شخصيات
مولانا فضل الرحمٰن ،ایک گوہر نایاب
فرنود عالم
مولانا فضل الرحمٰن کے سیاسی اساتذہ تین ہیں۔ ایک تو اُن کے والد مفتی محمود ہیں۔ مفتی محمود اور مولانا فضل الرحمٰن میں وہی فرق ہے جو ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو میں ہے۔ ان دونوں نے ثابت کیا کہ سیاست کی جمع تفریق اور جمہوریت کی ضرب تقسیم وہ اپنے والدین سے کہیں بہتر جانتے اور سمجھتے ہیں۔
مولانا کے باقی دو اساتذہ میں ایک نواب زادہ نصراللہ خان ہیں اور دوسرے خان عبدالولی خان ہیں۔ نوابزادہ صاحب کی درس گاہ میں انہیں والد نے بٹھایا تھا۔ ولی خان بابا البتہ ان کا ذاتی انتخاب تھے۔ مولانا نے جے یو آئی کی زمام سنبھالی تو مملکتِ ضیا داد پاکستان کا سورج سوا نیزے پر تھا۔ مولانا کی عمر تب 27 برس تھی۔ دستار بندی کے بعد وہ سب سے پہلے خان عبدالولی خان کا آشیرباد لینے چارسدہ گئے تھے۔ مولانا بند کمرے میں ہونے والی دوگھنٹے کی اِس گفتگو کو اپنی سیاسی تربیت کا حاصل قرار دیتے ہیں۔ مولانا نے جنگ کا حالیہ طبل بجایا تو فرزند اور بھائی تذبذب میں پڑگئے۔ مولانا نے کہا، ولی خان بابا نے ایک بار کہا تھا ’سیاست میں جس لمحے مایوسی کے بادل منڈلاتے ہیں، وہی لمحہ پیش قدمی کا ہوتا ہے۔ اُس لمحے جو بیٹھ گیا، وہ رہ گیا۔‘جنرل ضیا کے پاس سادہ روحوں پر پیلنے کے لیے جو چونا تھا، وہ مذہب تھا۔ ایسے میں ضیا کے دربار میں راگ درباری الاپنے کے لیے مولانا سے بہتر امیدوار کوئی نہیں ہوسکتا تھا۔ مولانا نے مگر راگ یمنی چھیڑنے کو ترجیح دی۔ ضیا کی ہمنوائی نہ کرنے کی پاداش میں مولانا کو ساڑھے تین برس جیل ہوئی۔ رہائی ہوئی تو مولانا نے نوابزادہ اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ مل کر وہیں سے سیاسی سفر کا آغاز کیا جہاں وہ چھوڑ کر گئے تھے۔جماعت اسلامی اور جے یو آئی کی رقابت میں شدت اسی ضیا دور کا قصہ ہے۔ کیونکہ جماعتِ اسلامی جنرل ضیا کی کابینہ میں جوتوں سمیت داخل ہوچکی تھی۔ مولانا کی یہی جنگ اپنے مسلک میں مفتی تقی عثمانی اور تھانوی گروپ کے ساتھ پیدا ہوگئی تھی۔ کیونکہ مولانا کو کاؤنٹر کرنے کے لیے جنرل ضیا نے مفتی تقی عثمانی کے پیر ومرشد ڈاکٹر عبدالحئی کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی۔ یوں وہ مفتی تقی عثمانی کے پیر بھائی اور علمائے دیوبند کی آنکھ کا تارا بن گئے تھے۔ بریلوی مکتبِ فکر کے ساتھ یہی ہاتھ ضیا نے پیرکرم شاہ کے ہاتھ پر بیعت کرکے کیا تھا۔ اسی دور میں ایک صبح مسلمانوں کی آنکھ کھلی تو پیر کرم شاہ اور مفتی تقی عثمانی شریعت کورٹ کے جج لگ چکے تھے۔ دیوبند مکتبِ فکر میں دو طبقے وجود رکھتے ہیں۔ ایک تھانوی گروپ، جس کے سرخیل مفتی تقی عثمانی و دیگر ہیں۔ اِن کا سلسلہ مسلم لیگ کے حامیوں مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا اشرف علی تھانوی سے جاملتا ہے۔ دوسرا مدنی گروپ ہے، جس میں جے یو آئی اور دیگر آتے ہیں۔ اِن کا سلسلہ کانگریس کے اتحادی مولانا حسین مدنی اور عبید اللہ سندھی سے جاملتا ہے۔ مولانا مدنی وہی ہیں جنہوں نے علامہ اقبال کو سمجھایا تھا کہ قومیں مذہب سے نہیں، وطن سے بنتی ہیں اور یہ کہ اس جدید دور میں جمہوریت سے بہتر کوئی عمرانی معاہدہ ہو نہیں سکتا۔ یہی مدنی سلسلہ دیوبند مکتبِ فکر میں کانگریسی بھی کہلاتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ان دونوں قبیلوں کی اڑان ہمیشہ سے دو مختلف سمتوں میں رہی ہے۔ کانگریسی مکتبِ فکر ہمیشہ جمہوری اور عوامی حلقوں کی تائید میں کھڑا ہوا۔ تھانوی حلقہ فکر نے ہمیشہ طاقت کے غیر جمہوری مراکز سے امیدیں رکھیں۔ آج کی سیاسی صورتِ حال میں بھی اگر مفتی تقی عثمانی ٹوئٹر پر ’کلمہ حق‘ کہتے ہوئے اور مولانا طارق جمیل سٹینڈ اَپ کامیڈی کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں تو سیاست کے کُل وقتی طالب علم اسے ہرگز کوئی نئی واردات نہیں سمجھتے۔
دیوبند مکتبِ فکر میں مولانا کی ایک بڑی جنگ جہادی اور مسلح شیعہ مخالف تنظیموں سے بھی رہی۔ عام خیال یہ ہے کہ مولانا افغان جہاد کے معاملے میں جنرل ضیا کے دست و بازو رہے۔ معاملہ حالانکہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ دیوبند کے ہر حلقے میں جے یو آئی اسی بنیاد پر ملامت کاشکار رہی ہے کہ اسے افغان جہاد میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ جے یو آئی سے توقع رکھی جاتی تھی کہ وہ کوئٹہ اور پختونخوا میں جہادی کیمپ کھولے گی، مگر اس نے احتراز کیا۔ جے یو آئی کا ایک دفتر کراچی میں سہراب گوٹھ کے مقام پر ہوا کرتا تھا۔ اس دفتر کے منتظم افغان جہاد میں دلچسپی رکھتے تھے۔ دیگر جہادی تنظیموں کی طرح اس دفتر سے مجاہدین کی بھرتیاں ہوئیں اور رات کے اندھیروں میں انہیں افغانستان بھیجا گیا۔ یہ دفتر جب اسی حوالے سے معروف ہوا تو مولانا نے کوئی وجہ بتائے بغیر اسے بنیادوں سے ہی اکھیڑ دیا۔ مجاہدین کہتے تھے کہ یہ مولانا نے صرف جہاد سے خار کھاتے ہوئے بند کیا ہے۔ جے یو آئی کے کارکن وضاحتیں دیتے تھے کہ نہیں بھئی یہ تو کچھ انتظامی کوتاہیوں کی شکایات آنے کی وجہ سے بند ہوا ہے۔مجاہدین ہمیشہ یہ محسوس کرتے تھے کہ جن مساجد میں جے یو آئی سے وابستہ مولوی امامت کرتے ہیں وہاں افغان جہاد کے لیے چندہ کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ 90 کی دہائی میں سپاہ صحابہ کی قیادت نے جو تقاریر کیں اب تو وہ یوٹیوب پر بھی دستیاب ہیں۔ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ اس اینٹی شیعہ قیادت نے شیعوں کے خلاف تقاریر زیادہ کی ہیں یا مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف۔ کراچی میں 90 کی دہائی، سپاہ صحابہ اور جہادی تنظیموں کی دہائی ہوا کرتی تھی۔ ہر بڑی مارکیٹ میں سپاہ صحابہ کا کتب خانہ ہونا ایک عام سی بات تھی۔ تب مجھے یاد ہے کہ مدارس کے دروازوں پر اور تبلیغی جماعت کے مراکز میں لگے ہفتہ وار سٹالوں پر مولانا اعظم طارق کی مشہور زمانہ تقریر ’مولانا فضل الرحمٰن کا آپریشن‘ بلند آواز میں چلاکرتی تھی۔ جے یو آئی کے وابستگان خاموشی سے سنتے ہوئے گزر جاتے تھے۔مولانا نے اپنے ووٹروں کا دل رکھنے کے لیے اور رقیبوں کا منہ بند رکھنے کے لیے افغان طالبان کی جدوجہد کو جائز مانا، مگر انتظامی طور پر یا افرادکار کی صورت میں تعاون فراہم کرنے سے گریز کیا۔ طالبان نمائندے اپنے گرفتار ساتھیوں کے لیے اثر ورسوخ استعمال کرنے کی درخواست کرتے تو مولانا ’ہوجائے گا‘ کہہ کر غائب ہوجاتے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایمان کے ثبوت کے لیے اول و آخر پیمانہ افغان جہاد ہوا کرتا تھا۔ تب افغان جہاد کے خلاف نقطہ نظر رکھنے والے زیادہ سے زیادہ خاموش رہ سکتے تھے، اظہار نہیں کرسکتے تھے۔ جے یو آئی کے مولانا شیرانی جیسے ایک آدھ ہی تھے جو اونچے سُروں میں اسے فساد سے تعبیر کرتے اور اپنے کارکنوں کی مشکل میں اضافہ کردیتے۔
مولانا فضل الرحمٰن کا یہ جملہ قومی اسمبلی کی دستاویز میں ایک سے زائد بار درج ہے کہ سوویت یونین کا خاتمہ اس خطے کا ایک بڑا حادثہ تھا۔ اس خیال کا اظہار وہ آج بھی خطے کے حالات پر ہونے والے سیمیناروں میں کرتے رہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن اس حق میں نہیں رہے کہ طالبان کو افغانستان کا نمائندہ فریق مان کر کوئی پالیسی تشکیل دی جائے۔ اُن کا ہمیشہ سے خیال رہا کہ افغانستان کے اصل نمائندے وہاں کے سیاسی اکابر ہیں۔ پاکستانی حکام جب کبھی افغانستان میں براہ راست طالبان کے ساتھ معاملہ جوئی کے لیے تعاون طلب کرتے تو مولانا ’ٹھیک ہے‘ کہہ کر عمرے پر چلے جاتے۔ پیچھے وہی کام جب مولانا سمیع الحق یا کسی شیخ الاسلام کو سونپ دیا جاتا تو مولانا ملک واپس آجاتے۔ البتہ ریاستِ پاکستان نے جب کبھی ریاستِ افغانستان کے ساتھ معاملات کیے، مولانا تعاون کے لیے پیش منظر میں رہے۔ افغان طالبان شوریٰ نے پہلی بار کھل کر مولانا پر تب تنقید کی تھی جب مولانا افغان صدر اشرف غنی کے مہمان بن کر افغانستان کے دورے پر گئے۔ اس دورے سے واپسی کے بعد پورے دیوبند مکتبِ فکر نے جے یو آئی کو کٹہرے میں کھڑا کردیا تھا کہ اسلام دشمنوں سے آپ کے یہ مراسم کیسے؟ اسی حلقے میں مولانا کے لیے یہ بات بھی سوالیہ نشان رہی کہ سعودی شاہوں کے ہاں آپ کا دیگر علمائے دیوبند کی طرح احترام کیوں نہیں پایا جاتا؟ اس کا جواب کبھی مولانا نے دیا نہیں، مگر ظاہر ہے کہ پڑوسی ہونے کی وجہ سے مولانا ایران کو سعودیہ پر آٹھ درجے فضیلت دیتے ہیں۔ اور یہ بات پاکستان کی نظریاتی اساس کے خلاف ہے! بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان میں ابھی جب تحریک طالبان کا وجود بھی نہیں پڑا تھا، افغان طالبان نے خود کش حملوں کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اس کا آغاز کوئٹہ میں مولانا محمد خان شیرانی پر ہونے والے حملے سے ہوا تھا۔ اس حملے میں مولانا شیرانی کی گاڑی کا پچھلا حصہ مکمل تباہ ہوچکا تھا۔ حملے کی ذمہ داری افغان طالبان کے ایک بڑے نام ملا داداللہ نے قبول کی تھی۔ اسی دور میں دوسرا حملہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ہوا جب ایک نامعلوم مقام سے مولانا فضل الرحمٰن کے گھر پر راکٹ لانچر داغا گیا۔ یہ وہ دن تھے جب طالبان کے بے نام سے نمائندے اسلام آباد آتے تھے، مولانا اور ان کے رفقا کو انہی کے دسترخوان پر بیٹھ کر تڑیاں لگاکر جاتے تھے۔ تڑی کے دوچار دن بعد کوئی نہ واقعہ رونما ہو ہی جاتا تھا۔
پاکستان میں جب ٹی ٹی پی کی بنیاد پڑی، تو اس عذابِ الہی کو عوامی نیشنل پارٹی کے بعد سب سے زیادہ مولانا نے بھگتا۔ ان کے لیے ڈیرہ اسماعیل خان جانا تقریباً ناممکن ہوچکا تھا۔ جے یو آئی کے معروف عالم دین مولانا حسن جان کو طالبان ان کی مسجد سے نکاح کے بہانے لے گئے اور رستے میں قتل کردیا۔ وزیرستان میں جے یو آئی کے مولانا نور محمد صبح اپنی مسجد میں درس قرآن دے رہے تھے کہ ان پر خودکش حملہ ہوا اور ساتھیوں سمیت قتل کردیے گئے۔ جے یو آئی ہی کے رکن قومی اسمبلی مولانا معراج الدین اسلام آباد سے واپس وزیرستان جارہے تھے کہ عین چیک پوسٹ پر بندوقچیوں کی ناک کے نیچے انہیں قتل کردیا گیا۔ مولانا فضل الرحمٰن پر طالبان نے اوپر تلے ایک قاتلانہ اور دو خود کش حملے کیے، ہر بار وہ بچ نکلے۔ اسے جے یو آئی کے کارکن نصرتِ خداوندی سمجھتے ہیں مگر یہ دراصل بم پروف گاڑی کا کمال تھا۔ تحریک طالبان کے ساتھ جب حکومتِ پاکستان کے مذاکرات کا آغاز ہوا تو طالبان قیادت کی طرف سے کچھ شرائط آئیں۔ پہلی شرط یہ تھی کہ مولانا فضل الرحمٰن کسی بھی کمیٹی کے ممبر ہوئے تو ہم مذاکرات نہیں کریں گے۔ ٹی ٹی پی نے اپنی نمائندگی کے لیے جو دو نام پیش کیے ان میں سرفہرست موجودہ وزیر اعظم عمران خان تھے اور دوسرے مولانا سمیع الحق تھے۔
کم لوگ یہ بات جانتے ہوں گے کہ جب صدر آصف علی زرداری نے مولانا فضل الرحمٰن کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنایا تو ’حلقوں‘ کو بہت ناگوار گزرا۔ صحافتِ اسلامیہ میں ہارون الرشید، اوریا مقبول جان اور انصار عباسی جیسے ’محب وطن‘ قلم کاروں نے اس فیصلے کو ملک دشمنی سے تعبیر کیا۔ کشمیر سے بھی عسکری اور مذہبی قیادت نے احتجاج کیا جن میں سید گیلانی اور سید صلاح الدین آگے آگے تھے۔ آپ یہ دیکھیے کہ پاکستان کے ترقی پسند حلقوں نے اس فیصلے کو گوارا کیا اور دوسری طرف کشمیر میں واحد سیکولر پارٹی کشمیر لبریشن فرنٹ نے اس پر خاموش اطمینان کا اظہار کیا۔ اس کی وجہ مولانا فضل الرحمٰن کا خارجہ پالیسی اور کشمیر کے حوالے سے معروف نقطہ نظر ہے۔ مولانا کا ماننا ہے کہ کشمیر میں پاکستانی مجاہدین کو داخل کرکے ہم نے کشمیری عوام کے جائز موقف کو دھندلا دیا ہے۔ اور یہ کہ ہندوستان کے ساتھ پائیدار تعلقات ہی پاکستان کی سیاسی اور معاشی ناہمواریوں کو دور کرسکتی ہے۔اسی عرصے کی بات ہے جب مولانا پر سوال پیدا ہوا کہ وہ ’دفاع پاکستان کونسل‘ نامی مذہبی اتحاد میں شامل کیوں نہیں ہوئے؟ یہ اتحاد جنرل حمید گل کی سرکردگی میں قائم ہوا تھا۔ مولانا سمیع الحق اس کے سرپرست تھے اور حافظ سعید امیر تھے۔ اس اتحاد میں سپاہ صحابہ لشکر جھنگوی سمیت تمام مذہبی اور جہادی تنظیمیں شامل تھیں۔ یہ اتحاد تب قائم کیا گیا تھا کہ جب زرداری حکومت نے انڈیا کو ’موسٹ فیورٹ نیشن‘ ڈکلیئر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے حکومتِ پاکستان نے جن لوگوں سے ڈپلومیسی کے لیے تعاون حاصل کیا ان میں مولانا فضل الرحمٰن سب سے نمایاں تھے۔ مولانا اسی سلسلے میں 22 دن کے طویل ترین سرکاری دورے پر انڈیا گئے تھے۔ زرداری حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی اسلام کی بقا کے لیے قائم کیا گیا یہ اتحاد کسی نئے موقع کے انتظار میں کہیں پردہ فرما گیا۔ مذہبی جماعت کے قائد ہونے کے باوجود مولانا فضل الرحمٰن کی مذہبی جماعتوں اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں سے ہمیشہ مڈبھیڑ رہی۔ جنرل ضیا کے عہد میں ہی وہ دائیں بازو کے مقابلے میں بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ 88 میں انتخابات ہوئے تو مرزا اسلم بیگ کے بنائے ہوئے اتحاد کی حمایت کرنے کی بجائے بے نظیر بھٹو کے لیے نرم گوشہ رکھا۔ یہاں تک کہ بے نظیر بھٹو نے غلام اسحاق خان کو صدر بنانا چاہا تو مولانا نوابزادہ نصراللہ خان کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں جنرل حمید گل نے بنامِ خدا احتجاجی تحریک کو ہوا دی، مولانا لاتعلق رہے۔ یہی وجہ تھی کہ نواز شریف کو جب لایا گیا تو آج ہی کی طرح باقی جمہوری قیادت کے ساتھ ساتھ مولانا کو بھی اسمبلی سے باہر رکھا گیا۔بے نظیر دوبارہ برسرقتدار آئیں تو مولانا کی ساری ہمدردیاں پھر سے بی بی کے ساتھ رہیں۔ مقتدرہ جب دوبارہ بی بی پر ٹوٹ پڑی تو مولانا بھی زیرِعتاب آئے۔ میاں صاحب کے دوسرے دورِ حکومت میں مولانا آج ہی کی طرح سڑکوں پر تھے۔
کہا جاتا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن پہلی بار قومی اسمبلی سے باہر ہوئے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ’سایہ خدائے ذوالجلال‘ نے جب کبھی ملک کی بقا کی خاطر کچھ ’ملک دشمن‘ سیاسی شخصیات کو پارلیمان سے باہر رکھنے کا فیصلہ کیا، ان میں مولانا فضل الرحمٰن کو ضرور شامل رکھا۔