اصلاح و دعوت
احسن كلام اور شيريں گفتگو
محمد فہد حارث
میرا ہمیشہ ماننا رہا ہے کہ دعوت دین اور آپسی مکالمے میں سب سے بہترین طرز حسن اخلاق و شائستگی ہے۔ آپ سامنے والے سے تمیز و نرمی سے بات کرینگے تو وہ اختلاف رکھنے کے باوجود آپکی بات مانے یا نہ مانے لیکن سن ضرور لے گا۔ پس عموما میں نے فیس بک پر یہی روش اپنائے رکھی کہ کمنٹس سیکشن میں جب بھی کسی نے نہایت سخت لہجے یا غیر شائستگی سے اختلاف یا نقد کیا تو میری کوشش ہوتی کہ اسے تحمل اور نرمی سے جواب دوں۔ اس طرز عمل کے نتیجے میں میں نے یہ مشاہدہ کیا کہ کئی حضرات جو مجھ سے ابتدا سخت اختلاف رکھا کرتے تھے، ان کے رویوں میں کسی قدر تبدیلی آئی اور میرے لیے ان کی ناپسندیدگی و تنفر کسی قدر کم اور بعض کے اندر اختلاف ہنوز ہونے کے باوجود تنفر ختم ہوگیا یا پسندیدگی میں بدل گیا۔کئی حضرات نے اکثر میری وال پر آکر اس بات کا کھلے دل سے اعتراف بھی کیا کہ ہم نے اکثر فھد صاحب کو سخت سست سنائی لیکن اس کے باوجود ان کی طرف سے تحمل و نرمی کے اظہار نے ہمیں خوشگوار طور پر حیران کیا اور ان کی بابت نرم رائے رکھنے پر مجبور کردیا۔میرا یہ طرز عمل قرآن و حدیث کے مجموعی مطالعے سے اخذ کردہ دعوت کے تحت رہا ہے لیکن پچھلے دنوں سورة فصلت پڑھتے ہوئے کچھ ایسی آیات نظروں کے سامنے آگئیں جنھوں نے مجھے اندر سے نہ صرف سرشار کردیا بلکہ بیک وقت ورطہ حیرت میں بھی ڈال دیا کہ اپنے جس طرز عمل کے سبب مجھے جو تجربات رہے، وہ تو اللہ نے قرآن میں صریح انداز میں بہت پہلے سے بیان کررکھے ہیں۔ دیکھیے اللہ سورة فصلت آیت ٣٤ تا ٣٦ میں کس قدر واشگاف اور دو ٹوک الفاظ میں یہ پورا سیناریو بیان فرماتا ہے:
"اور اے نبیؐ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بری بات و روئیے (بدی) کو احسن کلام و شیریں گفتگو سے دفع کرو (یعنی بہترین نیکی سے)۔ تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے. یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر اُن لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر اُن لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں.
دیکھا آپ نے!!! یہ بعینہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے جس کا مجھے فیس بک کے ذریعے بارہا تجربہ ہوا ہے۔۔۔ آگے آیت ٣٦ ملاحظہ کیجئے جو پھر اسی تجربے پر مبنی ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص مجھے نہایت سخت سناجاتا ہے اور کچھ ایسا کمنٹ کرجاتا ہے کہ غصے سے میرا دماغ بھن ہوجاتا ہے اور طیش کے زیر اثر شیطان ایسا اکساتا ہے کہ بس سامنے والے کو الفاظ سے وہ مار ماروں کہ اسکے چودہ طبق روشن ہوجائیں، بعض مواقع پر ایسا کر بھی دیتا ہوں جبکہ بعض دفعہ اعوذ باللہ پڑھ کر خود پر قابو پانے کی کوشش کرکے جواب دینے سے احتراز بھی کرتا ہوں۔ جب کبھی اشتعال میں آکر جواب دیدیتا ہوں تو بعد میں بہت پچھتاتا ہوں اور افسوس رہتا ہے لیکن اگر اس وقت خود پر قابو پالیتا ہوں تو بعد میں بہت بہتر محسوس کرتا ہوں اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔۔۔ ایسی صورتحال میں دیکھیے کہ اگلی ہی آیت یعنی آیت ٣٦ کیسے منطبق ہورہی ہے:وَاِ مَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَا سْتَعِذْ بِا للّٰهِ ۗ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ
"اور اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے"
یہ تین آیتیں پچھلے جمعہ کو سنیں تو ابتدا یقین نہ آیا کہ کیا واقعی اتنا موکد اور same to same طریقے پر قرآن میں یہ طرز عمل اور اس کے نتائج مذکور ہیں اور مارے تجسس کے قرآن کھول کر خود دیکھا تو شدید حیرت اور بے انتہا خوشی ہوئی کہ قرآن و حدیث کے مجموعی مطالعے اور والدین کی تربیت کے زیر اثر دعوت دین اور آپسی مکالمے کی ڈیویلپ ہوئی میری فہم تو قرآن میں بصورت تین واضح آیات صراحتا موجود ہے۔اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔ واقعی قرآن جس قدر پڑھ لو، ہر دفعہ کچھ نیا ہی جاننے کو ملتا ہے۔