ڈاکٹر خالد الشافعی مصری ہیں اور مصر کے نیشل اکنامکس سٹڈی سنٹر میں منیجر ہیں۔ ان کے ایک حادثاتی تجربے سے کچھ سیکھیئے۔ لکھتے ہیں:
اسی گزرے اٹھارہ مارچ کو عصر کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکل رہا تھا کہ میرا توازن بگڑا، گرا اور پاؤں ٹوٹ گیا۔ہسپتال گیا، ایکسرے کرایا، ڈاکٹر نے تشخیص کیا کہ پاؤں میں ٹخنے اور انگلیوں کو آپس میں جوڑنے والی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔پاؤں پر پلستر ٹانگ اور گھٹنے کو ملا کر چڑھا دیا گیا۔ ڈاکٹر نے نوید سنائی کہ پلستر ڈیڑھ سے دو مہینے تک چڑھا رہے گا۔
میں بڑا حیران۔ یہ ڈاکٹر کہتا کیا ہے؟ بس ایک چھوٹا سا کنکر میرے پیر کے نیچے آیا تھا۔ نہ کسی گاڑی نے مجھے ٹکر ماری ہے اور نہ ہی میں کسی اونچائی سے گرا ہوں۔
اس دن شام کو گھر واپس پہنچنے پر مجھ پر بہت ساری حقیقتیں کھلنا شروع ہوئیں، بہت سارے سبق اور بہت ساری عبرتیں ملنا شروع ہوئیں۔
زندگی میں پہلی مرتبہ مجھ پر پاؤں کی اہمیت آشکار ہونا شروع ہوئی اور مجھے اپنے پاؤں کی ایسی ایسی خدمات اور ایسے ایسے استعمالات کا پتہ چلنا شروع ہوا جنہیں میں نے آج تک محسوس بھی نہیں کیا تھا۔میرے لیئے باتھ روم جانا ایسا مشن بن گیا جس کیلئے باقاعدہ تیاری، منصوبہ سازی، ترتیب اور شدید توجہ کی ضرورت ٹھہری۔وضو کرنا، نماز پڑھنا، حوائج ضروریہ کیلئے جانا ایسے کام بن گئے جن کیلئے مافوق الخیال تیاریاں کرنا پڑتی تھیں۔
اس حادثے کے دوسرے دن فجر کے وقت باتھ روم چلا گیا، وضو کے بعد ایسا گرا کہ ابھی تک یقین نہیں آیا کہ بچ کیسے گیا ہوں، حالانگہ یہ والا گرنا سیدھی سیدھی موت یا کم از کم فالج تھا۔
گھر میں میری اکیلے نقل و حرکت بند ہوگئی، ضروری ٹھہرا کہ کوئی نہ کوئی میری خدمت یا میرا خیال رکھنے کیلئے ہمہ وقت موجود رہے كگا۔ سارے گھر والوں کیلئے باہر آنا جانا باقاعدہ صلاح مشورے، باری بندی اور ترتیب سے مشروط ٹھہرا۔ پورے گھر کا نظام اس چھوٹے سے حادثے کی وجہ سے درہم و برہم ہو گیا-میرے لیئے واش روم بہت دور کی چیز بن گئی اور کچن تو دوسرے بر اعظم پر واقع مقام بن گیا۔
مجھے پہلی بار ایسے لوگوں کے محسوسات جاننے کا تجربہ ہوا جنہیں کسی مرض نے یا ان کی پیراں سالی نے بٹھا دیا ہو، یا جن کی زندگی دوسروں کی مدد کی محتاج بن گئی ہو یا دوسروں کی مدد کے بغیر ناممکن بن کر رُک گئی ہو۔
یقین کیجیئے میں ایک پاؤں کی اتنی اہمیت بھی ہو سکتی ہے کے بارے میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ میرا ایک پاؤں کیا خراب ہوا میری زندگی ہی معطل ہو کر رہ گئی، میرا سب کچھ ہی بدل کر رہ گیا۔ایک دن کچھ وقت کیلئے گھر پر اکیلا تھا۔ بوڑھوں والے واکر کو پکڑ کر ایک ٹانگ کے ساتھ کچن میں گیا، اپنے لیئے ایک چائے بنا کر ہٹا تو مجھ پر ایک نئی اور ایسی حقیقت کھلی جو کبھی بھی میرے دماغ نہ آ سکتی، اور وہ یہ کہ: چائے کا کپ پکڑ کر واپس کیسے جاؤں تاکہ مزے سے ٹیلیویژن کے سامنے بیٹھ کر پی سکوں۔ اب یہ عقدہ کھلا کہ چا ئےکا کپ پکڑ کر اپنے پیروں پر چلتے ہوئے آنا بھی ایک ایسی نعمت ہے جس پر بہتوں کا خیال ہی نہیں جاتا۔
ایک چھوٹے سے کنکر نے میری زندگی کے سارے معمولات ہی بدل کر رکھ دیئے۔
صبح کو اپنے پیروں پر چل کر نکلا تھا شام کو دوستوں کے کندھوں پر سوار لوٹا۔
دو اپریل کی رات کو مجھے ٹوٹے ہوئے پیر والی ٹانگ میں شدید اور ناقابل برداشت درد ہوا۔ آدھی رات کو بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچے۔ جلدی سے پلستر کاٹا گیا، سی ٹی سکین ہوا تو پتہ چلا کہ ٹانگ کی اندرونی وریدوں میں خون کا بہاؤ رُک گیا تھا جو پلستر کے ساتھ حرکت نہ ہونے کی وجہ سے ایسا عموماً ہو جاتا ہے۔درد کی شدت سے میری دھاڑیں نکل رہی تھیں۔ اس بار مجھے ایک نئے تجربے سے گزرنا پڑا۔ مجھے یکے بعد دیگرے پیٹ میں کئی ٹیکے لگائے گئے۔ ان ٹیکوں کا اپنا درد ایک نئی قیامت تھی۔ اور اس قیامت خیز حالت میں، میں اس ٹیکے کے بارے میں نہیں جو میرے پیٹ میں لگا ہوتا تھا، بلکہ اس ٹیکے کے بارے میں سوچتا تھا جو لگائے جانے کیلئے ابھی تیار ہو رہا ہوتا تھا۔ مجھے ہسپتال میں داخل کر دیا گیا۔ کھانسی کا شدید دورہ پڑا تو ڈاکٹر کو شک گزرا کہ وریدوں میں خون کی رکاوٹ اندرونی سوجن پیدا کر رہی ہے اور ہو نہ ہو اس حالت میں میرے پھیپھڑے متاثر ہو چکے ہیں۔
مسجد کے سامنے پاؤں کے نیچے آنے والا کنکر اب میرے حلق میں اٹک جانے والا کانٹا بن گیا تھا۔ وعظ اور عبرت کی پوسٹیں لگانے والے کاتب کی زندگی بذات خود خوفناک قسم کی پوسٹ بننے جا رہی تھی۔
میری آنکھوں کے سامنے میری گزری زندگی کے سارے مناظر فلم کی طرح چلتے تھے۔ جو بات رہ رہ کر یاد آتی تھی وہ یہ تھی کہ جب میں عام سی زندگی جیتا تھا تو کتنی بے بہا نعمتوں میں گھرا ہوتا تھا۔ رہ رہ کر خیال آتا کہ اُن نعمتوں کا ویسا شکر ادا کیوں نہ کرتا تھا جیسا اُن کے شکر کا حق بنتا تھا۔
ہسپتال میں میرے ساتھ والے کمرے میں داخل ایک بزرگ کے کمرے سے ابھی ابھی انسٹرومنٹ ہٹا کر لیجا رہے تھے۔ مجھے اوروں کا نہیں اپنا خاتمہ نظر آنا شروع ہو گیا تھا۔
ہسپتال میں ہر ایک بیڈ ایک کہانی تھا اور ہر کہانی کے پیچھے سبق، خواب، کامیابیاں، ناکامیاں اور امیدوں کے بنتے بگڑتے قصے۔
ہسپتال میں انواع و اقسام کے لوگ: مریض یا ملازمین۔ اور مریضوں کی پھر آگے قسمیں: اپنی صحت اور زندگی سے مایوس، یا پھر بھر پور امید والے بے خوف لوگ۔ ورثاء سب ہی خوف اور امید میں لٹکے ہوئے۔
ملازمین کی بھی اقسام: ڈاکٹر اپنی ڈگری کی قیمت سے واقف وجاہت اور متانت کے عکاس۔ نرسیں لگ بھگ سب کام نمٹاتے ہوئے مگر قدر و قیمت نہ پانے کی شاکی۔ صفائی کرنے والے اپنی حالت اور دگرگوں مالی حالت کے ہاتھوں ناکام زندگی سے شاکی اور اُکھڑے اُکھڑے۔ہسپتال میں ہر مریض کی ساری زندگی جیسے رُکی ہوئی، سب پریشانیوں پر بھاری بس ایک پریشانی کہ کسی طرح ہسپتال سے نکل کر گھر پہنچ جائے۔ ملازمین کیلئے مریضوں کے درد اور بیماریاں بس ایک کام اور روٹین۔ ادھر ڈیوٹی ختم اُدھر وہ گھر روانہ۔ بھلے مریض کی جان ایسے نکلے یا ویسے۔بہرحال میں نے جیسے تیسے رات ٹیکوں اور سرنجوں کے درد سہتے گزاری۔ جنہیں روز کے ٹیکے لگتے ہیں کے بارے میں سوچ سوچ کر مجھے ان سے ہمدردی محسوس ہو رہی تھی۔ میرے سینے کے ایکسریز لیئے گئے اور اب دوسری صبح کا انتظار تاکہ ڈاکٹر نتیجہ بتائے۔دوسرے دن میری ساری زندگی ڈاکٹر کے دو کلموں پر اٹکی ہوئی تھی جس نے ایکسریز دیکھ کر رپورٹ دینا تھی۔ ڈاکٹر ایکسرے اٹھائے وارڈ میں داخل ہوا اور میں نتیجہ جاننے کیلئے جاں بلب سولی پر لٹکا ہوا۔ ’’الحمد للہ، ایکسرے بالکل کلیئر ہیں‘‘۔ اور اس کے ساتھ ہی خوفناک اور ڈراؤنی فلم کا اختتام۔
اچھا، اصلی بات تو ابھی وہیں کی وہیں۔ پاؤں ٹوٹا ہوا، پلستر لگانا ممنوع ٹھہرا۔ اب پاؤں کے علاج کی جگہ وریدوں کا علاج فوقیت پا چکا۔ مطلب صاف صاف یہی بنتا تھا کہ اب اپنے پیروں پر چلنے پھرنے کیلئے انتظار اور بھی لمبا ہو گا۔پلستر نہ ہونے کی وجہ سے پاؤں سوج کر کُپا بن گئے، ساتھ ساتھ ٹانگ بھی نیلی پڑ گئی تھی۔سارا زور ایک ٹانگ پر پڑنے کی وجہ سے، ٹھیک والی ٹانگ کے پاؤں اور گھٹنے میں شدید درد رہنے لگا۔پیروں کی بجائے ہاتھوں سے سہارا لینے کی وجہ سے ہاتھ دُکھنے لگے، حرکت کم ہوئی تو وزن تیزی سے بڑھنا شروع ہو گیا۔مہینہ بھر ٹوٹے پاؤں کو حرکت نہ دینے کی وجہ سے پیر کے مسلز تقریباً مرے ہوئے جیسے بن گئے۔
انسان کی کمزوری اور ضعیفی پر پڑھا تو بہت تھا مگر کمزوری اور ضعف ایسا ہوتا ہے سے واسطہ اب پڑا تھا۔ اور یہ سلسلہ شیطان کی آنت کی طرح لمبے سے لمبا ہوتا جا رہا تھا۔
جب میں عام بندے کی طرح چل سکوں گا کے بارے میں سوچنا خواب سا لگتا تھا۔ مجھے رہ رہ کر یاد آتا تھا کہ جب کوئی مجھ سے حال احوال پوچھتا تھا تو میں اکثر یکسانیت سے اکتایا ہوا مختصراً کہہ ڈالتا تھا کہ ’’بس ٹھیک ہوں‘‘۔ اور یہ ’’بس ٹھیک ہوں‘‘ کتنی عظیم نعمت ہوتی ہے مجھے اب پتہ چل رہا تھا۔ دیکھیئے: کسی نعمت کو ’’بس‘‘ کہہ دینا انسان کو اس نعمت کی قدر ہی بُھلا دیتا ہے۔ خبردار، کہیں ایسا نہ ہو کہ نعمت کی قدر کا احساس اُس نعمت کے چِھن جانے کے بعد ہو۔ کسی نعمت کو کبھی بھی اتنا ہلکا نہ لیا جائے کہ اس نعمت کو نعمت سمجھنے کا شعور ہی جاتا رہے۔
مجھے بیماری اور جیل کی قید نے ٹھیک طریقے سے مطلب سمجھایا ہے کہ’’ اور اگر اﷲ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے بے شک آدمی بڑا ظالم ناشکرا ہے‘‘۔
میرے فیس بک کی ڈی پی پر میری چلتے ہوئے کی فوٹو لگی ہوئی ہے- میں جب بھی فیس بک کھولتا ہوں اور اپنی فوٹو پر نظر پڑتی ہے تو مجھے اپنے ’’بس ٹھیک ہوں‘‘ کے الفاظ عظیم القدر نعمت لگتے ہیں۔
ایک اور بات بتاؤں؟ آج پینتیسواں دن ہے اور ابھی تک میرا ماتھا سجدے کیلئے
زمین پر نہیں پڑ سکا۔ چارپائی پر بیٹھے بیٹھے وضو اور لیٹے لیٹے نماز ہو رہی ہے کیونکہ اب میرا بیٹھنا بھی منع ہو چکا ہے۔ نماز کا شوق مجھے پاگل کیئے جا رہا ہے۔
مصیبتوںکے بھی کیا رنگ نکلتے ہیں: مصیبت تاکہ صبر کرنا آ جائے، مصیبت جو شکر کرنا سکھا دے، مصیبت جو اجر و ثواب کا باعث بن جائے، مصیبت جو سرزنش بن جائے، مصیبت جو گئے گزرے اوقات کی جانچ پڑتال کرنا بتا دے اور مصیبت جو ثابت قدمی سکھا دے۔
آخر میں، میں نے جو کچھ لکھا ہے اس کیلئے اپنی ماں سے معافی مانگتا ہوں، کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ وہ یہ سب کچھ پڑھ کر بہت روئے گی۔ میں آج تک اپنی بیماریوںاور پریشانیوں کے سارے راز اُس سے اس لیئے چھپاتا آیا ہوں کہ وہ میری وجہ سے کبھی بھی کبیدہ خاطر نہ ہونے پائے۔
اے اللہ اپنے ہر مریض بندے کو ایسی شفا دے جس کے بعد کوئی دوسری بیماری نہ ہو- آمین یا رب العالمین