اصلاح و دعوت
تونگری کا اعجاز اور فقر کی کراہت
کتاب و مصنف: صید الخاطر از امام ابن الجوزی
ترجمہ و تلخیص: لالۂ صحرائی
اس باب میں امام صاحب بتاتے ہیں غربت کیسی خطرناک بیماری ہے اور شیطان اس کو کیسے خوبصورت بنا کے مذہبی لوگوں کو پیش کرتا ہے اور پھر اس کے ذریعے سے انہیں خجل کرتا ہے۔
وربما تكلم الشيطان على لسان بعض المشايخ الذين يقتدي بهم التائب؛ فيقول له: اخرج من مالك! وادخل في زمرة الزهاد! ومتى كان لكغداء أو عشاء، فلست من أهل الزهد، ولا تنال مراتب العزم، وربما كرر عليه الأحاديث البعيدة عن الصحة، والواردة على سبب ولمعنى؛ فإذاأخرج ما في يده، وتعطل عن مكاسبه، عاد يعلق طمعه بصلة الإخوان، أو يحسن عنده صحبة السلطان؛ لأنه لا يقوى على طريق الزهد والتركإلا أيامًا، ثم يعود الطبع، فيتقاضى مطلوباته، فيقع في أقبح مما فر منه، ويبذل أول السلع في التحصيل دينه وعرضه، ويصير متمنْدَلًابه[1]، ويقف في مقام اليد السفلى۔
شیطان بعض ایسے مشائخ کو بہکا دیتا ہے جو عقیدتمندوں کے درمیان بہت قابل قدر سمجھے جاتے ہیں تو وہ اپنے عقیدتمندوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ تم مال و اسباب کو ترک کرو اور صوفیاء و فقراء کے دائرے میں رہو، اور جان جاؤ کہ جب تک تمہارے پاس صبح یا شام کیلئے روٹی کا لقمہ موجود ہے اسوقت تک تم صوفیاء کے گروہ میں شمار ہونے کے لائق نہیں ہو اور نہ ہی کوئی اعلیٰ درجہ حاصل کر سکو گے۔ایسے مشائخ اپنے چیلوں میں من گھڑت احادیث بیان کرتے ہیں یا دوسری احادیث کو بے جا اس ضمن میں بیان کرتے ہیں جو دراصل کسی اور مقصد کیلئے بیان ہوئی ہوتی ہیں۔جب لوگ اس دھوکے میں آجاتے ہیں اور ان باتوں پر عمل کرکے اپنے مال و اسباب اور ذرائع آمدن ترک کر دیتے ہیں تو پھر شیطان ان کے دلوں میں دوستوں سے امداد ملنے کی آس جگاتا ہے یا حاکموں کی دوستی کو خوبصورت بنا کے پیش کرتا ہے تاکہ نذرانے حاصل کئے جا سکیں۔کیونکہ اسے پتا ہے كہ مال و اسباب کے بغیر بندہ چند دن تو نکال سکتا ہے لیکن پوری زندگی کی سختیاں برداشت نہیں کر سکتا اسلئے کچھ ہی عرصے بعد انسان کی خواہشات اس پر دوبارہ غالب آجاتی ہیں اور اس طرح وہ ان کو مال و اسباب کے ایک ایسے دائرے میں لیجاتا ہے جو اس دائرے سے کہیں زیادہ برا ہے جسے وہ برائی سمجھ کے چھوڑ آیا ہوتا ہے۔اس صورتحال میں اپنی ضروریات لوگوں سے پوری کرنے کیلئے سب سے پہلی چیز جس پر وہ سمجھوتا کرتا ہے وہ اس کا دین اور عزت نفس ہوتی ہے اور اس طرح وہ دینے والے کی بجائے مانگنے والا بن جاتا ہے۔
وإني تأملت على أكثر أهل الدين والعلم هذه الحال، فوجدت العلم شغلهم عن المكاسب في بداياتهم، فلما احتاجوا إلى قوام نفوسهم ذلوا، وهم أحق بالعز۔
بیشتر مذہبی لوگ اور اہل علم جو اس جھانسے میں آئے ہوئے تھے، جن کیساتھ میری بات چیت ہوئی، میں نے ابتداء میں انہیں روزی کمانے کے اطوار تلاش کرنے اور پڑھنے میں مگن پایا تھا تاکہ جب وہ آگے بڑھیں تو اپنی ضروریات زندگی خود پوری کر سکیں، لیکن فضیلت فقر و فقراء کے اس جھانسے میں انہوں نے خود کو خجل کروا لیا حالانکہ وہ ایک باعزت اور قابل فخر زندگی کے حقدار تھے۔
فالواجب على العاقل أن يحفظ ما معه، وأن يجتهد في الكسب ليربح مداراة ظالم أو مداهنة جاهل، ولا يلتفت إلى ترهات المتصوفة، الذين يدعون في الفقر ما يدعون، فما الفقر إلا مرض العجزة، وللصابر على الفقر ثواب الصابر على المرض، اللهم! إلا أن يكون جبانًا عن التصرف، مقتنعًا بالكفاف؛ فليس ذلك من مراتب الأبطال، بل هو من مقامات الجبناء الزهاد.
ان وجوہات کی بنا پر، ایک عقلمند کیلئے یہی بہتر ہے کہ وہ اپنے مال و اسباب کو محفوظ رکھے اور محنت سے اپنا کام کاج کرے تاکہ اپنی ضروریات زندگی خود پوری کر سکے اور لاعلمی میں کبھی ایسے حالات کا شکار نہ ہو جائے جہاں اسے کسی غاصب کا محتاج ہونا پڑے۔لہذا صوفیاء کی ایسی مغالطہ آمیز باتوں پر کبھی دھیان نہ دیں جو غربت کو مذہب کا اعلیٰ درجہ قرار دیتے ہوں حالانکہ غربت ایسی بیماری ہے جس کا انجام بلاشبہ ناداری اور بے وقعتی پر مبنی ہے۔تاہم جو لوگ غربت کا شکار ہیں اور وہ اس سے نکلنا چاہتے ہیں لیکن باوجود کوشش کے نکل نہیں سکتے انہیں اس مجبوری پر صبر کا ثواب ملے گا جیسے ایک مریض کو بیماری میں صبر کا ثواب ملتا ہے۔لیکن جو لوگ اس سے نکلنا نہیں چاہتے اور غربت پر مطمئن ہیں وہ صابر نہیں بلکہ کم ہمت صوفی ہیں ان لوگوں کے مقابلے میں جو کمائی کرکے دینے والا ہاتھ بنتے ہیں نہ کہ لینے والا۔ان باتوں کا بغور جائزہ لیں تو آپ کو غریب کے خطرات اور خود انحصاری کے فوائد کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔