وقار بن الہی کی آپ بیتی
تبصرہ محمد حمید شاہد ‘ انتخاب سجاد خالد
وقار بن الہٰی نے ممکنہ حد تک کوشش کی ہے کہ اس کی زندگی کی کہانی یوں چلے جیسے اس پر زندگی بیتتی رہی ہے‘ اپنی زمانی ترتیب کے ساتھ ‘تاہم جہاں کہیں بیانیے نے کسی اکھاڑ پچھاڑ اور رخنے کے بغیراسے اجازت دی اس نے اس ترتیب میں گنجائش پیدا کرکے ماضی کے قصے یا آنے والے وقت سے اپنے حصے کا پیوندیوں لگایا کہ دیکھے جانے والا منظراور زیادہ بامعنی ہوگیا ۔ مثلاً دیکھیے ہجرت کا چشم دید واقعہ بیان کرکے آج تک کے طرزعمل کے تناظر میں اس نے ہمیں کیسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے:
”دس گیارہ بجے ہوں گے گاڑی فیروز پور پہنچ کر رُکی - دوسروں کی دیکھا دیکھی میں نے بھی اپنی کھڑکی تھوڑی سی اوپر اُٹھائی تو دیکھا ‘ سامنے مرکزی پلیٹ فارم بالکل ویران پڑا ہے- پھر دوسکھ کرپانیں لہراتے پلیٹ فارم پر نمودار ہوئے‘ انہوں نے ایک مسلم نوجوان لڑکی کو پکڑ رکھا تھا۔ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے پہلے اُس لڑکی کے کپڑے چاک کیے‘ پھر اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے گئے۔ جب بھی ایک عضو کا ٹتے تو اُسے ہماری گاڑی کی طرف اُچھال دیتےاور دونوں چیخ کر کہتے:”یہ رہا تمہارا پاکستان“ -بعد کے پچاس برسوں میں ہم جو کچھ کرتے آئے ہیں‘ہر کسی سے میرا یہ پوچھنے کو جی چاہتا ہے-”اُس بچی کے جسم کے ٹکڑے کون جوڑے گا؟“
تلخ حقیقتوں کے بیان میں وہ یک رُخا نہیں رہا اسی دورانیے میں ایک اور منظر جو اس نے لاہور پلیٹ فارم پر دیکھا ‘صورت واقعہ کو ٹھیک ٹھیک سمجھانے کے لیے اُسے بھی بیان کرنا مناسب جانا ہے:” سب میں خون اور لاشوں کے سوا کچھ نہ تھا ‘ جیسے ان گاڑیوں کو واش لائنوں پر خون سے دھویا گیا تھا۔ پلیٹ فارم پر موت کا رقص تو جاری و ساری تھا ہی‘تعفن بھی بے پناہ تھا۔ ان گاڑیوں میں وہ دوتین گاڑیاں بھی شامل تھیں ‘ جو بھارت جانے کے لیے یہاں تک پہنچ پائی تھیں‘ ان کے اندر بھی خون ہی خون تھا“-
اچھا ‘ ایک اور واقعہ دیکھیے ‘ بالکل مختلف مزاج کا مگراب ہمارے ہاں رشتوں کی صورت جس نہج پر پہنچ چکی ہے اس کے باب میں یہ دلچسپ واقعہ کئی سوال اُٹھاتا چلا جاتا ہے۔” میرے دادا جان کو بھی اس دن کا بہت انتظار تھا کہ ان کا پہلا پوتا بیاہا جائے گا۔ صبح سویرے سب سے پہلے انہیں تیار کیا گیا ۔ انہوں نے نیا جوتا اور نیا جوڑا پہنا اور تیار ہو کر باہردھوپ میں چارپائی پر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد دوسرے لوگ تیار ہوئے اور بارات پہنچ گئی جہاں اسے پہنچنا تھا-اور تاریکی اترنے سے تھوڑی دیر پہلے دُلہن کو لیے سب واپس پہنچے تو یہ دیکھ کر جیسے سانس حلق میں ہی اٹک گئے کہ دادا جان تو وہیں بیٹھے تھے جہاں انہیں تیار کرکے صبح بٹھایا گیا تھا- والد بار بار ماتھا پیٹتے رہے کہ اگر انہیں جاتے ہوئے بھول گئے تھے تو وہاں جاکر بھی ان کی یاد کیوں نہ آئی-ڈرتے ڈرتے دادا کے قریب گئے -قدرے شرمندہ اور کچھ گھگھیا کر ان سے معافی مانگی گئی تو وہ ہنس دیے ۔ ” مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ تم لوگ میرے ساتھ یہ حرکت کرو گے۔” معافی وعافی کو چھوڑو ایسا ہو ہی جاتا ہے ۔ مبارک ہواور مجھے جلدی سے حقہ دو صبح سے ایک کش بھی اندر نہیں گیا“- انہوں نے کس فراخ دلی سے ساری بات کو پی لیا۔ اب سوچتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے ‘ یہ جوہر اسی نسل کے لوگوں میں تھا‘ میں تو شاید ایسا نہ کر سکوں “
وقار بن الہی کو ان افسانہ نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے جن کے ہاں دفتری زندگی کو خوبی سے افسانے کا موضوع بنایا گیا ہے ۔ اپنی آپ بیتی میں بھی اس نے وزارتوں اور دفاتر کی تکلیف دہ صورت حال کا نقشہ بہت خوبی سے کھینچا ہے اس باب میں وزارت تعلیم کے ایک سیکشن آفیسر کاصرف ایک واقعہ:” دفتر میں وہ ہمیشہ نو بجے کے بعد آتے تھے۔ علیک سلیک کے بعد اخبار اٹھاتے اور مطالعے میں غرق ہوجاتے۔ اس دوران کو چٹپٹا ٹکڑا دکھائی دیتا تو مجھے بھی محظوظ دیتے‘ فون آجاتا تو سن لیتےاور ترت جواب دینے کا وعدہ کر لیتے۔ گیارہ بجے کے قریب اٹھتے ‘ اپنی الماری کو چابی لگا کر فائلیں نکالتےاور سب کی سب اپنے دائیں ہاتھ رکھ کر ‘ ہاتھ جھاڑتے اور بیٹھ جاتے۔ ایک ایک فائل اٹھاتے ‘ اسے بائیں طرف رکھتے جاتے ‘ ساتھ ساتھ بڑبڑاتے بھی جاتے” اس پر نوٹ لکھنا ہے. ٹھیک..یہ جواب آج ضروری ہے ..ہوں..اس پر ریمائنڈر دینا ہے ‘سسرے بھنگ پی کر سوجاتے ہیں‘جواب ہی نہیں دیتے.. یہ ..ہاں .. یہ جواب نہ بھی گیا تو کیا ہوا‘ کون سی قیامت آجائے گی.. اور اس میں .. پتہ نہیں ڈپٹی کیا چاہتے ہیں؟“ دائیں طرف کا ڈھیربائیں منتقل کرکے پھر ہاتھ جھاڑتے ‘ میری طرف دیکھتے ” ہاں تو میاں ‘ذرا فون کا خیال رکھنا ‘ساڑھے گیارہ بج رہے ہیں ‘میں چائے پی آؤں ..“غرض چائے پی کر پلٹنے ‘ ادھر ادھر فون کرنے ‘لنچ بریک اور نماز کے وقفوں کو انجوائے کرنے اور پھر چھٹی سے ذرا پہلے فائلوں کے ڈھیر کو پھر الماری میں بند کرنے کے اس واقعے میں وقار نے قومی اداروں میں کام چوری اور حرام خوری کی جو تصویر بنائی ہے اس میں سے چیخ کی طرح پھوٹتا ہمارے اداروں کے زوال اور انہدام کا نوحہ بھی پوری طرح سنائی دے گیا ہے۔
وقار بن الہی کو کئی ملک دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔
اس نے وہاں جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا اسے بھی اپنے قاری کو منتقل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ امریکہ کے مشاہدات کی بابت اس کہنا ہے کہ :” ...دوسرے ملکوں کی کئی باتوں کی طرح امریکہ بہادر کی بھی کئی باتیں عجیب لگتی ہیں مثلاً کالوں کو صرف دو ہی کام ہیں‘ گانا بجانا یا دھوپ میں بیٹھ کر بھیک مانگنا پڑھ لکھ کر اگر کوئی بھلے مانس اچھی ملازمت پر فائز ہو بھی چکا ہے تو وہ خاموشی کو ہی ترجیح دیتا ہے‘لب نہیں کھولتا.. سفید چمڑی والے دنیا دنیا کے کونے کونے سے اور صدیوں سے وہاں اکٹھے ہوتے رہے ہیں لیکن کام کرتے ہوئے انہیں بھی یوں لگتا ہے جیسے موت کے منہ میں جارہے ہیں۔“
وقار کے قلم اس باب میں خوب جوہر دکھاتا جس میں اس نے اپنی ماں کا ذکرکیا۔یہاں پورے متن کی کیمسٹری تک بدل جاتی ہے۔ اسی باب میں اس نے عورت کے مختلف روپ سمجھنے کی کوشش بھی کی ہے ۔ عورت کے کچھ روپ وہ اپنی آپ بیتی کے دوسرے حصوں میں بھی دکھا چکا ہے تاہم ماں کے روپ میں اس نے جس عورت کی تصویر بنائی ہے وہ امر ہو گئی ہے۔ عین گڑیوں سے کھیلنے والی عمر میں دلہن بن جانے والی لڑکی‘ جو ایک بیٹے کو جنم دے چکی تو اس کا شوہر فوج میں چلا گیا ‘جسے جاپانیوں نے قید کر لیاتھا۔ بلا کی قناعت پسند‘ صابر شاکر‘ جو ملا کھا لیا ‘ جو میسر آیا پہن لیا۔ بچوں کے انتظار میں بھکی راہ تکنے والی ماں‘ اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کے منہ میں لقمے ڈالنے والی ماں۔ اس عورت کی کہانی جوں جوں آگے بڑھتی جاتی ہے عورت کا قد بلند ہوتا جاتا ہے ۔ عورت واقعی لائق تکریم ہے۔
وقار کی اس کہانی میں ہجرت کا تلخ تجربہ ہے ‘ اپنوں کی لوٹ مار کا المیہ ہے‘ تعلیمی اداروں سے پھوٹنے والے تاریکیاں ہیں اور طاقت کی راہداریوں میں قومی وسائل کو بے دردی سے ضائع کرنے والوں کا قصہ بھی ہے۔ یہ آپ بیتی تو ہے ہی مگر ساتھ ہی ساتھ کئی ملکوں کا سفر نامہ بھی ہے ۔ کئی سفاک حقیقتوں کا فسانہ اورکئی شخصیات کا ایسا دلکش خاکہ ‘ کہ بیانے میں جمالیاتی قدر کا وصف نمایاں ہوتا چلا گیا ہے ۔ جہاں اس نے تنقید کرنا چاہی وہاںطنز کیا‘ جہاں مشورہ دینا چاہا وہاں اس کے بیان میں اخلاص چھلکنے لگا‘ جہاںانسانی رشتوں کا حوالہ آیا وہاںاس کے قلم نے جذبوں کوایسی جہت
دی کہ پڑھنے والے کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور یہی بات نہ صرف اس خوب صورت کتاب کو قابل مطالعہ بنا تی ہے اسے ایک اہم اور قابل توجہ خود نوشت سوانح عمری بھی بنا دیتی ہے۔ ایک ایسی زندگی کی کہانی جو وقار بن الہٰی نے جھیلی مگر جس میں ہماری قومی ‘سیاسی اور تہذیبی زندگی بھی جھلک دے گئی ہے ۔