اصلاح و دعوت
اختلاف رائے اور یہُودی ٹیچر ۔۔۔
رضوان خالد
اختلافِ رائے کا احترام میں نے کسی عالم کی بجائے اپنی ایک یہُودی ٹیچر سے اُس وقت سیکھا جب میں اسلام کے بارے میں ٹھیک سے جانتا بھی نہیں تھا. میری یہ خاتُون یہُودی ٹیچرعُمر کے ساٹھویں سال میں تھیں۔ میں انکے علم اور حکیمانہ انداز سے مُتاثّر تھا۔ ایک دن کسی کام سے انکے دفتر میں گیا تو ہر طرف ہزاروں کتابیں اور پیپرز بکھرے پڑے تھے۔انہوں نے دو بار خُود چائے بنا کر مُجھے دی اور میرا انٹرسٹ دیکھتے ہُوئے اپنے ایک ریسرچ پروجیکٹ پر کام کرنے کی پیشکش کی جو میں نے قبُول کر لی۔ میرے ہاں کہتے ہی انہوں نے اپنے دفتر کی ایک چابی مُجھے دے دی اور ہنستے ہُوئے کہا کہ بیٹھنے کی جگہ تُم خُود بنا لینا۔
میں نے سوچا کہ پہلے انکے دفتر کی صفائی ضروری ہے۔مُجھے احساس تھا کہ ہر وقت تحقیق و تدریس میں مصرُوف ایسے اساتذہ کے پاس ان چیزوں کے لیے وقت نکالنا کہاں مُمکن ہے۔اگلے دن سے انکے دفتر کو مُنظم کرنا شُروع کیا۔ یُونیورسٹی انتظامیہ سے بات کر کے پلاسٹک کے ریکس اور الماریاں لیں اور کتابوں اور پیپرز کو ترتیب سے لگانا شُروع کیا۔ صبح جیسے ہی یہ کمرے میں داخل ہوئیں تو کہنے لگیں کہ یہ تو تُمہاری جاب کا حصّہ نہیں نہ میرے پاس تُمہیں پے کرنے کے لیے پیسے ہیں۔ میں نے کہا اسکے بدلے میں آپ روزانہ چائے پلایا کریں گی۔اُس دن کے بعد میرا معمُول بن گیا کہ میں کلاس سے آدھا گھنٹہ پہلے انکے دفتر آجاتا اور صفائی کے بعد چیزیں ترتیب سے لگا دیتا-میری پہلی کلاس بھی اسی ٹیچر کے ساتھ ہوتی۔
میں انکا بیگ اُٹھائے انکے ساتھ ہی کلاس تک جاتا اور کلاس کے بعد انکے ساتھ ہی انکا بیگ اُٹھائے انکے دفتر آتا۔یہ چائے بناتیں اور چائے پی کر ہی میں واپس جاتا۔ایک دن انہوں نے کلاس میں کہا کہ اسلام میں پرفامینس مینیجمنٹ کے حوالے سے کُچھ نہیں ملتا۔میں نے کھڑے ہو کر انہیں ٹوک دیا۔
بحث ہُوئی اور میں احتجاجاً کلاس سے باہر آگیا۔ اگلے دن صُبح انکے آفس بھی نہیں گیا. کلاس میں آیا تو پرفامینس مینیجمنٹ پر ایک کُوئز ہُوا جس میں میری ٹیچر نے مُجھے ترسٹھ فیصد نمبر دیے۔میں کلاس ختم ہونے سے پہلے ہی باہر نکلا اور ڈائریکٹر کے پاس جا کر اپنا کوئز ری چیک کرنے کی اپیل کی۔ اگلے دن میرا پیپر تین ٹیچرز نے ری چیک کیا اور میرے مارکس ان ٹیچر کی موجُودگی میں چُوراسی فیصد کر دیے گئے۔ میں باہر نکلنے لگا تو انہوں نے مُجھے آواز دے کر مصنُوعی غُصّے سے کہا اس بُوڑھی کا بیگ کون اُٹھائے گا۔ مُجھے کُچھ شرمندگی محسُوس ہُوئی میں بیگ لے کر انکے ساتھ آیا۔انہوں نے چائے بنائی۔ چائے کے دوران میں نے انسے کہا آپ چار مضامین پڑھاتی ہیں لیکن اس مضمُون میں ملٹی فیتھ پرسپیکٹیو ہے۔
آپ اپنے مذہب کے تعصُب کا شکار ہیں۔ میں آپکو مشورہ دُوں گا کہ آپ یہ مضمُون پڑھانا چھوڑ دیں۔
وہ کہنے لگیں کہ یہ بات کہنے کا صحیح فورم سٹُوڈنٹ ایپلیٹ کورٹ ہے. تُم وہاں یہ مُعاملہ اُٹھاؤ, لیکن اس سارے مُعاملے سے قطع نظر تُم میرے بیٹے بھی اور میں تُمہاری سُپروائزر بھی لہٰذا تُم روزانہ کمرے کی صفائی اور میرا بیگ اُٹھانا جاری رکھو گے۔میں نے ایسا ہی کیااور ساتھ میں انسے وہ مضمُون واپس لینے کے لیے سٹُوڈنٹ ایپلیٹ کورٹ میں اپیل بھی کی جو منظُور ہُوئی۔اُسکے ایک مہینے بعد رمضان شُروع ہُوا
تو انہوں نے مُجھے افطاری پر بُلایا اور میرے ساتھ حلال گوشت خریدا تاکہ مُجھے شُبہ نہ رہے۔ہماری اختلافی مُعاملات پر آج بھی علمی بحث ہوتی ہے۔وہ ہر سال میری برتھ ڈے ٹھیک رات بارہ بجے وِش کرتی ہیں۔ کاش ہمارے عُلماء بھی احترام ، اختلاف رائےاور تقلید کا یہی طریقہ سیکھ لیں جبکہ یہ درحقیقت ہم مسلمانوں کا ہی طریقہ تھا۔مُوسیٰؑ اور ھارونؑ بھائی بھی تھے اور نبی بھی۔ھارونؑ کو مُوسیٰؑ کی دُعا پر اُنہیں کی مدد کے لیے نبُوّت ملی۔ دونوں کا مقصد ایک ہونے کے باوجُود ایپروچ الگ تھی اور قُرآن ہی سے اُنکے صحت مندانہ اختلافِ رائے کا پتہ چلتا ہے۔ یعنی اختلافِ رائے فطری مُعاملہ ہے۔صحابہؓ کے اختلافِ رائے سے کون واقف نہیں۔ہر صحابیؓ کا دین کو سمجھنے کا اپنا طریقہ تھا۔ابُوبکرؓ اور عُمرؓ ایک دوسرے سے اتنے مُختلف تھے جیسے ندی کے دو کنارےعلیؓ گویا ندی کی گہرائی جبکہ ابو ذر غفّاریؓ اور عُثمانؓ کو آپ ایک دُوسرے کا مُتضاد کہہ سکتے ہیں۔ان سب سمیت ہزاروں صحابہؓ کی دین سے مُتعلِق ایپروچ ایک دُوسرے سے بالکُل الگ تھی۔اسلامی تاریخ پڑھنے کے دوران ابھی تک میری نظر سے نہیں گُزرا کہ کسی صحابیؓ نے کسی دوسرے صحابیؓ پر کُفر کا شُبہ کیا ہو۔فقّہ کے آئمّۂ کرامؒ میں سے ہر ایک نے دُوسرے سے مُختلف فِقّہ لکھی۔لیکن ایک دُوسرے پر کُفر کا شُبہ درکنارسبھی ایک دُوسرے کا نہ صرف احترام کرتے بلکہ ایک دُوسرے کے عشقِ رسُولﷺ کی اپنی مجلِسوں میں گواہی دیا کرتے۔یہ بات قابلِ غور ہے کہ جب ایک ہی زمانے کے دو افراد قُرآن کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو قُرآن سے اپنی اپنی کپیسٹی کے مُطابق سمجھیں گے اور اختلاف رائے پیدا ہونا یقینی ہے۔لیکن اس اختلافِ رائے کو صحت مند علمی مُکالمے کی بُنیاد بننا چاہیے تفرقے کی نہیں۔یاد رکھیے۔ہمارا اللہ ایک۔نبیﷺ ایک۔قُرآن ایک اور مقصد بھی ایک ہے اور انہی مُشترکات کی بنیاد پر ہمارا اتحاد مُمکن ہے۔ اختلافِ رائے کو صحت مند رکھیے تاکہ اسکی برکت ظاہر۔۔۔