تبصر ہ کتب
امام طبری کون؟
تببصرہ نگار : صاحبزادہ انوار احمد بگوی
دنیا کے قدیم مذاہب اور پرانے تمدنوں کی تاریخ موجودہ زمانے تک صیح اورسالم نہیں پہنچی بلکہ تاریخ کی حقیقتوں کے قریب پہنچنے کے لئے مختلف فنون کے ماہرین کوبڑی محنت اورمشقت کاسامناکرناپڑی ہے۔ کہیں یہ اندازہ پہاڑوں،غاروں اور دیواروں پر کندہ تصویروں اورلفظوں سے لگایاجاتاہے۔کبھی اشوکاکی سنگی تختیوں اور مصری ممیوں کے زیر زمین مدفنوں سے ، کیونکہ تحریری مواد بہت کم دستیاب ہوسکا ہے۔پہلے وقتوں میں کاغذکی دریافت نہ تھی۔جب کاغذ بننا شروع ہوا تو لکھنے والے کمیاب تھے۔زبانیں بھی صو تی اور سماعی اثرات کے تحت تھیں۔اُن میں تحریر کے اوصاف اور اعراب مفقودتھے۔آسمانی صحیفے تک قلمی شکل میں دستیاب نہ تھے۔ تاریخ وثقافت کے اس تناظرمیں اسلام پہلاآسمانی مذہب ہے جس میں اللہ کاپیغام روزاول سے پہلے زبانوں پر،پھر سینوں میں اورآخرمیں قلم سے وجود میں آیااور لوح کے ساتھ د نیامیں بھی محفوظ ہوا۔
قرآن بلاشبہ اللہ کاکلام ہے جو اس کے احکامات اورہدایات وتوضیحات پرمشتمل ہے۔اس کتاب کی تعلیمات کی تائید میں آفاق وانفس اور قوموں کی تاریخ و تہذیب سے نظائروشواہد کا ذکرباربارآتاہے۔دنیا کچھ ثابت کرے مسلمانوں کے لئے قرآن میں بیان کردہ حقائق اور واقعات ہی اصل حقیقت اور امر واقعہ ہیں۔کلام اللہ روح القدسؑ کے ذریعے قلب مصطفی ؐ پرنازل ہوا اس لئے اس کتابِ مبین میں حضورؑ کی سیرت وکردار،عادات واطوار،اقوال و اظہار،ازواج واولاد ، جہد و سعی ، جنگ وامن غرض کہ سیرت طیبہ کاپوراپورانقشہ موجودہے۔یہی وجہ ہے کہ بخاری کے مطابق ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے ایک سوال کے جواب میں قرآن کورسول اکرمؐ کاخلق عظیم قراردیاہے۔یہی کلام اللہ ،مہبط وحی کے ساتھ ا صحابؓ نبی کے ایمان واخلاق،محبت ومودت ، اتباع ، ایثار و اطاعت کے بارے میں بڑی واضح اور کھلی کھلی حقیقتیں بیان کرتاہے۔صحابہؓ کے باہمی تعلقات،اجتماعی خدمات، دینی حمیت اور نبیﷺ کے ساتھ محبت وشیفتگی اورجان نثاری کابھی ذکرکرتاہے اور مومن صحابہؓ کو مسلمان منافقین سے الگ نتھاردیتاہے۔
چنانچہ صحابہؓ کے عمومی کردار،عملی جدوجہد اوراطاعت واتباع کا پہلا آئینہ خودقرآن ہے۔
نبی کریمؐ کی سنت متواترہ کا سب سے بڑاذریعہ عملِ صحابہؓ ،احادیث صحیحہ اورامت کا عمومی اتباع ہے۔السابقون الاولون اوردیگر صحابہؓ نے مکہ،مدینہ اور فتح مکہ کے بعدنبی کریمؐ کی معیت ورفاقت میں دین کے لئے جوایثار،جہاداورکارنامے سرانجام دئیے ہیں اُن کا سب سے بڑا ثبوت شانِ رسالت مآبؐ کی تائید وتوثیق یعنی احادیث صحیحہ ہیں،یہی وہ کلمات مبارکہ ہیں جو اصحابِ عشرہ مبشرہ،بدر اور دیگر اہم مواقع پردی جانے والی بشارات اور انعامات کا ذکرکرتے ہیں۔یہی چنیدہ اوردیگر برگزیدہ صحابہؓ ،حضورؐ کے بعد خلفائے راشدینؓ وسیدنا امیرمعاویہؓ اور خلفائے بنو امیہؓ کے مشیر ومعاون، رفیق اورعمال ریاست رہے یہ انہی نفوس قدسیہ کا فیضان تھا کہ بنوامیہ کے دورمیں اسلام یعنی قرآن وسنت اور شریعت مطہرہ اپنی خالص شکل اور اصل ہئیت میں برقرار رہے۔اس عہد میں کوئی فکری جھول یا عملی روگردا نی نظر نہیں آتی جو بعدکے ادوار میں پیدا ہوئی۔سیدناعلیؓ کے عہدامارت میں سیاسی طور پرجو شیعی فکر پیداہواوہ عارضی تموج یا سطحی خروج سے آگے نہ بڑھ سکا۔شیعہ جماعت کوئی مذہب نہ بن سکی ۔چنانچہ ملت کا کارواں متّدین خلفائے اُمیہ کے زیرِعلم سیل رواں کی طرح چاروں وانگ عالم میں بڑھتا اور پھیلتارہا۔
مسلمانوں کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں طویل مدت کے بعد قرآن اورحدیث سے ہٹ کرایک اور ’’ذریعہ علم‘‘سامنے آتاہے۔یہ تاریخ یاافسا نوی حکایات شہادتِ عثمانؓ ، خلافت علیؓ ، مشاجرات صحابہؓ، خلافت امیر معاویہؓ ،حکومت یزیداور واقعہ کربلا کے کئی سو سال بعد چند راویوں کے ذریعے ایک مفروضہ داستان بنتی ہے۔ اُس میں حضرت علیؓ اور اُ ن کے خانوادے کو تمام صحابہؓ سے افضل،اللہ کے وصی اور ولی اور علوم نبوت کے وارث قرار دیا جاتا ہے۔صحابہؓ اور خلفائے راشدینؓ کو مختلف الزامات سے متہم اورمطعون کیاجاتا ہے ۔ ان کے بارے میں متعارض اور متناقص تصویر پیش کی جاتی ہے تاکہ اُن کے وسیلے سے اُمت کوپہنچنے والے قرآن حکیم اور سنت نبویؐ کو مشکوک بنادیاجائے اوراسلام کاوہ ایڈیشن سامنے لایاجائے جوقرآنی اور نبویؐ نہیں نسلی،نسبی اورکشفی ہو۔ایسی "تاریخ" نہیں بلکہ تضحیک ہے۔یہ اسلام،بانی اسلام اورجانثار انِ اسلام پر ناپاک سیاہی پھینکنے کی جسارت ہے جسے وہی ذہن قبول کرسکتاہے جو تحقیق وتجزیہ سے عاری،صدیوں کے پراپیگنڈے سے متاثر اورقرآنی تاریخ سے نابلدہو اورنقل در نقل پرکاربندہو یا اس کے اند رشعوری یا غیر شعوری طور پررفض کے جراثیم موجودہیں۔
روایات کے حوالے سے سرسید احمد خان لکھتے ہیں:" نبی اکرمؐ کی سیرت مقدمہ،شرف و عظمتِ انسانیت کی معراج ہے۔یہی وہ پاکیزہ سیرت ہے جو تمام نوع انسانی کے لئے بہترین نمونہ ہے۔حضورؐ کی سیرت طیبہ کا جو حصہ قرآن کریم کے اندر محفوظ ہے اس کے قطعی یا یقینی ہونے میں کسی قسم کا شبہ نہیں۔باقی رہا،وہ حصہ جو قرآن کریم کے باہرہے سواُس میں کوئی بات ایسی ہے جو قرآن کے خلاف جاتی ہے یا جس سے حضور ؐ کی سیرت پر طعن پایا جاتا ہے توہمارے نزدیک وہ غلط ہے۔اُسے رسولؐ کی طرف منسوب نہیں کیاجا سکتا ۔ یہی اُصول صحابہؓ کی سیرت مقدسہ کے سلسلے میں سامنے رکھنا چاہیے۔(خطبات احمدیہ)
شہادتِ عثمانؓ اوراس کے قصاص کے حوالے سے مشاجراتِ صحابہؓنے صحابہؓ اورتابعین میں بھی تقسیم پیداکردی تھی لیکن یہ فکر یا عقیدے کی تقسیم نہ تھی بلکہ سیاسی نکتہ نظرتھا۔چنانچہ قرون اولی میں شیعیت یعنی کہاں تک جاپہنچی تھی اس کا اندازہ مولانا امین احسن اصلاحیؒ صاحب تدبر قرآن کے دیپاچے میں" صحیح بخاری کی خدمات" سے لگائیے۔’’اصحابؓ بدعت اورشیعہ رواۃ سے روایت لینے میں امام مسلمؒ اگرچہ زیادہ مہتم ہیں لیکن امام بخاریؒ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔مثال کے طور پرحدیث کے شیخ محمدبن شہاب زہری ان تمام روایات کے واحد راوی ہیں جن پر شیعہ مذہب کا دارومدار ہے۔امام (بخاری)ؒ صاحب کے نزدیک وہ(شہاب زہری) ثقہ ہیں اوراُن پراُن کااعتماد اسی نوعیت کاہے جس طرح کااعتماد ا مام مالکؒ کواُن پرہے اور جس کا اظہاراُنہوں نے موطامیں کیاہے۔
(حدیث کے) شارحین برملااس بات کا اظہارکرتے ہیں کہ شہاب زہری بات کا بتنگڑبنانے اورمختلف روایات میں گھپلاکر کے ان(احادیث) کے مزاج کو بدلنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔اُنہوں نے متعد د روایات ایسی بیان کی ہیں جن کے بیان میں وہ (دیگر )راویان حدیث سے منفرد ہیں۔ان (احادیث )سے بعض خاص صحابہ کرامؓ (مثلاً شیخینؓ)اور امہات المومنینؓ(مثلاً سید ہ عائشہ صدیقہؓ اور سید ہ حفضہؓ)کی اہانت مقصود ہے۔ظاہر ہے کہ یہ کام شیعی ذہن کے ساتھ ہی ممکن ہے۔اگر امام بخاریؒ صاحب نے شہاب زہری کی روایت قبول کرتے وقت درایت کے اُصولوں سے کام لیاہوتاتوخلفائے ثلاثہؓ کے بارے میں وہ غلط فہمیاں نہ پیدا ہوتیں جواُن کی اُن روایات نے پیداکردی ہیں جن کو صحیح بخاریؒ میں جگہ مل گئی ہے"۔
آگے چل کرمولانااصلاحی ؒ مزید لکھتے ہیں:
’’آگے روایات(احادیث) کی شرح کرتے وقت ہم دکھائیں گے کہ شیعہ رواۃ کی ریشہ دوانیوں نے بات کو غلط رخ دینے میں کیاکردار اداکیاہے "۔(تدبر حدیث ،صحیح بخاری ۔منتخب ابواب ---جلددوم ص 17 ---لاہور)
قرآن و حدیث میں صحابہؓ کے بارے میں بیان کردہ اخلاق وکردار سے بالکل مختلف اور متعارض باتوں سے جس مورخ نے افسانوی حکایات سے ترتیب دیا ہے تاریخ میں اُن کوابوجعفرمحمدبن جریربن یزید الطبری 819)ع204/ھ922___ع310/ھ)کے نام سے جاناجاتاہے۔طبری اپنے زمانے کے مطابق مختلف علوم کے ماہرتھے۔جامع البیان فی تفسیرالقرآن(تفسیرطبری)30 جلدوں پرمشتمل تھی۔طبری کی تاریخی روایات کے حوالے سے بحث کا آغازایک مقبول اخباری کالم نگارجناب اوریامقبول جان کے کالم بعنوان "ہمارے افسانہ سازمورخین "سے ہوا۔ اس میں بتایا گیاکہ طبری گو تاریخ اسلام کے پہلے ماخذ ہیں تاہم اُنہوں نے تاریخ میں جرح وتعدیل کے اُصول نہیں برتے بلکہ ہررطب ویابس ،غلط صحیح کو بلاامتیاز اوربلا تحقیق اپنی کتاب میں درج کردیاہے۔طبری نے درو غ گو راویوں سائب کلبی،ہشام کلبی، عمر واقدی ،عمرتمیمی ،ابومخنف،ابن عدی اورا بن اسحاق کی قریباًدوہزارروایتوں اور ثقہ زاویوں کی قریباً دو سو روایات کو اپنی تاریخ کا حصہ بنایا ہے۔اس اخباری بحث میں تفسیرطبری اور تاریخ طبری سے متعلق دو اہم قصوں یعنی قصہ غرانیق اور قصہ سیدہ زینبؓ کاخاص طورپرذکرکیاگیاتھا۔جو امام طبری نے سب سے پہلے اپنی کتابوں میں رپورٹ کئے ہیں۔
دفاع صحابہ ؓ اورعصمت انبیاؑ ء کے حوالے سے ممتاز محقق اورریسرچ سکالرپروفیسر قاضی محمد طاہرعلی الہاشمی کو اس بحث میں حصہ لیناپڑا۔امام طبری کے بارے میں پروفیسر صاحب کی تحقیق کے دائرے پھیلتے چلے گئے اوریوں 832صفحات کی شکل میں "امام طبری کون؟مورخ،مجتہدیا افسانہ نگار" ایک ضخیم اور خوبصورت کتاب وجود میں آگئی۔پروفیسر ہاشمی صاحب نے طبری صاحب کے نظریات یا بیان کردہ روایات کے بارے میں پہلے ان کے عقائدپھر بعض اہل علم کے تذکرے یکجاکردئیے ہیں خصوصاً تفسیرمیںآیات مباہلہ، ولایت، مودۃ القربیٰ ،وضو کے بارے میں اُن کے خیالات کا بتایاہے۔پھر ہاشمی صاحب نے امام طبری کے چودہ پسند یدہ راویوں کاذکر کیاہے جنہیں انہوں نے ثقہ قراردے کراُن سے روایات نقل کی ہیں حالانکہ وہ جھوٹے جانے جاتے ہیں۔تاریخ طبری میں صحابہؓ خصوصاً سیدناامیرمعاویہؓ کی باربار توہین کی گئی۔تفسیر طبری میں انبیاء کرام جیسے سیدنا آدم ؑ ،سیدنا ابراہیمؑ ، سیدنایوسفؑ ، سیدنا داؤدؑ ،سیدنا سلیمانؑ وغیر ہ کی اہانت کی گئی ہے اور اسرایئلیات جیسی لغویات کو قرآن کے ساتھ جڑدیاگیاہے۔
طبری صاحب نے غرانیق کے افسانے کو اپنی تفسیر میں لکھا ہے۔یہ ایک ایسی کہانی ہے جو قرآن کی تعلیمات کے خلاف اورمنصب نبوت کی توہین پرمبنی ہے۔اس افسانے میں لسانِ نبوت سے جو"وماینطق عن الہویٰ" کی مظہرہے۔مشرکین مکہ کی خوشنودی کے لئے کلمات شرکیہ کا سرزد ہونا بتایاگیاہے۔اس من گھڑت الزام کوسب سے پہلے اورسب سے زیادہ طبری صاحب نے اپنی کتاب میں جگہ د ی ہے۔بعد کے علماء بلکہ مستشرقین تک نے اس بے حقیقت اور بے اصل فسانے کو یکسرمسترد کردیا ہے ۔ کہانی کو مسترد کرنے والے علماء کی فہرست بہت طویل ہے۔جن میں ماضی کے ممتاز اہل علم اور حالیہ زمانے کے دیوبندی، بریلوی او ر دیگر نے قصہ غرانیق کو لغو اور باطل قراردیاہے۔اس بے ہودہ واقعے کو لکھتے ہوئے قلم کانپ اُٹھتاہے جو وحی قرآن اوررسول مقبولؐ سب کو مشکوک بنا دیتا ہے۔
سورۃ الاحزاب آیت 37 میں ممتاز صحابی حضرت زیدبن حارثہؓ کاذکرہے جوحضورؐ کے منہ بولے بیٹے اور خادم خاص بھی تھے۔اُن کا نکاح آپؐ نے اپنی پھوپھی زاد بہن سیدہ زینبؓ بنت حجش کے ساتھ کردیا تھا۔عرب معاشرے میں یہ ایک غیرمعمولی بات تھی کہ اپنے آزادکردہ غلام کو جسے منہ بولابیٹا بنالیاگیاتھا،اسے ایک آزاد اوربا حیثیت خاندن کی خاتون کے ساتھ بیاہ دیا جائے۔یہ رشتہ برقرارنہ رہ سکا۔حضرت زیدؓ نے حضورؐ کی اجازت سے سیدہ زینبؓ کوطلاق دے دی۔پھر اللہ کی اجازت سے آپؐنے حضرت سیدزینبؓ سے نکاح کرلیا اوریوں اُنہیں اُم المومنینؓ بننے کی سعادت نصیب ہوئی۔یہ نکاح مومنین ،مشرکین اور دیگر سب کے لئے آزمائش تھا جسکا آخری فیصلہ بصورت توثیق وحی الہیٰ نے کیا۔
اس واقعہ کے پس منظر کے طورپرطبری صاحب نے جوروایات پیش کی ہیں وہ کسی شک وشبہ کے بغیر رسالتِ مآبؐ کی توہین کرتی ہیں۔یہ کسی شریف عامی کاکردارنہیں بنتا چہ جائیکہ کہ اسے نبی آخری الز مانؐ پر تھوپ دیاجائے۔پروفیسر ہاشمی صاحب نے طبری کی روایات کی اسنادی اورورایتی حیثیتوں پرتفصیلی نقدکیاہے اور تائید میں 14 مفسرین کی آراء کوبھی نقل کیاہے۔اس بحث سے انہوں نے طبری صاحب کی افسوسناک جسارت کاپوری طرح تجزیہ کیا ہے اور دلائل وشواہد سے واضح کیاہے کہ قصہ غرانیق کی طرح سیدہ زینبؓ کے نکاح کے بارے میں طبری صاحب نے بہت غلط اور گمراہ کن باتیں درج کی ہیں۔ پروفیسرقاضی طاہرعلی الہاشمی گورنمنٹ سروس کے شعبہ تعلیم سے ریٹائرمنٹ کے بعد مرکزی جامع مسجد سیدناامیر معاویہؓ چوک،حویلیاں،ہزارہ خیبرپختون خوا کے خطیب ہیں اوردفاع صحابہ ؓ میں بے لومتہ لائم ہمہ تن مصروف ہیں۔ اللہ انہیں صحت و تندرستی عطافرمائے تاکہ وہ دین کی خدمت وحفاظت کا یہ اہم فریضہ بحسن وخوبی اد ا کرتے رہیں۔زیرنظر کتاب میں پروفیسر صاحب نے 202 کتابوں کے حوالے دئیے ہیں (جن میں87 1کتابوں کے مصنف سنی اور14 کے شیعہ اصحاب تھے)جو اپنی بات کو مدلل کرنے اورطبری صاحب کے ا سقام اور ابہام کو واضح کرنے کے لئے جگہ جگہ پوری ذمہ داری سے درج کئے ہیں۔
اُمید ہے کہ پروفیسر صاحب کی یہ کوشش بھی صحابہ کرامؓ کے دفاع کومضبوط بنائے گی اور اسلام کی اولین تاریخ وتفسیر کے چہرے پر سیاہ پوشوں کی ملی ہوئی سیاہی کومٹانے میں مددگارثابت ہوگی۔
***