"نشوز" كا مطلب
سورہ نساء كی آيت 34 اور 128 كے حوالے سے
محمد صديق بخاری
سورہ نساء كی آيت 34 ( وَ الّٰتِی تَخَافُونَ نُشُوزَہُنَّ فَعِظُوہُنَّ وَ اہجُرُوہُنَّ فِی المَضَاجِعِ وَ اضرِبُوہُنَّ)كے حوالے سے ہمارے مفسرين اور فقہا كا تقريباً ا س بات پر اتفاق ہے كہ اگر بيوی كی طرف سے خاوند كو "نشوز" كا انديشہ ہو تووہ اس آيت ميں دی گئی ترتيب اور تدريج كو اختيار كرتے ہوئے اس كو جسمانی سزا بھی دے سكتا ہے –چونكہ جسمانی سزا (واضربوھن)ايك سنجيدہ مسئلہ ہے اور اس كا تعلق "نشوز" سے ہے اس ليے "نشوز" كے بارے ميں يہ طے كرنا ضروری ہے كہ اس كامطلب كيا ہے اور اس كا اطلاق كن صورتوں پر ہوتاہے-قرآن مجيد ميں لفظ "نشوز" دو بار استعمال ہواہے- اور دونوں بار سورہ نساء ميں ہی – يعنی آيت 34 اور 128 ميں-
لغوی مطلب
لغت كے اعتبار سے ديكھيں تو لفظ ’النُّشُوزُ‘، ’النَّشْز‘ سے لیا گیا ہے، جس کے معنی زمین کے اونچے اور بالائی حصے کے ہیں۔ کہا جاتا ہے : "نَشَزَتِ المَرأةُ بِزَوجِها، وعلى زوجِها، وهي ناشِزٌ وناشِزَةٌ" یعنی عورت خود کو اپنے شوہر سے بالاتر سمجھنے لگی، اس سے نفرت کرنے لگی اور اس کی اطاعت کے دائرے سے باہر ہوگئی۔ ( النُّشُوزُ: مَصْدَر نَشَزَ ينْشُزُ وينْشِزُ نُشوزًا، وأصْلُهُ مِن النَّشْزِ، وهو: الـمَكانُ العالِـي الـمُرْتَفِعُ مِن الأرْضِ، يُقالُ: نَشَزَتِ الـمَرأةُ بِزَوجِها، وعلى زوجِها، وهي ناشِزٌ وناشِزَةٌ: إذا ارْتفعَتْ عَليهِ وأَبْغَضَتْهُ وخَرَجَتْ عَنْ طاعَتِهِ، ونَشَزَ هو عليها نُشُوزًا كذلك: إذا ضَرَبَـها وجَفاها وأضَرَّ بِـها)
تفسير قرطبی ميں ہے
"والنشوز العصيان ماخوذ من النشز وهو ما ارتفع من الارض -يقال نشز الرجل ينشُز وينشِز اذا كان قاعدًا فنهض قائماً- ومنه قولہ عز وجل (واذا قيل انشزوافا انشزوا)المجادلة 11 اي ارتفعوا وانہضو ا الى حرب او امر من امورا الله تعالی-فالمعنى اي تخافون عصيانھن وتعاليهن عما اوجب الله عليهن من طاعه الازواج- قال ابو منصور اللغوي النشوز كراهية كل واحد من الزوجين صاحبه -يقال نشزت تنشز-فهي ناشز بغيرهاء ونشصت تنشص و ھی السيئة العشرة -وقال ابن فارس ونشزت المراه استصعبت على بعلها و نشز بعلھا عليها اذا ضربها وجفاها قال ابن الدريد نشزت المراة ونشست ونشصت بمعنى واحد" (تفسيرقرطبی يعنی الجامع لاحكام القرآن ج6 ص 282، 283 موسسة الرسالة)
نشوز يعنی نافرمانی "نشز" سےماخوذ ہے –زمين كا جو ابھرا ہوا يا بالائی حصہ ہو اسے بھی نشوز كہتے ہيں-جب كوئی فرد بيٹھا ہوا ہو اور وہ كھڑا ہوجائے تو كہا جاتا ہے كہ نشز الرجل-سورة مجادلہ آيت 11 ميں اللہ تعالی كا قول بھی ہے وَ اِذَا قِیۡلَ انۡشُزُوۡا فَانۡشُزُوۡا يعنی كہ جب كہا جائے كہ اٹھ جاؤ تو اٹھ جايا كرو- يعنی كسی بھی اللہ كے امر كو پورا كرنے كے ليے اٹھويا جنگ كے ليے نكلو-سورہ نساء كے سياق وسباق ميں اس كا مطلب ہے كہ اگر تمہيں بيويوں كی طرف سے نافرمانی كا ڈر ہويا اللہ تعالی نے خاوند كی اطاعت كے ليے جو كچھ ان پر واجب كيا ہے اسے نظر انداز كرنے كا انديشہ ہو –ابو منصور لغوی كہتے ہيں نشوز اس كراہت كو كہتے ہيں جو مياں كو بيوی سے ہو يا بيوی كو خاوند سے ہو-عورت كو ناشز بھی كہہ سكتے ہيں اور ناشزہ بھی – ابن فارس كہتے ہيں كہ عورت كا نشوز اس وقت ثابت ہو گا كہ جب وہ اپنے خاوند كی نافرمان ہوجائے اور خاوند كا نشوز اس وقت ہو گا جب وہ بيوی كو مارے يا نظر انداز كرے –ابن دريد كہتے ہيں نشزت ، نشست اور نشصت سب ايك ہی معنی ميں ہيں-
اصطلاحی مطلب
اصطلاحی معنوں میں اس کا ترجمہ عام طور پر سرکشی اور نافرمانی سے کیا جاتا ہے –تقريباً يہی مفہوم برصغير كے مترجمينِ قرآن كے ہاں بھی ملتا ہے جيسا كہ شاہ عبدالقادر نے نشوز کا ترجمہ" بد خوئی "سے کيا ہے -مولانا اشرف علی تھانوی کے ہاں اس کا ترجمہ "بددماغی" ہے -مولانا احمد رضا خاں اس کا ترجمہ" نافرمانی" سے کرتے ہیں- مولانا محمد جونا گڑھی اس کا ترجمہ" نافرمانی اور بددماغی" سے کرتے ہیں جبکہ مولانا مودودی کے ہاں اس کا مطلب " سرکشی" ہے -مولانا اصلاحی کے ہاں "سرتابی " اور محترم جاوید احمد غامدی کے ہاں "سرکشی" ہے-(بحوالہ نورالقرآن ج 3 ص 133-134 )
يہی صورت حال مفسرين كے ہاں بھی موجود ہے –
تدبر قرآن
مولانا اصلاحی كہتے ہيں كہ " نشوز کے معنی سر اٹھانے کے ہیں لیکن اس لفظ کا غالب استعمال اس سرتابی اور سرکشی کے لیے ہوتا ہے جو کسی عورت کی طرف سے اس کے شوہر کے مقابلے میں ظاہر ہو اگر کسی عورت کے رویے سے ظاہر ہو تو وہ سرکشی کی راہ پر چل پڑی ہے تو مرد چونکہ قوام ہے اس وجہ سے اس کو عورت کی تاديب کے لیے بعض تاديبی اختیارات دیے گئے ہیں لیکن یہ ملحوظ رہے کہ قران نے یہ اختیارات صرف اس صورت کے لیے دیے ہیں جب "نشوز" کا اندیشہ ہو- نشوز جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا کہ عورت کی ہر کوتاہی غفلت یا بے پروائی یا اپنی شخصیت اور اپنی رائے اور ذوق کے اظہار کی قدرتی خواہش کو نہیں کہتے -نشوز یہ ہے کہ عورت کوئی ایسا قدم اٹھاتی نظر آئے جو مرد کی قوامیت کو چیلنج کرنے والا اور جس سے گھر کی مملکت میں بدامنی اور اختلال پیدا ہونے کا اندیشہ ہو اگر ایسی صورت پیدا ہوتی نظر آئے تو مرد تین صورتیں اختیار کر سکتا ہے اور قرآن کا انداز بیان دلیل ہے کہ ان تینوں میں ترتیب و تدریج ملحوظ رہے-"(تدبر قرآن ،ج2 ، ص 292 فاران فاؤنڈيشن لاہور)
تفسير ماجدی
تفسير ماجدی كے مطابق ،" عورت کے نشوز کے اصل معنی یہ ہيں کہ شوہر کی نافرمانی پر کمر بستہ ہو جائے گویا پر مسرت کی ازدواجی زندگی کی بجائے گھر میں تصادم اور بغاوت شروع ہو جائے - لفظ تخافون ميں خوف علم کے معنی میں ہے یعنی جب ان کی بغاوت اور نافرمانی تجربہ میں آ جائے -یہ نہیں کہ محض بدگمانیاں یا دور کے احتمالات کو اس کے لیے کافی سمجھ لیا جائے-" (تفسیر ماجدی ج اول ص 732 مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنو)
معارف القرآن
مفتی محمد شفيع صاحب اس كو نافرمانی كے معنوں ميں ليتے ہيں اور بين السطور يہ اندازہ ہوتا ہے كہ وہ اس كو عمومی نافرمانی كے مطلب پر محمول كرتے ہيں- وہ لكھتے ہيں" اس کے بعد ان عورتوں کا ذکر ہے جو اپنے شوہروں کی فرمانبردار نہیں یا جن سے اس کام میں کوتاہی ہوتی ہے قران کریم نے ان کی اصلاح کے لیے مردوں کو علی الترتيب تین طریقے بتائے یعنی عورتوں کی طرف سے اگر نافرمانی کا صدور يا اندیشہ ہو تو پہلا درجہ ان کی اصلاح کا یہ ہے کہ نرمی سے ان كو سمجھاؤ-----" (معارف القرآن ج2 ص 399 مكتبہ معارف القرآن كراچی )
تفہيم القرآن
تفهيم القرآن كی عبارات سے بھی يہی گمان ہوتا ہے كہ مولانا مودودی كے ہاں بھی نشوز عمومی نافرمانی اور سركشی ہے – وہ لكھتے ہيں كہ " حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہترین بیوی وہ ہے جب تم اسے دیکھو تو تمہارا جی خوش ہو جائے جب تم اسے کسی بات کا حکم دو تو وہ تمہاری اطاعت کرے اور جب تم گھر میں نہ ہو تو وہ تمہارے پیچھے تمہارے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے – یہ حدیث اس آیت کی بہترین تفسیر کرتی ہے مگر یہاں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ عورت پر اپنے شوہر کی اطاعت سے اہم اور اقدم اپنے خالق کی اطاعت ہے لہذا اگر کوئی شوہر خدا کی معصیت کا حکم دے یا خدا کے عائد کیے ہوئے کسی فرض سے باز رکھنے کی کوشش کرے تو اس کی اطاعت سے انکار کر دینا عورت کا فرض ہے اس صورت میں اگر وہ اس کی اطاعت کرے گی تو گنہگار ہوگی بخلاف اس کے اگر شوہر اپنی بیوی کو نفل نماز نفل روزہ ترک کرنے کے لیے کہے تو لازم ہے کہ وہ اس کی اطاعت کرے اس صورت میں اگر وہ نوافل ادا کرے گی تو وہ مقبول نہ ہوں گے نشوز کی حالت میں ان تینوں تدبيروں کی اجازت ہے اب رہا ان پر عمل درآمد تو بہرحال اس میں قصور اور سزا کے درمیان تناسب ہونا چاہیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیویوں کے مارنے کی جب کبھی اجازت دی ہے بادل ناخواستہ دی ہے اور پھر بھی اسے ناپسند ہی فرمایا ہے تاہم بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ پٹے بغیر درست ہی نہیں ہوتی-"(تفہيم القرآن ، ج1 ، ص 350-351 ،ادارہ ترجمان القرآن لاہور)
ضيا القرآن
پير كرم شاہ صاحب كے خيال ميں "عورت كےازراہ غرور و نفرت خاوند كی اطاعت سے سرتابی كرنے كو نشوز كہتے ہيں-"(ضيا القرآن ، ج1 ، ص 342 ، ضيا القرآن پبلی كيشنز لاہور)
نتيجہ بحث
برصغير ميں مفسرين اور مترجمين عام طور پر نشوز كا ترجمہ سركشی اور نافرمانی سے كرتے ہيں اور ان كے انداز بيان سے يہی مترشح ہو تا ہے كہ ان كے ہاں بيوی كی طرف سے ہر قسم كی نافرمانی نشوز كے زمرے ميں آئے گی – اس ضمن ميں اصلاحی صاحب كی رائے بہت معتدل ہے -
فراہی اصلاحی لغات القرآن كے مطابق " نشوز کے معنی سر اٹھانے کے ہیں لیکن اس لفظ کا غالب استعمال اس سرتا بی اور سرکشی کے لیے ہوتا ہے جو کسی عورت کی طرف سے ظاہر ہو- نشوزعورت کی ہر کوتاہی غفلت یا بے پروائی یا اپنی شخصیت اور اپنی رائے اور ذوق کے اظہار کی قدرتی خواہش کو نہیں کہتے- نشوز یہ ہے کہ عورت کوئی ایسا قدم اٹھاتی نظر آئے جس سے گھر کی مملکت میں بدامنی اور اختلال پیدا ہونے کا اندیشہ ہو-" (فراہی اصلاحی لغات القرآن ص 708 )
اگرچہ ہمارے ہاں روايتی فقہی اور تفسيری مراجع اور مصادر اس بات پر متفق نظر آتے ہيں كہ نشوز سے مراد عورت كی ہر قسم كی نافرمانی ہے تاہم مغرب كے اسكالرز كا رجحان يہ ہے كہ نشوز سے مراد عورت كی ہر قسم كی نافرمانی نہيں بلكہ جنسی سركشی ہے –ان كا كہنا ہے كہ یہاں پر نشوز چونكہ حافظات کے مقابلے میں آيا ہے اور حافظات سے مراد ہے اپنی عزت اور عصمت کی حفاظت کرنے والياں چنانچہ نشوز سے یہاں مراد جنسی عدم وفاداری ہے نہ كہ عمومی نافرمانی –مغرب كے ان علما كا كہنا ہے كہ قرآن مجید کے علاوہ احادیث اور عرب شاعری کے نظائر بھی اس بات پہ شاہد ہیں کہ " ناشز" کا لفظ اسی عورت کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جو اپنے خاوند سے وفاداری نہ کرے کسی اور مرد سے تعلق رکھے یا اس كا رويہ يہ ظاہر كر رہا ہو كہ اس ميں کسی اور مرد کے پاس جانے کی خواہش موجود ہے –گويا بيوی كے حوالے سے جنسی عدم وفاداری اس لفظ کے مطلب میں شامل ہے-(ماخوذ از مقالہ ثاقب حسين)
محترم ثاقب حسين نے خاوند كے نشوز كا ذكر بھی كيا ہے - يہ امر دل چسپی سے خالی نہيں كہ يہاں بھی بر صغير كے علما خاوند كے نشوز كو اس كی بے زاری اور بے پروائی سے تعبير كرتے ہيں جبكہ ثاقب صاحب يہاں بھی اس سے مراد جنسی عدم وفاداری ليتے ہيں اور ان كی رائے اس قابل ہے كہ اس پر غور كيا جائے- يہاں ہم ان كی رائے كا خلاصہ عرض كرتے ہيں-
خاوند كا نشوز
قرآن مجيد ميں لفظ نشوز دو بار استعمال ہو ا ہے اور دونوں بار سورہ نساء ہی ميں-پہلے آيت 34 ميں اور دوسری بار آيت 128 ميں-جس كا ترجمہ يہ ہے – وَ اِنِ امۡرَاَۃٌ خَافَتۡ مِنۡۢ بَعۡلِہَا نُشُوۡزًا اَوۡ اِعۡرَاضًا------------- "ہاں، اگر کسی عورت کواپنے شوہر سے بے زاری یا بے پروائی کا اندیشہ ہو تواُن پر گناہ نہیں کہ دونوں آپس میں کوئی سمجھوتا کر لیں۔ اِس لیے کہ سمجھوتا بہتر ہے۔ اور (یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ) حرص لوگوں کی سرشت میں ہے، لیکن حسن سلوک سے پیش آؤ گے اور تقویٰ اختیار کرو گے توصلہ پاؤ گے، اِس لیے کہ جو کچھ تم کرو گے، اللہ اُسے جانتا ہے۔"
یہاں ایک حیران کن امر کی طرف اشارہ ضروری ہے كہ مفسرین نے آیت 34 اور آیت کی 128 میں لفظ نشوز كی مختلف تفاسير كی ہيں-
آیت 34 میں تو اس کو بیوی کی طرف سے نافرمانی ، سركشی قرار ديتے ہيں اور اس كی طرف سے جنسی عدم وفاداری كے امكان كو بھی تسليم كرتے ہیں جبکہ آیت 128 میں وہ خاوند کی طرف سے بیزاری قرار دیتے ہیں اور ہمارے خیال میں یہ تعریفیں اور یہ فرق اطمینان بخش نہیں-
آيت 34 میں نشوز کی نسبت بیوی کی طرف ہے اور آیت 128 میں اس کی نسبت خاوند کی طرف ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ایسا جرم ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی اس کا ارتکاب کر سکتا ہے چنانچہ دونوں جگہ اس کا ایک ہی مفہوم ہونا چاہیے- اگراس لفظ كو بیوی کی طرف سے جنسی بے راہ روی يا عدم وفاداری سمجھا گیا ہے تو خاوند کی طرف بھی اسی کی نسبت ہونی چاہیے اور اگر یہ مفہوم لیا جائے تو تفاسیر میں جو ابہام ہے وہ دور ہو جاتا ہے –مزيد برآں يہ بھی مد نظر رہے كہ دونوں جگہ اللہ رب العزت نے "اخاف " کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی اگر خاوند کو یہ خوف ہو یا بیوی کو یہ خوف ہو-
ايك او رنكتہ بھی قابل غور ہے كہ عربی زبان میں وہ اسم صفت جو صرف عورتوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں عموماً ان کے آخر میں تائے مربوطہ موجود نہیں ہوتی كيونكہ يہ واضح ہوتا ہے كہ يہ الفاظ ہے ہی عورتوں كے ليے - جس طرح کہ لفظ حائض ( حيض والی ) ہے يا لفظ حامل (حمل والی ) اسی طرح لفظ ناشز ہے (نشوز والی ) چونکہ یہ الفاظ صرف عورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں اس سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قبل از اسلام عرب کلچر کے اندر بھی نشوز کا لفظ عورتوں کے لیے ایک جرم کے طور پر موجود تھاليكن نشوز کو صرف عورتوں کے ساتھ خاص سمجھا جاتا تھا- یہ قران مجید کا اعزاز ہے کہ قران مجید نےنسوانی نشو ز كے ساتھ ساتھ مردانہ نشوز بھی متعارف كروايا- يعنی صنفی امتياز كو ختم كيا -
(بحوالہ The bitter lot of rebellious wife Hierarchy, obedience and punishment
از ثاقب حسين ،يونيورسٹی آف آكسفورڈ )