سيرت النبي ﷺ
نبض شناس لیڈر
قاري حنيف
غزوہ احزاب انتہائی کسمپرسی اور قحط سالی کی حالت میں لڑی گئی ۔ جب مختلف قبائل کے پچیس ہزار جنگجو مدینے کی ڈہائی ہزار کی آبادی پر حملہ آور ہوئے ،دشمنوں کی سرگرمیوں کی اطلاعات ملتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے مدینے کی کھلی سائڈ پر خندق کھودنے کا کام شروع کیا ۔ دس دس آدمیوں کی ٹولی کو دس دس گز جگہ الاٹ کر دی گئ کہ وہ وہاں خندق کھودیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سورہ نساء پڑھا رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے یہ چوڑا پتھر پیٹ پر اس لئے باندھا جاتا تھا تا کہ خالی انتڑیاں گیس بھر جانے سے کروٹ لے کر گرہ نہ لگا لیں ۔ جس کا نتیجہ اس زمانے میں موت ہی ہوتا تھا ۔ آجکل سرجری کر کے انتڑیوں کو گرہ والی جگہ سے کاٹ کر سیدھا کر کے جوڑ دیا جاتا ہے ۔بھوک اور سردی دو مصیبتوں کا سامنا تھا اور سامنے تا حد نظر دشمنوں کا لشکر تھا ۔ایسی صورتحال میں یہ خوفناک خبر ملتی ہے کہ یہود کا اھل مکہ سے معاہدہ ہو گیا ہے کہ وہ اندر سے مسلمانوں کے اس کیمپ پر حملہ کریں گے جہاں عورتیں اور بچے جمع کیئے گئے تھے ۔
اس حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کی حالت دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے ارادہ فرما لیا کہ کسی طرح انصار پر سے کچھ بوجھ ہلکا کیا جائے ۔ نہ چاہتے ہوئے بھی آپ نے یہود کے ساتھ بات چلائی کہ اگر وہ اہل مدینہ کا ساتھ دیں اور مشرکین مکہ کے کہنے پر مدینے کی سول آبادی پر حملہ نہ کریں تو ان کو مدینے کی آمدن کا نصف دیا جائے گا ۔۔ اسی دوران انصار کو جب اس معاملے کا علم ہوا تو انہوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ " اے اللہ کے رسول جب ہم لوگ مسلمان نہیں تھے تب بھی ہم نے ان کو خراج ادا نہیں کیا پھر اب اسلام قبول کرنے کے بعد ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں ۔ یہود کے لئے ہماری تلواروں کے سوا کچھ نہیں ،ہم انہیں ایک دانہ بھی نہیں دیں گے ۔ انصار کا یہ جذبہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر رقت طاری ہو گئی اور فرمایا کہ اللہ کی قسم میں خود بھی اس چیز کو پسند نہیں کرتا لیکن تمہاری تکلیف مجھ سے دیکھی نہیں جاتی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی تصدیق اللہ تعالیٰ نے بالکل انہی الفاظ میں فرمائی ۔
لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم بالمؤمنین رءوف الرحیم ۔
تمہارے پاس تمہی میں سے ایسے رسول آئے ہیں کہ جو چیز تمہیں مشکل میں ڈالے وہ ان پر بہت بھاری گزرتی ہے اور تمہاری خیرخواہی کے بہت حریص ہیں ، اھل ایمان کے بارے میں بڑے شفیق اور رحیم ہیں ۔۔یہود اور مشرکین کے درمیان حضرت نعیم رضی اللہ عنہ کے ذریعے پھوٹ ڈال دی گئی اور رات کو اللہ تعالیٰ نے ایسا طوفان بھیجا کہ دشمن لشکر کی کمر ہمت ٹوٹ گئ اور وہ ایک دوسرے کو لعن طعن کرتے ہوئے منتشر ہو گئے ۔
بظاہر سب سمجھ رہے تھے کہ مسلمان اس ٹراما سے نکلنے کو غنیمت سمجھ کر اب آئندہ دبک کر بیٹھیں گے اور ان کا مورال زمین بوس ہو گیا ہو گا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کے پسپا ہوتے ہی اعلان فرما دیا تھا کہ " لن تغزوکم قریش بعد عامھم ھذا ، بل تغزونھم ۔ قریش اس سال کے کبھی تم پر حملہ آور نہیں ہونگے ،بلکہ یہ تمہی ہو گے جو اب ان پر یلغار کرو گے ۔ ایسے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں دیکھتے ہیں کہ آپ صحابہ کرام کے ساتھ طوافِ بیت اللہ فرما رہے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اللہ کا حکم سمجھا اور صحابہ کرام کو عمرے کی تیاری کا حکم دے دیا ۔
پوائنٹ یہ تھا کہ لیڈر کو اپنے چاہنے والوں کا ہمدرد اور خیرخواہ ہونا چاہئے ۔ اور ان پر وہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے جو ان کے خاندان کے لئے بھی کولیٹرل پنشمنٹ بن کر رہ جائے ۔ رسول خدا ہوتے ہوئے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل پر پتھر رکھ انصار کے یہود سے براہ راست ٹکراؤ کو ٹالنے کی کوشش میں اپنے مقام کو ایک طرف رکھتے ہوئے رستہ نکالنے کی کوشش کی ۔