قرآنيات
سيدہ مريم كی زندگی سے سبق
اللہ كی پناہ ميں آنا
محمد اكبر
قَالَتْ اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْكَ اِنْ كُنْتَ تَقِیًّا-مریم نے کہا: میں تم سے خدائے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں۔ اگر تم میں خدا کا خوف ہے (تو یہاں سے ہٹ جاؤ)۔چند لفظوں پر مشتمل یہ آیت ہمیں اپنی زندگی کی تنہائیوں کو مختلف پہلوؤں سے سوچنے اور انہیں ٹھیک کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ آئیں! وہ پہلو دیکھتے ہیں:
1: یہ آیت ہمیں اپنے بچوں کی تربیت اور بچپن ہی سے ان کےلیے دعا کرنے ، شیطان سے اللہ کی پناہ میں دینے اور ان کے دلوں میں تقوی کی جڑوں کو مضبوط کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ یہاں تنہائی میں حضرت مریم سلام اللہ علیھا کا ایک اجنبی شخص سے اللہ کی پناہ طلب کرنا در اصل اُس تربیت کا نتیجہ ہے جو ان کی والدہ نے بچپن میں کی تھی۔ سورت آل عمران میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ عمران کی بیوی، مریم کی والدہ نے مریم کی پیدائش پر یہ دعا کی تھی:وَ اِنِّیْ سَمَّیْتُهَا مَرْیَمَ وَ اِنِّیْۤ اُعِیْذُهَا بِكَ وَ ذُرِّیَّتَهَا مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِاور میں نے اس کا نام مریم رکھ دیا ہے اور میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے حفاظت کےلیے آپ کی پناہ میں دیتی ہوں۔ (36)
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ بچپن ہی سے اپنی اولاد کےلیے اللہ کی پناہ مانگتے رہیں تاکہ وہ بڑے ہو کر شیطان کے حملوں سے محفوظ رہ سکیں اور ان کے اندر اتنا تقوی پیدا ہو جائے کہ اگر سارے دروازے بند کر کے برائی کرنے پر مجبور کیا جائے ، حسن اپنے عروج پر ہو، تنہائی میسر ہو، کوئی روکنے ٹوکنے والا بھی نہ ہو، جوانی کا خون گرم ہو، ایسے میں بھی وہ اپنے آپ کو رب رحمن کی محبت کی خاطر برائی سے بچا لیں اور رحمت الہی کے کھلے دروازوں کی طرف دوڑ لگا دیں۔
2: دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہمیں اپنی ذات میں تقوی پیدا کرنا ہے۔ تقوی در اصل دل میں ایک ایسی روشنی پیدا کرتا ہے جس سے برائی اپنی تمام تر نحوست و شرمندگی اور نیکی اپنی تمام تر خوشبو اور خوشی کے ساتھ نظر آنے لگتی ہے۔ تقوی دل میں وہ نور بصیرت پیدا کر دیتا ہے جس سے انسان وقتی لذت کو قربان کر کے دائمی لذت کا حامل بن جاتا ہے۔ پڑھیے قرآن اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓىٕفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَاهُمْ مُّبْصِرُوْنَجن لوگوں نے تقوی اختیار کیا ہے، انہیں جب شیطان کی طرف سے کوئی خیال آکر چھوتا بھی ہے تو وہ (اللہ کو) یاد کرلیتے ہیں۔ چنانچہ اچانک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ (سورت اعراف:201)متقی شخص سے اللہ کی مخلوق کو خوف نہیں رہتا کیونکہ مخلوق کو معلوم ہے کہ اگر سامنے والا شخص متقی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے گرد اللہ کی حدود کی ایک باڑ لگی ہوئی ہے جس کو وہ کراس نہیں کرے گا۔ یہی بات حضرت مریم نے کہی کہ اگر تو متقی ہے تو پھر تیرے لیے صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ رحمن سے ڈر ۔
ضروری نہیں ہے کہ ہر شخص کو اسی طرح کی تنہائی کا موقع ملے جس میں کوئی اجنبی عورت یا مرد اس کے پاس ہو اور پھر وہ پناہ مانگے۔ جو چیزیں ہمیں تنہائی میں گناہ کےلیے ابھارتی ہیں، ان سے رب رحمن کی پناہ مانگنی ہے۔ بالخصوص موبائل کی اسکرین پر اگر کچھ فحش مواد سامنے آگیا تو اس سے دور بھاگنا ہے یا پھر اسے تقوی کی طرف موڑنا ہے یعنی ایسی تحریریں یا ویڈیوز سننی ہیں جن سے دل کو گناہ سے بچنے کےلیے مضبوطی ملے۔
3: یہاں حضرت مریم نے اللہ تعالی کا صفاتی نام رحمن ذکر کیا حالانکہ کوئی اور نام بھی ہو سکتا تھا(سورت مریم میں آپ کو سب سے زیادہ صفت رحمت ملے گی چنانچہ پہلی آیت ہی میں رحمت کا لفظ موجود ہے)۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان گناہ سے بچتا ہے تو یہ اس کا اپنا کوئی کمال نہیں ہے، صرف اللہ کی رحمت ہے۔ جب وہ اللہ سے رحمت کا سوال کرتا ہے تو اس کے گرد ایک ہالہ بن جاتا ہے نور کا۔ پھر وہ شیطان و نفس کے حملوں سے بچ جاتا ہے۔کسی بھی انسان کےلیے اس سے بڑھ کر اور کیا رحمت ہوسکتی ہے کہ وہ گناہ کے اُس لمحے کو چھوڑ دے جس پر اس کےلیے دنیا و آخرت میں خیر کے فیصلے لکھے ہوں۔ ہم میں سے کئی متقی اور زاہد لوگ اُس لمحے میں چوک کر جاتے ہیں جس پر ہمارے لیے امامت و سیادت کا فیصلہ ہونا ہوتا ہے۔ کیا ہم اپنی زندگی سے گناہوں کی کثرت کو اس لیے کم نہیں کر سکتے کہ ممکن ہے فلاں گناہ کے چھوڑنے سے مجھے فلاں خیر مل جائے؟! سوچیے گا۔
4: ہر انسان کی زندگی میں ایک لمحہ ضرور ایسا آتا ہے جب وہ گناہ کرنا چاہے تو کوئی اسے روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا، گناہ چھوڑنے پر اللہ کے علاوہ کوئی اور Appreciate کرنے والا بھی نہیں ہوتا، ایسے میں ہمت کر کے اپنے آپ کو گناہ سے بچا لینا اور اللہ کی طرف پناہ لے لینا دل میں اللہ کی سچی محبت ہونے کی واضح دلیل ہے۔
5: یہاں حضرت مریم نے صفت رحمن کو "تقیا" کے ساتھ جوڑا ہے کیونکہ جو شخص متقی ہو اس کےلیے صرف اتنا کہنا کافی ہے: تجھ سے رحمن کی پناہ۔ وہ رحمن کا نام سن کر پگھل جائے گا، اس کے برے جذبات ٹوٹ کر بکھر جائیں گے، وہ رحمت کے سمندر میں ایسا غوطہ زن ہوگا کہ قریب کی چیز کا علم نہیں رہے گا۔ اس کا خیال ایک ایسے محبوب کی طرف مڑ جائے گا جس محبوب سے ملنے والا برائی کی طرف نہیں لوٹ پاتا، رحمت کا ذکر سن کر متقی کا دل پسیج جاتا ہے، آنکھیں نم ہو جاتی ہیں، زبان تھرتھراتے ہوئے ذکر میں مشغول ہو جاتی ہے، بدن پر رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور دنیا و آخرت کی تمام نعمتیں ایک لمحے میں آنکھوں کے سامنے سے گھوم جاتی ہیں جس سے گناہ سے بچنے کا حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے۔
6: یہاں حضرت مریم کو جب خوف لاحق ہوا تو صفت رحمت کو یاد کیا۔ ہمیں اپنی زندگی کے ہر ایسے موقع پر کہ جب گلا رندھ جائے، بدن میں کپکپی طاری ہو جائے، آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگے اور کسی نامانوس پریشانی میں گرنے لگیں تو فورا اللہ کی صفت رحمت کو یاد کرنا چاہیے ۔ بے شک ہمارا رب رحمن ہے جس کی رحمت کا صرف ایک چھوٹا سا قطرہ دل کو بکھرنے اور ٹوٹنے سے بچا کر باندھ دیتا ہے۔
7: استعاذہ کی ہماری زندگی میں بہت اہمیت ہے کیونکہ ہمیں ہر روز شرور سے واسطہ پڑتا ہے، کچھ شر نفس کا ہے، کچھ شیطان کا ، کچھ لوگوں کا اور کچھ جنات کا۔ ان تمام شرور سے استعاذہ ایک ڈھال اور محفوظ قلعہ ہے۔ اس لیے صبح و شام آخری دو سورتیں پڑھ کر دم کریں۔ جس انسان کی زندگی میں استعانت یعنی ہر معاملہ میں اللہ سے مدد مانگنا اور استعاذہ یعنی ہر شر سے اللہ کی پناہ مانگنا آ جائے ، اس کی زندگی قابل رشک بن جاتی ہے۔
8: ایک عورت کو کسی اجنبی مرد کے ساتھ یہی رویہ اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ نا محرم سے فاصلہ رکھے، سخت اور دو ٹوک بات کرے۔ ممکن ہے کہ یہ جملہ حضرت مریم نے وارننگ دیتے ہوئے کہا ہو کہ اگر تم میں خوفِ خدا ہے تو یہاں سے ہٹ جاؤ۔ یاد رکھیے جب عورت کے الفاظ ڈھیلا لباس پہن لیں تو پھر عصمت کے لباس کو نوچنے میں فاسق دیر نہیں لگاتا۔
9: اس آیت میں برائی کو اس کی ابتدا سے پکڑنے کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ پہلے اسٹیپ پر ہی رک جاؤ اور سخت موقف اپناؤ۔ خاص طور پر اگر تنہائی میں نامحرم سے بات چیت ہو رہی ہو تو تعارف کی ضرورت نہیں کہ تم کون اور میں کون؟ورنہ شیطان دل کی تاریں چھیڑنا شروع کردیتا ہے اور پھر ایک مقام ایسا آتا ہے جب انسان اپنے آپ کو شر کی لہروں کے سپرد کر دیتا ہے ، گناہوں کی موجوں میں بہتا چلا جاتا ہے اور گناہ کو اپنے لیے ناگزیر سمجھنے لگ جاتا ہے۔ اس مقام سے پہلے ہی رحمت الہی کا سوال کر لو تاکہ وہ شیلڈ بن کر تمہیں اپنے اندر لے لے اور کوئی شر تم تک نہ پہنچ پائے۔
10: مريم حيا و پاکدامنى کا پيکر تھى ليکن پھر بھى انہوں نے مرد کو ديکھتے ہى اللہ کى پناہ مانگى۔ وہ جانتى تھى کہ ہم دونوں کے ارادے کتنے ہى صاف کيوں نہ ہو شيطان درميان ميں گناہ کى راہ نکالنے کى پورى کوشش کرتا ہے۔ شيطان ايسا خطرناک دشمن ہے جو ہميں ديکھتا ہے مگر ہم اسے نہيں ديکھ سکتے تو اس کے شر سے اسکى پناہ ميں جانا چاہئے جو شيطان کو ديکھتا ہے مگر شيطان اسے نہيں ديکھ سکتا۔
11: تنہائی اگر متقی کے ساتھ ہو تو رحمان کی پناہ مانگنی چاہیے ، اگر غیر متقی کے ساتھ ہو تو اس کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
12: یہاں حضرت مریم نے نہ صرف اپنے آپ کو اللہ کی پناہ میں دے کر گناہ سے بچانے کی کوشش کی بلکہ "اِنْ كُنْتَ تَقِیًّا " کہہ کر دوسرے کو بھی ڈرنے کی دعوت دی۔ اللہ کا خوف رکھنے والے خود بھی گناہ سے بچتے ہیں اور دوسروں کو بھی گناہوں سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عموما ایسے موقع پر متقی کے ہاتھ سے بھی صفتِ تقوی نکل جاتی ہے تو ریمائنڈر کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہی کام حضرت مریم نے کیا کہ تمہارے چہرے پر تو انوارات محسوس ہو رہے ہیں لیکن اس وقت تمہیں صفت تقوی کو نہیں جانے دینا۔ میرے پاس سے چلے جاؤ اور مجھ سے کوئی تعرض نہ کرو۔
13: یہاں حضرت مریم نے "ان کنت متقیا" کہنے کے بجائے "ان کنت تقیا " کہا جو مبالغہ کا لفظ ہے۔ معلوم ہوا کہ تنہائی میں گناہ سے بچنے کےلیے تھوڑا سا تقوی کافی نہیں ہے بلکہ زیادہ تقوی چاہیے، اس لیے پورے قرآن میں سب سے زیادہ تقوی ہی کا حکم دیا گیا ہے۔
اللہ تعالی ہمیں شیطان مردود، نفس اور ہر مخلوق کے شر سے اپنی حفاظت میں لے لے۔ اللھم آمین