن اور دیگر کتب اس لحاظ سے بہت مختلف ہیں کہ وہ کتابیں اپنے مصنّفین کے ناموں کے ساتھ منسوب ہیں یعنی ’لوقا‘ کی کتاب یا ’جان‘ کی کتاب۔ قرآن کریم کے نہ الگ الگ مصنّفین ہیں، نہ اس کا ایک حرف کسی انسان کے ذہن کی پیداوار ہے۔ یہ وحی الٰہی ہے ! جیسے ہی وہ نازل ہوئی ، اسی شکل میں حافظے اور ورق پر اسے محفوظ کر لیا گیا۔
یہ تصور کہ قرآن کو ہڈیوں اور پتوں پر تحریر کیا گیا اصلاح طلب ہے۔ ہڈی سے مراد مرغ یا بکرے کی ہڈی نہیں بلکہ اونٹ کی چوڑی ہڈیوں سے بنائی ہوئی وہ پلیٹیں ہیں، جو تختی کی طرح تحریر کے لیے استعمال ہوتی تھیں اور پتوں سے مراد مصر قدیم کے تیار کردہ پیپرس کے اوراق ہیں ۔
مشرکین کو مہلت اور ان کے قتل کے احکامات پر اعتراضات: مشرکین کے قتل کرنے کے حوالے سے سورۂ توبہ کی آیات کو اگر پہلے سے قائم تصورات سے ذہن کو خالی کر کے پڑھا جائے تو یہ بات سمجھنا بہت سادہ اور آسان ہے۔اس میں کسی خاص مفسر کی تعبیر کا کوئی دخل نہیں ہے۔ قرآن کریم جو بات کہہ رہا ہے، وہ یہ ہے کہ جن مشرکین نے اہل ایمان کو اللہ کے گھر میں داخلے سے روکا تھا، اب جب اسلام مکہ اور مدینہ اور اطراف میں اپنی تمام تعلیمات کے ساتھ نافذ ہو گیا ہے، ان مشرکین کو چار ماہ کا نوٹس دیا جاتا ہے کہ یہ یہاں سے جہاں کہیں چاہیں چلے جائیں۔ اسلام کے غلبے کے بعد مالک کائنات نے حرم کعبہ کو ’جائے امن‘ قرار دینے کے بعد یہ اعلان کر دیا کہ اس سرزمین پر اب شرک جسے قرآن کریم نجاست قرار دیتا ہے، روا نہیں رکھا جاسکتا۔ اس لیے حدودِ حرم میں مشرک جو ایمان نہ لانے کی بنا پر نجس ہیں، داخل نہ ہونے پائیں۔ اگر وہ جان بوجھ کر فتنہ پیدا کرنے کے لیے آئیں تو انھیں روکا جائے اور ان کا پیچھا کر کے انھیں قتل کیا جائے۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی ملک میں ایک نیوکلیئر پلانٹ یا کسی اور اہم تنصیبات کے ارد گرد ۱۰کلومیٹر کے رقبہ کو محفوظ علاقہ قرار دے کر نوٹس لگا دیا جائے کہ ’جو ان حدود میں داخل ہوگا اسے گولی کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے‘۔ اس وارننگ پر کسی بھی فرد کی نظر میں کسی زیادتی اور ظلم کا تصور تک نہیں پایا جاتا۔ دنیا میں کوئی بھی حکومت اپنے زیرانتظام کسی بھی جگہ کے بارے یہ اعلانِ عام کر سکتی ہے۔مگر اس قرآنی ہدایت میں اپنی طرف سے افسانہ تصنیف کرنا کہ مشرکین کی تاک میں بیٹھو اور انھیں جہاں پاؤ قتل کردو، کوئی کسی کو نہیں روک سکتا، لیکن اس طرح کی بے بنیاد باتیں قرآن سے منسوب کرنا ایک صریح ظلم ہے۔
رہا یہ معاملہ کہ جو لوگ اللہ پر، یومِ آخرت پر، ایمان اور اعمال صالح پر عامل ہوں، چاہے اہل ایمان ہوں یا یہودی یا عیسائی یاصابی، اللہ تعالیٰ ان کے نیک اعمال کو ضائع نہیں کرے گا۔ یہ قرآن کے اصول کے مطابق ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ذرہ برابر نیکی اور بدی کو نظر انداز نہیں کرتا۔ اس میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔البتہ قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ اُخروی اور دُنیوی کامیابی کے لیے اسلام پر ایمان لانا شرط ہے۔جو ایمان نہیں لائیں گے ان کے اعمال کا بدلہ کیا دیا جائے گا؟ یہ نہ انسانوں کا domain ہے، نہ وہ اس پر غور کرنے کے مکلف !یہ جس کا اختیار ہے وہی اس کا یومِ حساب میں فیصلہ کرے گا!اس بیان میں اور قرآن و حدیث کے توحید کی وضاحت میں نہ کوئی تضاد ہے نہ ابہام!
بیویوں کو سزا کے قرآنی حکم کی نوعیت اور حکمت : سورۂ نساء میں سرکشی پر آمادہ بیوی کے حوالے سے شوہر کو سختی برتنے کا سوال، واضح طور پر یہ قرینہ رکھتا ہے کہ اگر وہ اسے محبت اور یاد دہانی سے متوجہ کرنے میں ناکام رہے اور ہر کوشش ناکام ہو، تو سختی کر سکتا ہے۔ اس کا مفہوم یہ سمجھا گیا ہے کہ جیسے ہی یہ آیت نازل ہوئی، مردوں کی جانب سے ہر گھر میں لاٹھی اور ڈنڈے کا آزادانہ استعمال شروع ہو گیا اور آج بھی ایسا کرنا درست ہے۔ قانون کا ہر طا لب علم جانتا ہے کہ قانون گورے کا بنایا ہوا ہو یا کسی اور کا ،اگر اس میں ایک جج کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایک قاتل کو پھانسی کی سزا دے سکتا ہے، تو کیا اس قانون کی موجودگی کی بناپر ہرجج نے اپنے دور میں ہر قاتل کو پھانسی کی سزا ہی دی ہے یا نوعیتِ جرم اور کیفیت کے پیش نظر اس انتہائی سزا سے کم کوئی سزا بھی دی ہے؟
اس آیت کے پہلے مخاطب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اگر کسی کو آیت پر سب سے پہلے عمل کرنا چاہیے تو وہ بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہی ہیں۔ سیرت پاک اور حدیث کو اٹھا کر دیکھیے کہ کیا کوئی ایک موقع بھی ایسا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی پر سختی کی ہو یا کسی سے بلند آواز سے بھی بات کی ہو۔ حضرت انس ؓ جو ۱۰ برس آپؐ کے گھر کے کاموں میں آپؐ کی مدد کرتے رہے ،جن سےآپؐ کے گھر کی کوئی بات پوشیدہ نہیں تھی۔ کہتے ہیں کہ ۱۰ برس کےعرصے میں مجھ کو آپؐ نے ایک مرتبہ اُف تک نہیں کہا۔ ظاہر ہے کہ گھر میں کام کرنے میں لازما ًبعض اوقات بے احتیاطی ہو جاتی ہے، جب ہم اپنے کسی بھی گھر والے یا ملازم کو سخت سُست کہنا ضروری خیال کرتے ہیں۔
جو ہستی اپنے گھریلو کاموں میں مدد کرنے والے فرد کو ۱۰ برس میں نہ ہاتھ سے تکلیف پہنچائے اور نہ زبان سے کچھ کہے، وہ اس آیت کے آنے کے بعد کبھی اپنی ازواج پر سخت گیر بنا؟ نبی کریمؐ قرآن کی ہر تعلیم پر سب سے پہلے عمل کرنے والی ہستی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سیدہ عائشہؓ سے آپؐ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا!
قرآن کی تفسیر، اسوۂ رسولؐ کرتا ہے ، کسی سائل کا دماغ نہیں کرتا۔مسلمان کے لیے قرآن کی مستند تعبیر وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے عمل سے اختیار کی ۔قانون میں کسی دفعہ کا موجود ہونا عموما ًایک روک (deterrent) ہے۔ضروری نہیں کہ اس کا لازمی استعمال ہو، البتہ غیرمعمولی صورت میں بھی اگر اس قانون کے اطلاق کو خارج کر دیا جائے تو وہ قانون اپنی قوت کھو بیٹھتا ہے۔ اس لیے قانون میں انتہائی حد کا ہونا عقل اور تجربہ دونوں کے مطابق ایک جائز عمل ہے۔ رہا تشدد کا استعمال، وہ چاہے بیوی شوہر پر کرے یا شوہر بیوی پر، اس کو احادیث میں شدت سے رَد کیا گیا ہے۔
شہاب ثاقب کے ذریعے شیاطین کو غیب کی خبریں لانے سے روکنا: قرآن کریم میں ’شہاب مبین‘ یا ’شہاب ثاقب‘سے مراد ’شعلہ روشن‘ ہے۔ یہ ایک چھوٹا سیارہ بھی ہوسکتا ہے اور ایک چمک دار شعاع بھی ہو سکتی ہے۔ سورۃ الحجر میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس دنیا میں بہت سے افراد جو بعض عملیات کے ذریعے کسی غیر مرئی مخلوق کو قابو میں کر لیتے ہیں اور پھر اس کے ذریعے عالم بالا سے معلومات حاصل کر کے اپنے غیب سے آگاہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ایسے افراد کے تابع شیاطین یا جِنّ جب عالم بالا کے ان دائروں میں داخل ہونا چاہتے ہیں، جہاں اللہ کی طرف سے مقرر کردہ فرشتے مختلف ذمہ داریوں پر مامور ہیں، تو ایک شعلہ روشن یا ایک شہاب ثاقب یا تیز شعاع ان کا پیچھا کرتی ہے اور انھیں اپنے مقصد میں ناکام بنا دیتی ہے ۔
ایسی شعاع اور ایسے چھوٹے وجود (Unidentified Objects) سائنسی تحقیقات سے ثابت ہیں اور یہ کوئی حیرت کی بات نہیں۔ خود سائنس دان ان وجود( objects )کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہیں ۔اس لیے اگر قرآن کریم نے ان کی طرف اشارہ کر دیا ہے تو اس میں کوئی اَنہونی بات نہیں۔ ایسے Fireballs, Shooting, Stars, Meteors پر سترھویں صدی سے تحقیقات ہوتی رہی ہیں اور ان کی روشنی میں جدید دور کے سائنس دان ان سے نکلنے والی شعاعوں، ان کی رفتار (۲۰ تا ۷۰ کلومیٹر فی سیکنڈ) کے بارے میں اپنے مشاہدات ، تصاویر کے ساتھ مقالات میں پیش کرتے رہے ہیں۔ شہاب ثاقب ایسے ہی Meteors کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔سائنسی طور پر اس کی شعائیں انتہائی تیز لیکن بہت کم عرصہ روشن رہتی ہیں۔ جیسے آسمانی بجلی کی چمک ایک لمحہ سے بھی کم وقت میں خود کو دکھا کر غائب ہو جاتی ہے۔(تفصیلات کے لیے دیکھیں Encyclopedia Britannica Macropodia, Chicago University Press 1974, P36-54)
قرآن کریم یہ نہیں کہتا ہے کہ شہابِ ثاقب کا وزن، شکل و جسامت وغیرہ کیا ہوتی ہے؟ وہ صرف یہ کہہ رہا ہے کہ ایک تیز روشن شعاع کسی بھی ایسے شیطان یا جِنّ کو جو ان حدود میں آنا چاہے جو ممنوع ہیں، تو یہ روشن شعلہ مزاحم ہوتا ہے۔ سائنس دانوں کا مشاہدہ بھی اس کی تصدیق کرتا ہے۔ اس لیے یہ بات بیان کرتے وقت کسی جھجک کا سوال پیدا نہیں ہوتا ۔اگر سائنس اس پر کوئی ثبوت فراہم نہ بھی کرتی، جب بھی قرآن کا بیان خود اپنی جگہ دلیل ہے اور مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ مسلم سائنس دان قرآن کی بنیاد پر سائنسی مطالعہ کرتے ہیں ، بدلتی ہوئی سائنس کی بنیاد پر قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔
نبی اُمّیؐ کے انتخاب کی وجہ : سائل کے مطابق چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم لکھنے پڑھنے سے آگاہ نہیں تھے، اس لیے وہ جو کاتب ِوحی کو لکھواتے تھے،اس کی تصدیق (verify) نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیےکاتب ِوحی جو چاہتے لکھ لیتے تھے۔ کامن سینس کی بات یہ ہے کہ کیا تصدیق صرف تحریر کو خود پڑھ کر کی جاسکتی ہے یا جو لکھوایا ہے اسے پڑھوا کراور سن کر بھی ہو سکتی ہے؟پھر کیا ایک مرتبہ لکھوانے کے بعد وہ آیات جو لکھوائی گئیں ، ان کی تلاوت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم خود اور اصحابِ رسولؐ نہیں کیا کرتے تھے ،جو سائل کے بیان کے مطابق کاتبین وحی قرآن لکھتے وقت کرلیتے تھے ؟کیا ان من مانی تاویلات کی مسجد میں سب کی موجودگی میں کبھی تلاوت نہیں ہوتی تھی؟ اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے مخفی رہتی تھیں، حتیٰ کہ آپؐ کی وفات کے بعد بھی وہ قرآن کا مستقل حصہ بن جاتیں۔ قرآن کا جتنا حصہ نازل ہوتا تھا، نہ صرف کاتب ِوحی اسے محفوظ کرتے تھے، بلکہ حافظہ میں محفوظ ہونے کے بعد وہ مسجد میں تلاوت بھی کیا جاتا تھا،تاکہ ہرسننے والا صحیح تلفظ اور مخارج اور پیغام کو براہِ راست سن کراسے ذہن نشین کر لے۔
جو چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو تمام انسانوں سے ممتاز کرتی ہے، وہ آپؐ کا کسی مدرسے اور کالج یا یونی ورسٹی جائے بغیر قرآن کریم کے عظیم کلام کو نہ صرف سمجھنا بلکہ اس کی وضاحت فرمانا ہے۔ قرآن خود یہ کہتا ہے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم کا کام تلاوتِ آیاتِ قرآن، تعلیمِ کتاب، تزکیہ اور حکمت ہے۔ یہ چار کام تین مقامات پر دہرائے گئے ہیں، جو بطور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے آپؐ کو سونپے اور آپؐ نے ان چاروں ذمہ داریوں کو بدرجۂ کمال ادا فرمایا۔اسی طرح جب قرآن خود آپؐ کو کلام الٰہی کی تعلیم دینے کا اہل قرار دیتا ہے تو کیا کسی اور کو یہ حق ہو سکتا ہے کہ وہ آپؐ کی اس استعداد پر شبہہ کرے اور آپؐ کو نعوذ باللہ ’ناخواندہ‘ سمجھتے ہوئے منصب نبوت کا مستحق نہ سمجھے ؟
کاتبینِ وحی کی امانت کا معاملہ :اگر عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کے بارے میں مذکورہ بیان کو درست مان لیا جائے تو سوال کا جواب خود سوال میں سے ہی مل جاتا ہے، کہ جس نے وحی میں کوئی تحریف کرنی چاہی اس کے ساتھ کسی قسم کی رُو رعایت نہیں کی گئی اور اسے اشتہاری مجرم قرار دیا گیا ۔گویا وحی میں کسی انحراف یا اضافہ کا امکان ختم کر دیا گیا ۔اس سے پہلے یہ بات واضح کی جا چکی ہے قرآن کا تحفظ نہ صرف کتابت شدہ اجزا، بلکہ حافظہ میں کیا جا رہا تھا اور صحابہ کرامؓ کو مقرر کیا گیا تھا کہ وہ لوگوں کو قرآن کریم کو الٰہی ترتیب کے لحاظ سے حفظ کرائیں ۔ نیز اُس لہجہ اور قرأت میں جو آپؐ نے اختیار فرمایا تھا ۔
مشہور واقعہ ہے کہ ایک دعوتی وفد میں ایسے کچھ صحابہ کو جو قرآن کے حافظ تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں انھیں دھوکے سے شہید کر دیا گیا۔ایسے ہی حضرت ابوبکرؓ کے دور میں جنگ یمامہ میں حفاظ کی شہادت بھی ثابت کرتی ہے کہ ایک بڑی تعدادحفاظ قرآن کی موجود تھی جن کی تلاوتِ آیات میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔گویا قرآن کسی بھول یا تحریف کے بغیر جیسا نازل ہوا، ویسا ہی دورِ نبویؐ میں اور بعد کے ادوار میں مکمل طور پر محفوظ رہا۔اس لیے یہ واحد الہامی کتاب ہے، جس میں کسی زِیر زَبر تک کے اختلاف کا امکان نہیں پایا جاتا۔یہ کہنا حقائق سے آنکھیں بند کرنا ہے کہ کاتبینِ وحی نے اس میں جو چاہا اضافہ کر لیا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود جو لکھواتے تھے اسے پڑھ نہیں سکتے تھے۔اگر لکھوانے کا مقصد محض ایک یادداشت لکھوانا تھا جب تو یہ امکان ہو بھی سکتا ہے کہ کاتب ِوحی سے لکھنے میں کوئی حرف رہ جائے لیکن لکھوانے سے مقصد اس کی پانچ وقت نمازوں میں تلاوت تھا۔ تو نبی کریم ؐکے لیے کیسے ممکن ہے کہ ایک کلام میں تحریف ہو،آپؐ اسے سنیں اور پھر خاموش رہیں؟آج تک پندرہ سو سال میں ہر رمضان میں تراویح میں جو قرآن سنا جاتا ہے اگر قاری صرف ایک لفظ بھول جائے یا حرکات میں کوئی غلطی ہو جائے تو نہ صرف سامع بلکہ دیگر سننے والے افراد فوری طور پر اصلاح کر دیتے ہیں۔ دورِ صحابہؓ میں تو احتیاط اس سے بھی کئی درجے زیادہ تھی۔ اس لیے کسی کاتب کے ہاتھوں اضافے کمی کی بات ایک بے بنیاد قیاس ہے۔
فرشتوں کو کس زبان میں سجدے کا حکم ہوا ؟یہ سوال اٹھانا کہ ’ابلیس کو جنت سے نکالنے کے لیے کس زبان میں اسے مخاطب کیا گیا کیونکہ وہ جنوں میں سے تھا، فرشتوں میں سے نہیں تھا‘ ۔قرآن کریم یہ بات واضح کرتا ہے کہ اگرچہ ابلیس جنوں میں سے تھا، لیکن اپنی عبادت و بندگی کی بنا پر اسے فرشتوں کی صف میں شامل کر لیا گیا تھا۔ فرق یہ تھا کہ فرشتوں میں تخلیقی طور پر اللہ کے حکم کو ماننے کے علاوہ کسی حکم کو ماننے کی صلاحیت نہیں تھی، جب کہ جنوں کو انسانوں کی طرح بات کو ماننے اور نہ ماننے کی صلاحیت دی گئی تھی ۔اس بنا پر فرشتوں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ اگر انسان کو یہ اختیار دیا گیا تو ممکن ہے وہ بھی جنوں کی طرح آپس میں خون خرابہ کریں گے۔ اس کا جواب ربِّ کریم نے تمثیلی انداز میں دے دیا ۔
یہ واضح کرنے کے بعد قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ جب فرشتوں سے حضرت آدم ؑ کو سجدہ کرنے کے لیے کہا گیا تو اس وقت ابلیس بھی فرشتوں کی صف میں شامل تھا۔ جب حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے کے لیے کہا گیا تو ابلیس نے اپنی انانیت اور تکبر، جس کا سبب اس کا آگ سے پیدا کیا جانا تھا، اس پرناز کرتے ہوئے مٹی سے بنائے ہوئے انسان کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔ جو اس کے مردود کیے جانے اور جنت سے خارج کیے جانے کا سبب بنا ۔
یہ سارا معاملہ عبرانی میں ہوا ،عربی میں ہوا یا کسی اور زبان میں ہوا، اس سب کا کوئی تعلق اس بات کے ساتھ نہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے یا نہیں؟دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ کیا قرآن کی تعلیمات میں کوئی بات ایسی ہے جو عقل کے خلاف ہے؟ ایک ایسا سوال کرنا جس کا کوئی تعلق ایک معاملہ سے نہ ہو، فکری دیانت کو مشتبہ کر دیتا ہے۔ساتھ ہی یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں، ایک غیر عقلی رویہ ہے ۔کیونکہ قرآن کریم میں واضح الفاظ میں اس مکالمے کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ قیاس کرنا کہ چونکہ قرآن عربی میں ہے اس لیے لازما ًاللہ تعالیٰ تمام انبیاؑ سے عربی میں تبادلۂ خیال کرتے ہوں گے ،ایک شخص کی اپنے ذہن کی پیداوار تو ہو سکتا ہے لیکن اس کا کوئی تعلق نہ قرآن کی حقانیت سے ہے، نہ ابلیس کے واقعے کو ایک افسانہ قرار دینے سے۔
قرآن آسان ہے تو تفاسیر کی کثرت کی کیا ضرورت ہے؟ سائل کو اس بات پر اعتراض ہے کہ ’’اگر ایک کتاب کی مختلف تفاسیر ہر دور میں لکھی جاتی رہی ہیں، تو یہ بات قرآن کے عام فہم ہونے کے برعکس ہے‘‘۔ معمولی سی بات ہے کہ قرآن کو آسان اور واضح عربی میں نازل کیا گیا ہے۔ لیکن کیا وہ حضرات جو عموما ًقرآن کریم کے بارے میں بے بنیاد شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ عربی کے قواعد اور عربی ادب سے واقفیت کے ساتھ براہِ راست قرآن کو سمجھ کر بات کرتے ہیں، یا کسی مستشرق کی بیان کردہ رائے کو بنیاد بنا کر اپنا ایک بارود خانہ تعمیر کرنے میں لگ جاتے ہیں؟ علمی تحقیق کا مطالبہ ہے کہ ہر بات کے لیے اس کی سند اپنی اصلی حالت میں سامنے لائی جائے۔
سائل کی ان باتوں میں نہ کوئی منطقی ربط ہے نہ صداقت کہ قرآن کی آٹھ سو سے زائد یا اس سے کم تفاسیر کیوں لکھی گئیں؟ قرآن آسان عربی زبان میں اللہ کا کلام ہے، جسے کسی دوسری زبان کے بولنے والے کے لیے اسے سمجھانے کے لیے ان کی زبان میں اس کی تعلیمات کو پیش کرنا ایک انسانی ضرورت ہے ۔اور یہ ضرورت نہ صرف قرآن کریم بلکہ ان تمام معاملات میں رہے گی، جن میں اخلاق اور قانون کے اصول پیش کیے گئے ہوں۔ لوگوں تک انھیں پہنچانے کے لیے مقامی زبانوں میں ان کے مفہوم اور مطالبات کو بیان کرنا ایک فطری عمل ہے۔ یہی شکل دیگر الہامی کتب کے ساتھ ہے جنھیں ان کے ماننے والوں نے ہر دور میں تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔ اس میں کوئی حیرت اور پریشانی کی بات نہیں ہے۔ یہ بات انسانی ضرورت اور کلام الٰہی کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ بات کو سمجھنے کے لیے اگر یہ کہا جائے کہ غالب یا اقبال کا کلام ایک عام شخص بھی سمجھ سکتا ہے اور ایک تشریح کے ذریعے اقبالیات کا کوئی ماہر اس کی خوبیوں کو مزید واضح بھی کر سکتا ہے ، اور ایسا کرنا کیا عقل کے منافی ہے؟ تفاسیر کی کثرت تو یہ ظاہر کرتی ہے کہ کلام الٰہی پر جتنا غور کیا جائے گا اتنے ہی پہلو مزید واضح ہوتے چلے جائیں گے۔
بحوالہ ، ماہنامہ ترجمان القرآن نومبر 2024