مشاہير اسلام
تاریخ اسلام کی پہلی مارکیٹ کمشنر
یمین الدین احمد
حضرت شفا بنت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تاریخ اسلام کی وہ پہلی خاتون صحابیہ ہیں جنہیں ان کی کاروباری ذہانت کی بدولت اسلام کی ’پہلی مارکیٹ کمشنر‘ مقرر کیا گیا۔ایسے وقت میں جب مکہ میں صرف بیس پچیس لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے، شفا یہ مہارت حاصل کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔ان کا اصل نام تو لیلٰی تھا مگر اس زمانے کے علم طب کے مطابق جڑی بوٹیوں سے ایسا کارگر علاج کرتیں کہ ’شفا‘ کے لقب سے مشہور ہوگئیں۔
مکہ میں قریش کے عدی قبیلے سے تعلق تھا اور عبداللہ ابن عبد الشمس اور فاطمہ بنت وہب کی بیٹی تھیں۔
حثمہ ابن حذیفہ سے شادی ہوئی۔ مکہ ہی میں اسلام قبول کرنے والے اولین افراد میں سے تھیں۔ سو وہ تمام سختیاں بھی برداشت کیں جو اس ابتدائی دور میں مسلمان ہونے والے افراد کو جھیلنا پڑی تھیں۔
ان دنوں علم سیکھنا سکھانا زیادہ تر زبانی یعنی سینہ بہ سینہ ہوتا تھا۔ایسے وقت میں جب مکہ میں صرف گنتی کے چند لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے، شفا یہ مہارت حاصل کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔
احمد بن جابر البلادوری کی کتاب ’فتوح البلدان‘ میں دور نبوی کے مختلف اصحاب اور صحابیات کا تذکرہ ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ ’دی اوریجنز آف اسلامک سٹیٹ‘ کے نام سے چھپ چکا ہے۔شفا رضی اللہ تعالٰی عنہا شاندار خطاط بھی تھیں۔ ترکی میں چھپنے والی کتاب "خواتین خطاط : ماضی اور حال" سے علم ہوتا ہے کہ انھوں نے خطاطی سکھائی بھی۔ ان سے خطاطی سیکھنے والے اولین شاگردوں میں پیغمبرِ اسلام کی زوج مطہرہ حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہا بھی شامل تھیں۔ ابو داؤد کے مطابق یہ دونوں خواتین رشتے دار بھی تھیں، اور آپس میں گہری دوست بھی رہیں۔حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ شفا رضی اللہ تعالٰی عنہا ایک ذہین خاتون تھیں اور اسلام لانے سے پہلے بھی مریضوں کا علاج کیا کرتی تھیں۔
جب انھوں نے اسلام قبول کیا تو پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے پوچھا کہ کیا وہ علاج معالجہ جاری رکھ سکتی ہیں تو آپ نے انھیں ایسا کرنے کی ترغیب دی۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ان سے یہ بھی کہا کہ وہ حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو بھی سکھائیں کہ وہ چیونٹی اور دیگر حشرات کے کاٹے کا علاج کیسے کریں۔
شفا رضی اللہ تعالٰی عنہا مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے والے شروع کے افراد میں شامل تھیں۔ شیخ محمد بن سعد کی کتاب ’الطبقات الکبیر‘ کے ترجمے میں لکھا ہے جو "مدینے کی خواتین" کے عنوان سے شائع ہوا ہے، کہ مدینہ میں انھیں مسجد نبوی اور مدینے کے بازار کے درمیان ایک گھر دیا گیا جہاں وہ اپنے بیٹے سلیمان بن حثمہ کے ساتھ رہتی تھیں۔حافظ احمد بن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اکثر ان سے ملنے بھی جاتے اور کاروبار کے بہترین طریقوں کے بارے میں ان سے مشورہ بھی کرتے تھے۔ ان ملاقاتوں کے دوران شفا رضی اللہ تعالٰی عنہا ان سے دین کے بارے میں سوالات پوچھتی تھیں۔ چونکہ وہ باقاعدہ مسجد بھی جاتی تھیں اور حضور سے خوب سوالات کرتی تھیں، تو اس کے نتیجے میں ایک اچھی عالمہ بھی بن گئیں۔حضرت شفا رضی اللہ تعالٰی عنہا سے کل 12 احادیث مروی ہیں۔
مورخین اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ شفا رضی اللہ تعالٰی عنہا ابتدائی اسلامی معاشرے میں سب سے زیادہ علم والی اور قابل احترام خواتین میں سے ایک تھیں۔ملائشیا کے معروف عالم دین جمال اے بداوی نے اپنی کتاب "رسول اللہ کے دور میں خواتین کا کردار" میں لکھا ہے کہ: شفا اسلامی قوانین تجارت اور مالیات کی ماہر تھیں اور انھیں مدینے کے بازار کی باضابطہ مبصر (نظر رکھنے والا) مقرر کیا گیا تھا۔ ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ سامان کی مناسب قیمت وصول کی جائے اور کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو۔حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ جب خلیفہ بنے تو شفا رضی اللہ تعالٰی عنہا سے اقتصادی پالیسی اور تجارت سے متعلق مستقل مشورہ کرتے تھے اور اُن کی رائے کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ جیسے جیسے مدینہ کا معاشرہ ترقی کرتا گیا اور آبادی میں بھی اضافہ ہوتا گیا تو یہ محسوس کیا گیا کہ یہ ضروری ہے کہ بازار کی نگرانی کی جائے جہاں لوگ خرید و فروخت کرتے ہیں۔چنانچہ حضرت عمر نے شفا رضی اللہ تعالٰی عنہا کو مدینہ کا قضا السوق (بازار کے نظم کا ذمہ دار) اور قضا الحسبہ (احتساب کرنے والا یا محتسب) کی ذمہ داریاں سونپیں۔ تب کی عرب دنیا میں روایتی اعتبار سے خواتین کو یہ ذمہ داریاں نہیں دی جاتی تھیں لیکن اسلام آنے کے بعد جب اللہ اور اس کے رسول نے خواتین کی عظمت کی جو سطح متعین کی اس کے بعد حضرت عمر فرماتے ہیں کہ:"اسلام سے پہلے ہم عورتوں کی کوئی عزت نہیں کرتے تھے لیکن اسلام نے عورتوں کو جو عزت اور تکریم دی، اس کے بعد ہم بہت سے معاملات میں خواتین کی رائے بھی لیتے ہیں اور انہیں عزت اور وقار میں وہی مقام دیا گیا جو مردوں کو حاصل تھا۔"حضرت شفا رضی اللہ تعالٰی عنہا بازار میں ہونے والی تجارت کے معاملات میں اس بات کو یقینی بناتیں کہ کوئی دھوکا یا چال بازی نہ ہو اور خرید و فروخت اسلامی قوانین کے مطابق ہو۔ تاجروں کو یہ ہدایت کی گئی تھی کہ اگر انھیں کسی خاص لین دین کی قانونی حیثیت کے بارے میں شبہ ہو تو وہ شفا رضی اللہ تعالٰی عنہا سے پوچھ لیں۔بازار کی منتظم یا کمشنر کے طور پر، شفا جائز تجارت کو یقینی بنانے اور دھوکا روکنے کی ذمہ دار تھیں۔ وہ دیانت داری سے انصاف کا نفاذ کرتیں۔ وہ یقینی بناتیں کہ سامان کی منصفانہ تجارت ہو، قیمتیں مناسب ہوں، اور یہ کہ تاجر اخلاقی کاروباری طریقوں کی پیروی کریں۔
یوون (مریم) ریڈلی نے اپنے مضمون "اقتصادی سرگرمیوں میں مسلم خواتین کی شرکت: ایک نقطہ نظر" میں لکھا ہے کہ۔۔۔شفا رضی اللہ تعالٰی عنہا ایک قانونی ماہر اور جج کے طور پر بھی جانی جاتیں اور تنازعات کو بہترین طریقے سے حل کرتی تھیں۔شفا رضی اللہ تعالٰی عنہا کا تقرر انتہائی کامیاب رہا، جس کے بعد حضرت عمر نے مکہ میں بھی ایک خاتون، سمرہ بنت نحیک، کو مارکیٹ کنٹرولر مقرر کر دیا۔
احتساب جج کے طور پر وہ افراد کے درمیان تنازعات حل کرتیں اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتیں۔ شفا رضی اللہ تعالٰی عنہا اسلامی قانون اور فقہ میں انتہائی ماہر تھیں اور وہ اپنے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ احکام کے لیے مشہور تھیں۔زندگی کے ہر شعبہ سے لوگ اسلامی قانون سے متعلق امور میں رہنمائی اور مشورے کے لیے ان کے پاس آتے تھے۔مؤرخ ابن اسحاق نے آٹھویں صدی میں لکھا ہے کہ کس طرح شفا رضی اللہ تعالٰی عنہا نے ایک احتساب جج کے طور پر تنازعات کے حل کے لیے اسلامی قانون کے اپنے علم کا استعمال کیا۔نکولس ایس ہاپکنز اور سعد الدین ابراہیم کی ادارت میں چھپنے والی کتاب "اسلام میں خواتین: تاریخی اور عصری تحقیق کے مظاہر" میں لکھا ہے کہ شفا رضی اللہ تعالٰی عنہا قانونی ماہر کے طور پر کام کرتی تھیں، انھوں نے بازار میں تنازعات میں ثالث کے طور پر کام کیا اور منصفانہ تجارتی طریقوں کو یقینی بنایا۔شفا رضی اللہ تعالٰی عنہا کی زندگی کا ایک اور قابل ذکر پہلو اسلامی قانون، لوگوں کے عام معاشرتی مسائل اور دین کے بارے میں ان کا گہرا علم تھا۔ وہ مشورہ چاہنے والوں کو اپنی دانش مندی سے بصیرت انگیز رہنمائی فراہم کرتی تھیں۔ گویا کہ آج کی زبان میں وہ ایک ماہر کاؤنسلر یا تھیراپسٹ بھی تھیں۔ وہ اپنے وقت کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ خواتین میں سے ایک کے طور پر جانی جاتی تھیں۔ ان کی وفات حضرت عمر ہی کے دور ِخلافت میں ہوئی۔مجموعی طور پر، شفا رضی اللہ تعالٰی عنہا کی زندگی ہمت، علم و حکمت، دانشمندی اور اسلامی تاریخ میں خواتین کے اہم معاشرتی کردار کا ثبوت ہے۔آج ہم اپنے معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ بڑی تعداد میں خواتین ہر قسم کے علوم اور اپنی تربیت سے بہت دور ہیں۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ ہم نے آدھی آبادی کو ایک عضو معطل بنا کر رکھ دیا ہے۔
پھر جب یہی خواتین بیویاں بنتی ہیں، پھر مائیں بنتی ہیں تو ان کے اندر اتنی بصیرت اور گہرائی ہی نہیں ہوتی کہ وہ اپنے بچوں کی زمانے کے ضرورت کے مطابق تعلیم و تربیت میں فعال کردار ادا کر سکیں۔ اور اس سے بھی پہلے اپنے گھر اور رشتوں کو حکمت اور دانشمندی کے ساتھ نبھا سکیں۔ آپ خود سوچیں کہ اگر ہم ایسی مائیں ہی تیار نہیں کر رہے تو مختلف شعبہ جات میں امت مسلمہ کی قیادت کا تیار ہونا تقریبا" نا ممکنات میں سے ہے۔ تاریخ اسلام میں صرف شفا رضی اللہ تعالٰی عنہا ہی نہیں بلکہ سینکڑوں ایسی خواتین موجود ہیں جن کا علم و فضل مسلمہ تھا اور مختلف شعبوں میں مہارت زمانے پر ثبت تھی۔ شفا رضی اللہ تعالٰی عنہا تو ان میں سے صرف ایک ہیں۔