قرآنيات
پلاننگ اور ترجيحات
فرحان ظفر
لانگ ٹرم منصوبہ بندی اور زندگی میں ترجیحات طے کرنا یوسف علیہ السلام سیکھاتے ہیں!!!
مصر کے قید خانے میں دو اور قیدی بھی یوسف علیہ السلام کے ساتھ داخل ہوئے۔ ایک دن ان میں سے ایک نے یوسف علیہ السلام سے کہا، "میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شراب كا رس نچوڑ رہا ہوں۔" دوسرے نے کہا، "میں نے دیکھا کہ میرے سر پر روٹیاں رکھی ہیں اور پرندے ان کو کھا رہے ہیں۔" دونوں نے کہا، "ہمیں اس کی تعبیر بتائیے، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ایک نیک آدمی ہیں۔"یوسف علیہ السلام نے کہا، "یہاں جو کھانا تمہیں ملا کرتا ہے اس کے آنے سے پہلے میں تمہیں ان خوابوں کی تعبیر بتا دوں گا۔ یہ علم ان علوم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے عطا کیے ہیں۔ "اور پھر اپنے خاندان کے ایمان و توحید کے راستے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ درحقیقت یہ اللہ کا فضل ہے ہم پر اور تمام انسانوں پر کہ اس نے ہميں اپنے سوا کسی کا بندہ نہیں بنایا۔ مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔
"اے زنداں کے ساتھیو، تم خود ہی سوچو کہ بہت سے رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریقِ زندگی ہے، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں۔"
اے زنداں کے ساتھیو، تمہارے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ تم میں سے ایک تو اپنے آقا کو شراب پلائے گا، رہا دوسرا تو اسے صلیب پر چڑھایا جائے گا اور پرندے اس کا سر نوچ نوچ کر کھائیں گے۔"
پھر ان میں سے جس کے متعلق خیال تھا کہ وہ رہا ہو جائے گا اس سے یوسف علیہ السلام نے کہا، "اپنے رب سے میرا ذکر کرنا۔" مگر شیطان نے اسے ایسا غفلت میں ڈالا کہ وہ اپنے رب سے اس کا ذکر کرنا بھول گیا اور یوسف علیہ السلام کئی سال قید خانے میں بند رہے۔ایک روز بادشاہ نے خواب میں دیکھا کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دُبلی گائیں کھا رہی ہیں، اور اناج کی سات بالیں ہری ہیں اور دوسری سات خشک۔ اے اہلِ دربار، مجھے اس خواب کی تعبیر بتاوٴ اگر تم خوابوں کا مطلب سمجھتے ہو۔" لوگوں نے کہا، "یہ تو پریشان خوابوں کی باتیں ہیں اور ہم اس طرح کے خوابوں کا مطلب نہیں جانتے۔"
اُن دو قیدیوں میں سے جو شخص بچ گیا تھا اور اسے ایک مدتِ دراز کے بعد اب بات یاد آئی، اس نے کہا، "میں آپ حضرات کو اس کی تعبیر بتاتا ہوں، مجھے ذرا (قید خانے)بھیج دیجیے۔"اُس نے جا کر کہا، "یوسف علیہ السلام، اے سراپا راستی، مجھے اس خواب کا مطلب بتائیے شاید کہ میں ان لوگوں کے پاس واپس جاوٴں اور شاید کہ وہ جان لیں۔"یوسف علیہ السلام نے کہا، "سات برس تک لگاتار تم لوگ کھیتی باڑی کرتے رہو گے۔ اس دوران میں جو فصلیں تم کاٹو اُن میں سے بس تھوڑا سا حصہ، جو تمہاری خوراک کے کام آئے، نکالو اور باقی کو اس کی بالوں ہی میں رہنے دو۔ پھر سات برس بہت سخت آئیں گے۔ اُس زمانے میں وہ سب غلّہ کھا لیا جائے گا جو تم اُس وقت کے لیے جمع کرو گے۔ اگر کچھ بچے گا تو بس وہی جو تم نے محفوظ کر رکھا ہو۔ اس کے بعد پھر ایک سال ایسا آئے گا جس میں بارانِ رحمت سے لوگوں کو فریاد رسی کی جائے گی اور وہ رس نچوڑیں گے۔"بادشاہ نے کہا انہیں میرے پاس لاوٴ۔ مگر جب شاہی فرستادہ یوُسف علیہ السلام کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا” اپنے مالک کے پاس واپس جا اور اس سے اُن عورتوں کا معاملہ پوچھ جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے؟ میرا ربّ تو ان کی مکّاری سے واقف ہی ہے۔“
اس پر بادشاہ نے عورتوں سے دریافت کیا” تمہارا کیا تجربہ ہے اُس وقت کا جب تم نے یُوسُف کو لبھانے کی کوشش کی تھی؟“ سب نے یک زبان ہو کر کہا” حاشا لِلّٰہ، ہم نے تو اُس میں بدی کا شائبہ تک نہ پایا۔“ عزیز کی بیوی بول اُٹھی” اب حق کُھل چکا ہے، وہ میں ہی تھی جس نے اُس کو پُھسلانے کی کوشش کی تھی، بے شک وہ بالکل سچا ہے۔یُوسُف نےکہا”اِس سے میری غرض یہ تھی کہ عزیز یہ جان لے کہ میں نے درپردہ اس کی خیانت نہیں کی تھی۔اور یہ کہ جو خیانت کرتے ہیں ان کی چالوں کو اللہ کامیابی کی راہ پر نہیں لگاتا۔ میں کچھ اپنے نفس کی براءَت نہیں کر رہا ہوں، نفس تو بدی پر اُکساتا ہی ہے اِلّا یہ کہ کسی پر میرے ربّ کی رحمت ہو، بے شک میرا ربّ بڑا غفور و رحیم ہے۔“بادشاہ نے کہا”اُنہیں میرے پاس لاوٴ تاکہ میں ان کو اپنے لیے مخصُوص کر لوں۔“جب یُوسُف علیہ السلام نے اس سے گفتگو کی تو اس نے کہا”اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور آپ کی امانت پر پورا بھروسا ہے۔“ یُوسُف علیہ السلام نے کہا”ملک کے خزانے میرے سپُرد کیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔“اِس طرح مصر میں یُوسُف علیہ السلام کے لیے اقتدار کی راہ ہموار ہوئی اور اس شان سے کہ کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائیں۔
قرآنی کوچنگ
اب قید کی بے بسی سے حکومت کی بلندی کے سفر میں ہمارے لیے کیا گائیڈنس کے نکات ہیں:
کریکٹر کی تاثیر (Charismatic Character)-
جب آپ قلبی و شعوری طور پر اللہ سے جڑ جاتے ہیں، اس کے فیصلوں پر مطمئن ہو جاتے ہیں تو کردار میں تاثیر پیدا ہونی شروع ہوتی ہے، اور اس کے اثرات ہر دیکھنے والے کو نظر آتے ہیں۔
حقیقی علم کا ادراک - مائنڈسیٹ میں توازن (Accessing Reality Via Balanced Mindset)
انسان جب اپنی حقیقت اور رب کی حقیقت کو جان لیتا ہے تو اسے حقیقی علم کا 'پتا چلنا' شروع ہوجاتا ہے۔۔کہ علم کی ابتداء و انتہاء اللہ ہی ہے، یہ چیز اس کی شخصیت کو ڈی ویلیو ہونے دیتی ہے نہ ہی تکبر و غرور کی کیفیت طاری ہونے دیتی ہے۔
پہلے رب، باقی پھر سب (Prioritizing The Lord) -
اس میں دین کا کام کرنے والے کے لیے اہم ذہنی و عملی سبق ہے۔ انسان کی نفسیات اور ضرورت کے مطابق گفتگو آگے بڑھانا ضروری ہے۔۔۔۔اور ضرورت کے وقت رب کی بات رکھنا سب سے موثر ہوتا ہے کہ جب انسان کے دل و دماغ دونوں پوری طرح متوجہ ہوتے ہیں۔
توحید و شہادت حق، زندگی کی ترجیح –
زندگی کی ڈگر کچھ بھی، مسائل کتنے ہی ہوں، نعمتیں کتنی ہی ہوں رب کی توحید اور اس کے دین کے لیے شہادت حق کا اہم کام ترجیح ہونا چاہیے۔ یہ ترجیح دوسروں تک ٹرانسفر کرنا اور مناسب روئیے کےساتھ فرد کو مائل کرنا خود فرد کی ایمانی و شعوری بلندی کا سبب بنتا ہے۔
خوبصورت دل (Beautiful Heart)–
انسان کے خوبصورت دل ہونے کی ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ فرد خود چاہے جان لیوا مصیبت میں ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔ اپنے بنیادی فرائض کے بعد دوسروں کی مدد کو ہمیشہ سرگرم رہتا ہے-
دلدار شخصیت (Heartwarming Personality)
- قیدی، حضرت یوسف کو لمبے عرصے بھلائے رکھتا ہے، اور جب غرض کی وجہ سے واپس آتا ہے تو ان کی پرکشش شخصیت پر غالب مروّت (Compassion)اس فرد کو نہ صرف توجہ سے سنتی ہے، بلکہ اس کی عملی مدد بھی کرتی ہے۔یعنی ایسی دلدار شخصیت جس کی زندگی میں آنا، رہنا اور کام کرنا آسان ہو، اور جس کے پاس سے جانا، چھوڑنا بھی بلا تکلف ہو۔
حقیقی امیج کی اہمیت -
فرد کے حقیقی امیج کی اہمیت اتنی ہے کہ حضرت یوسف قید چھوڑنے پر اپنی شخصیت کی شفافیت کو واضح کرنے پر ترجیح دیتے ہیں۔۔۔۔اور مناسب وقت، مناسب انداز اور عمل کے ذریعے اپنے اوپر لگے الزامات کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں۔
محبت کی حقیقی روشنی: نفس کو سرنڈر کرنا
جس لمحے آپ اپنے اچھے عمل کو اللہ جانب سے سمجھنا شروع کر دیتے ہیں، خود کو دوسروں سے "افضل و متقی" سمجھنا چھوڑدیتے ہیں اور دوسروں کو "برا و حقیر"سمجھنا چھوڑدیتے ہیں آپ کا نفس اللہ کے آگے سرنڈر کرنا شروع کر دیتا ہے اور یہی چیز دل کی گہرائی سے سے محبت کی حقیقی روشنی و انرجی ہموار دریا کی طرح نکالنا شروع کر دیتی ہے۔
لانگ ٹرم منصوبہ بندی کی اہمیت -
سماجی و سیاسی سطح پر لانگ ٹرم منصوبہ بندی سے قومیں اور ملک غیر معمولی قوت حاصل کرسکتے ہیں۔۔۔جیسا کہ حضرت یوسف بادشاہ کو 15 برس کی منصوبہ بندی سکھلاتے ہیں۔
بڑے کاموں کی دو بڑی ویلیوز -
کسی بھی فرد کی اہلیت کے لیے دو بڑی ویلیوز لازمی ہیں۔
حفاظت - یعنی طے شدہ حدود و ضوابط اور امانتوں کی ہر ممکن صلاحیت
علیم - متعلقہ شعبے کی اونچ نیچ اور لانگ ٹرم و شارٹ ضروریات و مسائل سے واقفیت، انتظامی امور کی استعداد اور فیصلہ سازی کی قوت