ماہپارہ صفدر کو ہم اُس وقت سے دیکھتے آ رہے ہیں جب گھر میں چھوٹا سا بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی ہوتا تھا اور ''فرمانِ الٰہی'' کے بعد پورے شہر میں کوئی آواز نہیں آتی تھی۔ ہم بچوں میں ثریا شہاب کی آواز خالاؤں والی، ماہپارہ کی آواز باجیوں والی اور انگریزی خبروں والی شائستہ زید کی گرجدار آواز فوجی افسروں والی مشہور تھیں۔ اظہر لودھی اور خالد حمید کی خبروں اور مجاہد چشتی اور عمر قریشی کی کمنٹری کی کوئی بھولی بسری یاد کہیں یوٹیوب سے سنائی دے جائے تو میرے دور کے لوگوں کا ناسٹلجیا کہیں اور ہی دھکیل لے جاتا ہے۔ یہ سب خواتین و حضرات اپنی شخصیت اور اندازِ تکلم سے پہچانے جاتے تھے۔
میں اُس دور کی بات کر رہا ہوں جب ہم ٹی وی کے سامنے مودب ہوکر بیٹھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ماہپارہ باجی ٹی وی سکرین سے ہمیں دیکھ رہی ہیں۔ اُن کے چہرے پہ جو مسکراہٹ آتی ہے وہ ہماری کوئی شرارت دیکھ کر آتی ہے۔ اور جب وہ غصے سے دیکھتیں تو سمجھیے جان ہی نکل جایا کرتی تھی۔ اب کہاں سے لائیں اُس بے خبری اور معصومیت کے مزے۔
خبرنامے والی ماہپارہ باجی جب کئی سال پہلے فیسبک فرینڈ بنیں تو نہ پوچھیے کہ کتنی خوشی ہوئی۔ پھر فون اور پھر واٹس ایپ۔ پھر صفدر ہمدانی صاحب سے باتیں شروع ہوئیں’ ادبی باتیں۔ ادبی کانفرنسوں کی باتیں ادبی چوریوں اور چورنوں کی باتیں۔ ادب ناک خواتین کی باتیں۔ دنیا بھر کی باتیں۔ اب خبرنامے والی ماہپارہ باجی واقعی اصلی والی باجی بن گئیں۔
کچھ عرصہ پہلے ماہپارہ نے بتایا کہ وہ اپنی آپ بیتی لکھ رہی ہیں اور پاکستان ہی سے شائع کرانا چاہتی ہیں۔ میرا مشورہ سنگِ میل اور بک کارنر میں سے انتخاب کرنے کا تھا۔ پھر دیکھتے دیکھتے بک کارنر سے ''میرا زمانہ میری کہانی'' شائع ہوکر آگئی۔
ماہپارہ نے اپنی خودنوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصے میں بچپن، لڑکپن، والدین اور بہنوں کے بارے میں تفصیلی ذکر ہے اور خوشاب اور سرگودھا اور پھر لاہور کے واقعات جہاں چھ بہنوں اور والدین کے ساتھ یہ خاندان رہا۔ اُن کی والدہ ایک سمجھدار گھریلو خاتون تھیں اور والد محکمہ تعلیم سے وابستہ، جنھوں نے کم وسائل کے باوجود سب بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی۔ بیٹیوں والے زیدی صاحب کی بیٹیوں کی اِس تعلیم کے پیچھے والدہ کے جہیز کے برتن تک بک گئے۔
کتاب کا دوسرا حصہ وہ بھرپور متن ہے جس میں ماہپارہ نے بطور نیوز کاسٹر اور میڈیا پرسن اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں لکھا ہے۔ اب پاکستان میں عورتوں کی ملازمت اور بچیوں کی تعلیم کے بارے میں فرسودہ خیالات کا وہ دور نہیں رہا جو 1960ء اور 1980ء تک کے ادوار میں تھا یعنی ماہپارہ اور اُن کی بہنوں کی تعلیم کا زمانہ، لیکن پھر بھی میں سفارش کرتا ہوں کہ ملازمت کی خواہاں اور ملازمت کرنے والی پاکستانی خواتین کو اِس کتاب کا یہ حصہ ضرور پڑھنا چاہیے۔کتاب کا یہ حصہ بتاتا ہے کہ پروفیشنل خواتین عام گھریلو خواتین کی نسبت سخت جان ہوتی ہیں اور زندگی کو برتنے کا کہیں زیادہ رنگارنگ عملی تجربہ رکھتی ہیں۔ ساری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی پروفیشنل خواتین کو ماحول میں کئی نان پروفیشلنز اور نان پروفیشنل مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ماہپارہ نے ایسے کچھ واقعات کو کتاب کا حصہ بنایا ہے اور حق یہ ہے کہ بہت جرأت مندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہاں صرف ایک واقعہ لکھتا ہوں۔ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ٹیلی ویژن نیوز کاسٹروں کو سر پہ دوپٹہ لینے کا حکم نامہ جاری کرکے خاموش نہیں ہوگئے تھے بلکہ دوپٹہ اوڑھنے کے انداز پر بھی انفرادی توجہ فرماتے رہے۔ ماہپارہ جب بار بار کی اِس اصلاحی ٹوکا ٹاکی سے زچ ہوگئیں تو اُنھوں نے دوپٹہ ویسے اوڑھنا شروع کر دیا جیسے عورتیں نماز کے لیے لیتی ہیں۔ (یہی یادگار تصویر اُنھوں نے کتاب کے ٹائٹل پر بھی دی ہے۔) جنرل صاحب کو دوپٹہ اِس طرح اوڑھنا بھی ناگوار گزرا اور اُنھوں نے اگلے روز سیکرٹری انفارمیشن جنرل مجیب کے ذریعے پیغام بھیجا کہ ماہپارہ سے پوچھیے کہ کیا وہ دوپٹے کا مذاق اڑانے کی کوشش کر رہی ہیں؟ یہ بات آج لکھنا اور پڑھ لینا نیز اِس پر تبصرہ کرنا بہت آسان ہے لیکن جب یہ واقعہ پیش آیا تھا تب کے حالات کا محض تصور کرنا بھی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ پیدا کر دیتا ہے۔
''میرا زمانہ میری کہانی'' کا تیسرا اور آخری حصہ اُن یادوں پر مشتمل ہے جب کامیاب نیوز کاسٹر ماہپارہ نے بہتر مستقبل کے لیے بی بی سی ریڈیو اردو سروس جوائن کی۔ اُن دنوں اُن کے شوہر صفدر ہمدانی ٹوکیو ریڈیو جاپان سے وابستہ تھے۔ وہ اپنے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ کیریئر کا آغاز کرنے لندن پہنچیں۔ یہاں اُن کی صلاحیتوں کو سراہا گیا اور اُنھیں بی بی سی اردو سروس کی نمائندہ کے طور پر بلوچستان پر سیریز پروگرام کرنے اور ایران جانے کا موقع ملا۔ نیز وہ عراق، شام اور مصر بھی گئیں۔ یہ یادیں بار بار پڑھنے کی چیز ہیں۔
کتاب کا آخری حصہ ماہپارہ کی شاعری پر مشتمل ہے۔ یہ بات واقعی حیران کر دینے والی کہ وہ بہت اچھی شاعرہ ہیں اور اُن کی شاعری صرف مرثیہ کے مضامین کو نہیں بلکہ روایتی مضامین کو بھی سموئے ہوئے ہیں۔ مارشلائی دور کے استعاروں سے مملو اِس شاعری میں غزل، نظم، آزاد نظم، نظمِ معریٰ، فردیات، سبھی کچھ شامل ہے۔ بیشتر شاعری سہلِ ممتنع ہے جس میں ہندوستانی ثقافت کے لفظوں کی تعداد زیادہ ہے۔
ماہپارہ نیوز کاسٹر اور صحافی و ادیب ہیں اور اپنی ہر بات حوالے کے ساتھ کرنے کا مزاج رکھتی ہیں۔ کسی خودنوشت میں ''کتابیات'' کا اہتمام میں نے اب تک نہیں دیکھا تھا۔ یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ ''میرا زمانہ میری کہانی'' کے آخر میں کتابیات کا باقاعدہ عنوان قائم کیا گیا ہے۔
ماہپارہ صفدر کی خود نوشت سے کئی مزے کی باتیں پتہ لگیں جن میں سے تین کو ذکر کرتا ہوں۔ پہلی یہ کہ جنرل ضیاء الحق نو بجے رات کا خبرنامہ اہتمام سے دیکھتے تھے اور بسا اوقات اِس کی ریکارڈنگ دیکھتے تھے۔ وہ جب نیوز کاسٹروں سے ملتے تو اُنھیں نام سے پکارتے۔ یہ بھی لکھا ہے کہ جنرل صاحب خبریں پڑھنے والی خواتین نیوز کاسٹروں کے کپڑوں اور اُن کی میچنگ پر بھی خاص نظر رکھتے تھے۔دوسری بات ذرا ٹھہر کر پڑھنے کی ہے۔ جب عالمی اسٹیبلشمنٹ نے ایران میں مرحلہ وار حالات خراب کرکے 1979ء میں رجیم چینج آپریشن کیا تو شروع کے ایام میں ایرانی خواتین نے شاہِ ایران کے اقتدار کے خلاف احتجاجًا سکارف لینا اور پردہ کرنا شروع کر دیا۔ اِن خواتین کا موقف تھا کہ بادشاہ مغرب کی وفاداری میں بہت جدیدیت پسند ہوگیا ہے اور اسلامی اقدار کے خلاف روشن خیالی کی سرپرستی کر رہا ہے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ نے جونہی شاہ کو جلاوطن کرکے نئے اسلامی جمہوری انقلابی گروہ کو اقتدار دیا تو سر پر سکارف رکھنے کو قانون بنا دیا گیا۔ اِس قانون کی پابندی نہ کرنے پر سزا بھی فوراً نافذ کر دی گئی۔ آج کے ایران کے حالات دیکھیے تو آج پھر ایرانی خواتین سڑکوں پر ہیں اور سکارف جلائے جا رہے ہیں۔ چنانچہ یہ سمجھتے دیر نہیں لگتی کہ ہر ملک کی عوام بھیڑ بکری ہوتی ہے جسے ہر دور کی اسٹیبلشمنٹ اپنے مقاصد کے لیے ہانکتی رہتی ہے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ نے پینتالیس سال پہلے ایرانی عورتوں کو یہ نعرہ دے کر سڑکوں پہ نکالا تھا کہ سکارف پہننا حکومت کے استبداد سے آزادی کی علامت ہے، اور آج اُنہی عورتوں کی بیٹیاں نواسیاں سکارف اتارنے کو غلامی سے چھٹکارے کی علامت بنا چکی ہیں۔ جس غلامی سے جو آزادی پچھلی نسل نے خون دے کر حاصل کی تھی، آج وہی غلامی نئی نسل خون دے کر دوبارہ حاصل کر رہی ہے۔ اِس منظر کو ذرا سمجھنے کی کوشش کریں تو عالمی اداروں کا تیسری دنیا کے ملکوں کی عوام کے ساتھ کیا جانے والا استحصالی سلوک خون کے آنسو رلا دیتا ہے۔
تیسری بات پیشہ ورانہ جلن اور رقابتی رویوں سے متعلق ہے۔ ماہپارہ نے پی ٹی وی پر 1979ء میں بھٹو کی پھانسی کی خبر پڑھی تھی۔ 1988ء میں جنرل ضیائالحق کا جہاز تباہ ہوا تو اُنھیں یہ خبر پی ٹی وی پر اِس لیے نہ پڑھنے دی گئی کہ وہ ''خاتون'' تھیں۔ اُنھیں آج تک اِس صنفی امتیاز برتے جانے کا دکھ ہے۔
لوگ شاید یہی سمجھتے ہیں کہ نیوز کاسٹر صرف خبریں پڑھنے والے ملازم ہوتے ہیں جو مشینی انداز میں لکھے کو پڑھ دیتے ہیں لیکن ماہپارہ کی خودنوشت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ پاکستانی سیاست پر اُن کی گرفت حیرت انگیز ہے اور اُنھوں نے خوب جم کر سیاسی تبصرے لکھے ہیں۔ اُنھوں نے پینسٹھ اور اکہتر کی جنگوں کے اسباب اور نتائج پر سیر حاصل تبصرے کیے ہیں اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی داستانِ خونچکاں بیان کی ہے۔ اِن مضامین کو تحریر کرتے وقت اُن کی جرأتِ اظہار اور الفاظ کی گھن گرج قابلِ داد ہے۔ اُن کے نزدیک موجودہ صدی کی دوسری دہائی میں
عمران خان کی سیاسی لانچنگ برائے نام سونامی تھا جب کہ پچھلی صدی کے ستر کے عشرے میں کی جانے والی بھٹو کی لانچنگ حقیقی سونامی تھا۔ اکبر بگٹی کے ساتھ کیے گئے ریاستی سلوک پر اُن کی حوصلہ مند گفتگو سناٹے میں لے جاتی ہے۔ اُنھوں نے اپنا سیاسی نقطہ نظر مضبوط دلائل کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اُن کے نقطہ نظر سے دلائل کے ساتھ اختلاف کیا جاسکتا ہے۔
ماہپارہ کی خود نوشت کی لفظیات انتہائی پروفیشنل صحافتی ڈسکورس اور ایکشن وربز پر مشتمل ہے۔ تاہم اِس میں سنسنی خیزی والا وہ انداز نہیں ہے جو صحافت سے مخصوص ہے۔ ماہپارہ انتہائی پروفیشنل ہوتے ہوئے بھی مشرقی اقدار کی دلدادہ گھریلو پاکستانی خاتون ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے اپنی خود نوشت کو میکانکی انداز میں نہیں بڑھایا اور ادب کی بھینی بھینی خوشبو متن کے بیشتر حصے میں محسوس ہوتی ہے۔ کتاب کے تینوں حصوں میں موجود مضامین اپنی اپنی جگہ مکمل ہیں اور، سوائے دو جگہوں کے، کہیں کراس ریفرنس والا انداز نہیں ہے۔ مجموعی طور کتاب کی ریڈایبلٹی بہت اچھی ہے۔
''میرا زمانہ میری کہانی'' ایک کامیاب بیٹی اور بہن، ایک کامیاب بیوی اور ماں، اور ایک کامیاب پروفیشنل پاکستانی خاتون کی دلچسپ خودنوشت ہے جسے بک کارنر جہلم نے اپنے روایتی طباعتی اہتمام سے شائع کیا ہے۔
تبصرہ کتب
خبر نامے والی ماہپارہ باجی
حافظ صفوان