شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اس دور میں اسلاف کی یادگار تھے ، علم و تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز -محترم مامون رشید نے ان کی زندگی کے کچھ واقعات کو جمع کیا ہے ،جس میں ہم طلاب علم اور معزز اہل علم کے لیے بہت سے اسباق موجود ہیں ۔ابوبکر قدوسی
امام ابن عثیمین رحمہ اللّٰہ کے زہد و ورع کی چند مثالیں
فقیہ الدنیا امام ابن عثیمین رحمہ اللّٰہ کی شخصیت سے کون واقف نہیں ہے، آپ رحمہ اللّٰہ جملہ علوم شرعیہ پر کامل دسترس رکھتے تھے، عقیدہ، تفسیر، حدیث، فقہ، اصول تفسیر، اصول حدیث، اصول فقہ، قواعد فقہیہ، نحو، صرف، بلاغہ وغیرہ اقسام علوم پر آپ کی مستقل تصنیفات موجود ہیں حتیٰ کہ قواعد املا پر بھی آپ نے ایک مختصر رسالہ تصنیف فرمائی ہے، 6000 گھنٹوں سے زائد ریکارڈیڈ دروس ومحاضرات یوٹیوب ، انٹرنیٹ اور اپلیکیشنز پر دستیاب ہیں،اپ رحمہ اللّٰہ زہد وتقویٰ، تواضع وانکساری، عمل بالعلم، تنظیمِ وقت اور اخلاق عالیہ میں اپنی مثال آپ تھے،بڑی سادگی سے رہتے تھے اور ہمیشہ علم کی خدمت اور عبادت وذکر الٰہی میں مصروف رہتے تھے ۔ ایک مرتبہ ایک پولیس اہلکار نے آپ کو دیکھا تو رونے لگا ، وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگا کہ ابن عثیمین جن کے نام سے دنیا گونج رہی ہے ان کی سادگی اور لباس و پوشاک کی بے وقعتی کا یہ عالم!!!
آپ کے زہد و ورع کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی تدریس یا امامت سے غیر حاضر رہتے، اپنی غیر حاضری کی مقدار کا حساب لگاتے اور پھر اس کے بقدر تنخواہ گھٹا دیتے، چاہے غیر حاضری کنتی ہی مختصر کیوں نہ ہو اس کا معاوضہ ہر گز قبول نہ کرتے، حتی کہ اگر کبھی سعودی کبار علماء کونسل کی میٹنگوں میں شرکت کے لئے غیر حاضر ہونا پڑتا تو بھی جتنے لیکچرز چھوٹتے تھے ان کی تنخوہیں مدیر الجامعہ یا عمید الكلیہ کو لوٹا دیتے تھے۔
اور جب بھی معہد (المعھد العلمي بعنيزہ) میں ڈیوٹی کے اوقات میں چند منٹ تاخیر سے پہنچتے، اس تاخیر کو حاضری رجسٹر میں درج کر لیتے اور اس کے سامنے "بغير عذر" لکھ دیتے یعنی کہ یہ تاخیر بلا کسی ایسے عذر کے ہوئی ہے جس کا تعلق معہد کے امور سے ہو۔
ایک مرتبہ آپ نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ جس کو بھی ایسا لگے کہ میں نے کاپی جانچ کرتے وقت کسی پر ظلم کیا ہے تو وہ مجھ سے آ کر ملے، چنانچہ ایک طالب علم نے آدھے نمبر کے تعلق سے آپ سے رجوع کیا تو آپ نے وہ آدھا نمبر بڑھا دیا ۔!
ایک مرتبہ ایک شخص نے سفر کے اخراجات کے لئے آپ سے قرض مانگا تو آپ نے اسے قرض دے دیا،اور اس سے مطالبہ کیا کہ مجھے بھی سفر میں اپنے ساتھ لے چلو، چنانچہ جب دونوں ساتھ ساتھ منزل مقصود تک پہنچ گئے تو آپ نے اس آدمی کو سفر کا خرچہ دینا چاہا لیکن آدمی نے لینے سے انکار کر دیا، تو آپ نے اصرار کیا اور فرمایا اگر میں نے آپ کو قرض نہ دیا ہوتا تب تو معاملہ آسان تھا لیکن میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اس کا شمار ایسے قرض میں نہ ہو جائے جو فائدہ دینے والا ہوتا ہے (یعنی سود) ۔
عجیب بات یہ ہے آپ جب بھی اپنے قلم میں "معہد" یا "جامعہ" کا انک ڈال کر استعمال کرتے گھر جانے کے وقت اسے انڈیل کر دوبارہ دوات میں رکھ دیتے اور فرماتے یہ معہد" کی روشنائی ہے ہمارے لئے باہر اس کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے ۔
ایک مرتبہ آپ مسجد کے باہر کھڑے ہو کر اپنے شاگردوں کے ساتھ شرعی مسائل پر بحث ومناقشہ کر رہے تھے کہ ایک حوبصورت گاڑی آ کر آپ کے سامنے رکی، ڈرائیور نکلا اور اس نے کہا کہ فلاں رئیس کی طرف سے یہ گاڑی آپ کے لئے ہدیہ ہے لہذا قبول فرمائیں! لیکن آپ نے لینے سے انکار کر دیا مگر جب اس نے بار بار اصرار کیا تو آپ نے دعائیں دیتے ہوئے چابی لے لی، ڈرائیور دوسری گاڑی پر سوار ہو کر چلا گیا اور شیخ اپنے ہاتھوں میں گاڑی کی چابی لئے بدستور شاگردوں کے سوالات کا جواب دیتے رہے، اسی دوران ایک نوجوان آیا اور اس نے شیخ کو اپنی شادی میں شرکت کی دعوت دی، آپ نے مصروفیات کے باعث دعوت قبول کرنے سے معذرت کر لی اور جب اس نے اصرار کیا تو اسے وہ چابی تھما دی اور کہا کہ یہ گاڑی لے جاؤ یہ میری طرف سے تمہارے لئے ہدیہ ہے، چنانچہ وہ نوجوان گاڑی لے کر چلا گیا اور آپ دوبارہ اپنی گفتگو میں ایسے مگن ہو گئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔
سعودی حکمرانوں کی عادت کے مطابق ایک مرتبہ ملک خالد رحمہ اللّٰہ آپ سے ملنے آپ کے گھر تشریف لے گئے، گھر بڑا سادہ سا مٹی کا بنا ہوا تھا ، ملک خالد نے دیواروں پر نظر دوڑائی تو گھر کی حالت دیکھ کر آپ کے لئے ایک نیا گھر تعمیر کرنے کی پیشکش کی اور اصرار کیا کہ یا تو کوئی گھر لے لیں یا تعمیر کے لئے پیسے لے لیں، لیکن آپ نے شکریہ ادا کرتے ہوئے معذرت کر لی اور فرمایا کہ میں "صالحیہ" نامی مقام پر ایک گھر بنا رہا ہوں، البتہ مسجد اور اس کے ماتحت جو وقف ہے اس میں طلبہ کے لئے بعض ضروری اشیاء کی کمی ہے چنانچہ آپ کی خواہش کے مطابق ملک خالد رحمہ اللّٰہ نے طلبہ کی لائبریری کے لئے مسجد کے قریب ہی سات میلین ریال میں ایک پوری بلڈنگ خرید کر وقف کر دیا، بعد میں واقف کاروں نے دریافت کیا کہ آپ صالحیہ میں کہاں اور کونسا گھر تعمیر کر رہے ہیں ہمیں تو اس کا کوئی علم نہیں ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کیا صالحیہ میں قبرستان نہیں ہے ؟ میں وہیں اپنا گھر بنا رہا ہوں ۔(الدر الثمين في ترجمہ فقيہ الأمہ العلامہ ابن عثيمين ص:219) آپ کے اسی مٹی کے گھر میں ملک فہد، ملک خالد اور ملک عبد اللہ کئی بار آپ سے ملنے کے لئے تشریف لے گئے تھے ۔
ایک بار آپ ایک شخص کی گاڑی میں سوار ہو کر کسی رفاہی کام کے لئے بریدہ سے عنیزہ جا رہے تھے ڈرائیور بڑی تیزی سے گاڑی چلا رہا تھا، راستے میں اسپیڈ چیکنگ پوائنٹ آیا تو موظف نے رول توڑنے کا جرمانہ لگانے کے لئے روکا لیکن جب شیخ کو دیکھا تو آپ کا لحاظ کرتے ہوئے جانے دیا، تھوڑی دیر کے بعد آپ نے ڈرائیور سے پوچھا کہ اس عسکری نے ہمیں کیوں روکا تھا؟ اس نے کہا زیادہ اسپیڈ سے ڈرائیونگ کی وجہ سے ، تو آپ نے فرمایا پھر کیوں چھوڑ دیا؟ اس نے کہا آپ کو دیکھ کر! شیخ نے ڈرائیور سے کہا کہ دوبارہ اس چیک پوسٹ پر چلو، چنانچہ آپ کے حکم کے مطابق یوٹرن لے کر پھر اسی مقام پر پہنچا تو شیخ نے اس پولیس سے پوچھا کہ تھوڑی دیر پہلے آپ نے ہمیں کیوں روکا تھا ؟ اس نے کہا: کیونکہ یہ Over speed ڈرائیونگ کر رہا تھا ، آپ نے پوچھا پھر کیوں چھوڑ دیا ؟
پولیس نے کہا: میں نے سوچا شاید آپ کسی اہم کام کے لئے جا رہے ہیں اور آپ کو جلدی ہے اس لئے! آپ نے فرمایا نہیں ایسا کچھ نہیں ہے یہ بتائیے Over speeding کا جرمانہ کتنا ہے ؟ اس نے کہا تین سو ریال ، آپ نے فرمایا یہ ڈیڑھ سو ریال مجھ سے لیجئے اور ڈیڑھ سو اس ڈرائیور سے کیوں کہ اس نے تیزی سے گاڑی چلائی تھی اور میں نے اسے نصیحت نہیں کی تھی ۔