نعت رسول كريم
اے شہرِ علم و عالمِ اسرارِ خشک و تر--تو بادشاہِ دیں ہے، تو سلطانِ بحر و بر
ادراک و آگہی کی ضمانت ترا کرم۔۔!ایقان و اعتقاد کا حاصل تری نظر
تیرے حروف نطقِ الٰہی کا معجزہ!--تیری حدیث سچ سے زیادہ ہے معتبر
قرآں تری کتاب، شریعت ترا لباس--تیری زرہ نماز ہے، روزہ تری سپر
یہ کہکشاں ہے تیرے محلے کا راستہ!--تاروں کی روشنی ہے تری خاکِ رہگذر
میری نظر میں خلد سے بڑھ کر تری گلی--رفعت میں مثلِ عرشِ بریں تیرے بام و در
محفوظ جس میں ہو تیرے نقشِ قدم کا عکس--کیوں آسماں کا سر نہ جھکے ایسی خاک پر؟
کیا شئے ہے برق، تابشِ جَستِ براق ہے--معراج کیا ہے ، صرف تری سرحدِ سفر
موجِ صبا کو ہے تری خوشبو کی جستجو--جیسے کسی کے در کی بھکارن ہو دربدر
قامت ترا ہے روزِ قیامت کا آسرا--خورشیدِ حشر، ایک نگیں تیرے تاج پر
ہر رات تیرے گیسوئے عنبر فشاں کی یاد--تیرے لبوں کی آئینہ بردار ہے سحر!
آیات تیرے حسنِ خد و خال کی مثال--واللیل تیری زلف ہے رخسار والقمر
والعصر زاویہ ہے تیری چشمِ ناز کا--والشمس تیری گرمئ انفاس کا شرر
یٰسین تیرے نام پہ الہام کا غلاف--طٰہ ترا لقب ہے، شفاعت ترا ہنر
کہسار پاش پاش ہیں ابرو کی ضرب سے--وو لخت چاند ہے ترے ناخن کی نوک پر
دریا ترے کرم کی طلب میں ہیں جاں بہ لب--صحرا ترے خرام کی خاطر کماں بہ سر!
تیرا مزاج بخششِ پیہم کی سلسبیل--تیری عطا خزانۂ رحمت ہے سر بہ سر
تیرے فقیر اب بھی سلاطینِ کج کلاہ--تیرے غلام اب بھی زمانے کے چارہ گر
یہ بھی نہیں کہ میرا مرض لاعلاج ہو!--یہ بھی نہیں کہ تجھ کو نہیں ہے مری خبر!!
ہاں پھر سے ایک جنبشِ ابرو کی بھیک دے--ہاں پھر سے اک نگاہِ کرم میرے حال پر
سایہ عطا ہو گنبدِ خضریٰ کا ایک بار--جھلسا نہ دے غموں کی کڑی دھوپ کا سفر
تیرے سوا کوئی بھی نہیں ہے جہاں پناہ!--ہو جس کا نام باعثِ تسکیں پئے جگر
محسن، کہ تیری راہگذر کا فقیر ہے!--اُس پر کرم دیارِ نبوت کے تاجور
دے رزقِ نطق مجھ کو بنامِ علی ولی--یا بہرِ فاطمہ وہ ترا پارۂ جگر
حسنین کے طفیل عطا کر مجھے بہشت--میری دعا کے رخ پہ چھڑک شبنمِ اثر
تیرے سوا دعا کے لیے کس کا نام لوں؟--"بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر"
محسن نقوی