نعت رسول كريمﷺ
میں پیاس کا صحرا ہوں، تُو دریا کا خزینہ
تُو قاسمِ تسنیم ہے، حاجت مری پینا
تُو وہ ہے کہ ہر حُسن تری ذات سے مُشتَق
میں وہ ہوں، کہ مجھ میں نہ سلیقہ نہ قرینہ
تُو قلزمِ آفاق کا ہے ساحلِ مقصود
میں بحرِ پُر آشوب میں کاغذ کا سفینہ
میں سنگ کا ریزہ ہوں نہ وُقعت نہ حقیقت
تُو فرقِ فلک کیلئے نایاب نگینہ!
تیرے لئے اک جست ہے افلاک کی رفعت
میرے لئے صدیوں کی مسافت ہے مہینہ
میں ظُلمت و حرماں کے دہانے پہ کھڑا ہوں
روشن ہے تری ذات سے کونین کا سینہ
ہر فعل ترا مصدرِ آگاہی و حکمت
ہر قول ترا علم کے انوار کا زینہ
ہیں تیرے ہی خورشیدِ جہاں تاب کی کرنیں
دانش کدۂ رومی و حکمت گۂ سینا
ہو عشق ترا میری تمناؤں کا مرکز
ترے ہی لئے ہو مرا مرنا، مرا جینا
بے نور سی ہونے لگیں جو نزع میں آنکھیں
ہو سامنے ضو باریٔ دربارِ مدینہ!
شرمندۂ احساسِ حقِ نعت ہوں انورؔ
ہر لفظ کے ماتھے سے ٹپکتا ہے پسینہ
انور جمال