مثبت سوچ کے ۱۰۱طریقے

مصنف : حميرا جميل

سلسلہ : تبصرہِ کتب

شمارہ : جون 2024

تبصرہ كتب

مثبت سوچ کے ۱۰۱طریقے

                                  حمیراجمیل ،سیالکوٹ

ذاتی ترقی اور ہندومت پر۴۰سے زیادہ کتابوں کے مصنف پریم پی بھلہ ،تصویر کشی اور سفر سے لطف اندوز ہوتے ہیں،انہوں نے ہندوستان اور بیرون ملک بڑے پیمانے پر سفر کیا ہے۔کھیتی باڑی ،کاروبار اور انسانی زندگی کو چھونے والے مختلف پہلوؤںپر خود کو بہتر بنانے والی کتابیں لکھنے کے علاوہ وہ کئی سماجی بہبود اور تعلیمی اداروں سے وابستہ ہیں۔

مثبت سوچ ’’مثبت‘‘ کا مطلب ہے اثباتی ،قطعی ،مستقل اور ایجابی۔مثبت عمل سے مراد ہر وہ کام ہے جس سے ترقی ہو ،بلندی کی جانب پیش قدمی ہو ،منزل کا حصول ہو ، بہتری ہو ،فلاح و بہبود ہو اور تعمیر ہو۔مثبت سوچ کی متضاد منفی سوچ ہے جو شکست ،ناکامی ،غصہ ،بد مزاجی اور دوسروں کو ذلیل کرنے کی خواہش وغیرہ کا نتیجہ ہے۔ایک منفی سوچ کا حامل شخص منفی عمل کو جنم دیتا ہے جبکہ مثبت سوچ کا حامل شخص تعمیری فعل انجام دیتا ہے۔ہماری زندگی پر سوچ اور خیالات مستقل طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔شیکسپئیر نے کہا تھا ’’ہم وہ نہیں ہوتے جو کرتے ہیں بلکہ ہم وہ ہوتے ہیں جو سوچتے ہیں۔‘‘مثبت سوچ زیادہ تر لوگوں کی زندگیوں میں کامیابی اور ناکامی کے درمیان وسیع فرق کو ختم کرسکتی ہے۔ایک مثبت رویہ انسان کی شخصیت اور کردار کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو زندگی گزارنے کے ایسے طریقے تلاش کرتے ہیں جوکامیاب ،بامقصداور کسی مثبت انجام کومنتج ہوں ۔۔۔۔۔۔دیگر یہ سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں کہ کامیابی کا راز منفی سے مثبت سوچ کی سادہ تبدیلی میں مضمر ہے۔

سوچ کی اہمیت کو شریعت کی رُو سے بیان کیا جائے تو عمل کے مقبول ہونے میں سوچ کا اہم کردار ہے۔سوچ پاک ہے تو یقیناً عمل بھی پاک ہوگا ۔مثال کے طور پر اگر بندہ حج کی نیت سے خانہ کعبہ جانے کا ارادہ کرتا ہے اور خانہ کعبہ پہنچ کر بھی ، قبلہ رُو ہو کر بھی وہ اپنی سوچ کو اپنے اہل و عیال ، اپنے کاروباری معاملات ،دنیاوی محبتوں سے پاک نہیں کرپاتا تو پھر سوچ کی اہمیت کو شریعت کی رُو سے بیان کیا جائے تو عمل کے مقبول ہونے میں سوچ کا اہم کردار ہے۔سوچ پاک ہے تو یقیناً عمل بھی پاک ہوگا ۔مثال کے طور پر اگر بندہ حج کی نیت سے خانہ کعبہ جانے کا ارادہ کرتا ہے اور خانہ کعبہ پہنچ کر بھی ، قبلہ رُو ہو کر بھی وہ اپنی سوچ کو اپنے اہل و عیال ، اپنے کاروباری معاملات ،دنیاوی محبتوں سے پاک نہیں کرپاتا تو پھر وہ کس طرح اللہ کی پارگاہ میں مخلص ہونے کا دعویٰ کرسکتا ہے؟سوچ کے متعلق حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

                                ’’انسان کو اعلیٰ اور اچھی سوچ پر وہ انعام ملتا ہے جو اسے

                                اچھے اعمال پر نہیں ملتا کیوں کہ سوچ میں دکھاوا نہیں ہوتا‘‘

راہ فقر راہ باطن ہے اور باطن کا تعلق ہماری سوچ اور فکر کے ساتھ ہے ۔سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مد ظلہ الاقدس اس ضمن میں فرماتے ہیں:

                                  ’’انسان کے پاس اصل طاقت سوچ ہے۔انسان کے

                                 پاس سوچ کے سوا کچھ نہیں۔’’سوچ ‘‘ہی انسان کی اصل

                                   ہے۔سوچ کو مثبت بنا لینا ہی فقر میں کمال ہے۔‘‘

انسانی زندگی میں سوچ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ہم نے اپنی سوچ کو بدلنے کا فن سیکھ لیا تو گو یا ہم نے زندگی بدلنے کا ہنر سیکھ لیا ۔ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ مثبت سوچ کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔سقراط کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا ’’بتائیں میرا مستقبل کیسا ہوگا؟سقراط نے ایک کاغذ منگوایا اور کہا اس پر اپنے خیالات لکھو ۔اس نے جو سوچا تھا سب لکھ دیا ۔سقراط نے بتایا دیا کہ جیسے تمہارے خیالات ہیں ، اس کے مطابق تمہارا مستقبل ایسا ہوگا ۔معروف مصنف نپولین کے مطابق ’’دنیا میں اتنا خزانہ زمین میں سے نہیں نکالا گیا ، جتنا انسان نے اپنے ذہن ، خیالات ،تصورات اور سوچ کے سمندر سے حاصل کیا۔‘‘اچھی سوچ ایک ایسا خزانہ ہے جس سے مٹی کو بھی سونا بنایا جاسکتا ہے۔

مثبت سوچ کے ۱۰۱طریقے خیالات کا ایک آسان مجموعہ ہے جو ایک شخص کو روزمرہ کی زندگی میں مثبت سوچ اپنانے میں مدد دے سکتاہے۔یہ حقائق اور حالات کی حقیقت کو سامنے لاتا ہے جو اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ذہن کس طرح روزمرہ کی سوچ کو متاثر کرنے کے لیے کام کرتا ہے۔سادہ خیالات کی پیروی کرتے ہوئے ،ایک شخص بتدریج زندگی گو اس وسیع امکانات کے مثبت استعمال کے ذریعے بدل سکتا ہے جو اس کے اندر موجود نہیں ہے۔

اس کتاب میں ایسے نکات پیش کیے گئے  ہیں جن میں مثبت سوچ ،رجائیت اور مایوسی ،سوچنے کا عمل ،خیال ،خیالات کا اثر ،خیالات کا فلسفہ ،اجتماعی خیالات ،دماغ اور جسم ،رویہ ،یقین ،خوداعتمادی ،دعااور مراقبہ شامل ہیں۔یہ کتاب ترجمے سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے خصوصی طور پر بہترین کتاب ہے۔ڈاکٹر رشید امجد لکھتے ہیں، ترجمہ نگاری ایسا دریچہ ہے جس سے دوسری قوموں کے احوال ہم پر کھلتے ہیں۔ترجمہ کرنا یقیناًایک مشکل کام ہے،اس میں مترجم ،مصنف کی شخصیت فکر و اسلوب سے بندھا ہوتا ہے ،ایک طرف اس زبان کا کلچر جس کا ترجمہ کیا جارہا ہے ،اسے اپنی طرف کھینچتا ہےاور دوسری طرف اس زبان کا کلچر جس میں ترجمہ کیا جارہا ہے ،یہ دوئی مترجم کی شخصیت کو توڑ دیتی ہے۔

اُم حبیبہ نے پریم پی بھلہ کی کتاب کا انگریزی سے اردو ترجمہ کیا ہے ۔اُم حبیبہ کی یہ کاوش قابل تحسین و تعریف ہے۔اردو ادب کو اس نوجوان ترجمہ نگار سے بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں۔مجھے اس کتاب کے اردو ترجمے کی نظر ثانی اور پروف ریڈ نگ کے دوران کئی دشواریاں آئیں ۔ بہرحال یہ ان کا پہلا کام ہے سو بہتری کی گنجائش بھی موجود رہے گئی ۔میری دعا ہے کہ اللہ اُم حبیبہ کو مزید عزت و شہرت اور علم و حکمت عطا فرمائے۔ آئن سٹائن نے کہا ،جس سوچ اور ذہنی سانچے میں مسائل جنم لیتے ہیں ،اسی سوچ سے اس کا حل نکالا جاسکتا ہے،یہ کتاب ہر قاری کی زندگی کی راہ متعین کرسکتی ہے۔