قرآن کا پہلا ترجمہ رد اسلام میں لکھا گیا۔

مصنف : منصور ندیم

سلسلہ : قرآنیات

شمارہ : ستمبر 2024

قرآنيات

قرآن کا پہلا ترجمہ رد اسلام میں لکھا گیا۔

منصور نديم

ترجمے کے ضمن میں پچھلے مراسلے میں یہی لکھا تھا کہ دنیا بھر میں مختلف نظریات پوری تاریخ میں ترجمے سے گھیرے ہوئے ہیں، جو اس بات کی آگاہی دیتے ہیں کہ ترجمہ کیسے، کب اور کہاں استعمال ہوا ہے۔ دنیا میں سب سے پہلے معلوم تاریخ میں لفظ "ترجمہ" ایک لاطینی فقرے سے ماخوذ ملتا ہے، جس کا مطلب ہے "لانا یا لے جانا ہے، جو مذہبی یا مقدس آثار کی دوسری زبان میں تبدیلی كے معنوں میں ہے، اس کے علاوہ ایک اور وضاحتی جملہ ہے "میٹافراسیس" جو قدیم یونانی سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے "اس پار بولنا" آخر میں لفظ metaphrasis سے لفظ metaphrase اخذ کیا گیا، جس کا مطلب ہے "لفظ کا ترجمہ"، معلوم تاریخ میں دنیا کا پہلا ترجمہ شدہ متن میسوپوٹیمیا کے دور میں کیا گیا تھا، جہاں گلگامیش (سومیری نظم) کا ایشیائی زبان میں ترجمہ کیا گیا تھا۔ دیگر قدیم تراجم کے کاموں میں بدھ راہبوں کا چینی زبان میں ہندوستانی متن کا ترجمہ شامل ہے۔ پہلا معروف اہم ترجمہ عبرانی بائبل میں ہوا جو تیسری صدی میں کیا گیا تھا، اس وقت روحانی نظریات اور مذہبی متون کی توسیع کے ساتھ مزید ترجمے کی ضرورت بڑھتی گئی جس سے مذہب کو پھیلانے اور عقیدے کو مضبوط کرنے کی تحریک ملی، اس وقت ایسی ضرورت محسوس کی گئی کہ مذہبی مواد کو متعدد زبانوں میں ترجمہ کرنے کی ضرورت ہے۔

ابتدائی طور پر ترجمے کی تاریخ میں مذہب نے ایک بڑا کردار تو ادا کیا، چوتھی صدی عیسوی میں سینٹ جیروم نے بائبل کا لاطینی میں ترجمہ کیا، اور لاطینی بائبل بنیادی طور پر رومن کیتھولک چرچ میں استعمال ہونے لگی، پروٹسٹنٹ ازم متعارف کرایا گیا، جس نے بائبل اور دیگر مذہبی مواد کا دوسری زبانوں میں ترجمہ جاری رکھنے کی ضرورت بھی پیدا کی۔ کیتھولک ازم اور پروٹسٹنٹ ازم کے درمیان ایک اہم فرق ترجمے کے دوران اہم اقتباسات اور تفاوت کے درمیان فرق تھا، اسی لئے زیادہ تر مترجم چھپے ہوئے کردار رہے، ایسے کئی مترجمین کا نام نہیں بتایا گیا کیونکہ اس وقت ترجمہ کرنا ایک جان جوکھوں کا کام تھا۔ اس عہد میں کچھ مترجمین نے ترجمہ کرنے کے جرم میں اپنی جانیں گنوائیں، مثال کے طور پر ولیم ٹنڈیل جس نے بائبل کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا تھا، بائبل کا ترجمہ کرنے کی وجہ سے اسے سنہء 1536 میں ہالینڈ میں پھانسی دی گئی تھی۔

 میرا آج کا موضوع مذہبی متون کے تراجم کی تاریخ سے زیادہ مسلمانوں کی الہامی کتاب قرآن کے ترجمے کی تاریخ پر ہے، کیونکہ ابتداء سے لے کر آج تک یہ تصور موجود ہے کہ یہ کتاب قرآن کے نزول پر مرکوز ہے، چونکہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ لہذا "یہ انتہائی خالص ہے، اور کسی دوسری زبان یا شکل میں دوبارہ پیش نہیں کیا جا سکتا؛ چونکہ یہ عربی میں نازل ہوا تھا، اور ترجمہ اس صورت میں صرف معنی کے لیے ہے۔ عربی میں دوسری زبانوں کی طرح، ایک لفظ کے مختلف معنی ہو سکتے ہیں۔ کسی متن کو سمجھنے اور ترجمہ کرنے میں ہمیشہ انسانی فیصلے کا ایک عنصر شامل رہتا ہے۔اصلاً تو دنیا میں قرآن یا قرآنی آیات کا سب سے پہلا ترجمہ جو کسی بھی غیر عربی زبان میں لکھا گیا وہ سورہ فاتحہ کی آیات عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی لکھی گئی، جو بادشاہوں کے اسلام کی دعوت کے خطوط میں حضرت سلمان فارسی نے کیا تھا۔ یہ جزوی آیات کا ترجمہ تھا، مگر قرآن کے ضمن میں دلچسپ بات یہ رہی کہ قرآن کے ابتدائی تراجم کا مقصد اس کی تردید کرنا تھا، نہ کہ اسے دوسری قوموں میں پھیلانا- خطہ عرب سے جب اسلام یورپ میں پھیلنے لگا تو وہاں کے پادریوں کے لئے یہ ایک تشویش کی بات بنی، تب نویں صدی میں سنہء 855 اور سنہء 870 کے درمیانی عرصے میں قسطنطنیہ میں رہنے والے ایک مسیحی عالم نیکیٹاس بزنٹیس Nicetas Byzantius نے ایک قرآن کا ایک یونانی ترجمہ کی مدد سے "قرآن کی تردید" کے نام سے مکمل کیا۔ یہ اسلام آنے کے تین صدیوں بعد کلینی کے خانقاہی مرکز کے ایک طاقتور خاندان کے سربراہ کے کہنے پر کیا گیا تھا، نیکیٹاس بزنٹس کے مقالے میں 82 ایسے مقامات موجود ہیں، جس میں یونانی ترجمے کے حوالے موجود ہیں۔ نکیتاس بزنٹیس نے یونانی زبان میں قرآن کا حوالہ میں کئی وسیع اقتباسات اپنے متضاد دلائل کی تائید کے لیے استعمال کئے، جن میں ابتدائی اسلام کے بارے میں کم و بیش کئی واقعات شامل تھے۔ مقالے کے متن کی نوعیت نے اس عہد کے کئی اسکالرز کو اقتباسات کو نظر انداز کرنے اور ترجمہ کو ناقابل قبول قرار دینے پر مجبور کردیا تھا مگر مزے کی بات یہ تھی کہ اس نے جس یونانی ترجمے سے مدد لی تھی، وہ ترجمہ درحقیقت ایک ایسے شخص نے کیا تھا، جو عربی اور یونانی دونوں اچھی طرح جانتا تھا، جو قرآن کی تشریح کرنے کے بارے میں ابتدائی مسلم مباحث سے بھی واقف تھا لیکن تاحال کوئی نہیں جانتا کہ وہ مترجم شخص کون تھا یا اس نے ترجمے کا کام کہاں کیا تھا- مترجم نے اپنی شناخت تو گم رکھی، لیکن اس کے کام کو دیکھ کر اس کی بصیرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت قرآن کو یونانی زبان سمجھنے والوں کے لیے ابتدائی مرحلے میں اور عام طور پر صدیوں کی جنگوں اور تنازعات میں عربی اور یونانی کے درمیان ثقافتی تبادلے کے لیے الفاظ اور معنی دونوں لحاظ سے لفظ بہ لفظ ترجمہ کے طور پر یہ واضح طور پر اصل عربی کے قریب ہونا اس کی اہمیت بتاتا ہے۔اس قرآنی ترجمے کے اصل مخطوطات آج بھی محفوظ ہیں۔اس کے بعد گیارہویں صدی سنہء 1143 میں یورپ میں ایک اور معروف قرآنی ترجمہ بھی رد اسلام کی بنیاد پر ہی لکھا گیا, جو (Robertus Ketenensis) رابرٹ کیٹیننس نے لاطینی زبان میں کیا، ترجمے کا نام Lex Mahumet pseudoprophete "جھوٹے نبی محمد کا قانون" (نعوذ باللہ) رکھا گیا, جس میں اس نے جان بوجھ کر کچھ آیات کے ترجمہ میں تحریف کی ہے۔ تاکہ اس کی تردید میں آسانی رہے۔ یہ ترجمہ پیٹر دی وینریبل کے کہنے پر کیا گیا تھا، جو فرانسیسی Abbot of Cluny کے ایک طاقتور خاندان کا سربراہ تھا، اس نے رابرٹ کو اس ٹیم میں شامل ہونے پر آمادہ کیا جو وہ لاطینی زبان میں عربی کاموں کا ترجمہ کرنے کے لیے تشکیل دے رہا تھا، تاکہ مسلمانوں کی عیسائیت میں مذہبی تبدیلی میں مدد کی جا سکے ۔ قرآن کا ترجمہ اس مجموعے کا بنیادی کام تھا، یہ کام بہت بڑا تھا، جس میں ایک سال سے زیادہ کا عرصہ لگا اور 100 سے زیادہ فولیو (جدید پرنٹ میں 180 صفحات) لکھے۔ قرآن کا یہ ترجمہ یورپ میں بہت مقبول ہوا، سولہویں صدی کے دو پرنٹس کے علاوہ اس ترجمے کے 25 سے زیادہ نسخے آج بھی موجود ہیں۔ اٹھارویں صدی تک یورپیوں کے لیے یہ ایک معیاری ترجمہ تھا، قابل افسوس امر یہ رہا کہ اس عہد کے بعد قرآن کے بعد کئی یورپی تراجم نے صرف کیٹیننسس کے لاطینی ورژن کا اپنی زبان میں ترجمہ کیا، یعنی کسی نے بھی قرآن کا براہ راست عربی زبان سے ترجمہ نہیں کیا، ایک ایسا ترجمہ جس میں طے شدہ مقاصد کے لئے تحریف موجود تھی، اس کو معیار بنا کر تراجم کئے جاتے رہے۔ کیٹیننس کا کام سنہء 1543 میں تھیوڈور ببلینڈر نے بیسل میں تین ایڈیشنوں میں دوبارہ شائع کیا گیا تھا، تمام ایڈیشنوں میں مارٹن لوتھر کا دیباچہ تھا۔ فی الحال یہ نسخے پیرس میں ببلیوتھک ڈی ایل آرسنل میں موجود ہیں۔

قرآن کا یورپی زبانوں میں ترجمہ خود عیسائی مبلغین نے عیسائیت کے دفاع کے طور پر اور اسلام کو بطور مذہب نہیں بلکہ ایک بدعت متعارف کروانے کی کوشش کی تھی، کہیں المیہ یہ رہا کہ ایسی تحریفی مواد کو بھی پیش کرنے پر اختلاف کا سامنا رہا اور سنہء 1309 میں، پوپ کلیمینس VI نے قرآن کے ترجموں کو بھی کالعدم قرار دیا۔ اس کے بعد بھی یورپ میں جتنے تراجم ہوتے رہے زیادہ تر کا مقصود اسلام کا رد ہی رہا، تیرہویں صدی کے اوائل میں Mark of Toledo نے لاطینی میں اسی لاطینی ترجمے کی بنیاد پر ایک اور لاطینی زبان میں قرآنی ترجمہ لکھا، اس کے کئی مخطوطات آج بھی محفوظ ہیں، پھر پندرہویں صدی میں Juan of Segovia نے ایک اور مصنف Isa of Segovia کے ساتھ مل کر ایک اور قرآنی ترجمہ لکھا۔ سولہویں صدی میں Juan Gabriel Terrolensis نے لاطینی میں پھر ایک اور ترجمہ لکھنے میں Cardenal Eguida da Viterbo کی مدد کی۔ سترہویں صدی کے اوائل میں ایک اور ترجمہ کیا گیا، جس کا انتساب Cyril Lucaris سے تھا۔ یہ تمام مسیحی مبلغین تھے، اور یہ سب تراجم کا کام اسلام کے خلاف ان کے مذہبی ابلاغ اور رد اسلام کی صورت میں تھا۔ سنہء 1518 میں علی الیزار نامی جو ایک سابقہ مسلم جو عیسائی مبلغ بنا، اور Juan Gabriel of Teruel کے نام سے معروف ہوا، اس نے بھی قرآن کا ایک لاطینی ترجمہ کیا، یہ ترجمہ Giles of Viterbo کی طرف سے سونپا جانے والا کام تھا، جس کا مقصد مسلمانوں کو عیسائیت میں تبدیل کرنے کے لئے ایک ابلاغی کام تھا، یہی پادری Giles of Viterbo نے ایک اور نو مسیحی Leo Africanus جس نے اسلام مذہب ترک کیا تھا، اسے سنہء 1525 میں اسی ترجمے کو دوبارہ ترجمے کے لئے نظر ثانی کے لئے دیا۔ اس ترجمے کا مخطوطہ سنہء 1621 میں ایک سکاٹش اسکالر ڈیوڈ کولویل نے اسپین میں El Escorial کی لائبریری میں ایک مخطوطہ سے نقل کیا تھا۔ ڈیوڈ کولویل بعد میں اس مخطوطہ کو میلان لے کر آئے۔ آج یہ مخطوطہ Biblioteca Ambrosiana میں محفوظ ہے۔

سنہء 1622 میں پادری Ignazio Lomellini نے قرآنی ترجمہ لاطینی زبان میں لکھا یہ کم معروف ہوا, مگر یہ مخطوطہ حقیقتا عربی متن کی بنیاد پر لکھا گیا تھا، سنہء 1698 میں روم کی سیپینزا یونیورسٹی میں عربی کے استاد اور پادری Louis Maracci نے دو ترجمے کئے ایک عربی زبان میں اور ایک لاطینی زبان میں لکھے، اس کے ایڈیشن میں قرآن کا عربی متن لاطینی ترجمے کے ساتھ شامل تھا، اس نے قرآن کی تفہیم کے لیے اپنی تشریحات لکھی، اس وقت کے اپنے مذہبی عقائد کے تنازعہ فہم سے ہی لکھا، اسی ترجمے میں اس نے خصوصا ایک مضمون جس کا عنوان "قرآن کی تردید" رکھا، جس میں لوئس ماراکی نے بھی اس ترجمے کے اعتبار سے اپنے کیتھولک نظرئیے سے اسلام کو غلط ثابت کرنے کی کوشش ہی کی تھی، اس کی مذہبی تردید اسلام مخالف رحجان کی بنیاد پر ہی تھی، صرف ایک فرق تھا کہ اس نے ترجمے میں تحریف نہیں کی تھی، بطور مستشرق اس کی اسلامی ذرائع کے حوالہ جات پر اچھی نظر تھی۔ یہی ترجمہ بعد میں مزید تراجم کا بنیادی ماخذ بن گیا، فرانس میں پھر فرانسیسی میں Savory کا لکھا جانے والا ترجمہ اور جرمنی میں جرمن Nerreter کا لکھنا جانے والا ترجمہ اسی ترجمے کے ینیاد پر تھا۔ یہ بعد کے تراجم بالکل ہی غیر مستند تھے اور ان میں سے ایک کا تو یہ تک دعوی تھا کہ یہ سنہ ھجری 1165 میں مکہ میں شائع ہوا تھا۔

عموماً یورپی دنیا میں اسلام کے حوالے سے قرآن کے تراجم مسیحی پادریوں کی عمومی خدمات بس یہی تھیں، جن کا بنیادی مقصد ہی مذہب کے مخالف مذہب کی تردید تھا، یہی سارا مواد آج کل کئی اختلافی مباحث میں وہاں موجود ہے، ان کے علمی حلقوں میں بھی ان تراجم کے ناقص ہونے پر کثرت سے تنقید موجود ہے، اور بعد میں پرنٹنگ پریس آنے کے بعد سلطنت عثمانیہ کے ادوار میں روم میں قرآنی تراجم پر عموما رد کی بنیاد پر ہی کام کیا گیا، پرنٹنگ پریس کے آنے کے بعد آنے والے وقتوں میں امریکہ میں بھی شائع ہوئے، مخطوطہ جات کے ادوار میں چاہے مذہب کے حق میں یا رد میں لکھے جانے والے مذہبی تراجم اکثر مذہبی حلقوں کی جانب سے ہی قابل گرفت بن جاتے رہے، زیادہ پرانی بات نہیں شیکسپیئر کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ جب وہ اپنے دوست بین جونسن کے ساتھ "دی کنگ جیمز بائبل" کا ترجمہ کر رہا تھا، تو بین جونسن نے "دی بک آف آئزاک" کی کئی سطروں کا ترجمہ کرنے کے بعد شیکسپئیر سے پوچھا کہ "کسے معلوم ہوگا کہ ہم نے اس کام میں حصہ لیا؟" شیکسپیئر نے اسے جواب دیا: "شاید خدا کو ہی معلوم ہوگا"۔

نوٹ:

1- یہ مضمون کسی بھی مذہبی تاثر کے بجائے تاریخ کے حوالے سے لکھا ہے، نہ ہی اس میں کسی مذہب کا رد موجود ہے، نہ ہی کسی مذہب پر تنقید مقصود ہے۔ کیونکہ یہ کسی بھی مذہب کا مقدمہ نہیں ہے، مگر وہ معترضین اور مستغربین اس سے سبق ضرور سیکھ سکتے ہیں، جو ناقص بنیادوں پر مذہب اسلام ہر نوحہ کناں رہتے ہیں۔

2- اکثر کئی مستشرقین کے حوالہ جات جو قدیم مخطوطہ جات پر مبنی ہیں، وہ بھی اتنے ہی ناقص ہیں کیونکہ ان کی بنیادی ماخذات تحریفی تراجم پر مبنی ہیں۔

3- علم کے کئی دریا بے شک آج کل مغربی ممالک سے بہتے نظر آتے ہیں، مگر یہ دیکھنا ضرور ہوگا کہ "حی بن یقزان" جیسے معرکہ الآرا کتاب کا مصنف ابن سینا سے ابن طفیل تک رہے ہیں، ان چاروں میں سب سے مشہور مصنف، جس کے نام سے یہ کہانی منسلک ہے، ابوبکر ابن طفیل ہے ۔ اس ناول نے انگریز فلسفی "جان لاک" پر بہت اثر ڈالا ، جس نے ایک کتاب لکھی جس میں اس نے ذہن کو تمام وراثتی اصولوں اور رکاوٹوں سے پاک ایک خالی صفحہ کے طور پر بیان کیا۔ یہ ناول عالمی فکر و ادب کے کئی شاہکاروں کی بنیاد تھا، جیسا کہ کتاب (The Doctrine of the Priest )۔ ماؤنٹ ساوئی سے) فرانسیسی فلسفی ژاں جیک روسو کی طرف سے ہمیں اس کے اور ڈینیل ڈیفو کے ناول ( رابنسن کروسو ) کے درمیان بھی واضح ہے ،

ابن طفیل کا حی بن ہوازن ہی ناول رابنسن کا "جادوئی پیش رو" سمجھا تھا۔ جسے کروسو، اور اسے اسپینوزا، لیبنز، لیسنگ، گریسیئن، اور دوسروں نے سمجھا، ٹارزن جیسے کردار کا تخیل پیش کرنے والا ناول بھی یہی ہے۔

4- یہ درست ہے کہ مذہبی حوالے سے ہم اپنے زومبیز کا تذکرہ ان کی شدت پسندی کی وجہ سے کرتے نہیں تھکتے، مگر یہی سب کچھ مغرب میں زمانوں تک رہا ہے۔ اس کے مظاہر آج بھی کبھی کبھی نظر آجاتے ہیں۔

5- اس مضمون میں یورپین پادریوں کے نام لکھے ہیں تاکہ اگر آپ حوالہ جات تصدیق کے لئے دیکھنا چاہتے ہیں، تو یہ نام آپ گوگل پر لکھ لیں، تو آپ کی پوری تاریخ مل جائے گی۔ اس لیے مزید حوالہ جات لکھنے کی گنجائش نہیں رہتی۔