(تبصرے کے لیے دو کتابوں کا آنا ضروری ہے)
نام کتاب: مولانا مودودی اور ان کی تحریک اسلامی مع جماعت اسلامی و اسلامی دستور
مصنف: پروفیسر محمد سرور سابق استاد جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی
ناشر: دارالکتاب، کتاب مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اردوبازار، لاہور
صفحات: ۴۱۶
قیمت: ۲۰۰ روپے
ہمارا عہد جن شخصیات سے غیر معمولی طور پر متاثر ہے ان میں بلا شبہ مولانا سید ابو الاعلی مودودی ؒ ایک اہم نام ہے۔ اس وقت پورے عالم اسلام کی دینی سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں شعوری یا لا شعوری طور پر مولانا کے افکار پر عمل پیرا ہیں۔ جو شخصیات یا جماعتیں جس قد ر اہم ہوتی ہیں اسی قد ر ان کو سمجھنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے اور ان کوششوں کے نتیجے میں مثبت اور منفی دونوں قسم کی آرا سامنے آتی ہیں۔ان آرا سے اختلاف یا اتفاق سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ مثبت یا منفی رائے پیش کرنے والے نے کیا اس کو علمی پیمانوں پر پیش کیا ہے یا محض ذاتیات کو رگید ا ہے ۔ مولانا مود ودی کے ضمن میں بھی دونوں رویے موجو د رہے ہیں اور ہیں۔ البتہ ہم سمجھتے ہیں کہ دینی طورپر مولانا کے افکار پر ایک سنجید ہ تنقید مولانا وحید الدین کی تعبیر کی غلطی تھی اور ان کی سیاست کے حوالے سے دوسری سنجید ہ کوشش زیر نظر کتا ب ہے۔جو آج سے کم و بیش پچاس سال قبل منظر عام پر آئی تھی اورجسے اب دارالکتاب نے جدید طریقے سے شائع کر نے کی از سر نو کوشش کی ہے اور وہ اس کوشش میں کامیاب رہے ہیں۔اس کتاب میں جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے نظریات اور سیاست سے اختلاف عیا ں ہے۔اور اس اختلاف میں مصنف کے اسلوب کی شد ت بہر حال نمایاں ہے جو کتاب کے علمی تاثر پر اثر اند از ہوتی ہے ۔ خاص طو ر پر جماعت اسلامی کا قادیانی جماعت سے تقابل محل نظر ہے ۔مصنف کا زور قلم زیا دہ تر اس بات پر صرف ہوا ہے کہ مولانا مودود ی کی شخصیت اور ان کے ذہن کی نشو ونما کیسے ہوئی اور ہر دو کے عمل اور رد عمل نیز ماحول کے اثرات اور گرد وپیش کے حالات نے کس طرح موصوف کے ہاں تحریک اسلامی کے فکر ی ہیولی کو جنم دیاپھر خارج میں کن موثرات کے ماتحت یہ فکر ی تحریک ایک سیاسی منصوبے کے طو رپر جماعت اسلامی کی شکل میں وجو د میں آئی اور پھر ۱۹۴۱ سے لے کر ۱۹۵۰ تک یہ جماعت کیا کیا کر دار ادا کرتی رہی ہے۔
مصنف ذہنی طو ر پر فکر سندھی ( عبیداللہ سندھی ) سے متاثر نظر آتے ہیں۔جن کی جھلک ان کی تحریر سے نمایاں ہے۔ تاریخ کے ایک خاص دور کو ایک خاص پہلو سے سمجھنے کے لیے یہ کتاب اچھا خاصا فکر ی مواد مہیا کر دیتی ہے اور ا یک مخصوص اسلوب کے حوالے سے بھی بہر حال ایک قابل قد ر کاوش ہے ۔ طباعت کے لحاظ سے دید ہ زیب اور قیمت بھی مناسب ہے ۔مصنف کی بعض باتوں سے اختلاف کے باوجود علم کے قد ر دانوں کو اس میں تحقیق کا اچھا خاصا مواد مل سکتا ہے جس سے تاریخ کے کئی خفیہ گوشے آشکار ہو سکتے ہیں۔
تبصر ہ نگار ۔ کاشف علی خاں شروانی