سيرت النبيﷺ
نبی کریم ﷺکے طریقہ انقلاب کے کچھ اہم پہلو
شاہ خان
اعلیٰ ذاتی کردار ،تعليم وتربیت کے ذریعےافرادکا تزکیہ اور کردار سازی، پرامن دعوت،صبرواعراض، منصوبہ بندی، زمینی حقائق کی رعایت اور تدریج کے اصول کی پابندی
1. نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب مکہ میں پرامن طورپر اسلام کی دعوت پیش کی تو قریش مکہ کی طرف سے اس دعوت کا ردعمل یہ نہیں ہوا کہ انہوں نے یہ سمجھا اور کہا ہو کہ ہمیں آپ کی دعوت عقل و فطرت کے پیمانوں پر اپیل نہیں کرتی، اس لیے ہم اسے قبول نہیں کرسکتے. اس کی بجائے انہوں نے اپنے مفادات کی خاطر، انا، ضد، تعصب، ہٹ دھرمی اور عناد سے کام لیتے ہوئے قرآن مجید کے عقلی اور فطری دعوت کے اثرکو کم کرنے کے لیے نہ صرف منفی پروپیگنڈہ کیا بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کے خلاف ظلم اور جبر پر بھی اتر آئے .قریش کے سرداروں نے نومسلم صحابہ اور خاص طورپر غلاموں اور عورتوں کو جسمانی تشدد اور ظلم کا نشانہ بنایا. یہ تو ایک معلوم بات ہے کہ حضرت سمیہ، ان کے شوہر حضرت یاسر اور ان کے بیٹے عبداللہ بن یاسر رضی اللہ عنھم کی شہادت ان پر جسمانی تشدد سے ہوئی. حضرت بلال رض اور خباب بن ارت رضی اللہ عنہ پر تشدد اور ظلم تو معلوم واقعات ہیں. قریش کے مذہبی جبر اور ظلم کی وجہ سے پہلے صحابہ حبشہ کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئے اور بعد میں انہوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی. مسلمان اگر قریش مکہ کے ظلم اور جبر کا جواب طاقت سے دیتے تو اخلاقی اور قانونی لحاظ سے وہ بالکل جائز ہوتا. نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ نبی ہونے کے ساتھ اللہ کے رسول بھی تھے اس لیے وہ اگر صحابہ کو طاقت سے قریش مکہ کے مظالم کا جواب دینے کی اجازت دیتے تو اللہ تعالی کے 'قانون نصرت' کے مطابق فرشتے نبی کریم(ص) اور صحابہ کی مدد کو آتے جس طرح بدر، احد اور احزاب میں آئے تھے. لیکن ہمارے لیے نمونہ ہونے کی خاطر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کی یہ دعوت پوری طرح پرامن اور ردعمل اور تشدد سے پاک تھی. مکہ میں جب مسلمان کمزور تھے تب ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت ملی تھی کہ 'کفوا ایدیکم' یعنی' (مخالفین کے جبر اور ظلم کے خلاف) اپنے ہاتھ(جوابی ردعمل سے) روکے رکھو'. اس پرامن دعوت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ نے پہلے ظلم وجبر کو برداشت کیا اور بعد میں جب انکا اپنے ایمان پر رہنا ہی ناممکن ہو گیا تو انہوں نے اپنے گھر بار اور وطن کو چھوڑا.
2. اس صبرو اعراض کی پالیسی میں بڑی حکمت پوشیدہ تھی. مسلمان چونکہ مادی اور عددی لحاظ سے کمزور تھے اس لیے اگروہ ظلم و تشدد کا جواب تشدد اور طاقت کے استعمال سے دیتے تو قریش مکہ کو انہیں اس سے زیادہ سخت ظلم اورجبر کا نشانہ بنانے کا اپنا سا بہانا مل جاتا اور انہیں کچلنے کے لیے اپنی پوری طاقت صرف کرتے اور مسلمانوں کو اپنی دعوت کے لیے مزید برا اور کٹھن ماحول ملتا. اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور صحابہ نے ردعمل اور جنگ کی بجائے صبر واعراض اور دعوت کو اپنی تگ ودو کا میدان بنایا. اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک قول بہت ہی معنی خیز ہے. نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ مجھے اس شخص کے حال پر افسوس ہے جو اپنے آپ کو خود ذلیل کراتا ہے. ایک صحابی نے عرض کیا یارسول اللہ کون اپنے آپ کو خود ذلیل کراتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ شخص جس کے پاس دشمن کے ساتھ لڑنے کے لیے طاقت نہ ہو لیکن پھر بھی وہ اس سے لڑتا ہے. نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پرامن عمل ( Peaceful Activism) کی حکمت عملی اپناتے ہوتے اپنی ساری توانائیاں پرامن دعوت، تعلیم وتربیت اور کردار سازی پرصرف کیں. پہلے افراد کی تربیت کی، ان کا تزکیہ کیا، پھر اپنی اجتماعیت کو منظم اور مضبوط کیا اور مدینہ میں صرف اس وقت قریش مکہ کی طاقت کا مقابلہ طاقت سے کیا جب ان پرجنگیں مسلط کی گئیں، جب جنگ کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں رہا تھا اور جب مدینہ میں انکی ایک منظم اجتماعیت اور طاقتور حکومت بن گئی تھی اور جب انکو تزکیہ یافتہ سرفروشوں کی ایک معتددبہ جماعت مہیا ہوگئی تھی.
3. ہجرت کی رات قریش مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی لیکن آپ(ص) کی تدبیر اور اللہ تعالی کی نصرت نے ان کی ساری کوششوں اور چالوں کو ناکام بنایا. نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفر ہجرت حکمت، بہتر تدبیر و منصوبہ بندی اور قریش کی مداخلت سے بچنے کے لیے مفیدحکمت عملی کے اقدامات اپنانے سے عبارت تھی. آپ(ص) نے اپنی ہجرت کی خبر کو پوشیدہ رکھا، ہجرت کے لیے پہلے سے تیاری کی، قریش کے تعاقب سے بچنے کے لیے آپ نے مکہ سے غیر متوقع سمت کی طرف رخ کیا، کچھ دن غار ثور میں گزارے، سفر ہجرت کے لیے غیر معروف لمبے راستے کا انتخاب کیا اور راستہ جاننے والے ایک غیر مسلم کو اپنا گائیڈ بنایا. اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کو کسی بھی چیلنج سے عہدا براہونے کے لیے اپنی پوری تدبیرکرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھانی چاہیئے.
4. مدینہ جاکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یثرب کے یہودیوں کے ساتھ مسلمانوں کا 'میثاق مدینہ' (امن معاہدہ) کرایا اور پرامن دعوت، بقائے باہمی اور معاشرتی امن کے لیے یہودیوں کو برابر کے حقوق دیئے اور ان کے ساتھ مدینہ کے مشترکہ دفاع کی حکمت عملی وضع کی. نوزائیدہ ریاست مدینہ کے معاشی اور معاشرتی استحکام کے لیے انصارومہاجرین میں 'مواخات' قائم کیا. آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں کے خلاف تب تک کوئی کارروائی نہیں كی جب تک انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو قتل کرنے کی سازش کرنے، معاہدے کو توڑنے، مسلمانوں کے خلاف جنگ میں مشرکین مکہ کا ساتھ دینے کا ارتکاب نہیں کیا.
5. یہ دیکھ کر کہ مسلمانوں کو مدینہ کی صورت میں ایک جائے قرار اور دعوت کے لیے ایک مناسب (Base) اور پرامن مرکز میسر آگيا ہے جس سے اسلام کے فطری اور عقلی دعوت کے تیزی کے ساتھ اشاعت اور ترویج کے امکانات روشن ہورہے ہیں، قریش مکہ نے مدینہ کے قریب آکر مسلمانوں پر تین جنگیں مسلط کیں. مسلمانوں کی طرف سے یہ تینوں جنگیں دفاعی تھیں. اپنے گھر بار اور وطن کو چھوڑ کر اہل اسلام نے جنگ سے اعراض اور اپنی دعوت کو پر امن رکھنے کی اپنی ذمہ داریاں ہر طرح سے پوری کی تھیں لیکن قریش مکہ اہل اسلام کے اس پرامن اور(انکےجبر پر) صبر کے رویے کے باوجود جبر، ظلم اور جنگ پر بضد تھے اور انہوں نے مسلمانوں کے لیے مسلح جہادودفاع کے سوا کوئی آپشن نہیں چھوڑی تھی. تب اہل اسلام نے اپنی پوری طاقت ایمانی اور عزم وسرفروشی سے ان کا مقابلہ کیا، اور اپنے سے زیادہ طاقتور لشکروں کو شکست دی.
6. ایک بار پھر امن ہی کی خاطرنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 'صلح حدیبیہ' میں قریش کی تمام تر نامعقول اور یک طرفہ شرائط مان لی تھیں. اگرچہ صلح کی شرائط کے بارے میں صحابہ کرام کی کئی ریزرویشنز تھیں لیکن اس كے باوجود امن اور دعوت کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی ہی کی خاطر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ناگوار شرائط بھی مان لیں. اس صلح کا بنیادی مقصد اسلام کی دعوت کے لیے پرامن ماحول کی فراہمی اور باہمی دشمنی، جنگ اور نفرت کے جذبات کا قلع قمع کرنا تھا. امن دعوت کے لیے کتنا اہم ہے، اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ قرآن مجید نے اسی وقت بظاہر شکست قبول کیے جانے والے صلح حدیبیہ کو 'فتح مبین' قرار دیا تھا. صلح حدیبیہ نے ایک طرف دونوں طرف کے communication barriers کو ختم کرکے غیر مسلموں کو مسلمانوں کے ساتھ مل بیٹھنے، انکی فطری اور عقلی دعوت سننے اور سمجھنے کا موقع فراہم کیا، اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کے اثر کو زائل کرنے میں مدد دی، بلکہ مسلمانوں کے خلاف قریش کے لیڈرز کی بوئی غلط فہمیوں اور نفرت کو کم کرنے میں بھی مدد دی. اسلام کے دعوت کے پھیلنے کے لیے اس امن معاہدہ کے مثبت ثمرات کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ صلح حدیبیہ کے بعد 3 سال کے کم عرصے میں ہزاروں کی تعداد میں اتنے لوگ مسلمان ہوگئے جوکہ دعوت کے پچھلے بہت سالوں میں نہیں ہوئے تھے. اس معاہدے کے 3 سال کے اندرہی مسلمان اس قابل بن گئے کہ وہ اپنے ہی شہر مکہ میں پر امن داخلے اور اس کی فتح کے لیے 10 ہزار کا لشکرتیار کر سکیں.