دين و دانش
اللہ كی كتاب كی طرف آؤ
طفيل ہاشمی
قرآن کے علاوہ دنیا میں کسی کتاب کو بے سمجھے پڑھ کر اس سے مستفید ہونے کا نظریہ موجود نہیں ہے. اس کی تلاوت عام کرنے سے اللہ کا مقصد یہ تھا کہ یہ لفظاً لفظاً محفوظ رہے اور اسلامی برہمن اسے تبدیل نہ کر سکیں ، ہر کسی کی دست رس میں ہو، اسے دنیا کی ہر کتاب کی بہ نسبت آسان رکھا گیا تاکہ ہر فرد اس سے ہدایت حاصل کر کے اپنی سوچ اور عمل کو درست رکھ سکے، اس پر احبار و رہبان اور برہمنوں کی اجارہ داری نہ ہو. ہاں اس کی دوسری جانب اتنی بلندیاں اور پہنائیاں بھی رکھ دی گئیں تاکہ بحر علم کے شناور اپنی سیرابی کا اہتمام کر سکیں. لیکن ان کا عام اور سادہ طرز حیات سے کچھ زیادہ تعلق نہیں. لیکن اسلامی برہمنوں نے لوگوں کو قرآن بے سمجھے پڑھنے پر لگا دیا اور انہیں یہ باور کروا دیا کہ ہمارے بغیر اسے کوئی نہیں سمجھ سکتا -گویا اللہ کا یہ ارشاد ولقد یسرنا القرآن... درست نہیں-
ہماری مادی زندگی کا دار و مدار زمین پر ہے ، ہم اپنی روز مرہ زندگی کی تمام ضروریات بہت آسانی سے سطح زمین سے حاصل کرتے ہیں، اس پر چلتے پھرتے ہیں اس سے خوراک، پانی، پھل سبزیاں اور گوشت وغیرہ حاصل کرتے ہیں. ہر شخص معمولی محنت سے یہ سب کچھ حاصل کرسکتا ہے. لیکن زمین تہ در تہ خزانوں کا منبع ہے جو لوگ اس سے قیمتی پتھر، سونا لوہا کوئلہ اور تیل وغیرہ نکالنا چاہتے ہیں اس کے لیے مختلف علوم اور مہارتوں کے محتاج ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص زمین کو چلنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے تو اسے یہ نہیں بتایا جائے گا کہ زمین سے سونا نکالنے کے لیے فلاں فلاں مہارتوں کی ضرورت ہے.
ٹھیک اسی طرح قرآن حکیم ایک تہ در تہ کتاب ہے. اس کی بالائی سطح چند عقائد، چند عبادات، چند اشیاء کی حلت و حرمت اور چند ایک اخلاقی تعلیمات پر مشتمل ہے. اس کی ہر فرد کے لیے وہی اہمیت ہے جو مادی زندگی کے لیے زمین کی ہے اور اسے اسی طرح ہر فرد کی دست رس میں ہونا چاہیے جس طرح زمین ہے. اس نوع کا علم جو ہر فرد کے لئے ضروری ہے عام ہونا چاہیے اور ہر فرد کے لیے اس سطح پر قرآن کی تعلیم Available ہونا ضروری ہے. اس سطح پر لوگوں کو قرآن سے دور کر دینا اور یہ تاثر دینا کہ قرآن کسی سطح پر بھی عوام کے لئے قابل فہم نہیں ہے ایک مجرمانہ رویہ ہے. جو مسلمانوں میں ہندو دھرم، یہودیت اور مسیحیت سے در آیا ہے اور قرآن نے اس کی مذمت کی ہے.
قرآن کی بہت سی سطحیں ایسی ہیں جن سے آگاہی کے لیے مختلف علوم میں مہارت کی ضرورت ہے اور اس کی جو فہارس بنائ گئی ہیں وہ نامکمل ہیں. جس پہلو سے قرآن کا کوئی طالب علم اجتہادی مہارت حاصل کرنا چاہتا ہے اسی پہلو سے مطلوبہ علوم میں درجہ اول کی مہارت درکار ہوتی ہے لیکن ستم یہ ہے کہ ہم نے ایک طرف فہم قرآن کے لئے ان علوم کی شرائط عائد کی ہیں جو اجتہاد کے لیے ضروری ہیں اور دوسری طرف قرآن سے اجتہاد کا دروازہ بند کر کے دیوار چن دی ہے، جس کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے قرآن اور اس کے مخاطبین کے درمیان سے صوتی لہروں کا رابطہ کاٹ کر بیچ میں حاجز کھڑے کر دئیے. ..
تلاوت و فہم قرآن. . قرآن کریم کی تلاوت کا ثواب ایک اضافی فائدہ ہے.قرآن کے نزول کا مقصد لوگوں کو دنیا میں زندگی جینے کے طریقے بتانا ہےکہ آپ کا اللہ، رسول، فرشتوں، آسمانی کتابوں، قیامت کے بارے میں عقیدہ کیا ہو.قیامت کے دن امتحان کن باتوں کا ہوگا. کون سی باتیں کیسے معاف ہو سکتی ہیں کون سی معاف نہیں ہو نگی ان کا تدارک کر کے دنیا سے جانا ہوگا-ایک ایک لمحے کے بارے میں ہدایات قرآن میں لکھی ہوئی ہیں-قیامت کے روز یہ عذر نہیں مانا جائے گا کہ فلاں عالم یا مولوی صاحب نے یہ بتایا تھا-آپ کو خود قرآن سمجھنا ہے-یہ بات کہ آپ اور میں خود قرآن نہیں سمجھ سکتے-یہاں کے کچھ لوگوں نے جو دین کا بزنس کرنے میں یقین رکھتے تھےبرہمنوں سے لے کر مسلمانوں میں پھیلا دیا
اسی کا مداوا کرنے کے لیے شاہ ولی اللہ اور ان کا پورا خانوادہ لوگوں کو ترجمہ قرآن پڑھاتا رہا.
اللہ خود کہتا ہے کہ جو کوئی قرآن سے زندگی گزارنے کے طریقے سیکھنا چاہتا ہے تو ہم نے قرآن اس کے لیے آسان کر دیا ہے.روزانہ توجہ سے ترجمہ کے ساتھ تین آیات پڑھ کر ان پر دن بھر غور کرتے رہیں کہ میں نے اپنے آپ کو ان کے مطابق کیسے کرنا ہے.زندگی کی کامیابی کی یہی ضمانت ہے مثلاً زمین جو ہمیں غلہ دینے کے لیے اللہ نے بچھائی ہے-غلہ ہر کسی کی ضرورت ہےاس لئے زمین سے غلہ اور خوراک حاصل کرنا آسان ہے-تیل بھی اسی زمین سے نکلتا ہے-اس کی ضرورت خوراک کی طرح نہیں ہے اس لیے اس پر مشقت اٹھتی ہے-قرآن کی جس ہدایت کی ضرورت ہر کسی کو ہے اس کا حصول آسان ہے
مشقت اجتہاد سے متعلق ہے-جیسے ڈاکٹر کا نسخہ زبانی یاد کرنے سے صحت نہیں ہوتی-اور ڈرائیونگ گائیڈ پڑھنے سے کوئی ڈرائیور نہیں ہو جاتا-اسی طرح صرف قرآن کی تلاوت سے زندگی نہیں بدلتی
اس کے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہےاور عمل کرنے کے لیے اسے سمجھنا ضروری ہے اورسمجھنے کے لیے اسے پڑھنے کا حکم ہے.اس پر ثواب یہ اللہ کا دائرہ کار ہے-جہاں حدیث میں ثواب کی بات ہے وہاں یہ بھی ہے کہ ایک بندہ تلاوت کرتا ہے اورقرآن اس پر لعنت بھیجتا ہے. قرآن کی لعنت سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اسے سمجھیں اور اس پر عمل کریں.