داستان يوسف عليہ السلام اور قرآن مجيد

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : قرآنیات

شمارہ : مئی 2024

داستان يوسف عليہ السلام اور قرآن مجيد

تحرير --  مستنصر مير ،،   ترجمہ محمد صديق بخاری

(اس كہانی كا پلاٹ ، اس كے كردار اور اس كے اہم موضوعات)

اگر يہ كہا جائے كہ يوسف عليہ السلام كی كہانی پورے قرآن مجيد ميں اپنی مثال آپ ہے  تو بے جا نہ ہو گا-سورہ يوسف (سورة نمبر 12 )كی كم و بيش ايك سو آيات (1 )اس كہانی كی تمام تر جزئيات كو جس خوبصورت طريقے سے بيان كرتی ہيں اس سے نہ صرف كہانی ميں موجود تمام كردار جيتے جاگتے كردار بن  جاتے ہيں بلكہ اس كے پلاٹ كے عين مطابق  چلتے پھرتے بھی  دكھائی ديتے ہيں –مزيد حيران كن بات يہ ہے كہ اس كہانی كی تفصيلات سے  قرآن مجيد كے بعض بنيادی  موضوعات  كو سمجھنے ميں بھی  مدد ملتی ہے –

ہمارا يہ مقالہ جيسا كہ اس كے عنوان ہی  سے ظاہر ہے ، اس داستان كے صرف منتخب پہلو واضح كرنے تك محدود ہے يعنی كہ ہمارے پيش نظر اس كہانی كے ادبی پہلوكواجاگر اور بيان كرنا ہے –اس ليے ہم سورہ كے اس حصے كو (يعنی اس كا آخری حصہ)زير بحث نہيں لائيں گے جہاں قرآن مجيداس كہانی كو حضور ﷺ كے مكی حالات پہ منطبق كرتا ہے –عام طور پر اس سورة كے ادبی پہلوؤں كو نظر انداز كيا گيا ہے اس ليے ميں نے اس تحرير كو اسی پہلو كی شرح و وضاحت تك محدود ركھا ہے –اور اس حوالے سے يہاں كہانی كو دہرانا يا اس كا خاكہ بيان كرنا بھی ميرے خيال ميں بے مقصدہو گا- اگر كسی كو يہ كمی محسوس ہو تو وہ قرآن مجيد كے كسی بھی مستند ترجمے كی طرف رجوع كر سكتاہے البتہ جن آيات كا حوالہ اس تحرير كے ليے ضروري تھا  ، ان آيات كاترجمہ كسی سے مستعار نہيں بلكہ ميرا اپنا ہے –

1-كہانی كا پلاٹ

الجھنيں اور ان كا حل

اس كہانی كی اہم خوبی اس كے پلاٹ كا ايك خاص طريقے سے آگے بڑھنا اور واقعات كو بہت خوبصورت بلكہ سنسنی خيز طريقے سے منطقی انجام تك پہنچاناہے-كہانی كی بڑی بڑی الجھنوں نے كہانی كے پہلے نصف حصے كو گھير ركھا ہے جيسا كہ

الف-يوسف عليہ السلام كا خواب (آيت 4-6 )

ب-يوسف كے بھائيوں كی سازش-( آيت 8-18 )

ج-عزيز مصر كی بيوی كا يوسف كو گناہ كی ترغيب دينا-(آيت 23-29 )

د-مصر كی عورتوں كا يوسف كو لبھانا-(آيت 30-31 )(2 )

ھ-يوسف كا قيد ہونا-(آيت 35 )

و-بادشاہ كا خواب-(آيت 43-44 )

جب پلاٹ كی گتھياں سلجھنے لگتی ہيں تو آغاز كے بالعكس الٹ ترتيب سے سلجھتی ہيں-بادشاہ كا خواب( آيت 45 تا 49 ) جس كا نمبر كہانی ميں آخر ميں ہے اس كی تعبير پہلے سامنے آتی ہے-اس كے بعد يوسف عليہ السلام كی رہائی (آيت 50 )عمل ميں آتی ہے پھر مصری عورتوں كا اعتراف جرم اور اس كے بعد عزيز مصر كی بيوی كا اعتراف گناہ سامنے آتا ہے(آيت 51 ) –پھر بھائی اپنی كارستانی كا نتيجہ اور اس سے سبق سيكھتے ہيں اور آخر ميں يوسف عليہ السلام كے خواب كی تعبير منظر عام پر آتی  ہے(آيت 100 ) – يہی اس پلاٹ كا حسن ہے كہ كہانی جس خواب سے شروع ہوتی ہے اسی خواب كی تعبير پہ ختم ہوتی ہے –ادب ميں لف و نشر علی العكس كی اس سے  زيادہ خوبصورت مثال شايد ہی موجود ہو-

كہانی كے پلاٹ كے ضمن ميں دو تنقيدی سوال بہر حال ذہن ميں آتے ہيں پہلا يہ كہ يوسف كے جيل كے ساتھيوں كے خواب(آيت 36سے 42 ) كی طرف التفات نہيں كيا گيا - اس کو آپ ایک استثنی کہہ سکتے ہیں اور یا پھر" ھ "کا ضمیمہ اور یا" و"  کی تمہید کہا جا سکتا ہے- کیونکہ پلاٹ کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو یہ قافلے کی داستان (آيت 19-20 )کی مانند ہے اگرچہ قافلے کی كہانی  کا اس داستان ميں اپنا ایک کردار ہے لیکن یہ بہرحال ایک ضمنی کردار ہے- اسی طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ جیل کے ساتھیوں کا خواب بھی ایک ضمنی یا حادثاتی واقعہ ہے جس کا اصل کہانی سے بنيادی تعلق نہیں-  دوسرا اہم تنقیدی سوال جو ذہن میں آتا ہے وہ یوسف علیہ السلام کی رہائی سے متعلق ہے- ان کی رہائی خواتين اور عزیز مصر کی بیوی کے اعتراف کے بعد ہی عمل ميں آتی ہے تويہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ان کی رہائی "ج " اور"د" سے مقدم ہے- اس کا جواب یہ ہے کہ عملاً تو یوسف علیہ السلام جیل سے اس اعتراف کے بعد ہی باہر آتے ہیں لیکن بادشاہ   ان کی رہائی کا حكم خواتين كے اعتراف سے پہلے ہی دے چكا ہوتا ہے –يعنی يہ كہا جا سكتا ہےكہ یوسف علیہ السلام کی جیل سے  رہائی ميں تاخیر کا سبب اصل میں ان کا اس بات پر اصرار ہے کہ پہلے ان کی بے گناہی کا اعتراف کیا جائے-جب بادشاہ ان کو دوبارہ بلا بھیجتا ہے تو ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ "ائتونی بہ استخلصہ  لنفسی" یعنی کہ ان کو میرے پاس لاؤ تاکہ میں ان کو اپنا مصاحب خاص بنا لوں(آيت 54 )- دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ یوسف علیہ السلام اصل ميں تو آزادی کا پروانہ پہلے ہی حاصل کر چکے تھے البتہ رہائی ميں تاخير سے ان كو ایک خاص منصب بھی  مل جاتا ہے-

مماثلتيں

اس كہانی ميں بہت سی متماثل  اورمتوازی باتيں موجود ہيں  اور يہ متوازي واقعات بعض اوقات مماثلت كے اعتبار سے ہوتے نظر آتے ہيں اور بعض اوقات متضاد ہونے كے حوالے سے –سرسری نظر سے كہانی كا جائزہ ليا جائے  تو شايد يہ مماثلت اور مغايرت نگاہوں سے اوجھل رہ جائے ليكن اگر بنظر غائر ديكھا جائے تو بہت سی دلچسپ  باتيں نظر آتی ہيں مثلاً-

الف-  کنعان میں یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینکا گیا اور مصر میں قید کے اندر- اور ہر بار یہ ایک ناکردہ گناہ کی بنیاد پر کیا گیا -پہلا واقعہ برادران ِیوسف کے  حسد کی بنا پر ہوا جبكہ دوسرا واقعہ عزیز مصر کی بیوی کی محبت کی وجہ سے- کنویں سے باہر آئےتو یوسف کو غلام بنا کر فروخت کر دیا گیا جبکہ جیل سے باہر آنے پر وہ مصر کےمعنوی حکمران  کے طور پر سامنے آئے -

ب- پہلی بار بھائی یوسف کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں ليكن گھر واپس آتے ہیں تو اس کے بغیر آتے ہیں اور  دوسری بار وہ یوسف کے سگے بھائی بنیامین کو ساتھ لے جاتے ہیں اور اس بار بھی واپس آتے ہیں تو اس کے بغیر  آتے ہیں- یوسف کووہ اپنی مرضی سے ساتھ لے کے گئے تھے لیکن بری نیت سے جب كہ بنیامین کو وہ کسی کے کہنے پہ ساتھ لائے  تھے لیکن اچھی نیت سے-(كيونكہ اس كے بغير غلہ انہيں ملنےوالا نہ تھا)

ج- پوری کہانی میں بھائی دو بار خفیہ مشورے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں ایک بار کنعان میں(آيت 8تا10 ) اور دوسری بار مصر میں(آيت 80-81 )- کنعان میں ان کا مقصد یوسف کو ٹھکانے لگانا تھا اور مصر میں ان کا مقصد اپنی جان بچانا تھا-

د- جب خواتین مصر یوسف علیہ السلام کی توجہ حاصل نہ کر سکيں تو کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق انہوں نے اپنی ناکامی کو ان الفاظ میں چھپایا کہ بھئی یوسف تو کوئی فرشتہ ہے- اسی طرح جب بادشاہ کے درباری بادشاہ کے خواب کی تعبیر بیان نہ کر سکے تو انہوں نے اپنی ناکامی کو ان الفاظ  سے چھپایا کہ بھئی یہ خواب تو بس منتشر خیالات ہيں اور كچھ نہيں- خواتین تو اپنی سی کوشش کر کے ناکام ہوئی تھیں جبکہ بادشاہ کے درباریوں نے تو بغیر کوشش کے ہی ہاتھ کھڑے کر دیے تھے-

ھ- اس کہانی میں محبت حاصل کرنے کی دو کوششیں نظر آتی ہیں ایک تو بھائیوں کی کوشش ہے جو باپ كی پدری شفقت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ایک عزیز مصر کی بیوی کی کوشش ہے جو جنسی محبت جیتنا چاہتی ہے اور عجيب مماثلت يہ ہے كہ دونوں ہی اپنی مقاصد حاصل کرنے کے لیے سازش پر انحصار کرتے ہیں-

کہانی میں ڈرامائی عناصر

يہ كہانی ڈرامائی عناصر سے بھر پور ہے –اس ميں بہت سے سنسنی خيز مناظر اور ڈرامائی لمحات آتے ہيں جو قاری كو باندھ كے ركھتے ہيں-مثلاً

الف- کہانی کا انداز ہی ایک ڈرامائی بات سے ہوتا ہے اور یہ بات کہانی کو ايك ا يسا انداز عطا کر دیتی ہے کہ پھر کہانی کے تمام سین اسی انداز میں باہم جڑتے اور آگے بڑھتے چلے جاتے ہيں- کہانی کے شروع ہی میں یوسف علیہ السلام ایک غیر معمولی خواب دیکھتے ہیں اور قاری کو بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ خواب یقیناً بہت اہمیت کا حامل ہونے والا ہے اس كے ساتھ ہی البتہ قاری  ایک مشكل  میں پھنس جاتا ہے کہ اس کی تعبیر کیا ہو سکتی ہے-

جب یوسف علیہ السلام اپناخواب  باپ کو بیان کرتے ہیں تو قاری یہ گمان کر رہا ہوتا ہے کہ وہ اس کی تعبیر بتائیں گے لیکن بجائے تعبیر بتانے کے وہ یوسف کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ بتانا چنانچہ يہ  بات کہانی کے سسپنس كو مزید بڑھاديتی ہے اور ساتھ ہی بالواسطہ طو ر پر  ایک قاری کا تعارف يوسف كے بھائیوں  اور ان كے مشكوك كردار سے بھی ہو جاتا ہے - جبکہ دوسری طرف کہانی کے آغاز ہی سے یوسف علیہ السلام کی شخصیت کا تاثر قاری کے ذہن میں ایک نیک اور با کردار شخصیت کا بنتا ہے- اور یہیں سے کہانی میں باہم متضاد اور متصادم کرداروں اور واقعات کا آغاز ہو جاتا ہے- جلد ہی بھائی منظر عام پہ آ جاتے ہیں اگرچہ یعقوب نے اس امکان پر بات کی تھی کہ وہ یوسف کے خلاف کسی سازش(كيد) کا جال بن سکتے ہیں مگر ان کی گھناؤنی سازش کی حقیقت صحیح معنی میں قاری پر اُسی وقت واضح ہوتی ہے جب ان کا منصوبہ کھل کر سامنے آتا ہے-سازش کی منصوبہ بندی- بھائیوں نے یعقوب علیہ السلام کو اس بات پر قائل کرنے اور منانے کی بہت کوشش کی کہ وہ یوسف علیہ السلام کو اُن کے ساتھ پکنک(3 ) پر جانے دیں اور اگرچہ يعقوب نے اس پر کافی مزاحمت کی لیکن بالآخر وہ مان گئے- اِدھر بھائی خون آلود قمیض کے ساتھ گھر لوٹتے ہیں اور اُدھر ایک قافلے کا کنویں کے قريب سے گزر ہوتا ہے- پانی کی تلاش میں جانے والا شخص یوسف کو کنویں سے باہر نکالتا ہے -خوشی کی ایک لہر اُس میں دوڑ جاتی ہے چونکہ اس کے بدلے میں اس کو چند سکے ملنے کی امیدتھی -لیکن دوسری طرف وہ خوف زدہ بھی تھا كہ کہیں ايسا نہ ہو كہ مضافات كا كوئی شخص يوسف كا دعويدار بن جائےاور ہاتھ آيا ہوا  خزانہ اس سے چھن جائے- جوں جوں یوسف قافلے کے ساتھ مصر کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں توں توں کہانی بھی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے- ایک واقعے سے دوسرا واقعہ جنم لیتا ہے اور کہانی کی دلچسپی اور اس کے سسپنس میں مزید اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے-

ب- کہانی میں بہت سے مقامات ايسے بھی ہیں کہ جہاں متوقع واقعات کا  قبل از وقت تھوڑا سا اندازہ ہو جاتا ہے- لیکن یہ اندازہ پیدا کرنے کے لیے عمداً کوئی خاص تکنیک استعمال نہیں کی گئی بلکہ کہانی کے آگے بڑھنے کا انداز ہی کچھ ایسا فطری ہے کہ  پیش بینی اور نا پیش بینی کے مابین ایک بڑا خوبصورت سا توازن خود بخود ہی پیدا ہو جاتا ہے- مثلاً  یعقوب جب یوسف کاخواب سنتے ہیں تو وہ اسکو بھائیوں کی چال اور حسد کے بارے میں متنبہ کرتے ہیں اور پھر اگلی ہی چند آیات میں ہمیں یہ مل بھی جاتا ہے کہ بھائی پہلے ہی یوسف کے خلاف ايك  سازش  كے تانے بانے بننے  پر مجتمع ہيں یعنی یعقوب کو جو خوف تھا وہ رونما ہو چکا تھا -لیکن اس کے اندر حیرانی کا عنصر یہ ہے کہ یعقوب نے تو یہ سوچا تھا کہ بھائی چال تب چلیں گے جب وہ یوسف کا خواب سنیں گے لیکن بھائیوں نے یوسف کا خواب نہ سننے کے باوجود بھی وہ چال چل دی جس کا انہيں خوف تھا-

ج- کہانی میں بعض مقامات ایسے ہیں کہ جب قاری یہ محسوس کرتا ہے کہ جیسے بعض چیزوں کا ذکر تو بس  ضمناً ہوا ہے لیکن جلد ہی قاری کو یہ محسوس ہو جاتا ہے کہ نہیں بلکہ ان  باتوں کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی  شگون ياپیغمبرانہ  اشارہ موجود تھا- بھائی  اس تجويز پر متفق ہو جاتے ہیں کہ یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینک دیا جائے اور اس تجویز کے پیچھے ان کا مقصد یہ تھا کہ کوئی قافلہ آئے گا اور یوسف كوکنویں سے نکال لے گا اس طرح کم از کم يوسف کی جان بچ جائے گی لیکن یہ صرف ایک امید تھی جبکہ بھائی حقیقت میں یہ نہیں جانتے تھے کہ واقعتاً قافلہ پہنچ جائے گا اور پھر وہ عین وقت پہ پہنچ جائے گا- یہ تو بس كچوكے لگاتے ہوئے ضمير كو چپ كرانے كے ليے ايك جھوٹی تسلی تھی- یہاں پہنچ کر قاری کو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ قافلے کا ذکر ضمناً نہیں تھا بلکہ اس کی اپنی ایک خاص اہمیت تھی- یعقوب کو یہ خوف لاحق تھا کہ یوسف کو کوئی بھیڑیا کھا جائے گا جب کہ بھائی یعقوب کو یہ یقین دلا رہے تھے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا- اگرچہ واپسی پر بھائی کوئی اور بہانہ بھی کر سکتے تھے لیکن انہوں نے یعقوب کو یہی بتایا  کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا ہے تو اس طرح بھیڑیے کا حوالہ بھی صاف محسوس ہو جاتا ہے کہ ضمنا ًنہیں تھا بلکہ اس کی بھی اپنی ایک اہمیت تھی- (لفظ بھيڑ يے  كے استعمال سے غالباً بھائيوں كی سرشت كی طر ف اشارہ بھی مقصود تھا كہ وہ  بھی بھيڑ يے  كی سرشت كے حامل تھے –مترجم )بہرحال یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کہانی کا پلاٹ بہت ہی خوبصورتی سے گندھا گیا ہے- واقعات کی ایک خاص ترتیب  کہانی کے اندر ایک ايسا ڈرامائی عنصر پیدا کر دیتی ہے  جو قاری کی دلچسپی کو آخر تک برقرار رکھتی ہے-

كہانی كے  موضوعات

اس سورت کے بہت سے موضوعات ہیں لیکن ہم بآسانی یہ امتیاز کر سکتے ہیں کہ مرکزی موضوع کون سا ہے اور ضمنی موضوعات کون سے ہیں جبکہ سابقہ کا لاحقے سے ایک بڑا قریبی تعلق قائم رہتا ہے-

مركزی موضوع

خدائی مقاصد كی جابرانہ تكميل

الف- لاغالب الا اللہ

یوسف علیہ السلام کی کہانی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ خدا کی مرضی غالب آکر رہتی ہے اور جو وہ چاہتا ہے ہر حال میں وہی ہوكر رہتا ہے- اور یہ مرکزی موضوع سورت کی آیت نمبر 21 میں بیان ہوا ہے "واللہ غالب علی امرہ ولكن اكثر الناس لا يعلمون "يعنيکہ اللہ اپنے ارادے كی تنفيذ پر غالب ہے ليكن اكثر لوگ نہيں جانتے- سورہ کے معنی ومطالب کے اعتبار سے یہی آیت اس سورہ کی مرکزی آیت ہے اور اس آيت كا مركزی لفظ بھی "غالب" ہی ہے- 

یوسف ایک ایسی صورتحال میں گھر جاتے ہیں كہ جس سے زيادہ مايوس كن صورتحال كا تصور بھی محال ہے -  اپنے خاندان سے جد ا کر كے انہيں ایک ایسے  ملک میں غلام بنا کے بیچ دیا جاتا ہے كہ  جس کے لوگ كنعانيوں کے بارے ميں كوئی اچھا خيال نہ رکھتے تھے اور پھر بالآخر  جیل کے اندر بھی ڈال دیے جاتے ہیں-ايك كے بعددوسری مصيبت جمع ہوتی رہتی ہے اور اميد كاہر دروازہ بند ہو جاتا ہے-اس طرح  حالات كےلق و دق صحرا ميں يكدم سے خدائی ابر رحمت يوسف پر سايہ فگن ہو جاتا ہے اور يوسف يكدم خود كو شہرت اور طاقت كی ايسی ٹھنڈی چھاؤں ميں پاتے ہيں جس كا وہ تصور بھی نہيں كر سكتے تھے-اور يوں خدا  كی مرضی غالب آ  كر رہتی ہے-خدا ہی تن تنہا اس كائنات كا خالق اور مالك ہے –نہ صرف ہر ہر چيز اس كے قبضہ قدرت ميں ہے بلكہ اسی كا امر ہر چيز پر غالب ہے –يہ موضوع قرآن كی دوسری سورتوں ميں بھی كسی نہ كسی صورت ديكھا جا سكتا ہے ليكن سورہ يوسف وہ واحد سورہ ہے جس ميں نہ صر ف يہی موضوع  غالب ہے بلكہ لفظ "غالب" بطور صفت الہی بھی پورے قرآن ميں صرف  اسی سورة ميں ايك بار استعمال ہواہے - اس کے علاوہ اس لفظ(غالب( کے مادے یعنی "غ ، ل ، ب " سے ایک اور فعل بھی قران مجید کی سورة نمبر 58 کی آیت نمبر 21 میں استعمال ہوا ہے-لاغلبن انا و رسلي-كہ ميں اور ميرے رسول ہي غالب رہيں گے- لیکن یہ آیت ایك  خاص  قسم کی فتح کو بیان کر رہی ہے یعنی خدا اور اس کے پیغمبروں کی فتح کافروں کے خلاف- جب کہ سورہ یوسف کی آیت نمبر 21 لفظ غالب كے تمام ممكن اطلاقات كو اس كی پوری جامعيت كے ساتھ بيان كر رہی ہے-يعنی كہ خدا كو ہر ہر امر پر مكمل غلبہ حاصل ہے – گويا يہ آيت  ايك ايسا عالمی اصول بيان كر رہی ہے كہ جس كی مطلق صحت كے بارےميں كوئی دوسری رائے نہيں-

ب- لطيف

اگرچہ یہ سورہ اللہ رب العزت کی حاکمیت اور غلبے کو بیان کر رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ  اس ميں اس بات کو بھی  واضح کیا گیا ہے کہ اللہ کا یہ غلبہ کس طریقے سے روبہ عمل لایا جاتا ہے- اور اس سلسلے میں متعلقہ آيت کا نمبر 100 ہے یعنی ان ربی لطیف  لما يشاء یعنی اللہ كے ہاں مقاصد كی تكميل بڑے ہی لطيف ذرائع سے كی جاتی ہے - یہاں پر  کلیدی لفظ "لطیف "ہے جسے اسماء الحسنی کے طور پر استعمال کیا گیا ہے- بطور صفت الہی  اس لفظ کا استعمال قران مجید کے اور مقامات پر بھی ہوا ہے لیکن اگر ہم تقابلی جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دوسرے مقامات پر اس لفظ کا اطلاق اپنے سیاق تک محدود ہے(4 )- جبکہ اس سورة میں لفظ غالب کی طرح یہ لفظ  سیاق سے ہٹ کر اپنے وسیع تر معنی ميں استعمال ہوا ہے- لیکن یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اللہ اگر غالب ہے تو کیا وہ اپنے مقاصد  جبر سے حاصل کر لیتا ہے اور دوسری طرف اگر وہ لطیف ہے تو کیا وہ اپنے مقاصد بہتر اور خوبصورت طریقے سے حاصل كرتا ہے-  اس سوال كا جواب پانے كے ليے ہميں اللہ كی دو اور صفات كو جاننا ہو گا يعنی اللہ كا عليم او رحكيم ہونا-

ج-عليم اور حكيم

دو اور خدائی صفات بھی اس سورة میں واضح اور ممتاز نظر آتی ہیں  اوروہ ہيں اللہ کا" علیم "اور "حکیم" ہونا-

اور یہ دونوں صفات سورة  کے شروع ، درمیان ، اور آخر میں ايك ساتھ استعمال کی گئی ہیں- گویا ان دو صفات کی صورت میں قران ایک قاری کو وہ تناظر فراہم کر رہا ہے کہ جس تناظر میں اسے اس کہانی کا مطالعہ کرنا چاہیے-

اور ان صفات کے ایک ساتھ بیان کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس بات کو واضح کیا جائے کہ خدائی مقاصد  عالم الغیب کی گہری حکمت کے تحت حاصل کیے جاتے ہیں- کہانی کے شروع میں یعقوب علیہ السلام  یوسف کا خواب سن کر ان كے ليے  ایک بلند مرتبہ مستقبل کی پيشنگوئی كرتے  ہوئے بھی يہی کہتے ہیں کہ خدا علیم و حکیم ہے(آيت 6 )-اس موقع پر ان كے  کہنے کا مطلب یہی تھا کہ يقيناً خدا كا ہر کام ايك گہری حکمت کے تحت ہی انجام پاتاہے- کہانی کے سارے واقعات ابھی رونما ہونے تھے لیکن ان سے پہلے ہی یعقوب کے ان الفاظ کو ادا کرنے کا مقصد امید کی ایک روشنی فراہم کرنا ہے اور کہانی کے درمیان میں یعقوب جب ان الفاظ کو  دہراتے ہیں جب کہ ہرممکن برے حالات   ظہور پذیر ہو چکے تھےتو اس موقع پر ان کا یہ کہنا اللہ پر بھروسے اور توکل کی روشنی فراہم کرتا ہے- کہانی کے آخر میں بھی (آیت نمبر 100 ) یعقوب علیہ السلام ان الفاظ کو كہتے ہیں- يہ وہ  موقع تھا جب کہ تمام مسائل حل ہو چکے تھے اور کہانی اپنے انجام کو پہنچ چکی تھی تو اس موقع پر ان کا یہ کہنا اصل میں شکرانے کا اظہار ہے- "غالب" اور "لطیف "کے ساتھ ساتھ علیم اور حکیم ہونے کا بار بار اظہار ايك طرف تو كہانی ميں خدائی صفات كے مابين ايك خوبصورت توازن پيدا كرد يتا ہے اور دوسری طرف

قاری كو  اس نتیجے تک  پہنچنے سے بچا ليتا ہے کہ اس کا خدا من موجی یا متلون مزاجی کا حامل ہے- کہانی کا مرکزی خیال اللہ کی چار صفات کے گرد گھومتا ہے یعنی اس کا غالب اور لطیف ہونا اور اس کے ساتھ ساتھ ہی علیم اور حکیم ہونا - اس بات کا خلاصہ بڑی جامعيت كے ساتھ سورة کی آیت نمبر 100 میں بیان کر دیا گیا ہے -یہ آیت ان چار میں سے تین صفات كو تو  واضح طور پر بیان کرتی ہے جبكہ چوتھی صفت بين السطوربآسانی اخذ كی جا سكتی ہے –(ان ربي لطيف لما يشاءانہ ہو العليم الحكيم) آیت کی اگر مزید تشریح کی جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ اللہ قادر مطلق ہے ، اور اس کی قدرت ہر ہر چیز پر حاوی ہے لیکن وہ اپنے کاموں کو بہت ہی لطیف طریقے سے سرانجام دیتا ہے اور اس کی قدرت کا ظہور بھی چند قوانین کے تحت ہوتا ہے وہ قوانین جو اس كی لا محدود حكمت ِ مطلق نے خود ہی اپنے لیے  طے کر لیے ہیں جنہیں  قرآنی اصطلاح میں سنت کہا جاتا ہے-سارے كے سارے علم كا منبع و مركز اسی كی ذات ہے- وہی عالم الغيب والشھادة ہے اس ليے وہی بہتر جانتا ہے كہ كن حالات ميں كون سا كام يا كون سی حكمت عملی بہتر ثابت ہو گی –

ضمنی موضوعات

 باقی سارے قرآن کی طرح سورہ یوسف بھی انسان اور خدا کے گرد گھومتی ہے- یہ نہ صرف خدائی صفات کے بارے میں بہت سے ابہام  دور کرتی ہے بلکہ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ انسان کا خدا سے تعلق كس طرح كا ہونا چاہیے، وہ خدا جو ان ساری صفات کا حامل ہے اور اسی سے سورہ کے بعض ضمنی موضوعات سامنے آتے ہیں-

الف-خدائی مقاصد سے  ہم آہنگ ہو کر زندگی بسر کرنے کے لیے مطلوب خصوصیات

 پہلا ضمنی موضوع جو ہمارے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو خدائی مقاصد سے ہم آہنگ ہو کر زندگی بسر کرنی چاہیے يعنی اسے اخلاقی قوانین کی پابندی کرنی چاہیے کیونکہ انہی اخلاقی قوانین كا دوسرا نام خدائی مقاصد ہے- اور یہ کسی اور کے لیے نہیں بلکہ خود انسان ہی کی راہنمائی کے لیے اللہ نے تجویز کیے ہیں- اور اس ہم آہنگی کے لیے  انسان کو تین خصائص كی ضرورت ہے - پہلا ہے علم دوسرا توکل اور تیسرا احسان- بعض منتخب افراد یعنی کہ پیغمبر جن کے ذمے انسانوں کو سیدھی راہ دکھانا ہے انہیں اللہ  اپنے قوانین کی ایک خاص سمجھ عطا فرماتے ہیں- یعقوب اور یوسف ایسے ہی افراد ہیں  جن كے پاس يہ علم موجودتھا-ہمیں یعقوب کے بارے ميں آيت 68 میں یہ بتایا گیا کہ وہ اس خاص علم کے حامل تھے جو کہ خدا نے ان کو سکھایا تھا –(وانہ  لذو علم لما علمنہ ( ( اسي طرح آيت 86 اور92 بھي ديكھيے)جہاں تک عام انسانوں کا معاملہ ہے انہیں اس طرح کا علم  ان لوگوں سے حاصل کرنا چاہیے جن کو اللہ کی طرف سے ودیعت کیا گیا ہو اور یہی وہ علم تھا جس کے ذریعے یوسف علیہ السلام اپنے جیل کے ساتھیوں کی تربیت کرنا چاہ رہے تھے -اگر ایک دوسرے سیاق میں دیکھا جائے تو یہی وہ علم تھا  جسے يوسف كے بھائيوں نے یعقوب سے حاصل کرنے سے  انکار کر دیا تھا- آیت 86 اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یوسف علیہ السلام کے پاس یہ علم خاص موجود تھا جبکہ یوسف کے بھائی اس سے  نا بلد تھے- دوسری خصوصیت توکل ہے جس کی طرف آیت 67 اشارہ کرتی ہے - علیہ توکلت و علیہ فليتوكل المتوكلون میں نے اپنا سارے کے سارا بھروسہ اللہ ہی پر کیا اور بھروسہ کرنے والوں کو صرف اسی ایک ذات پر بھروسہ کرنا چاہیے-  انسانی علم چاہے کتنا ہی کیوں نہ ہو وہ بہرحال مکمل نہیں ہو سکتا -توکل انسانی علم کے نقائص اور خامیوں کو دور کرتا ہے اور اس کو ایسی صورتحال میں سہارا فراہم کرتا ہے جہاں انسانی دانش جواب دے جاتی ہے -یوسف علیہ السلام كے ہاں  يہ خوبی بدرجہ اتم موجود تھی جبکہ ان کے بھائی  اس سے بھی عاری تھے-

اگرچہ یعقوب علیہ السلام میں تیسری خوبی یعنی "احسان" موجود تھا لیکن یوسف علیہ السلام ميں يہ خوبی بدرجہ اتم موجود تھی اور اس سورة کے اندر لفظ محسن کا استعمال بھی غالباً یوسف علیہ السلام کے لیے ہی کیا گیا ہے- اور لفظ محسن کا اطلاق یوسف علیہ السلام کے لیے  اس ليے بھي موزوں نظر آتا ہے كہ احسان ایک عملی نیکی ہے اور کہانی کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یعقوب نہیں بلکہ یوسف علیہ السلام کو دوسروں کے برے اعمال کا خمیازہ بھگتنا پڑا چنانچہ  اس نیکی کے عملاً اظہار کا اصل موقع بھی انہی کو ملا- اس سورة کی آیت نمبر 90 کے اندر بھی احسان کی جامع تعریف کی گئی ہے –انہ من يتق و يصبر فان اللہ لا يضيع اجر المحسنين- جو تقوے اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں يقيناً اللہ ان کے نیک اعمال کے اجر کو ضائع نہیں کرتا- دوسرے لفظوں میں احسان نا م ہے تقوے اور صبر کے  مجموعے كا-صبر کا مطلب ہے کہ مصیبتوں اور مشکلات کے باوجود ثابت قدم رہنا اور تقوے کا مطلب یہ ہے کہ ترغیبات اور تحریصات کے باوجود  نیکی پر قائم رہنا- انسان کی عادت ہے کہ وہ خطرے اور مشکلات سے گھبراتا ہے تو صبر کی صلاحیت انسان کو اپنی اس عادت پر قابو پانے میں مدد دیتی ہے جب کہ تقوے کی صلاحیت انسان كو ہر چمکتی چيز كی طرف لپكنے سے بچاتی ہے- یہ دونوں صفات ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں اور ان دونوں کی وجہ سے یوسف علیہ السلام تمام آزمائشوں سے سرخرو ہو کر نکلے اسی وجہ سے وہ محسن کے خطاب کے عین مستحق ہیں- باقی صفات کی طرح برادران یوسف اس صفت سے بھی عاری ہیں اور اس کے برعكس ان کے ہاں صفت ظلم پائی جاتی ہے- ظلم احسان کے بالکل متضاد ہے جیسا کہ درج ذيل سے اس کی شہادت ملے گی- جب بھائیوں نے یوسف علیہ السلام کو كہ جنہیں وہ خود محسن کہتے ہیں (آیت 78 )یہ تجویز پیش کی کہ وہ بنیامین کی بجائے ان میں سے کسی ایک کو مصر میں روک لیں تو یوسف علیہ السلام نے جواب دیا (آیت 79 )کہ اس صورت میں تو میں ظالموں میں سے ہو جاؤں گا- اور مزے کی بات یہ ہے کہ بھائی خود اپنے منہ سے اپنی مذمت کرتے ہیں- جب ان سے پوچھا گیا کہ کسی چور کی کیا سزا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ جس کی اس نے چوری کی ہو ، اس کا غلام بنا دیا جائے اور پھر وہ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں( آیت 75) كذلك نجزی اظلمين اسی طرح ظالموں کو سزا دی جاتی ہے- الغرض يہ کہا جا سکتا ہے کہ علم توکل اور احسان وہ خوبياں ہيں كہ جن كو بروئے کار لاتے ہوئے  (ان كی  مثالیں یوسف اور یعقوب کی زندگی میں موجود ہیں) کوئی شخص یہ امید کر سکتا ہے کہ وہ اس دنیا میں خدائی مقاصد سے ہم آہنگ ہو کر زندگی بسر کر سکے-

ب-تقدیر اور تدبیر کا تعلق- ایک متوازن نقطہ نظر

جب ہم یہ کہتے ہیں ایک انسان کو خدائی مقاصد سے ہم آہنگ ہو کر زندگی بسر کرنی چاہیے تو گویا ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انسان کو خدائی تقدیر سے ہم آہنگ ہونا چاہیے لیکن جب  یہ بات آتی ہے تو فورا ًیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب تقدیر میں سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہے تو پھر انسانی تدبیر کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے- سورہ یوسف اس ضمن میں اُس توازن کو بڑی خوبصورتی سے واضح کرتی ہے  جو كسی بھی مومن کو تقدیر اور تدبير کے مابین قائم رکھنا چاہیے- تقدیر پر ایمان انسان کو اس کی ذمہ داریوں سے آزاد نہیں کرتا- انسان کو اختیار اور ارادے کی جو آزادی دی گئی ہے اس سے کام لینا بہرحال اس کے ذمے ہے- یعقوب علیہ السلام اگرچہ اللہ پركامل بھروسہ اور توکل رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنے اختیار اور ارادے کی آزادی کو بھی استعمال کرتے ہیں اور اپنی عقل و دانش کو بھی پوری طرح بروئے کار لاتے ہیں -مثلاً جب بھائی اس بات کی درخواست کرتے ہیں کہ بنیامین کو ان کے ساتھ مصر جانے دیا جائے تو وہ ان کے لیے بہت ساری احتیاطی تدابیر بیان کرتے ہیں- پہلے تو وہ ان سے یہ عہد لیتے ہیں کہ وہ بنيامين کو واپس لانے کی پوری پوری کوشش کریں گے- پھر وہ ان سے کہتے ہیں کہ وہ مصر میں داخل ہوتے ہوئے الگ الگ دروازے سے داخل ہوں - اس طرح گویا وہ انہیں ایک تدبیر بتاتے  ہيں- یہ تدبیر انہوں نے اس لیے بتائی کہ ایسا نہ ہو کہ مصر کے  جرائم پیشہ لوگ انہیں  غیر ملکی امير لوگ سمجھ کر  ان كا كوئی نقصان كر بيٹھيں كيونكہ يہ ويسے بھی قحط كا زمانہ تھا اور لوگ قحط كے ہاتھوں مجبور بھی تھے - یہ تدبیر بتاتے ہوئے یعقوب علیہ السلام نے ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا کہ ان کی یہ تدبیر ان کو خدا کی تقدیر سے بچا نہیں سکتی- اگر خدا کی تقدیر میں ان کے خلاف کچھ ہونا طے ہے تو وہ تو ہو کر رہے گا لیکن بہرحال ہمیں اپنی تدبیر کرنی ہے تو گویا یعقوب علیہ السلام نے تقدیر اور تدبير کے مابین رشتے کو بڑی خوبصورتی سے واضح فرما دیا-(آيت 66، 67(یعقوب علیہ السلام کی طرح یوسف علیہ السلام نے بھی تقدیر اور تقدیر کے مابین توازن کو بڑی خوبصورتی سے واضح کیا ہے جب وہ اپنے جیل کے دو ساتھیوں کو خواب کی تعبیر بتاتے ہیں تو ان میں سے ایک سے کہتے ہیں کہ  بادشاہ کے پاس جا کر اُن کا  ذکربھی كرے- يہ بات كہتے ہوئے گویا وہ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ناكردہ جرم كی سزا سے  رہائی  پانے کے لیے اپنی سی تدبیر کرنا كوئی غيرمناسب ياغير مذہبی چيز نہيں ہے-

ج-آزمايش ، مكافات، ندامت

آخری ذيلی موضوع تین ضمنی موضوعات پر مشتمل ہے یعنی آزمائش مکافات اور ندامت-

آزمايش-

 آزمائش کا تصور قرآن مجید کا ایک بنیادی تصور ہے -قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ ہم نے انسان کو یہ زندگی آزمائش کے لیے دی ہے –الذي خلق الموت والحیاة ليبلوكم ايكم احسن عملا-يعنی، خدا نے زندگی اور موت اس لیے تخلیق كی ہے تاکہ تمہیں آزمائے کہ کون اچھے عمل کر کے آتا ہے(سورہ 67 آيت2 )-  سورہ یوسف میں اس بات کو نمایاں کیا گیا ہے کہ اس آزمائش سے کسی کو بھی استثنی حاصل نہیں ہے حتی کہ اللہ کے پیغمبروں کو بھی- کہانی کے آغاز میں ہم دیکھتے ہیں کہ اگرچہ یوسف علیہ السلام كو پيغمبر بننا تھا لیکن پھر بھی انہیں بچپن سے لے کر جوانی تک آزمائشوں کے پورے سلسلے سے گزرنا پڑاجب کہ یعقوب علیہ السلام تو پہلے ہی پیغمبر تھے اور پیغمبری کی حالت میں ہی ان کو بہت سی آزمائشوں سے گزرنا پڑا- کیونکہ کوئی بھی اس امتحان سے مبرا نہیں ہے اس لیے قرآن مجید نے صراحت سے بيان كر ديا ہے  کہ اس کے لیے انسان کو ہمیشہ آزمايش كے ليے  تیار رہنا چاہیے-(ولنبلونكم بشی من الخوف----------- قرآن کہتا ہے کہ ہم انسان کو آزمائیں گے خوف سے ، بھوک سے اور جان و مال کے نقصان سے-مترجم)

مكافات

اسی طرح مکافات بھی قرآن کا ایک بنیادی تصور ہے اور اس کے ایك خاص پہلو کو اس سورة کے اندر بہت نمایاں کیا گیا ہے- اسلامی نقطہ نظر سے یہ دنیا دارالعمل ہے اور آخرت دارالجزا  لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہمارے اعمال اس دنیا پر اثر انداز نہیں ہوتے یا یہ کہ ان کا اس دنیا میں کوئی صلہ نہیں ملتا-دوسرے لفظوں ميں يوں بھی كہا جا سكتا ہے كہ آيا ہمیں دنیاوی کامیابی کی امید پر کوئی بھی کوشش نہیں کرنی چاہیے؟ اس طرح کی دنیاوی کامیابی کو سورہ یوسف کے اندر ایک مثبت قدر کے طور پر دیکھا گیا ہے - آیت 90اچھے اعمال کے بدلے کی بات کرتی ہے اگرچہ یہ حوالہ خالص اس دنیا سے متعلق نہیں ہے لیکن دنیاوی کامیابی اور خوشحالی بھی اس کے اندر شامل ہے-

ندامت اور توبہ

تیسرا ضمنی موضوع پہلے سے متعلق ہے یعنی آزمائش سے- جب تک کوئی بھی شخص اس دنیا میں زندہ ہے وہ اللہ کے قانون آزمائش کے تحت آزمایا جاتا رہے گا- ایک کے بعد دوسری آزمائش میں ڈالا جائے گا لیکن کسی آزمائش میں ناکامی کا یہ مطلب  ہر گز نہیں کہ وہ مایوس ہو کر بیٹھ رہے- امید کی کرن ہمیشہ روشن رہنی چاہيےكيونكہ ندامت اور توبہ کا دروازہ ہميشہ کھلا رہتا ہے- یہ نقطہ ہمیں كہانی کے اختتام سے ملتا ہے کہ جب یوسف کے بھائی اپنی غلطی پر ندامت محسوس کرتے ہیں اور اپنے باپ سے کہتے ہیں کہ وہ ان کے لیے اللہ سے توبہ اور استغفار  کرے اور یعقوب علیہ السلام اس پر راضی ہو جاتے ہیں-

ہم نے بنیادی اور ضمنی موضوعات کے درمیان جو خط امتیاز کھینچا ہے وہ کوئی حتمی نہیں ہے- یہ سارے موضوعات باہم ایک دوسرے سے متعلق ہیں اور یہ عین ممکن ہے کہ كسی موقع پر ہم کسی ضمنی موضوع کو زیادہ اہمیت دیں یا کسی دوسرے موقع پر بنیادی موضوع کو لیکن جو بات ہمیشہ سامنے رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ  ان سارے موضوعات کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور سب موضوعات کے اس باہمی تعلق کو سامنے رکھتے ہوئے ہی ہم سورہ کے کسی جامع موضوع كا تصور ذہن ميں لا سكتے ہيں-

سورة كے كردار

عمومی تبصرہ

سورۃ یوسف کی کہانی کے کرداروں کا مطالعہ اصل میں قرآن کی حقیقت پسندی کا مطالعہ ہے- قرآن مجید اچھے اور برے کردار میں  واضح طور پر خط امتیاز کھینچتا ہے تاکہ يہ واضح ہو جائے كہ اچھے كردار كے اسوہ پر چلنا ہے اور برے کردار جيسی حركتوں سے بچنا ہے - اس واضح خط امتیاز کے باوجود قرآن مجید ان کرداروں میں موجود انسانی عنصر کو پس منظر میں نہیں جانے دیتا اور زندگی كے حقيقی رنگوں سے ان كی تصوير كشی كرتا ہے - صرف برے ہی نہیں بلکہ اچھے کردار بھی  جيتے جاگتے كردار لگتے ہيں- قرآن مجيد کہانی میں ان كا رول  پوری قوت سے ظاہر كرتا ہے –يہ كردار اپنی اچھا ئی كے باوجود زندگی كے  نشیب و فراز کا اسی طرح سامنا کرتے ہیں جس طرح کہ  سارے عام انسان - کردار اور عمل کے مابین کیا تعلق ہونا چاہیے، یہ سورة اس کی بہترین تصویر کشی کرتی ہے جیسا کہ پہلے بھی یہ بتایا گیا کہ ہر انسان کو آزمائشوں کے ایک سلسلے سے ضرور گزرنا ہے لیکن  ان آزمائشوں میں کامیابی یا ناکامی  پہلے سے متعین نہیں ہے- ایسا نہیں ہے  كہ چونكہ یہ  اچھا کردار ہے اس ليے لازماً کامیاب ہوگا اور يہ برا کردار ہے اس ليے  لازمی ناكام ہوگا- کسی بھی اخلاقی تگ و تاز میں کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ اصل میں اس انتخاب كا نتيجہ ہوتا  ہے جو ہم نےجدو  جہد كرتے ہوئے اپنے اختيار اور رائے كی آزادی كو  استعمال کرتے ہوئے کیا ہوتا ہے- یوسف ان آزمائشوں میں محض اس لیے کامیاب نہیں ہو جاتے کہ ان کے اندر فطری اچھائی موجود تھی بلكہ ہر صورتحال میں ان کوبھی كسی بھی عام انسان كی طرح باقاعدہ ايك جدوجہد کرناپڑی ہے- اپنی  عقل و دانش کو استعمال کرنا پڑا ہے اور پوری اخلاقی جدوجہد کو بروئے کار لاتے ہوئے  تمام تر ترغیبات کو شکست دے کر ہی وہ پوری محنت سے کامیابی کی منزل تک پہنچے ہیں- یوسف کے لیے بھی يہ عین ممکن تھا کہ وہ تمام ترغیبات کے سامنے گھٹنے ٹيك دیتے لیکن انہوں نے اپنی عقل و دانش اور اخلاقی قوت  سے کام لیتے ہوئے ان ترغيبات كا پوری طرح مقابلہ کیا ہے تب وہ بالآخر کامیاب ہوئے ہیں- اس لیے یہ بات واضح ہےكہ اس دنيا ميں كامياب ہونے كے ليے محض فطری اچھائی كا ہونا كافی نہيں بلكہ انسان كو خود بھی مكمل جد وجہد كرنا پڑتی ہے

اگر یہ سچ ہوتا کہ کوئی شخص کسی بھی اخلاقی جدوجہد میں محض اس لیے کامیاب ہو گیا ہے کہ وہ فطرتاً اچھا آدمی تھا تو پھر اس کے برعکس بھی صحیح ہونا چاہیے –يعنی كہ يہ کہا جانا چاہیے کہ  کوئی برا شخص محض اس لیے ناکام ہو گیا ہے کہ چونکہ وہ فطرتاً برا تھا- ايسی صورتحال میں تو اللہ کا  قانون آزمايش  بیکار بن کر رہ جاتا-اگر يہ سب كچھ متعين ہوتا تو پھر انسانوں کی آزمائش نہ ہو سکتی اور آخرت کی جزا اور سزا بھی محض ایک افسانہ ہوتا- آخرت کی جزا اور سزا کی بنیاد ہی یہ ہے کہ انسان کو اختیار کی آزادی دی گئی ہے- کردار اور عمل کے مابین یہی وہ قرآنی توجيہ ہے جس کو اس سورةکی روشنی میں بآسانی دیکھا جا سکتا ہے-

سورة یوسف کے جو اچھے کردار ہیں وہ اس لیے اچھے نہیں ہیں کہ وہ فطرتاً اچھے تھے بلکہ انہوں نے اپنی عملی زندگی میں اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ وہ اس کامیابی کا استحقاق رکھتے تھے- ہم نے یہاں قرآنی حقیقت پسندی کی جو اصطلاح استعمال کی ہے اس میں حقیقت پسندی سے ہماری مراد یہ ہرگز نہیں کہ ہر شخص میں کوئی نہ کوئی خامی یا نقص ضرور ہوگا- اس حقیقت پسندی سے ہماری مراد یہ ہے کہ سورہ یوسف کے کرداروں کو عملی زندگی میں ایسی آزمائش سے گزرنا پڑا کہ جس میں ان کی کامیابی اور ناکامی کے برابر کے امکانات تھے-جيسا كہ بائبل ميں كہاگيا كہ كاميابی ناكامی سے كم ممكن نہيں ہونی چاہيے-

اہم كردار

الف -يعقوب عليہ السلام

کہانی کا آغاز ہی اس ڈرامائی الجھن سے ہوتا ہے جس میں یوسف علیہ السلام کے بھائی مبتلا تھے- وہ یہ سمجھتے تھے کہ ان کا باپ  ان سے زیادہ یوسف سے محبت کرتا ہے- بھائیوں کا یہ خیال تھا کہ یوسف اس محبت کا حقدار نہیں بلکہ وہ زیادہ حقدار ہیں چونکہ وہ مضبوط اور قوت والے ہیں یعنی کہ "عصبہ" ہیں- جبکہ قرآن یہ واضح کرتا ہے کہ یعقوب كی یوسف کے بارے میں جو طرفداری تھی وہ اس بنیاد پر تھی كہ وہ یوسف کے اندر غیر معمولی ذہانت اورصلاحيت محسوس کر رہے تھے اور وہ یہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے تمام بیٹوں میں یوسف کے اندر  وہ اوصاف موجود ہيں کہ جو ابراہیمی پيغمبرانہ روایت کو آگے بڑھانے كے ليے دركار ہيں  اور جب انہوں نے یوسف کے خواب کو سنا تو گویا ان کے اس خیال کی تصدیق ہو گئی- یعقوب نہ صرف ادراک اور بصیرت رکھتے تھے بلکہ بہت حساس بھی تھے انہوں نے یوسف کے غم میں رو رو كراپنی بصارت بھی کھو دی تھی- یعقوب کی حساس طبیعت کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ وہ کچھ غیر مرئی صلاحیتیں بھی رکھتے تھے جن کو ہم موجودہ زبان میں ٹیلی پیتھک قوتیں کہہ سکتے ہیں – انہوں نے بہت دور سے یوسف کی خوشبو محسوس کر لی تھی  جبکہ یوسف کا پیراہن ان کے لیے کنعان لایا جا رہا تھا(آيت 94 ) اور جونہی یہ قمیص  ان کی آنکھوں پہ ڈالی جاتی ہے تو ان کی بصارت بھی واپس آجاتی ہے(آيت 96 )-

 قرآن مجید سے یعقوب کی شخصیت کی جو تصویر بنتی ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جو بھی ہوں  مگر سریع الاعتقاد یا سادہ لوح نہیں ہيں- بھائیوں نے جب یوسف کی موت کی كہانی سنائی تو انہوں نے اس پر یقین کرنے سے انکار کر دیا(آيت 18 )- اصل میں تو وہ پہلے ہی اس شک ميں مبتلا تھے کہ بھائی یوسف کے خلاف کوئی نہ کوئی پلان بنائیں گے اور انہوں نے ہچکچاتے ہوئے ہی  یوسف کو جانے کی اجازت دی تھی(آيت 5،11،14 ) -اسی طرح بنیامین کے معاملے میں بھی انہوں نے یہی رویہ اختیار کیا تھا-

یعقوب کی شخصیت تدبیر اور تقدیر کے مابین تعلق کو سمجھنے كے ليے ايك آئيڈيل مثال ہيں- خدا پر یعقوب علیہ السلام کا بے پناہ توکل انہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ وہ کسی متوقع خطرے سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کریں لیکن جب ان کی تدابير ناکام ہو جاتی ہیں اور بد قسمتی  ان پر اپنے ڈیرے ڈال دیتی ہے تو وہ اس کا سامنا بھی بڑے استقلال کے ساتھ کرتے ہیں یہ کہتے ہوئے انما اشكوا بثی و حزنی الی اللہ كہ ميں اپنے غم و حزن كی فرياد اللہ ہی سے كرتا ہوں-(آيت 86 (  وہ اپنے غم میں گھلتے ہوئے بھی لوگوں کے سامنے کمال ضبط نفس کا مظاہرہ کرتے ہیں (آیت 84 )خدا پر ان کا یقین اور بھروسہ  غيرمتزلزل رہتا ہے- وہ نہ صرف یہ کہ صبر کی صفت کے حامل ہیں بلکہ انہيں صبر جمیل بھی حاصل ہے یعنی صبر کی اعلی ترین شکل –(آيت 18 اور 83 )

ب- يوسف عليہ السلام

لڑکپن میں یوسف ایک شرمیلی، منكسر المزاج اور مودب شخصیت کے حامل نظر آتے ہیں- اپنے باپ کو خواب سناتے ہوئے انہوں نے لفظ "رائت" کو دو بار استعمال کیا-(آيت 4) اس لفظ کی ايك خاص اہمیت ہے - یہ ہمیں ان کی شخصیت کو سمجھنے کے ليے بھی بہت سے اشارے فراہم کرتا ہے- اس لفظ كا استعمال يہ بتا رہا ہے کہ وہ خواب کی تعبیر جانتے تھے(5 ) اسی لیے وہ خواب  سناتے ہوئے ہچكچا رہے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ ان کا باپ یہ خیال کرے کہ وہ ضرورت سے زيادہ خود اعتمادی كا شكار ہيں- یہی وجہ ہے کہ جب وہ اپنا خواب بیان کرنا شروع کرتے ہیں تو درمیان میں ہی رک جاتے ہیں  لیکن پھر وہ محسوس كرتے ہيں  کہ انہیں اپنی بات جاری رکھنی چاہیے چنانچہ وہ دوبارہ لفظ "رأيت"  کو دہراتے ہوئے اپنی بات کو مکمل کرتے ہیں- یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وہ سورج  اور چاند یعنی اپنے والدین کا ذکر ستاروں یعنی بھائیوں کے بعد کرتے ہیں -  والدین کے  بیان کو موخر کرنا گویا ان كے ليے ایک قسم کی عزت کا اظہار تھا-

ایک جوان آدمی کے طور پر یوسف نہ صرف عجزو انکساری کے پیکر کے طور پہ سامنے آتے ہیں بلکہ وہ نفس امارہ کی خطرناک چالوں سے بھی پوری طرح واقف اور آگاہ دكھائی ديتے ہیں- وہ اس با ت سے  پوری طرح با خبر تھے کہ نفس امارہ انسان كو کسی وقت بھی گناہ اور خطا کی وادی میں  دھکیل سکتا ہے –( وما ابري نفسي ----)اس  سے بچنے کے لیے وہ  نہ صرف اللہ رب العزت سے امداد کے طالب نظر آتے ہیں بلکہ  نفس کی ترغيبات  (آيت 24، 33، 53 )سے بچنے کے لیے خود بھی پوری طرح چوکس  رہتے ہیں-

ايام اسيری ميں ان كی شخصيت كے بعض اور پہلو بھی سامنے آتے ہيں- پہلے تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ وہ خوابوں کی تعبير کے ایک زبردست عالم تھے اور دوسری بات جو  معلوم ہوتی ہے وہ يہ ہے كہ وہ اپنے عقائد کے بارے میں بہت سنجیدہ تھے - نہ صرف ان كی سچائی پہ ان كا ايمان تھا بلكہ وہ ان كو  پھیلانے اور ان کی تبلیغ کرنے پہ بھی یقین رکھتے تھے- (آیات  35 سے 40 )- جب ان کے جیل کے ساتھی ان سے رابطہ كرتے ہيں كہ وہ ان كو خوابوں كی تعبير بتائيں تو وہ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے انہیں سب سے پہلے ابراہیمی مذہب کے بنیادی عقائد کی تبلیغ کرتے ہیں اور تیسرا ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے مذہبی عقائد کی تبلیغ کرتے ہوئے کمال ذہانت سے کام لیتے ہیں- مصر کے قید خانوں میں کھانے کے اوقات یقیناً اکتا دینے والی یکسانیت سے بچنے کا خوشگوار وقفہ ہوتے ہوں گے اور قیدی اس  کے منتظر رہتے ہوں گے- یوسف اسی خوشگوار وقفے سے کام لینا چاہتے ہیں اور اپنے جیل کے ساتھیوں کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ ان کے خوابوں کی تعبیر  اگلے کھانے کے پہنچنے سے پہلے پہلے بتا دیں گے- اس بات نے ان كے دونوں ساتھیوں کو یقین دلا دیا ہوگا کہ یوسف  واقعتاً سنجيدہ ہيں اور وہ ان كے خوابوں كی تعبير پہ غور كرنے كے ليے كچھ وقت لينا چاہتے ہيں- اسی طرح یوسف بھی ایک بہترین موقع پا لیتے ہیں کہ وہ ان کو اپنے عقائد اور سچائی کے بارے میں بتائیں- اور چوتھی بات جو ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یوسف کا رویہ اور کردار جیل کے اندر بہت ہی ممتاز نظر آتا ہے- اس بات کی تائید ان دونوں جوانوں کی بات سے بھی ہوتی ہے کہ جب وہ یوسف کو محسن کہہ کر پکارتے ہیں- اور جب ساقی بادشاہ کے خواب کی تعبیر پوچھنے کے لیے جیل میں واپس آتا ہے تو وہ یوسف کو صدیق کے لقب سے مخاطب کرتا ہے صدیق یعنی بہت ہی سچا اور یہ لفظ یوسف علیہ السلام پر پوری طرح صادق آتا ہے کہ وہ نہ صرف سچے تھے بلکہ دوسری تمام نیکیوں کے بھی جامع تھے- اور پانچویں بات  يہ ہے كہ قيد كی زندگی ان كی عزت نفس اور ارادوں كو مضمحل كرنے كے بجائےاور مضبوط كر ديتی ہے - انہیں قید میں اسی لیے پھینکا گیا تھا کہ انہوں نے اپنی عزت نفس ،دیانت اور امانت کو گناہ کی ترغیب و تحريص پر فوقیت دی تھی- جیل کی کئی برس کی زندگی میں بھی ان کی اخلاقی قوت ناقابل تسخیر رہتی ہے اور وہ جیل سے باہر آنے سے انکار کر دیتے ہیں جب تک کہ ان  پرعائد الزام کی تحقیق نہ کی جائے اور ان کی بریت کا اعلان نہ کیا جائے- وہ یقیناً آزادی چاہتے تھے لیکن اپنی عزت و آبرو کی قیمت پر نہیں اس لیے  انہوں نے اس کا فیصلہ کیا کہ پہلے زنان مصر يہ تسليم كريں كہ قصور ان كا تھا اور اس بات كا اعلان كيا جائے كہ يوسف بے گنا ہ تھے- یوسف بطور منتظم اور حکمران بھی بہت کامیاب نظر آتے ہیں وہ اپنے اس دعوے کو ثابت کر دیتے ہیں کہ وہ دیانت دار بھی ہیں ، اس منصب كے اہل بھی، منصف اور فیاض بھی(آيت 55 )- اور یہ ان کی  اسی فیاضی کا نتیجہ تھا کہ قحط کے زمانے میں دوسرے ملکوں سے بھی لوگ غلہ اور اناج لينے مصر آيا کرتے تھے- یوسف اپنے بھائیوں سے کہیں زیادہ ذہین نظر آتے ہیں حالانکہ ان کے بھائی ان سے عمر میں بڑے بھی تھے اور تجربہ کار بھی لیکن پھر بھی ان کے بھائی مصر میں پہلی دفعہ ان کو دیکھنے پر پہچان نہ سکے لیکن یوسف کو انہيں پہچاننے میں کوئی  دقت پیش نہ آئی-(آيت 58 )

اسی طرح یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائی بنیامین کو مصر میں روکنے کے لیے جو منصوبہ بنایا وہ بھی کمال کا منصوبہ تھا اور ان کی یہ سکیم اس بڑی سکیم کا حصہ تھی کہ کس طرح تلخ حقائق  بھائیوں کے علم میں لائے جائیں -یہ منصوبہ یوسف علیہ السلام بہت ہی کامیابی اور مہارت سے روبہ عمل لائے اور اس میں لفظوں کا اورحیلے کا بڑا خوبصورت استعمال کیا گیا-

یوسف علیہ السلام ہمیں بہت ہی شفیق اور معاف کرنے والے بھی نظر آتے ہیں- اُس وقت  جب کہ ان كے بھائيوں كے تمام منصوبے ناكام ہو چكے تھے اور انہيں اپنے بھائیوں پہ پوری قدرت حاصل تھی ،وہ یہ اعلان کرتے ہیں لا تثريب  علیکم اليوم (آيت 92 )يعنی جاؤ آج تم پر کوئی الزام نہیں ہے تم سب آزاد ہو- انہوں نے  اپنے بھائیوں سے  بہت ہی مہربانی شفقت اور عزت و احترام والا معاملہ کیا-

 ج-برادرانِ يوسف

یوسف علیہ السلام کے تقریبا ًسارے ہی بھائی ان کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے(6 ) اور ان کی نفرت کے پیچھے اصل میں ان کا یہ نقطہ نظر تھا کہ وہ  جسمانی قوت كے حوالے سے زیادہ طاقتور اور مضبوط ہیں اور اسی بنیاد پر وہ خود كو عصبہ(آيت 14 ) کہتے تھے -ان کا خیال  تھا کہ سارے مناصب اصل میں جسمانی قوت کی بنیاد پر ملتے ہیں اور یہی ان کی غلطی تھی- قرآن یہ بتاتا ہے کہ وہ ایسے لوگ تھے كہ جن کے ہاں شعور اور آگہی کی کمی تھی(آيت 15 )-خدائی مقاصد سے نابلد ہونے كی بنا پر ان کے اندر جہل(آيت89 ) نے پرورش پا لی تھی- جہل کا مطلب یہاں پہ صرف جہالت نہیں ہے بلکہ ان کا عاقبت نا اندیشا نہ رویہ بھی ہے - پھر یہ المیہ اور بھی زیادہ گھمبير ہو جاتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ  ایک پیغمبر کی اولاد تھے- وہ سازشی ذہن کے حامل تھے اسی لیے وہ اپنے تمام مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ سازشوں کے تانے بانے بنتے نظر آتے ہیں- قوت متخیلہ کے اعتبار سے بھی وہ کوئی زیادہ بلند مرتبے كے حامل  نہ تھے- ہم دیکھتے ہیں كہ  یعقوب علیہ السلام نے  اس خدشے کے اظہار کیا تھا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا جائے گا تو انہوں نے واپس آکر اتنا بھی سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ ہم کوئی اور بہانہ ہی بنا لیں بلکہ انہوں نے یہی كہہ  کر اپنی جان چھڑا لی کہ يوسف کو بھیڑیے نے کھا لیا- آخر میں بھائی اپنی خطاؤں اور غلطيوں کا اعتراف کرتے ہیں اور اس بات کو تسلیم کرليتے ہیں کہ یوسف علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے ایک خاص اعزاز حاصل ہے(آيت 91 )- اپنے تکبر جہالت اور تعصب کو چھوڑتے ہوئے ،جو بھی جرائم انہوں نے یعقوب اور یوسف (آيت 97 )کے خلاف کيے ہوتے ہیں، وہ ان دونوں کے سامنے اپنے ان سب جرائم کا اعتراف كرتے  ہیں-

عزيز ِمصركی بيوی

وہ ايك شہوت پرست عورت ہے- شہوت پوری نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف اس کا رویہ جارحانہ ہو جاتا ہے بلکہ وہ باقاعدہ انتقام پہ اتر آتی ہے -وہ سازش کرنے کی بھی ماہر ہے – وہ نہ صرف  یوسف کو ورغلانے کی سازش بناتی ہے بلكہ  اپنی حريف  عورتوں کو شرمندہ کرنے كا بھی باقاعدہ منصوبہ بناتی ہے جنہوں نے اپنی خوبصورتی کی شيخی بگھاری ہوتی ہے- موخر الذکر واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس زمانے میں مصر کی اشرافیہ کی عورتیں اپنی عیاشی کی تسکین کے لیے کس حد تک جا سکتی تھيں- عزیز مصر کی بیوی جہاں ضرورت سمجھتی وہاں اس كو جھوٹ بولنے ميں بھی كوئی عار نہ تھی (آيت 25 )لیکن کہا نی کے آخر میں وہ اعتراف کرنے پہ مائل نظر آتی ہے اگرچہ اس کی وجہ کوئی واضح نہیں ہے یا تو یہ ہو سکتا ہے کہ چونکہ سچائی بالآخر ظاہر ہونے جا رہی تھی اور یا پھر یوسف کی مروت نے اسے اس اعتراف پہ مائل کر دیا تھا کیونکہ یوسف علیہ السلام نے جب اپنے خلاف الزام کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تو اس وقت بھی انہوں نے اس کا نام ظاہر نہ کیا تھا بلکہ مصر کی عورتیں کہا تھا- نتیجتاً وہ یوسف کی شرافت اور کردار کی عظمت کی قائل ہو گئی تھی- وہ بڑی خود اعتماد اور ضدی عورت نظر آتی ہے- یہ خصوصيت نہ صرف یوسف کے معاملے میں اس کے رویے سے ظاہر ہوتی ہے بلکہ دوسری عورتوں کے بارے میں بھی اس کا رویہ یہی ظاہر کرتا ہے- گھر كے اند ر بھی  اس كو  غلبہ حاصل  تھا- جب وہ یوسف کی محبت حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو اس وقت وہ یہ دعوی کرتی ہے کہ یوسف کو جیل جانا ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ عزیز مصر اس کی بات سنتا اور مانتا تھا -چونکہ جیل بھیجنے کے اختیارات تو صرف عزیز کے پاس تھے اوریوسف کو بے گناہ ہونے كے باوجودجیل جانا پڑا اس کا مطلب یہ ہے کہ عزيز کی بیوی نے بیکار شیخی نہیں بگھاری تھی-

ضمنی كردار

قرآن مجید چونکہ کہانی کے بعض ضمنی کرداروں کے بارے میں بھی کافی اہم تفصیل فراہم کرتا ہے اس لیے ضرورت ہے کہ ہم ان کے  کردار کا بھی جائزہ لیں- یہاں صرف دو مثالیں پیش کی جا تی ہیں-

اہل ِ قافلہ

اس سورة میں قافلے والوں کا ذکر بس دو ہی آیتوں میں آتا ہے یعنی 19 اور 20 میں-قافلے والوں كے رويے سے يہ ظاہر ہو رہا ہے كہ  انہيں چيزوں كی حقيقت جاننے سےكوئی دلچسپی نہ تھی  بس وہ اپنے مفاد پہ نظر ركھنے  والے لوگ تھے- پانی لانے والا اپنی دریافت کی خوشی چھپا نہیں پا رہا تھا-وہ خوشی سے چلایا اور باقی لوگوں كو بتايا ليكن  اس خبر سےسب كما حقہ خوش نہ ہو سكے  کیونکہ وہ اس خبر کو چھپانا بھی چاہ رہے تھے تاکہ ایسا نہ ہو کہ قرب و جوار میں کوئی شخص یوسف کی ملکیت کا دعوی کر دے –چنانچہ وہ يوسف كو چھپا كر تيزی سے سوئے مصر گامزن ہو گئے -اور اسی طرح مصر کے اندر پہنچ کر بھی انہوں نے یہ کوشش کی کہ جلد از جلد یوسف کو بیچ دیا جائے اور غالباً پہلے ہی بولی لگانے والے کے حوالے کر دیا-انہيں غالباً يہ انديشہ تھا كہ ايسا نہ ہو كہ كوئی يوسف كو ڈھونڈتا ان كے پيچھے مصر پہنچ جائے اور وہ چند دراہم سے محروم ہو جائيں-

عزيز

عزیز کا ذکر اگرچہ سورت کی تین ہی آیات میں ہے یعنی 21 میں اور 28 اور 29 میں لیکن وہ ایک زیرک اور زود فہم انسان نظر آتا ہے -یوسف کو خریدتے وقت ہی اس نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ یہ کسی اچھے گھرانے کا لڑکا ہے اور  بدقسمتی کا شکار ہو گیا ہے چنانچہ وہ اپنی بیوی سے  کہتا ہے کہ اس کا اچھا خیال رکھے یہاں تک کہ وہ اس خیال کا بھی اظہار کرتا ہے کہ شايد وہ اس کو اپنا متبنی بیٹا بنا لیں -اور گواہی کے موقع پر بھی اس نے فورا ًیہ محسوس کر لیا تھا کہ اصل میں ورغلانے کی سازش اس کی بیوی نے کی تھی- عزیز اصل میں غیر متعصب اور ٹھنڈے دل و دماغ کا آدمی ہے- وہ اپنی بيوی کی فتنہ پردازی پہ اس کو  ڈانٹ بھی سکتا تھا لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کا رجحان تعميم کی طرف ہے کیونکہ جب اس نے اپنی بیوی پر تنقید بھی کی کہ اس نے اصلاًساری ہی عورتوں پر تنقید کی تھی(آيت 28 )- یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے تعمیم کا پہلو اس لیے اختیار کیا ہو کہ وہ كہنا تو اصل میں اپنی بیوی کو  ہی چاہ رہا تھا لیکن اس نے بالواسطہ طريقہ اختيار كيا تا كہ اس كی بيوی تك بات بھی پہنچ جائے اور وہ ناراض بھی نہ ہوكيونكہ بہرحال گھر میں اس کو ایک غلبہ حاصل تھا- زمخشری بھی کچھ یہی رائے رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ اس کی بیوی اس کی لگا میں کھینچ کے رکھتی تھی-  دوسری طرف یہ بھی کہنا بے جانا ہوگا کہ عزیز نے اپنی شہرت کو بچانے کے لیے معصوم یوسف کی قربانی دی- اگر یہ کہا جائے کہ وہ یوسف کو جیل بھیجنے کا براہ راست ذمہ دار نہیں تھا تو کم از کم یہ تو کر سکتا تھا کہ وہ اس خیال سے صرف نظر کرتا  يا تلافی كی كوئی كوشش كرتا-بہرحال يہ كہا جا سكتا ہے کہ بحیثیت مجموعی وہ دل کا بہت اچھا آدمی ہے- اور اس کی جو خامی يا كمزوری ہے  وہ بھی خاموش قسم کی ہے- وہ برائی کا آغاز نہیں کرتا لیکن بعض اوقات وہ برائی کے لیے استعمال ہو جاتا ہے خاص طور پر اپنی بیوی کے ہاتھوں-

ایک لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سورہ يوسف كی اس کہانی میں کوئی بھی ہارنے والا نہیں- الجھنے والے بھی آخر ميں سلجھ جاتے ہيں اور بدمعاش بھی بالآخر نيك بن جاتے ہيں- اس سب کے باوجود یہ احساس بہرحال موجود رہتا ہے کہ کہانی ميں اچھے اور برے کرداروں کے مابین خط امتیاز بالکل ختم نہیں کیا گیا- اگرچہ بھائی بھی آخر میں نادم ہو جاتے ہیں ، عزیز کی بیوی اور زنان مصر بھی اپنی غلطی کو تسلیم کر لیتی ہیں  لیکن اچھے اور برے کرداروں کے مابین برپا تصادم اور اس کے نتیجے میں پيدا ہونے والاایک تناؤ قاری کے ذہن میں بڑے واضح طور پر کہانی کے آخر تک موجود رہتا ہے-(اور غالباً اس كہانی كے بيان كرنے كا ايك مقصد يہ بھی ہے كہ انسانوں كے ذہن ميں اچھائی اور برائی كا فرق ہميشہ موجود رہےاور وہ اس كے بارے ميں حساس ہو كر زندگی بسر كريں-مترجم)

اختتامی كلمات

اس مقالے میں میں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ یہ بات واضح کر سکوں كہ سورہ یوسف کی  قرآنی کہانی میں باہم مربوط موضوعات کو بڑے موثر طریقے سے پیش کیا گیا ہے اور ان موضوعات كو ایک ایسی تسبيح ميں پرو كر پیش کیا گیا ہے  كہ جس کے دانے آپس میں مضبوطی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں -اس میں جتنے بھی  کردار  نظر آتے ہیں ،ان كے مابین بھی  بڑا متحرک تعامل موجود ہے-يہ سورة اس احساس كو اجاگر كرتی ہے كہ  قرآن مجید کے منظم ادبی مطالعہ کی اشد ضرورت ہے اور اس حوالے سے سورہ یوسف ایک اچھا نقطہ آغاز ہو سکتا ہے- اگر اس مقالے میں پیش کردہ تجزیہ صحیح ہے تو پھر ہمارے سامنے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ كس حد تك سورہ یوسف کا اسلوب پورے قران كی تركيب سے مطابقت رکھتا ہے؟ ركھتابھی ہے یا نہیں -اور کیا قرآن مجید کی دوسری سورتوں میں بھی ایسا ہی اسلوب پایا جاتا ہے-اگر قرآن كے تمام اساليب كے فروق كو سامنے ركھا جائے تو كيا ہم كہہ سكتے ہيں كہ قرآن كی تركيب ميں ايك خاص اسلوب بھی پايا جاتا ہے  جس كو ہر سورة كی ضرورت كے مطابق ايك خاص سانچے ميں ڈھال ديا گيا ہے –اس سورة كے سياق ميں ہمارا يہ سوال ہی كافی ہے باقی اس كاجواب اہل تحقيق كے ذمے ہے-ہم نے اپنے اس مطالعہ كو اس سورة كے چند منتخب پہلوؤں تك محدود ركھا ہے-اگرچہ تحقيق كے ليے چند اور پہلو بھی موجود ہيں جيسے طنز كا اسلوب جو زيادہ گہرائی سے مطالعہ كا متقاضی ہے - کہانی کا تجزیہ اور تحلیل کرتے ہوئے میں نے خود کو صرف ان معلومات تک محدود رکھا ہے جو قرآن نے فراہم کی ہیں اور قرآن اور بائبل کی معلومات کے درمیان کوئی تقابلی مطالعہ نہیں کیا-

اگر قرآن اور بائبل کا تقابلی مطالعہ انہی خطوط پر استوار کیا جائے کہ جو خطوط میں نے اختیار کیے ہیں تو مجھے امید ہے کہ قرآن مجید اور بائبل کے باہمی تعلق کے بہت سے نئے پہلو بھی سامنے آسکتے ہیں جن کو ابھی تک كما حقہ دریافت نہیں کیا جا سكا-

فٹ نوٹس

  1. اس مقالے سے متعلقہ كہانی آيت 4 سے شروع ہوتی ہے اور آيت 101 پہ ختم ہوتی ہے –
  2. عزیز مصر کی بيوی كی طرف سے عورتوں کی  ضیافت کا جواہتمام کیا گیا اس کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ وہاں عورتوں نے یوسف کے حسن سے بے خود ہو کر اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے جبکہ  مولانا امین احسن اصلاحی کا نقطہ نظر اس سے بالکل مختلف ہے جو انہوں نے اپنی تفسیر تدبر قران کی چوتھی جلد میں بیان کیا ہے اور میں ان کی رائے  سے متفق ہوں- ان کی رائے یہ ہے کہ زنان مصر نے جب عزیز مصر کی بیوی پر تنقید کی تو ان کی تنقید میں یہ شیخی مضمر تھی کہ وہ بھی حسن و جمال میں یوسف سے کم نہیں ہيں تو عزیز مصر کی بیوی نے اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے ان کے اس چیلنج کو قبول کر لیا- اصل میں عورتوں نے یوسف کو مائل کرنے کے لیے اپنا سب سے خطرناک نسوانی  ہتھیار استعمال کیا  یعنی کہ خود کشی کی دھمکی- یعنی اگر یوسف ان کی بات کو نہيں مانتے تو وہ خود کشی کر لیں گی- جب یوسف کو ان کے سامنے بلایا گیا تو وہ  اس کے حسن كو ديكھ كر مبہوت رہ گئیں پھر بھی اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے انہوں نے یوسف کو مائل کرنے کے لیے بہت سے حربے استعمال کیے اور جب وہ ناکام ہو گئيں تو انہوں نے اپنی دھمکی (یعنی خودکشی( کی سنجیدگی کو ثابت کرنے کے لیے علامتی طور پر اپنے ہاتھ کاٹ لیے کہ وہ اس کے بارے میں بہت سنجیدہ ہیں –اس پر بھی جب بات  نہ بن پڑی تو آخر میں  یہ کہہ کر انہوں نے اپنی شکست تسليم كر لی کہ یوسف تو ایک فرشتہ ہے انسان نہیں-

مولانا اصلاحی لكھتے ہيں كہ" ہمارے اس دعوے کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ یہاں پہ قرآن مجید نے عورتوں کی اس چال سے متعلق "كيد"کا لفظ استعمال کیا ہے- یہ محض ہمارا قیاس نہیں ہے خود اس سورة میں آگے اس امر کی تصریح موجود ہے کہ عورتوں نے اس موقع پر حضرت یوسف کو بہلانے پھسلانے کی کوشش کی اور اس امر کی بھی تصریح ہے کہ ہاتھوں کو زخمی کر لینے کا معاملہ ان عورتوں کی ایک چال تھی- قرآن یہ کہتا ہے( سورہ یوسفآیت نمبر 51 )"کہ پھر جب اس کے پاس قاصد آیا اس نے اس کو جواب دیا کہ تم اپنے آقا کے پاس واپس جاؤ اور اس سے پوچھو کہ عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ زخمی کر لیے تھے- بے شک میرا رب ان کی چال سے خوب واقف ہے اس نے ان سے پوچھا کہ تمہارا کیا ماجرا ہوا جب کہ  تم نے يوسف كو پھسلانے کی کوشش کی -اگر واقعہ کی نوعیت یہ ہوتی کہ عورتیں حضرت یوسف کے حسن و جمال سے بے خود ہو کر اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھتيں تو اس میں چال کا کیا پہلو تھا کہ حضرت یوسف اس کو "كيد" سے تعبیر فرماتے-

  1. پكنك كے ليے قرآن يہاں يرتع و يلعب (آيت 11 ) كا لفظ استعمال كر تا ہے- عرب كے بدؤؤں كے ہاں پكنك كے ليے يہ معروف لفظ ہے اور عرب شاعری ميں بھی اس كا تذكر ہ ملتا ہے-

4-مثلاً سورۃ نمبر 6  كی آيت  نمبر 103 میں بیان ہوا ہے کہ اس کو نگاہیں نہیں پا سکتیں لیکن وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے کیونکہ وہ بہت نہایت باریک بین)لطيف) اور بڑا باخبر ہے- اسی طرح سورہ حج کی آیت نمبر 63 میں بیان ہوا ہے" دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا تو اس سے زمین سرسبز و شاداب ہو جاتی ہے حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑا ہی باریک بین (لطيف (ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے- ان تمام مقامات پر صفت لطيف خاص سياق كے حوالےسے ہے -

5-وہ خواب بتاتے ہوئے چاند ستاروں اور سورج كے بارے ميں مذكر اسم ضمير يعنی "ھم" استعمال كرتے ہيں-

6-  بھائیوں میں سے کم از کم ایک بھائی یوسف علیہ السلام کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتا تھا اور اس نے ان کی جان بچانے کے لیے   کچھ نہ کچھ کرداربھی ادا کیا –طبری كے  خیال میں اس کا نام ریوبن تھا اور زمخشری کے خیال میں اس کا نام یہودا تھا-