ہر سال تین ملین ‘ یعنی تیس لاکھ‘ ٹن گندم پاکستان سے افغانستان کو سمگل ہو تی ہے!یہ بات قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خوراک کے اجلاس میں ایک انتہائی قابلِ اعتبار ذریعہ نے بتائی ہے! مگر کیا افغانستان کو صرف گندم سمگل ہوتی ہے ؟ یہ وہ مقام ہے جس پر ہنسی بھی آتی ہے اور گریہ بھی !! تو کیا باقی اشیائے ضرورت ‘ باقی لوازمات‘ افغانستان خود پیدا کرتا ہے؟ افغان ‘ افغانی پلاؤ میں چاول استعمال کرتے ہیں۔یہ ان کا من بھاتا کھاجا ہے؟ کیا چاول وہاں اُگتا ہے؟ کیا وہاں سیمنٹ ‘ چینی اور گھی کے کارخانے قائم ہیں؟ یقیناً میرے پڑھنے والوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے مجھ سے زیادہ دنیا دیکھی ہو گی۔ کیا ان کو کسی ملک میں افغانستان کی بنی ہوئی کوئی شے دکھائی دی؟ کوئی جراب‘ کوئی بنیان‘ کوئی تولیہ‘ کوئی جوتا کوئی پنسل؟ کوئی کاپی؟ جو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں ‘ جو نہیں جانتے‘ وہ جان لیں اور اچھی طرح جان لیں کہ افغانستان کی تمام اشیائے ضرورت ‘ الف سے لے کریے تک پاکستان مہیا کرتا ہے۔ اور ان اشیائے ضرورت کی اکثریت‘ افغانستان کو قانونی طور پر بر آمد نہیں ہوتی بلکہ غیرقانونی طور پر سمگل ہوتی ہے۔ میرے سامنے اس وقت زراعت کا ایک بین الاقوامی جریدہ رکھا ہے جس میں 'پاکستان زرعی تحقیقاتی سنٹر ‘‘ کے ماہرین کا تجزیہ شامل ہے۔اس تجزیے کے مطابق پاکستان سے افغانستان کو جو زرعی اشیا سمگل ہوتی ہیں ان میں آٹا‘ چینی‘ چاول‘ گھی‘ خوردنی تیل‘آلو‘ پیاز‘ بھنڈی‘ کھیرے‘ پھلیاں‘ جوس‘ مالٹے‘ کنو‘ مونگ‘ مسور‘ ماش‘ چائے‘ میدہ‘ سوجی‘ بیسن‘ نمک‘ مرچیں‘ دھاگا اور پردوں کا کپڑا شامل ہیں۔ غیر زرعی اشیا جو افغانستان کو سمگل ہوتی ہیں ان میں یوریا کھاد‘ پلاسٹک کا میٹر یل‘ جانوروں کی ادویات‘ کیڑے مار دوائیں‘ کھیلوں کا سامان‘ میڈیکل کے آلات‘ پنکھے ‘ سیمنٹ اور سریا شامل ہیں۔ اس فہرست کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ یہ مکمل فہرست ہے۔ یہ وہ فہرست ہے جو ان ماہرین نے اُس خاص عرصہ میں ترتیب دی جس میں وہ تحقیق کر رہے تھے۔ سال کے مختلف حصوں میں مختلف اشیا سمگل ہوتی ہیں۔ کاپیاں‘ پنسلیں‘ پین‘ تعمیراتی سامان‘ زرعی مشینری‘ تارکول‘ ہارڈ وئیر کا سامان‘ گاڑیاں‘ ٹرک‘ موٹر سائیکل‘ سائیکلیں‘ کھلونے‘ باورچی خانے کا سامان‘ بستر کی چادریں‘ کپڑا‘ گارمنٹس‘ سلائی مشینیں‘ پریشر ککر‘ فرنیچر‘ بجلی کا سامان‘ غرض سب کچھ پاکستان سے جاتا ہے اور سمگل ہو کر جاتا ہے۔ یہ کئی دہائیاں پہلے کی بات ہے۔ میرے والد صاحب ‘ قبل از اسلام کی جاہلی عربی شاعری پڑھانے کے لیے معروف تھے۔ عربی ادب کے شایقین دور دور سے آتے تھے۔ ان میں ایک فارسی بولنے والا افغان بھی تھا‘ میں اس سے فارسی بولنے کی مشق کرتا۔ یوں ہماری دوستی ہو گئی۔ کچھ عرصہ بعد مجھے کابل سے ( یا شاید مزار شریف سے ) اس کا رقعہ ملا جس میں اس نے لکھا تھا کہ وہ اپنی رہائش کے لیے مکان تعمیر کرنا چاہتا ہے اور یہ کہ میں اسے کسی نہ کسی طرح پاکستان سے سریا اور سیمنٹ بھیجنے کا بندو بست کروں۔ ظاہر ہے یہ میرے لیے ممکن نہ تھا نہ ہی میں نے والد گرامی مرحوم سے اس بات کا ذکر کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہیروئن کی فیکٹریوں اور پھلوں کے سوا وہاں کچھ بھی نہیں۔ اس سمگلنگ سے پاکستان کے قومی خزانے کو ہر سال کروڑوں کا نہیں اربوں کا نقصان ہو تا ہے۔ظاہر ہے افغانستان ہمیشہ سے ان تمام اشیا کا محتاج رہا ہے۔ یہ سمگلنگ انگریزی عہد میں بھی جاری تھی۔ تب تو انگریزی حکومت کی پالیسی بھی یہ تھی کہ قبائل کو خوش رکھا جائے تا کہ گریٹ گیم میں وہ روس کا ساتھ نہ دیں۔ لیکن انگریزی دور سے پہلے کیا ہوتا تھا؟ بھائی لوگو! اُس وقت سمگلنگ کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ یہ جو مغربی سرحد سے بر صغیر پر حملے ہوتے تھے تو آپ کا کیا خیال ہے یہ تبلیغِ دین کے لیے ہوتے تھے ؟ تیمور نے حملہ کیا تو تغلق کی حکومت تھی۔ کیا تغلق غیر مسلم تھا؟ ایک لاکھ انسان قتل کیے گئے۔اتنی خوراک لے کر گئے جو برسوں کا فی تھی۔ بابر نے ابراہیم لودھی پر حملہ کیا اور یہیں کا ہو رہا۔ ہندوستان مغلوں کے لیے سونے کی چڑیا تھی۔احمد شاہ ابدالی تو ایک ایک روٹی‘ ایک ایک خوشہ چھین کر لے جاتا تھا۔ نواحِ لاہور میں یہ محاورہ بچے بچے کی زبان پر تھا '' کھادا پیتا لاہے دا ‘ باقی احمد شاہے دا۔ ‘‘ یعنی کھانے سے جو کچھ بچا احمد شاہ لے جائے گا۔ جب بھی فصل پکنے کا وقت آتا‘ افغان آجاتے۔ سات سات حملے یوں ہی تو نہیں کیے! اس لیے کیے کہ جب بھی لُوٹا ہوا غلہ اور مویشی ختم ہوتے‘ بر صغیر کی یاد ستانے لگتی!عمارتوں کے دروازے اور فرشوں کے سنگ مرمر تک اکھاڑ کر لے جاتے رہے! اور یہ تو ہمارے اپنے زمانے کی بات ہے کہ پکی ہوئی روٹیاں پشاور سے گاڑیوں میں لاد لاد کر جلال آباد بھیجی جاتی رہیں۔یہ خوراک کی کمی ہی تھی کہ افغان پنجاب سے لے کر اڑیسہ اور بنگال تک اور میسور تک نقل مکانی کرتے رہے۔ٹیپو کی فوج میں بھی افغان سپاہی تھے‘ نظام کی فوج میں بھی اور مرہٹوں کی فوج میں بھی! معروف امریکی مؤرخ ‘ رابرٹ نکولس نے‘ جو یونیورسٹی آف پنسلوینیا اور ییل یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے ‘ افغان نقل مکانی پر ایک مبسوط تحقیقی کتاب لکھی ہے۔ مگر اس میں صرف 1775ء سے لے کر2006ء تک کی مدت کو موضوع بنایا گیا ہے جبکہ افغان توسیع پسندی کا سلسلہ سینکڑوں سال سے چلا آرہا ہے۔ کہاں غور‘ اور بامیان کے شہر جو وسطی افغانستان میں ہیں اور سوری قبیلے کامسکن تھے اور کہاں بہار کا شہر سہسرام جہاں شیرشاہ سوری پیدا ہوا!پاکستان افغانستان کی لائف لائن ہے۔ پاکستان کے بغیر افغانستان میں زندگی کا تصور محال نہیں‘ ناممکن ہے۔ ہر موقع پر اور ہر میدان میں پاکستان نے افغانستان کی مدد کی۔ ان کے مریضوں کا علاج پاکستان کے ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔ ان کے طلبہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ پاکستان کے پاسپورٹ پر وہ دنیا بھر میں سفر کرتے ہیں۔ جب سے طالبان اقتدار میں آئے ہیں ‘ پاکستان نے ان کی مدد کے حوالے سے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ بین الاقوامی کانفرنسوں کی میزبانی کی۔ دنیا سے ان کی مدد کے لیے اپیلیں کیں۔ مگر ناصر کاظمی نے کہا تھا ؎ میں نے تیرا ساتھ دیامیرے منہ پر کالک ملافغانستان نے ‘ جہاں بھی‘ جب بھی اس کا بس چلا‘ پاکستان کے احسانات کا بدلہ عداوت ہی سے دیا۔چند دن پہلے جب وزیر اعظم نے افغانستان سے کوئلہ منگوانے کا ذکر کیا تو افغانستان نے کوئلے کی قیمت فوراً دو گنا
بڑھا دی۔ ساتھ ہی ان کے ترجمان نے پاکستان کے متعلق ایسی باتیں کیں جو کوئی دوست نہیں کر سکتا۔ برملا کہا گیا کہ کوئلے کی قیمت انتقاماً بڑھائی جا رہی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کو موجودہ افغان حکومت نے ‘ ریاست پاکستان کے برابر لا کھڑا کیا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس باغی گروہ کو پاکستان کے حوالے کیا جاتا۔ مگر افغان حکومت انہیں نکالتی ہے نہ پاکستان کی ریاست کے سامنے سرنگوں ہونے کے لیے کہتی ہے۔ اُن لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو ہمارے طالبان اور اُن کے طالبان‘‘ کو الگ الگ اکائیاں قرار دیتے تھے! تیس لاکھ افغان پاکستان میں مقیم ہیں۔ اب ان کی تیسری نسل بھی یہیں پیدا ہو رہی ہے۔ ایران کی پالیسی کے برعکس‘ پاکستان میں انہیں آزادی ہے جہاں بھی رہیں اور کاروبار کریں۔ مگر وہ جو ایک جنس ہے وفا ‘ وہ ان کے ہاں نایاب ہے۔ پاکستان ان کے لیے ایک ایسی تھالی ہے جس میں کھا نے کے بعد اس میں چھید کرنے سے انہیں ناقابلِ بیان لذت حاصل ہوتی ہے!
بشکریہ : (بشکریہ روزنامہ دنیا)