ایک جگہ وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی سے یہ استدلال نظر سے گزرا کہ آپ ﷺ کی زبان مبارک سے نکلا ہوا ہر لفظ وحی ہوتا تھا ۔کیا اس آیت کا تعلق آپ کی گفتگو سے ھے۔اگر ایسا ھے تو میرا اشکال یہ ھے کہ
-1جو شخصیت اپنے اختیار اور ارادے سے کوئ بات نہیں کرتی اور کر سکتی وہ میرے لئے کیسے نمونہ ہو سکتی ھے کیونکہ میری کیمسٹری ہی مختلف ھے ۔وہ نعوذ باللہ Remote Controlled اور میں Self Controlled دونوں میں کوئ نقطہ اشتراک ہی نہیں ۔ میرے لئے میری طرح کا ارادہ اختیار اور خواہشات رکھنے والا ہی نمونہ ہو سکتا ھے ۔
2-اگر یہ بات درست ھے کہ آپ کی ہر بات وحی کی پیشگی ہدایت پر ہوتی تھی تو آپ کے کئ ایک فیصلوں کو قرآن نے Approve کیوں نہیں کیا ۔کیا اللہ ایک فیصلہ کرواکے پھر کہتا کہ تم نے ایسا کیوں کیا ؟بیویوں کو خوش کرنے کے لئے ؟ یعنی جو اجتہادات نبوی اللہ نے Approve نہیں کئے وہ بھی وحی تھے ؟
اگر آیت کا تعلق آپ کی روزمرہ گفتگو سے نہیں ھے تو آیت کا کیا مطلب ھے اور آپ کے ارشادات کی کیا حیثیت ھے ۔؟
میری رائے میں آیت کا تعلق ارشادات نبوی سے نہیں بلکہ قرآن سے ھے کیونکہ مکہ والوں کے سامنے آپ کا دعویٰ یہ نہیں تھا کہ میری زبان سے جبریل بولتے ھیں بلکہ سارا جھگڑا قرآن کے وحی ہونے یا خود ساختہ ہونے کا تھا ۔اور اسی کے بارے میں کہا گیا کہ یہ وحی ھے ۔رہی یہ بات کہ نطق کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا تو اس کی وجہ یہ ھے قرآن لوگوں کے سامنے نطق اور گفتگو کے طور پر پیش کیا جاتا تھا کتاب کی صورت میں نہیں تاہم قرآن نے کتابی بیان کے لئے بھی نطق کا لفظ استعمال کیا ھے ھذا کتابنا ینطق علیکم بالحق ۔
رہی یہ بات کہ آپ کی ذاتی گفتگو کی کیا حیثیت تھی تو قرآن نے اسے دو طرح تحفظ دیا
1قرآن میں ھے واصبر لحکم ربک فانک باعیننا آپ ہماری نگاہوں کے سامنے ھیں یعنی آپ کی ہر بات پر ہماری نگاہ ھے اور ہماری خامشی (تقریر)کو Approval سمجھاجائے ۔اور اگر کہیں کوئ بات مناسب نہ ہوئ تو بتا دی جائے گی-
2-آپ کےبعض اجتہادات کو تبدیل کروانا اس بات کی دلیل ھے کہ آپ کی نجی سرکاری اور ہمہ پہلو زندگی کے تمام معاملات کو اگر کسی بات کی تصحیح نہیں کروائ گئ تو الہی پذیرائ حاصل تھی ۔