مشاہير اسلام
مولانا عبیداللہ سندھی (وفات 21 اگست 1940)
تحریر–سید محمد ازہر شاہ قیصر
حضرت مولانا عبیداللہ سندھی ایک مشہور مجاہد اور مفکر تھے، ملک کی آزادی کی تحریک میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں. ۱۹۱۵ء میں وہ ’’ریشمی خطوط‘‘ کی مشہور سازش کے سلسلہ میں ہندوستان سے نکلے اور ان کے استاذ حضرت شیخ الہندؒ نے انہیں ایک خاص مشن پر کابل بھیجا تھا، کابل میں سات آٹھ سال تک مولانا کا قیام رہا، شاہ امان اللہ اور ان کے والد شاہ حبیب اللہ سے ان کے خاص تعلقات تھے. افغانستان کی اس وقت کی سیاست پر مولانا کے فکر اور رائے کا زبردست اثر تھا. امان اللہ خاں نے تو اپنی زندگی کے کئی بڑے معرکے مولانا کی زیر ہدایت انجام کو پہنچائے. مولانا کابل سے نکل کر روس اور ترکی پہنچے، ان دونوں ممالک کے سیاسی انقلاب مولانا کی نگاہوں کے سامنے گذرے اور دونوں ملکوں کے ارباب سیاست پر مولانا کی عظمت کا خاص اثر تھا، آخر میں بارہ سال ممدوح نے مکہ مکرمہ میں گذارے اور اس طرح ۲۵ سال کی لمبی جلاوطنی کے بعد ۱۹۳۹ء میں مولانا کانگریسی وزارتوں کی خاص تحریک پر ہندوستان واپس آئے اور ہمیں ان سے ملاقات کی عزت حاصل ہوئی.
مولانا ایک سکھ خاندان کے چشم و چراغ تھے، لیکن اوائل عمر میں مسلمان ہوگئے اور حضرت شیخ الہند کے پاس علم حاصل کرنے کے لئے دیوبند آئے، دیوبند میں حضرت شیخ الہند آپ کے استاد تھے، مولانا سید انور شاہ کاشمیری، مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا شبیر احمدعثمانی آپ کے مدرسہ کے ساتھی تھے. دیوبند میں کئی سال تعلیم کے سلسلے میں آپ مقیم رہے، پھر سندھ چلے گئے، وہاں ایک مدرسہ قائم کیا، رسالہ نکالا، پریس نصب کیا، کتابیں لکھیں اور اپنے فکر پر طلباء کو ڈھالتے رہے. ایک خاص موقعہ پر ان کے استاذ حضرت شیخ الہندؒ نے ۔ــ جو اپنے زمانے میں برطانوی حکومت کے خلاف ایک مجاہدانہ تحریک کے علمبردار تھے اور مہاتما گاندھی، مولانا محمد علی مرحوم، مولانا شوکت علی، مولانا ابوالکلام آزاد، حکیم اجمل خاں مرحوم، مولانا عبدالباری فرنگی محلی یہ حضرات ان کی قیادت میں کام کرتے تھے ۔ــ مولانا عبیداللہ سندھی کو واپس دیوبند بلا لیا، مولانا سندھی اپنے استاذ کے سیاسی کاموں کے رازدار ٹھہرے، مولانا انور شاہ کشمیری کو استاذ نے اپنے علمی منصب پر دارالعلوم میں فائز کیا، مولانا شبیر احمد عثمانی حضرت شیخ الہند کی زبان تھے، مولانا حسین احمد مدنی ان کے دست وبازو اور مولانا آزاد کا قلم ان کا قلم تھا. مولانا شیخ الہند ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں بیرونی ممالک سے امداد کے خواہاں تھے، اس کے لئے انہوں نے زبردست سرگرمیاں کی تھیں اور یہی تحریک ریشمی خطوط کی سازش کے نام سے مشہور ہے. مولانا سندھی کو اسی تحریک کے سلسلے میں اپنا وطن چھوڑنا پڑا اور ۲۵؍سال کامل وہ غیر ملکوں میں ہزاروں تکلیفوں کو جھیلتے اور مصائب کا مقابلہ کرتے پھرتے رہے، اسی شوق میں انہوں نے اپنی زندگی گذار دی اور اسی مقصد میں وہ مر مٹے. ۱۹۳۹ء میں جب مولانا کی واپسی کی تحریک اٹھی تو دیوبند مولانا سے اپنے قدیم تعلقات کی بنا پر خاص طور پر اپنے اس گم شدہ فرزند کی بازیابی کا خواہش مند تھا اور ہم سب کی خواہش تھی کہ جس مرد مجاہد کے عزم و حوصلہ کی بہت سی داستانیں ہم نے اپنے ماحول میں سنی ہیں، اسے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ لیں، آخر ایک دن شام کو معلوم ہوا کہ مولانا دہلی سے بغیر کسی اطلاع کے دیوبند پہنچے اور لوگوں نے انہیں اس حالت میں پایا کہ وہ اسٹیشن سے مدرسہ میں پہنچ کر مدرسہ کی مسجد میں شکرانہ کی دو نفلیں پڑھ رہے تھے، دیوبند آنے کی اطلاع آپ نے پہلے سے اس لئے نہیں دی تھی کہ دیوبند ان کا علمی زاد وبوم تھا، یہاں وہ اپنے استقبال اور شان و شوکت کو پسند نہیں فرماتے تھے. دوسرے دن مولانا صبح کے وقت اس راقم الحروف کے گھر پر تشریف لائے، گرمی کا موسم تھا، رات کو دیر تک دوستوں سے گپ شپ رہی اور وقت پر سونے کا موقع نہ ملا، اس لئے میں اپنے مردانہ مکان میں صبح ۸؍بجے تک پڑا سوتا رہا، میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ ایک بوڑھا انسان سب سے آگے ہے اور اس کے پیچھے پچاس ساٹھ آدمیوں کا ہجوم ہے. میں نے مولانا کو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، اس لئے پہچان نہیں سکا. مولانا نے میری حیرت کو ختم کرنے کے لئے پیش قدمی فرمائی اور ارشاد ہوا کہ ’’عبیداللہ سندھی!‘‘ اور پھر مجھے سینہ سے لگا لیا، پیشانی پر بوسہ دیا، مجھ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’یہ میرے رفیقِ درس اور رفیقِ فکر مولانا انور شاہ کاشمیری کی نشانی ہے۔‘‘
میری والدہ محترمہ مولانا سے اس وقت سے نیاز رکھتی تھیں جب مولانا دیوبند تشریف فرما تھے اور میرے والد مرحوم سے ان کے خاص تعلقات تھے اور ان کا ہر وقت کا اٹھنا بیٹھنا تھا، والدہ نے چائے کا انتظام کیا، چائے کے وقت مولانا شبیر احمد عثمانی اور کئی اور بزرگ بھی موجود تھے، مولانا بڑی بے تکلفی اور سادگی سے چائے پیتے جاتے تھے، اسی مجلس میں انہوں نے بڑی شفقت سے مجھ سے فرمایا کہ ’’مکہ مکرمہ میں اردو کے ایک رسالہ میں تمہارا مضمون پڑھا، تم ہمارے ساتھ رہو، ہم تمہیں کام کرنے کا ڈھنگ بتادیں گے۔‘‘ میں نے برجستہ جواب دیا کہ حضرت! یہ جھگڑا میرے بس کا نہیں، آپ خانہ بدوش آدمی ہیں، ۲۵؍سال کے بعد اب گھر واپس آئے ہیں. کابل، روس، ترکی اور حجاز کی زمین ناپتے رہے، فقرو فاقہ میں آپ کی بسر ہوتی ہے، اپنا عیش و آرام آپ نے تج دیا ہے، میں غریب ان مصیبتوں کو جھیلنے کے لئے حوصلہ کہاں سے لائوں گا، مولانا اس پر ہنس دئیے. وطن کی واپسی کے بعد مولانا چھ سات سال زندہ رہے. دیوبند، دہلی اور لاہور میں بارہا ان سے ملاقات ہوئی مگر سیاسی مباحث پر کبھی میں نے ان سے گفتگو نہیں کی، اس کی پہلی وجہ تو یہ تھی کہ میں خود کوئی عملی سیاسی آدمی نہیں، سیاسیات سے بہت معمولی سا تعلق ہے اور یہ معمولی سا تعلق لمبی بحث و مناظرہ کی الجھنوں کو گوارہ نہیں کرتا، دویم مولانا اپنی عظیم الشان سیاسی جدوجہد میں ناکام ہوجانے کے باعث بے حد چڑچڑے اور غصہ ور ہوگئے تھے. جس ملک اور قوم کے لئے انہوں نے اپنی زندگی تج دی تھی، اپنی زندگی کے ۲۵؍سال دیار غیر کی ٹھوکریں کھانے اور غربت کی ناقابل برداشت تکالیف جھیلنے میں گذار دئیے تھے اور جس کی بہتری اور سودمندی کے خیال نے اس مرد مجاہد کی جوانی کو بڑھاپے کے ضعف و نقاہت میں بدل دیا تھا، اسے اپنے فرائض سے اتنا غافل اور اپنی ذمہ داریوں سے اتنا بے فکر پا کر انہیں غصہ آجاتا تھا، بگڑجاتے تھے، ڈانٹ دیتے تھے اور خفا ہوجاتے تھے. میرا مولانا سے بارہا سامنا ہوا مگر محض اس خیال سے کہ کوئی سوال کیا تو خواہ مخواہ بگڑ جائیں گے، کبھی مولانا کی بساط علم و فکر کے اطراف و جوانب پر ہاتھ نہیں ڈالا، ان کی مجلس میں حاضر ہوا اور ازخود جو کچھ انہوں نے فرمایا سن لیا، جو کچھ کہا اسے باورکیا اور اٹھ کر واپس آگیا. البتہ لاہور میں ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ میں کشمیر سے واپس آتے ہوئے شیرانوالہ دروازہ میں اپنے بزرگ مولانا احمد علی صاحب کے یہاں ٹھہرا ہوا تھا اور یہی جگہ لاہور میں مولانا کا مسکن اور مستقر تھی، رات کو سوتے وقت وہاں صرف مولانا سندھی اور میں تھے، میری زبان سے اس وقت بے ساختہ نکلا کہ ’’مولانا آپ اپنے ہی حلقہ میں تشریف رکھتے تو اچھا تھا، وہاں درس و تدریس کا مشغلہ رہتا یا اپنا سیاسی کام کرتے۔‘‘ میں نے دیکھا کہ میری اتنی ذرا سی بات سے مولانا کے تیور بگڑ گئے اور درشت لہجہ میں فرمایا کہ: ’’ہمیں اس طرح کے مشوروں کی حقیقت معلوم ہے، ہم جانتے ہیں کہ ہمیں مستقبل میں کیاکرنا ہے۔‘‘
میں نے فوراً بات بدل دی، عرض کیا کہ’’مولانا لاہور میں بہت گرمی ہے، میں تو کشمیر سے واپس آکر گرمی بہت زیادہ محسوس کر رہا ہوں اور آپ کو تو اسہال کا مرض ہے، اس گرمی میں تو آپ کو بہت تکلیف ہوتی ہوگی۔‘‘مولانا سمجھ گئے کہ اس نے بات بدل د ی ہے. انہوں نے اپنا غصہ تو پی لیا مگر چارپائی سے اتر گئے اور صحن میں چہل قدمی فرمانے لگے. کچھ ایسے انداز میں رک رک کر ٹہل رہے تھے کہ گویا ماضی کی بہت سی داستانیں انہیں یاد آگئی ہیں، بہت سی تلخیاں اور بہت سے دکھ درد جاگ اٹھے ہوں، آسمان پر چاند اپنی پوری تابانی کے ساتھ چمک رہا تھا، عمارت کی چوتھی منزل پر ایک خاموشی چھائی ہوئی تھی، ایک سکوت، ایک سناٹا، ایک افسردگی اور ایک گہری اور طویل خاموشی. مولانا عبیداللہ سربرہنہ تھے، آہستہ آہستہ ٹہل رہے تھے اور میں شرمندگی اورندامت سے گڑا جاتا تھا کہ میں نے کہاں کی بات کہاں چھیڑ دی، میرے منہ سے کیا نکل گیا اور میں نے مولانا کو کیوں یہ تکلیف دی؟آخری ملاقات مولانا مرحوم سے یہیں دیوبند میں مولانا شبیر احمد عثمانی کے مکان پر ہوئی. مولانا عثمانی دارالعلوم سے الگ ہوچکے تھے، سیاسی فکر کے لحاظ سے انہوں نے لیگ کی رہنمائی قبول کرلی تھی مگر اس ساری مجلس میں اس موضوع پر کوئی بات نہیں ہوئی. آخر میں مولانا سندھی نے مولانا عثمانی سے فرمایا کہ ’’ہم نے جامعہ ملیہ میں بیت الحکمت کے نام سے اپنا ادارہ قائم کردیا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ استاذ مرحوم کی اس یادگار کے سلسلہ میں ان کے اور شاگرد بھی ہمارا ہاتھ بٹائیں اور ہم فخریہ کہہ سکیں کہ اس کام میں ہمارے قدیم احباب بھی ہمارے معاون ہیں، اس لئے آپ بیت الحکمت کے سلسلے میں ہمیں چندہ دیں اور ہماری ذاتی فرمائش یہ ہے کہ یہ چندہ ایک روپیہ سے کم نہ ہو۔‘‘مولانا عثمانی نے فوراً پچاس روپئے حاضر کئے اور کہا کہ تیس روپئے آپ کے ذاتی مصارف کے لئے ہیں اور بیس بیت الحکمت کے چندہ کے لئے اور ہمیں خوب یاد ہے کہ مولانا نے باہر نکل کر یہ تیس روپئے اپنے نواسے عبیداللہ انور کو جو اِن دنوں دیوبند میں پڑھتے تھے دے دئیے اور فرمایا کہ دہلی تک کا کرایہ ہمارے پاس ہے یہ روپئے تم لو. یہاں یہ بات بتا دینی بھی ضروری ہے کہ اس مرد مجاہد کی زندگی عجیب طرح گذری. دہلی میں اوکھلا سے جامع مسجد تک آنے کے لئے ان کے پاس تانگہ یا ٹرام کا کرایہ نہیں ہوتا تھا اور یہ بوڑھا اور ضعیف آدمی میلوں کا یہ چکر پیدل پورا کرتا تھا.
اخبار میں مولانا سندھی کی وفات کی خبر آئی کہ سندھ کے کسی گائوں میں اس مردِ مجاہد اور مشرق کے اس مفکر جلیل نے انتقال فرمایا تو کئی دوست جمع تھے، ایک نے کہا کہ علم اور سیاسی فکر کا ایک ستون گر گیا. دوسرے نے کہا اسلامیات کے ایک زبردست عالم نے وفات پائی. تیسرے نے کہا ایک سخت جان اور جفا کش لیڈر کی موت. چوتھا بولا کہ ناکام ترین لیڈر! اور مجھے یہ آخری بات پسند آئی. حقیقتاً مولانا ایک ناکام ترین لیڈر تھے، اپنی تحریک کی ناکامی، اپنے دوستوں کی خود غرضیاں، ہندوستانی قوم کے بے شعوری اور ناسمجھی، ۲۵؍سال کی طویل جلاوطنی اور اس مدتِ طویل میں ہزاروں میل کا پیدل سفر، کئی کئی وقت کا فاقہ اور قسم قسم کی تکلیفیں، پھر وطن واپس آکر یہاں کے فرقہ وارانہ شور اور شر میں اپنے منجھے اور سلجھے ہوئے فکر کی ناقدری، طبقۂ علماء کا جمود و قدامت پسندی اور انگریزی پڑھے لکھے لوگوں کی بے راہ روی، یہ مسلسل مصائب اگر اس شخص کے دماغ پر برا اثر نہ ڈالتے اور اسے بھی کسی صاف اور ہموار میدان میں کام کرنے کا موقعہ ملتا تو یقینا ہندوستان کی تاریخ آزادی میں عبیداللہ سندھی کا نام گاندھی جی، سبھاش چندر بوس، پنڈت جواہر لال، مولانا آزاد، سردار پٹیل اور راجندر پرشاد کے ساتھ لکھا جاتا، مگر آج مولانا کو اور ان کے کارناموں کو، ان کی محنتوں اور ان کی مشقتوں کی صحیح تفصیل جاننے والا طبقہ بہت ہی محدود ہے، زیادہ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے زندگی میں بھی مولانا کو دیوانہ، ملحد، پاگل کہا اور اب بھی اسی نام سے یاد کرتے ہیں. ایک دوست نے بتایا کہ مولانا نے ایک دفعہ فرمایا کہ ’’مجھے تم پاگل کہو مگر میری بات سن لو، اگر تم نے میری ایک بات بھی مان لی تو میری دیوانگی کی قیمت ادا ہوجائے گی۔‘‘
اللہ اللہ عجیب لوگ تھے جو خود کو مٹا کر قوم کو بنا گئے، جنہوں نے اپنی زندگی برباد کرلی مگر ملک اور قوم کی تباہی ان سے نہ دیکھی گئی، جنہوں نے اپنی ساری زندگی، زندگی کی ساری راحتیں، زندگی کے سارے ولولے، زندگی کا سارا عیش اپنے مقصد پر قربان کردیا، زندگی کے اس خاص موڑ پر جب ہندوستان میں انسانیت اور انصاف کا لفظ ہی رہ گیا، جب یہاں ایک انسان دوسرے کو کھا جانے پر آمادہ ہے، اس ایثار، بے نفسی، خلوص اور عام انسانیت و محبت کا کیا تصور ہوسکتا ہے؟ یہ تصور شاید تاریخ کی کوئی بھولی بسری کہانی ہو، زمانۂ قدیم کا کوئی گیا گزرا ہوا قصہ اور پچھلے زمانۂ جاہلیت کا کوئی غیردانش مندانہ تخیل، مولانا عبیداللہ سندھی اس شریف اور انصاف پسند دور کی ایک یادگار تھے، جب ہندو مسلمانوں میں سیاسی طورپر کوئی امتیاز نہیں تھا. کہتے ہیں کہ مولانا جب کلکتہ گئے تو سبھاش چندر بوس نے جو اِن دنوں اپنی آزاد ہند فوج کا خیال لے کر خفیہ طور سے ہندوستان سے بھاگ جانے کا ارادہ کر رہے تھے، ایک رازدارانہ مجلس میں کئی گھنٹے مولانا سے بات چیت کی اور شری سبھاش احتراماً مولانا کے سامنے بچھے جاتے تھے، چھوٹوں کی طرح ان کی خدمت کرتے تھے اور پروانہ وار ان پر فدا تھے، مگر میں کہتا ہوں کہ اچھا ہوا مولانا اس وقت سے پہلے مر گئے، وہ آج ہوتے تو مسلمان انہیں ہندوئوں کا غلام کہتے اور ہندو انہیں پاکستان کا فِفتھ کالم قرار دیتے. شاعر نے خوب کہا ہے کہ ؎
تھے بہت طعنے ہوس کے اہل دل کی زیست پر---اے تری قدرت! کہ مرگِ عاشقی اچھی رہی