سوال:اکثر لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ قرآن کو اگر بغیر سمجھے بھی پڑھا جائے تو اس کا ثواب ضرور ملتا ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ ثواب تو دور کی بات ہے الٹا گناہ ملنے کا امکان ہے کیوں کہ خدا کے کسی کام کا اگر مقصد بدل دیا جائے تو یہ گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ اللہ نے یہ کتاب ہدایت کے لئے اتاری ہے اور ہم اس کتاب کو ہدایت کے بدلے کسی اور مقصد میں استعمال کرنا شروع کر دیں تو اللہ کی ناراضی متوقع ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بالفرض اگر پڑھنے سے بھی ثواب مل رہا ہوتا تب بھی بغیر سمجھے پڑھنا تو پڑھنا ہی شمار نہیں ہوتا کیونکہ تحریر و ہی پڑھی جاتی ہے جسے سمجھنا ہو اگر کوئی سمجھنے کے علاوہ قرآن پڑھ رہا ہے تو وہ پڑھ ہی نہیں رہا ہے لہذا ثواب کس بات کا۔۔
جواب:اگر یہ حفظ نہ ہوتا تو روس اور دیگر کئی سوشلسٹ ممالک میں قرآن بھی نہ ہوتا ۔آپ اتنی بڑی بات کتنی آسانی سے کر جاتے ہیں۔ اگر ایک ان پڑھ شخص آپ کے گھر انگلش میں لکھی ٹیلیگرام دے جاتاہے توآپ اس کو اس لئے جوتے ماریں گے کہ جب تمہیں خود پڑھ کے سمجھنا نہیں آتا تو میرے پاس کیوں لے کر آئے ہو؟ یا اگر وہ دوسروں کو ایڈریس دکھا دکھا کر آپ کے گھر پہنچ کر آپ کو ڈیلیوری دے دیتا ہے تو آپ کے نزدیک اس کو تنخواہ دینا نہیں بنتا کیونکہ وہ ایڈریس پڑھ نہیں سکتا؟ مسلمان ہونے کا تعلق قرآن پڑھنے اور سمجھنے سے نہیں، یہ ابولہب اور ابوجہل، عتبہ اور ربیعہ کے قبیلے کی زبان میں نازل ہوا۔ انہوں نے سنا سمجھا اور ایمان نہیں لائے، پھر کیا فائدہ دیا ان کی عربی سمجھنے نے؟آج مصر، شام، لبنان فلسطین اور اردن کے علاوہ کئی دیگر عرب ممالک میں عیسائی عربی سمجھتے ہی نہیں پڑھاتے بھی ہیں اور عربی ان کی مادری زبان ہے مگر وہ مسلمان نہیں ہوتے، تو ان کے سمجھنے نے ان کو کیا فایدہ دیا؟ایک شخص قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کا کلام سمجھ کر محبت سے اس کی تلاوت کرتا ہے تو آپ کے نزدیک اس کو گناہ ہوتا ہے؟
شکر ہے اللہ پاک نے حساب کتاب اپنے پاس رکھا کسی جانب حق کو ٹھیکے پر نہیں دے دیا۔ عجمیوں کا کمال ہے کہ عربی رسول اور عربی کتاب پر ایمان لاتے ہیں اگرچہ وہ ان کی زبان نہیں سمجھتے اگر عربوں کو عجمی رسول اور عجمی کتاب پر ایمان لانے کا مطالبہ کیا جاتا تو کبھی ایمان نہ لاتے۔ یہ بات اللہ پاک نے قرآن مجید میں بیان فرما دی ہے، ولوا جعلناہ قرانا اعجمیا لقالوا لو لا فصلت آیاتہ، ئاعجمی و عربی،قل ھو للذین آمنوا ھدی و شفاء والذین لا یومنون اولئک ینادون من مقام بعید۔ (الصافات 44) صدق اللہ العظیم۔
اگر ہم اس قران کو عجمی زبان میں بھیجتے تو یہ لوگ کہتے کہ اس کی آیات مفصل کیوں نہیں ہیں، کتنی عجیب بات ہے کہ کتاب عجمی اور مخاطب عربی ہے۔ کہہ دیجئے کہ جو اس پر ایمان لے آئیں یہ ان کے لئے ھدایت اور شفاء ہے اور جو ایمان نہ لائیں یہ وہ لوگ ہیں جنہیں بہت دور سے پکارا جائے گا۔ اس میں مجرد ایمان لانے کو ھدایت اور شفاء فرمایا گیا، اور یہ بات بھی عیاں ہے کہ دوسری زبان کی کتاب ہونے کے باوجود ایمان لانا فضیلت کا درجہ رکھتا ہے عربوں کے عربی کتاب پر ایمان لانے کی نسبت، اسی بات کی طرف سورہ جمعہ میں بھی ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء، فرما کر اشارہ کیا ہے, یہ بے عملی پر ایک عذر کا درجہ بھی رکھتا ہے کہ اگر اپنی مادری زبان میں سمجھتا تو اس کے احساسات و جذبات کچھ اور ہوتے اور عمل کی طرف زیادہ شغف ہوتا۔ ترجمہ الفاظ کا ترجمہ ہوتا ہے جذبات کا ترجمہ کسی زبان میں نہیں ہوتا
Translation is kissing through the Glass.
ہمارے اعزاز کو آپ نے ہمارا گناہ بنا دیا۔
اگر ایک شخص لا تاکلوا الرباء کا عربی ترجمہ جانتا ہے کہ اے ایمان والو سود مت کھاؤ اور وہ سود نہیں کھاتا۔ دوسرا عربی نہیں جانتا لیکن اس نے کسی سے سنا ہے کہ قرآن مجید میں حکم آیا ہے کہ اے ایمان والو سود مت کھاؤ اور وہ اللہ کا حکم سمجھ کر سود نہیں کھاتا تو کیا اللہ پاک اردو والے کا اجر اور جزا روک لے گا کہ تم نے یہ عمل عربی زبان میں پڑھ کر اور سمجھ کر کیوں نہیں کیا؟ قرآن مجید میں موجود زیادہ تر قصے دوسری زبانوں سے ترجمہ کیئے ہیں اللہ پاک نے موسی علیہ السلام اور داؤد علیہ السلام اور دیگر انبیاء کے سارے مکالمے چاہے وہ اللہ کے ساتھ ہوں یا اپنی قوم کے ساتھ ہوں ان کا عربی ترجمہ کر کے بیان کئے ہیں اسی لئے موسی علیہ السلام اور فرعون، موسی علیہ السلام اور اللہ، موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے درمیان مکالموں میں تفاوت ہے۔ یہاں تک کہ اللہ اور ابلیس کے درمیان بھی جومکالمے ہوئے وہ ہر جگہ الگ الگ ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ یہ معنوی روایت ہے،اور ترجمے میں یہ گنجائش موجود ہوتی ہے۔ اب آپ جو عمل بنی اسرائیل والی آیات کو پڑھ کر کرتے ہیں تو وہ ترجمے کو فالو کر رہے ہیں اگرچہ وہ ترجمہ اللہ پاک نے کیا ہو، آپ نے عبرانی میں اللہ تعالیٰ اور موسی علیہ السلام کے مکالمے پڑھے ہیں؟ اور اگر آپ ان کے ترجمے پر ایمان لائے ہیں تو پھر قران کریم کے ترجمے کو فالو کرنے سے اجر و ثواب کا انکار کیسے کر سکتے ہیں؟ و اقیموا الصلوۃ و آتوالزکوۃ وارکعوا مع الراکعین، بنی اسرائیل کو عبرانی زبان میں کہا گیا، آپ اس کا عربی ترجمہ پڑھ کر اردو میں یہ حکم سناتے ہیں اور اگلا بندہ سن کر اللہ کا حکم سمجھ کر بجا لاتا ہے تو اس میں کیا حرج ہے؟ یا اس کو کہا جائے گا کہ تورات سے یہ حکم عبرانی میں پڑھو اور سمجھو پھر عمل کرو تو اجر ملے گا۔
قرآنیات
کیا قرآن بغیر سمجھے پڑھنا چاہیے
قاری حنیف ڈار