غیر مسلم مستشرقین نے بالعموم اور بعض مسلم مستغربین نے بالخصوص ہجرت نبوی ﷺ کے بعد مدینہ منورہ میں قائم کی گئی اسلامی ریاست کو ایک قبائلی طرز کی ریاست ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ دور نبویﷺ تک بالکل غیر متمدن طرزپر چلائی گئی اور مابعد میں سیدنا عمرؓ کے دور میں تمدن کو پہنچی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آپﷺ نے اپنی مدنی زندگی کے دس سالوں میں ہی ایک متمدن شہری ریاست کو چلانے کے تمام اصول نہ صرف اس وقت کے مسلمانوں کو دےد یئے تھے، بلکہ ان اصولوں پر ایک ریاست کی تشکیل بھی کردی تھی جس میں آج متمدن دنیا میں موجود تقریباً تمام ادارے بغیر مروجہ ناموں کے اپنا کام کررہے تھے۔
نبی ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت سب سے پہلے جس انتظامی مسئلہ سے آپﷺ کو نبرد آزما ہونا پڑا وہ امن و امان کے قیام کا مسئلہ تھا۔ مدینہ منورہ میں جرائم کے واقعات کی بہتات تھی۔ نبی ﷺ نے اپنی آمد کے بعد سب سے پہلے ان واقعات کی روک تھام کی طرف توجہ دی جس کی وجہ سے ان واقعات میں از حد کمی ہوگئی۔ مزید کوئی بدامنی نہ ہو، اس کے لئے آپ ﷺ نے ایک کمیٹی تشکیل دی جسکا مقصد مدینہ میں امن و امان کوبحال رکھنا تھا۔ اس کمیٹی کے سربراہ مشہور انصاری صحابی محمد بن مسلمہؓ تھے۔ سیدنا محمد بن مسلمہ انصاریؓکی ماتحتی میں کئی دوسرے اصحاب ؓ بھی کام کرتے تھے جنکا کام معاشرے میں جرائم اور کرپشن کی روک تھام تھا۔ گویا آپ کہہ سکتے ہیں کہ سیدنا محمد بن مسلمہ انصاریؓ کی حیثیت چیف سپریٹنڈٹ آف پولیس کی تھی جن کی ماتحتی میں دیگر اصحاب اپنے فرائض کی انجام دہی کیا کرتے تھے جیسے راتوں میں پہرے کا انتظام، ڈاکہ زنی اور چوری وغیرہ کا سد باب، یہودیوں کی حرکات پر کڑی نظر رکھنا وغیرہ۔
اسی طرح آپﷺ نے مدینہ میں آتے ہی لوگوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی اور سیدنا عبادہ بن صامت ؓکو مدینہ میں موجود تمام مساجد کے درس و تدریس کے سربراہ کی حیثیت سے مقرر کیا۔ سیدنا عبادہ بن صامت ؓکے بارے میں سیرت نگاروں نے لکھا ہےکہ وہ بذات خود تمام مساجد کا وقتاً فوقتاً دورہ کرتے اور قرآن پاک کی تعلیم کی خصوصی نگرانی فرماتے۔ اس کام کے لئے انہوں نے نبی ﷺ کے مشورے سے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی جو کہ مدینہ منورہ کی مختلف مساجد میں، جن کی تعداد تقریباً ۴۰ تک پہنچ چکی تھی ، مختلف اصحاب رسولﷺ کو تعلیم دینے پر مقرر کیا جن میں سیدنا معاذ بن جبل ؓ، سیدنا خالد بن سعید بن العاصؓ، سیدنا اسید بن حضیر ؓ ، سیدنا زید بن ثابت ؓ ، سیدنا ابی بن کعبؓ وغیرہم کے اسمائے گرامی نمایاں ہیں۔
قرآن و حدیث کی تعلیم کے ساتھ ساتھ آپﷺ نے لکھنے پڑھنے کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی اور جنگ بدر کے قیدیوں کا فدیہ مقرر کیا کہ وہ مسلمان اور ان کے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں۔ اسی طرح نبی ﷺنے سیدنا زیدبن ثابت کو یہودیوں کے مِدراس (جامعات یا مدارس) بھیجا تاکہ وہ وہاں جاکر عبرانی اور دیگر زبانیں اور علوم سیکھ سکیں اسکی وجہ یہ تھی کہ بعض دفعہ نبی ﷺ کے پاس دیگر ممالک کے فرمانرواوں کے خطوط آتے تھے تو آپﷺ کو ان کی زبان سے ناواقف ہونے کی صورت میں کسی یہودی کو بلا کر خط پڑھوانا پڑتا تھا۔ اسی طرح آپﷺ نے سیدنا عبداللہ بن سعید بن العاصؓ کی ڈیوٹی مقرر کی کہ وہ مسلمانوں کے بچوں کو کتابت سکھایا کریں۔ گویا آج کے زمانے کے حساب سے آپﷺ نے اپنے دور میں ایک پوری ایجوکیشنل منسٹری قائم کردی تھی جو مدینہ منورہ کی خواندگی کی شرح بڑھانے میں دن رات مصروف عمل تھی۔
تعلیم اور امن و امان پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ آپﷺ نے زراعت و تجارت پر بھی خصوصی توجہ دی۔ نبی ﷺ کی مدینہ آمد سے پہلے یہودیوں نے سودی لین دین میں پھنسا کر مدینہ کے باشندوں سے ان کی زرخیر زمینیں ہتھیا لی تھیں جن میں خیبر کا علاقہ سر فہرست تھا۔ نبی ﷺ نے مختلف اصلاحات کرکے زراعت کے شعبہ کو ترقی دی اور زرعی پیداوار کو اس حد تک بڑھادیا کہ مکہ میں قحط پڑنے کی صورت میں آپﷺ نے غلہ مدینہ سے بھیجا۔ آپﷺ نے جو کے ساتھ ساتھ گندم کی پیداوار پر بھی خصوصی توجہ دی اور فتح خیبر کے بعد کھجور، انجیر، انار اور کیلے کی پیداوار میں مسلمانوں کو خود کفیل کردیا۔
نبی ﷺ نے زراعت کے ساتھ ساتھ تجارت کے شعبہ پر بھی خصوصی توجہ دی۔ جس وقت آپ ﷺ مدینہ آئے، اس وقت مدینہ منورہ کے بازاروں اور تجارت پر یہودیوں کی بالادستی تھی۔ آپﷺ نے مختلف اقدامات کرکے اس بالادستی کو کم کرنا شروع کیا۔ اس سلسلے میں آپ ﷺ نے ایک اہم کام یہ کیا کہ مدینہ منورہ میں مسلمانوں کا ایک نیا بازار قائم کیا جو کہ مسجد نبویﷺ کے پاس تھا تاکہ مسلمانوں کے لئے تجارت کرنے کا ایک متبادل پلیٹ فارم مہیا ہوجائےاور یہودیوں کی شرارت اور اجارہ داری سے مسلمانوں کو نجات مل جائے۔ اس بازار کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا کہ یہ تمہارا بازار ہے، اس میں کوئی تمہارے ساتھ زیادتی نہیں کریگا، یہاں تم سے کوئی ظالمانہ ٹیکس نہیں لیا جائیگا جیسا کہ یہودی مسلمان تاجروں سے اپنے بازار میں بیٹھنے پر ٹیکس لیا کرتے تھے ، گویا آپﷺ نے ایک طرح سے مسلمان تاجروں کے لئے ٹیکس ریبیٹ کا اعلان کیا۔ ساتھ ہی آپ ﷺ نے مسلمانوں کی معاشیات کو صحیح خطوط پر قائم اور پھر رواں دوا ںرکھنے کے لئے بعض ہدایات بھی جاری کیں جنہیں آج کی اصطلاح میں فنانشیل رولنگز بھی کہا جاسکتا ہے جیسا کہ مصنوعی طور پر قیمتوں میں کمی بیشی نہ کی جائے، مال کو بازار میں آنے سے پہلے نہ خریدا جائے، کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال نہ بیچے وغیرہ۔ بازار کو صحیح خطوط پر چلانے کے لئے آپ ﷺ نے اوزان اور پیمانوں کو متعین کیا اور تصریح کی کہ چونکہ مکہ تجارت کا مرکز رہا ہے اور مدینہ زراعت کا، سو‘ سونے اور چاندی کو گننے کے پیمانے اہل مکہ کے معیاری مانے جائینگے (الوزن وزن اہل مکہ) اور ناپنے کے پیمانے اہل مدینہ کے معیاری مانے جائینگے (المکیال مکیال اہل مدینہ) ، گویا آپﷺ نے مانیٹری اکانومی کی حوصلہ افزائی کرکے بازار اور تجارت میں اسٹینڈرڈائزیشن کو رواج دیا۔ ساتھ ہی آپ ﷺ نے سیدنا سعید بن العاصؓ کو اس بازار پر نگراں مقرر کیا تاکہ وہ ان تمام شرائط و قواعد کی پابندی کروائیں الغرض آپﷺ نے مدینہ منورہ میں نہ صرف معاشی نظام سے متعلق اصول اور ہدایات مہیا کیں بلکہ ان اصولوں پر ایک معاشی نظام کھڑا کرکے بھی دکھایا۔
بعینہ ایسے ہی آپ ﷺ نے انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کی طرزپر ایک محکمہ بھی قائم فرمایا تھا جس میں کئی صحابہ انسپکٹری کے
فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ اس محکمہ میں ایک عہدہ صاحب الخراج کا ہوتا تھا، جس کا کام زمین کی پیداوار سے حصہ وصولنا ہوتا تھا۔ ایک عہدہ صاحب المساحہ کا ہوتا تھا جو زمین کی جانچ اور پیداوار کا اندازہ یعنی اسیسمنٹ کرتا تھا اور اسی اسیسمنٹ کی بنیاد پر زکوٰۃ عاملین لوگوں سے زکوٰۃ کی وصولی کرتے تھے۔ ایک عہدہ صاحب الاعشار کہلاتا تھا۔ اس عہدے پر فائز شخص تاجروں کے سرمائے کا اندازہ کرکے ان سے عشر لیا کرتا تھا۔ گویا آپﷺ کے زمانے میں ہی موجودہ زمانے کی طرز کا ایک پورا ٹیکس کلیکشن ڈیپارٹمنٹ موجود تھا۔
الغرض تحریر کی طوالت کے خوف سے ہم اپنی بات یہی ختم کرتے ہیں، ورنہ جاسوسی، سونے، لوہار، بڑھئی، حربی فنون، دستکاری جیسی اور بھی کئی صنعتوں کا ذکر کیا جاسکتاہے جس میں آپﷺ نے خصوصی ہدایات دیکر ان کو ایک ڈیفنس و انڈسٹریل انسٹیٹیوشن کے طور پر پروان چڑھایا -