فكر ونظر
مغلوب قوم کيسی ہوتی ہے
نامعلوم
فاتح کی وردی اور وردی پر سجے تمغے، طلائی بٹن اور بٹنوں پر کنندہ طاقت کی علامات، اعزازی نشانات، اس کی نشست و برخاست کے طور طریقے، اس کے تمام حالات، رسم و رواج، اس کے ماضی کومفتوح لوگ اپنی تاریخ سے جوڑ لیتے ہیں، حتیٰ کہ وہ حملہ آور فاتح کی چال ڈھال کی بھی پیروی کرنے لگتے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ جس طاقتور سے شکست کھاتے ہیں اس کی کمال مہارت پر آنکھیں بند کرکے یقین رکھتے ہیں۔
محکوم معاشرہ اخلاقی اقدار سے دستبردار ہوجاتا ہے، ظلمت کا دورانیہ جتنا طویل ہوتا ہے ذہنی و جسمانی طور پر محکوم سماج کا انسان اتنا ہی جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ محکوم صرف روٹی کے لقمے اور جنسی جبلت کے لیے زندہ رہتا ہے۔جب ریاستیں ناکام اور قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں تو اُن میں نجومی، بھکاری، منافق، ڈھونگ رچانے والے، چغل خور، کھجور کی گٹھلیوں کے قاری، درہم و دینار کے عوض فتویٰ فروش فقہیہ، جھوٹے راوی، ناگوار آواز والے متکبر گلوکار، بھد اڑانے والے شاعر، غنڈے، ڈھول بجانے والے، خودساختہ حق سچ کے دعویدار، زائچے بنانے والے، خوشامدی، طنز اور ہجو کرنے والے، موقع پرست سیاست دانوں اور افواہیں پھیلانے والے مسافروں کی بہتات ہوجاتی ہے۔ ہر روز جھوٹے روپ کے نقاب آشکار ہوتے ہیں مگر یقین کوئی نہیں کرتا۔ جس میں جو وصف سرے سے نہیں ہوتا وہ اس فن کا ماہر مانا جاتا ہے۔ اہلِ ہنر اپنی قدر کھو دیتے ہیں، نظم و نسق ناقص ہو جاتا ہے، گفتار سے معنویت کا عنصر غائب ہوجاتا ہے، ایمانداری کو جھوٹ کے ساتھ، اور جہاد کو دہشت گردی کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے۔
جب ریاستیں برباد ہوتی ہیں تو ہر سو دہشت پھیلتی ہے اور لوگ گروہوں میں پناہ ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ عجائبات ظاہر ہوتے ہیں اور افواہیں پھیلتی ہیں۔ بانجھ بحثیں طول پکڑتی ہیں۔ دوست دشمن اور دشمن دوست میں بدل جاتا ہے۔ باطل کی آواز بلند ہوتی ہے اور حق کی آواز دب جاتی ہے۔ مشکوک چہرے زیادہ نظر آتے ہیں اور ملنسار چہرے سطح سے غائب ہوجاتے ہیں۔ حوصلہ افزا خواب نایاب ہو جاتے ہیں اور امیدیں دم توڑ جاتی ہیں۔ عقلمند کی بیگانگی بڑھ جاتی ہے۔ لوگوں کی ذاتی شناخت ختم ہوجاتی ہے اور جماعت، گروہ یا فرقہ اُن کی پہچان بن جاتے ہیں۔مبلغین کے شور شرابے میں دانشوروں کی آواز گم ہوجاتی ہے۔ بازاروں میں ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے اور وابستگی کی بولیاں لگ جاتی ہیں۔ قوم پرستی، حب الوطنی، عقیدہ اور مذہب کی بنیادی باتیں ختم ہوجاتی ہیں اور ایک ہی خاندان کے لوگ خونی رشتہ داروں پر غداری کے الزامات لگاتے ہیں۔بالآخر حالات اِس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ لوگوں کے پاس نجات کا ایک ہی منصوبہ رہ جاتا ہے اور وہ ہے "ہجرت"۔ ہر کوئی اِن حالات سے فرار اختیار کرنے کی باتیں کرتا ہے۔ تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ وطن ایک سرائے میں بدل جاتا ہے۔ لوگوں کا کل ساز و سامان سفری تھیلوں تک سمٹ آتا ہے۔ چراگاہیں ویران ہونے لگتی ہیں۔ وطن یادوں میں، اور یادیں کہانیوں میں بدل جاتی ہیں۔