سير ت النبی ﷺ
نبی ﷺ کے نواسے اور نواسیاں
محمد فہد حارث
اہل تشیع حضرات کے معتدل مزاج اصحاب بھی اب بلا دلیل بنو امیہ و بنو ہاشم کے مابین رشتہ داریوں کا انکار کرنے لگے ہیں جبکہ ساتھ میں ہم اہلسنت کی یہ بد نصیبی ہے کہ سبائی پروپیگنڈہ کے زیر اثر کتنے ہی مسلمانوں کو یہ بھی نہیں پتہ کہ نبی ﷺ کی کتنے نواسے اور نواسیاں تھیں۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ تشیع سے متاثر ہمارے مورخین نے کم از کم ہندو پاک کے لوگوں کو یہ اطمینان دلادیا ہے کہ نبی ﷺ کی صرف ایک صاحبزادی فاطمہؓ تھیں اور صرف دو نواسے حسن و حسینؓ تھے۔
وہ تو اللہ بھلا کرے ہمارے محدثین کرام ؒ کا کہ انکی خدمات کے زیر اثر نبیﷺ کی اصل آل کی معلومات ہم تک بہم پہنچ گئیں اور پتہ چلا کہ نبی ﷺ کی چار صاحبزادیاں بنام زینبؓ، رقیہؓ، ام کلثومؓ اور فاطمہؓ تھیں جن میں سے صرف فاطمہؓ کی شادی بنو ہاشم میں ہوئی تھی جبکہ باقی تینوں لڑکیاں بنو عبد شمش و بنو امیہ میں بیاہی گئیں جن سے نبی ﷺ کے اموی نواسے اور نواسیاں ہیں۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
چار نواسے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ سیدنا علی بن ابی العاص ؓ
۲۔ سیدنا عبداللہ بن عثمانؓ
۳۔ سیدنا حسنؓ بن علیؓ
۴۔ سیدنا حسینؓ بن علیؓ
تین نواسیاں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ سیدہ امامہ بنت ابوالعاصؓ
۲۔ سیدہ ام کلثوم بنت علیؓ
۳۔ سیدہ زینب بنت علیؓ
نبیﷺ کے نواسے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ سیدنا علی بن ابی العاص بن ربیعؓ:
یہ نبی ﷺ کی سب سے بڑی بیٹی زینبؓ کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے اور نبی ﷺ کے سب سے بڑے نواسے۔ انکے والد ابو العاص ؓبن ربیع کا تعلق بنو عبد شمس سے تھا جو کہ بہت سخی، ایماندار اور بہادر مشہور تھے۔ یہ رشتہ میں ام المومنین خدیجہؓ کے بھانجے تھے۔ سیدنا علی بن ابی العاصؓ ہجرت سے ۵،۶ سال قبل پیدا ہوئے۔ جب زینبؓ مدینہ ہجرت کرگئیں تو نبی ﷺ نے اپنے ان نواسہ کو سیدہ زینبؓ سے لے لیا اور انکی پرورش خود کی۔ (الاصابہ جلد ۲، صفحہ ۵۰۳)
نبی ﷺ کو اپنے ان بڑے نواسہ سے بہت پیار تھا اور آپ ﷺ تمام اہم مواقع پر انکو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی ﷺ کے یہی نواسہ آپﷺ کے ساتھ انکی سواری پر سوار ہوکر مکہ میں داخل ہوئے تھے (الاصابہ جلد ۲، ص ۵۰۳)
انہوں نے ہی نبی ﷺ کے حکم پر آپ ﷺ کے کندھوں پر سوار ہوکر خانہ کعبہ کے بت گرائے تھے۔ اس وقت انکی عمر ۱۴، ۱۵ سال کے لگ بھگ تھی۔ ( الاصابہ جلد ۲ ص ۵۰۳) یہ علی ؓ سلطنت روم کے خلاف جنگ یرموک میں بعہد عمرؓ شامل تھے۔ یہ جنگ ۱۵ ہجری میں لڑی گئی۔ جس میں انکو شہادت نصیب ہوئی۔ اس وقت انکی عمر ۲۲ سال تھی۔ یہ نبی ﷺ کے نواسوں میں پہلے شہید تھے جو کہ کفار کے خلاف لڑتے ہوئے اعلائے کلمۃاللہ کے لئے شہید ہوئے۔ کفار کے خلاف ج ہ اد کرتے ہوئے نبی ﷺ کے کسی اور نواسہ کو شہادت نصیب نہیں۔ اس متعلق علی بن ابی العاصؓ کا مقام ممتاز ہے۔
علامہ اقبال نے اپنی کتاب بانگ درا میں ’’جنگ یرموک کے واقعہ‘‘ میں جس نوجوان کا ذکر کر کے خراج تحسین پیش کیا ہے وہ یہی علی بن ابی العاص ہیں۔
۲۔ سیدنا عبداللہ بن عثمانؓ:
یہ نبی ﷺ کے اموی داماد عثمانؓ کے صاحبزادے تھے۔ انکی والدہ نبی ﷺ کی بیٹی سیدہ رقیہؓ تھیں جنکا انتقال ۲ ہجری میں ہوا۔سو لازم ہے کہ انکی پیدائش ۲ ہجری سے پہلے کی ہی ہوگی۔ رقیہ ؓ کی شادی عثمانؓ سے ہجرت حبشہ سے پہلے ہوئی (صحیح بخاری) طبری لکھتے ہیں کہ انکی عمر جب سات سال تھی تو ایک پرندے نے انکی آنکھ میں چونچ ماری جسکی وجہ سے انکا انتقال ہوگیا لیکن مسعودی جو کہ تشیع میں ممتاز ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ’’انہوں نے ستر سال عمر پائی۔ اور زندگی کے آخری ایام میں انکی آنکھ میں کچھ خرابی آگئی تھی جس پر مزید کسی پرندے کے چونچ مارنے کی وجہ سے زخم پڑ گیا تو اور بڑھاپے کے سبب علاج ممکن نہ ہوسکا اور انکا انتقال ہوگیا۔ ہمارے زمانے (یعنی مسعودی کے زمانے چوتھی صدی ہجری) میں مکہ میں ایک محلہ ان عبداللہ بن عثمان ؓ کی اولاد سے آباد ہے۔اسکے علادہ انکی کچھ آل اولاد قرطبہ اور اشبیلیہ نقل مکانی کرگئی تھی اور وہاں مقیم ہے۔
۳۔ سیدنا حسن بن علیؓ:
یہ نبی ﷺ کے تیسرے نواسہ تھے جو کہ بقول چوتھی ہجری اور بقول محدثین غزوہ خیبر کے قریبی زمانے میں پیدا ہوئے۔ انکی والدہ سیدہ فاطمہؓ تھیں۔ یہ مسلمانوں کے پانچویں خلیفہ تھے جہنوں نے ۶ مہینہ تک خلافت کے فرائض انجام دیئے۔ اور چونکہ انکی طبعیت میں شروع سے صلح جوئی کا مادہ زیادہ تھا اسی لئے اس خیال کے ساتھ سیدنا معاویہ ؓ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوگئے کہ سیدنا معاویہؓ ان سے زیادہ خلافت کی اہلیت رکھتے ہیں اور اچھے سے مسلمانوں کا انتظام سنبھال سکتے ہیں۔ نبی ﷺ نے اپنے ان نواسہ کو ’’سید‘‘ یعنی ’’سردار‘‘ کے لقب سے نوازا تھا اور پیشن گوئی فرمائی تھی کہ ان کے ذریعے مسلمانوں کے دو گروہوں کے مابین صلح انجام پائی گی۔عموما یہ باور کروایا جاتا ہے کہ انکی وفات زہر خورانی سے ہوئی تھی جو کہ انکی زوجہ جعدہ بنت اشعث بن قیسؒ جو کہ رشتہ میں سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی بھانجی تھیں کے ذریعے انکو دلوایا گیا۔ اس بات کی حیثیت ایک گپ سے زیادہ کچھ نہیں جسکا کوئی اثر تاریخ و احادیث کی متداول کتابوں میں نہیں ملتا۔
۴۔ سیدنا حسین بن علیؓ:
یہ نبی ﷺ کے سب سے چھوٹے نواسہ تھے، انکی والدہ بھی سیدہ فاطمہ زوجہ علیؓ تھیں۔یہ واقعہ کربلا کی وجہ سے کافی مشہور ہیں۔۶۱ ہجری میں یزید بن معاویہؒ کی بیعت سے احتراز کرکے یہ کوفہ کی طرف چلے گئے۔ انصار و مہاجرین میں سے کسی بھی ایک صحابیؓ نے انکے عازم کوفہ ہونے میں انکی تائید نہیں کی ، جبکہ سیدنا ابو سعید الخدری، سیدنا عبداللہ بن عمر اور سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے انہیں کوفہ جانے سے سختی سے منع کیا لیکن انہوں نے انکے مشورہ پر عمل نہ کیا اور کوفہ کا رخت سفر باندھا لیکن جب کوفہ پہنچنے پر اہل کوفہ کی غداری کا پتہ چلا تو اپنے رشتہ کے نانا یعنی نبی ﷺ کے ماموں زاد بھائی عمر بن سعد بن ابی وقاصؓ جو کہ ایزید کی طرف سے سیدنا حسین بن علیؓ کی طرف آئے تھے کے سامنے تین شرائط پیش کرتے ہوئے آخری شرط یعنی یزید کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینے پر رضامندی کا اظہار کیا اور دمشق کی طرف عازم سفر ہوئے لیکن راستہ میں کوفیوں نے راہ روک کر انکو بمعہ انکے اہل و عیال شہید کر دیا۔
نبیﷺ کی نواسیاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ سیدہ امامہ بنت ابو العاصؓ:
یہ نبی ﷺ کی سب سے بڑی نواسی تھیں۔ نبیﷺ کو ان سے بہت پیار تھا کہ جب نبیﷺ مسجد میں صلوٰۃ کی امامت کروانے جاتے تو یہ آپﷺ کے کندھوں پر سوار ہوتیں۔ ابو قتادہ انصاریؓ کہتے ہیں کہ یہ صلوٰۃ کے دوران آپﷺ کی گردن پر سوار ہوتیں اور جب آپ ﷺ سجدہ کرنے لگتے تو انکو اپنی گردن سے اتار دیتے اور جب آپﷺ سجدہ سے واپس کھڑے ہوتے تو انکو اپنی گردن پر پھر بٹھالیتے۔(صحیح بخاری، جلد ۱ ص ۷۴)
ایک دفعہ نبی ﷺ کی خدمت میں ایک بہت ہی خوبصورت ہار پیش کیا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اسکو اپنے خاندان میں جس سے سب سے زیادہ پیار کرتا ہوں اسکی گردن میں پہناؤنگا، لوگوں نے سوچا کہ آپﷺ یہ ہار سیدہ عائشہؓ کو عنائت فرمائیں گے لیکن آپﷺ نے سیدہ امامہ بنت ابو العاصؓ کو بلوایا اور وہ ہار اپنے ہاتھ سے انکو پہنایا۔ سیدہ فاطمہؓ کے انتقال کے بعد سیدنا علی ؓ نے سیدہ فاطمہؓ کی وصیت کے مطابق ان امامہ بنت ابو العاصؓ سے نکاح کرلیا تھا۔ سیدنا علیؓ کے انتقال کے بعد انکا نکاح سیدنا محمد بن جعفر بن ابی طالبؓ سے ہوا (جمہرۃ الانساب)۔
۶۱ ہجری میں جب سیدما حسینؓ نے یزید بن معاویہ کی بیعت سے احتراز کرکے کوفہ کا رخت سفر باندھا تو سیدنا حسینؓ کی چھوٹی بہن زینب جو کہ اس وقت سیدنا عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب کے نکاح میں تھی وہ بھی اپنے بھائی کے ساتھ کوفہ کی طرف روانگی کے لئے آمادہ ہوئیں جس پر ان کے شوہر سیدنا عبداللہ بن جعفر بن ابی کاطالبؓ نے انکو روکنا چاہا کیونکہ عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب رشتہ میں یزید بن معاویہ کے سسر تھے کہ یزید بن معاویہؒ کی بیوی ام محمدؒ عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب کی سگی بیٹی تھیں۔ لیکن جب شوہر کے منع کرنے کے باوجود زینب بنت علیؓ نہ رکیں تو عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب نے انکو طلاق دیدی اور انکی خالہ زاد بہن امامہ بنت ابو العاص بن ربیعؓ سے نکاح کرلیا۔ یاد رہے یہ عبداللہ بن جعفر بن ابی طالبؓ وہی ہیں جن کے بارے میں نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ جعفر ؓ کے بیٹوں میں عبداللہ ؓ ہم پر گیا ہے۔ (صحیح مسلم)حجاج بن یوسف ثقفی ان سیدہ زینب کا داماد تھا کہ اسکو سیدہ زینب کی صاحبزادی ام کلثوم بنت عبداللہ بن جعفر بیاہی تھیں۔ (جمہرہ انساب العرب)
۲۔ سیدہ ام کلثوم بنت علیؓ
یہ سیدنا علی ؓ کی سب سے بڑی بیٹی تھیں۔ انکی والدہ سیدہ فاطمہ ؓ زوجہ علیؓ تھیں۔ سیدہ فاطمہؓ نے انکا نام اپنی بڑی بہن ام کلثوم کے نام پر رکھا تھا۔ انکی شادی خلیفہ دوم سیدنا عمرؓ بن خطاب سے ہوئی تھی۔ شادی کے وقت انکی عمر ۱۳ سے ١٥ سال بتائی جاتی ہے۔ سیدنا عمرؓ سے انکی دو اولادیں ہوئیں، ایک لڑکا زید بن عمرؒ اور ایک لڑکی رقیہ بن عمرؒ۔ (سیراعلام النبلا للذہبی)
۳۔ سیدہ زینب بنت علیؓ
یہ سیدنا علی و سیدہ فاطمہؓ کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں جو کہ ام کلثوم، حسن اور حسینؓ سے عمر میں چھوٹی تھیں۔ سیدہ فاطمہؓ نے انکا نام بھی اپنی بڑی بہن کے نام پر زینبؓ رکھا تھا۔ انکی شادی اپنے عم زاد یعنی چچا زاد عبداللہ بن جعفر بن ابی طالبؓ سے ہوئی تھی۔ جوکہ ۶۱ ہجری میں واقعہ کربلا سے متعلق تنازع کی صورت پر طلاق پر منتج ہوئی۔ واقعہ کربلا کے بعد یہ دمشق چلی گئی اور اس کے بعد ساری زندگی وہی اپنے داماد یزید بن معاویہ کے پاس گزاری۔