فکر ونظر
ترجمے کی اہمیت
وسعت اللہ خان
اگر مترجم نہ میسر ہوتا تو برطانوی سامراجی ہندوستان میں نوے برس تو کیا شاید نوے دن بھی نہ ٹک پاتا۔ علم اور اجنبی کو جاننے کے لیے ترجمے کی وہی اہمیت ہے جو زندگی کے لیے سانس کی۔ یوں سمجھئے کہ
یہ ’’تراجم‘‘ کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا
اب سے بارہ برس پہلے مجھے پٹیالہ یونیورسٹی اور وہاں ترجمے کا کام دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ شعبے کے انچارج گردیو اروڑا صاحب سے گفتگو میں پہلی بار اندازہ ہوا کہ کسی تہذیب کا رسم الخط تبدیل ہونا بسا اوقات کتنا بڑا المیہ بن جاتا ہے۔ انچارج صاحب نے بتایا کہ نئی نسل چونکہ صرف گرمکھی سے واقف ہے لہذا وہ شاہ مکھی میں موجود پنجابی کے وسیع علمی خزانے سے محروم ہو چکی ہے۔
پاکستان سے پنجابی میں بہت سی کتابیں آتی ہیں مگر ان کو پڑھ کے گرمکھی میں منتقل کرنے کا کام صرف وہ تین چار بزرگ ہی کر سکتے ہیں جنہوں نے تقسیم سے پہلے عربی فارسی رسم الخط میں تعلیم حاصل کی۔ اب یہ انتظام کیا گیا کہ پٹیالہ یونیورسٹی سے جو بھی طالبِ علم پنجابی میں ایم فل یا ڈاکٹریٹ کرتا ہے اسے پہلے سال میں شاہ مکھی سیکھنا پڑتی ہے۔ تاکہ گلشنِ ترجمہ کا کاروبار آیندہ بھی چلتا رہے۔ شکر ہے بلھے شاہ اور وارث شاہ گورمکھی میں منتقل ہو گیا ورنہ ہماری نئی نسل اس سے بھی جاتی۔
مجھے اس وقت پراگ بھی یاد آ رہا ہے۔ جہاں چار مہینے قیام کے دوران احساس ہوا کہ ترجمے کا فن اور اس کی سرکاری سرپرستی کتنا بڑا قومی خدمت کا کام ہے۔ چیک ری پبلک کی آبادی لگ بھگ ایک کروڑ ہے اور دارلحکومت پراگ میں تین بڑے بک اسٹورز میں تازہ ترین عالمی فکشن اور نان فکشن بھرا پڑا ہے۔
ایک بک اسٹور کے مالک نے بتایا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ جو ہمیں درکار ہو وہ زیادہ سے زیادہ چار ماہ کے اندر چیک زبان میں منتقل نہ ہو جائے۔ چیک ری پبلک میں جو لوگ ترجمے کا کام کرتے ہیں۔ انھیں اس فن کے ہوتے اپنی مالی آسودگی برقرار رکھنے کے لیے کوئی اور کام کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
وہاں اچھا مترجم وہ مانا جاتا ہے جسے چیک کے علاوہ کم ازکم دو بڑی عالمی زبانیں آتی ہوں۔ اور یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ بھی نہیں کیونکہ سکول کی سطح پر ہر بچے کو اہم یورپی زبانوں میں سے کوئی ایک زبان ضرور پڑھنا پڑتی ہے۔
میں نے اسی بک اسٹور میں محمد حنیف کا ناول ’’اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز‘‘ کا چیک ترجمہ ایک بک شیلف میں پڑا ہوا پایا۔ حالانکہ اصل ناول انگریزی میں صرف تین ماہ پہلے شایع ہوا تھا۔ اس کے بعد مجھے چیک ری پبلک کے ٹرانسلیشن کلچر کے بارے میں کسی سے مزید کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ رہی۔
اگرچہ پاکستان ایک وفاق ہے مگر وفاقی اکائیوں کی باہمی اجنبیت کا ایک بنیادی سبب عدم ترجمہ بھی ہے۔ مثلاً کتنے وفاق پرست جانتے ہیں کہ سندھی فکشن اور نان فکشن کس سطح کا اور کتنی مقدار میں ہے۔ پچھلے ڈیڑھ سو برس میں ادب، شاعری، تاریخ اور سیاست پر سندھی زبان میں جتنا کچھ لکھا گیا۔ ہم اس کے پانچ فیصد سے بھی واقف نہیں۔ اگر پچھلے ستر برس میں یہی کام ہو جاتا کہ پاکستان کی علاقائی زبانوں کا پچیس فیصد خزانہ بھی اردو یا انگریزی میں منتقل ہوجاتا تو آج وفاق کے چار یونٹوں کے لوگ ایک دوسرے کے دکھ سکھ کو واقعی جان سکتے۔
میں پچھلے اڑتیس برس سے ذرایع ابلاغ سے منسلک ہوں۔ اس عرصے میں غلط یا صحیح میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ترجمے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو کم ازکم ایک زبان پر دسترس ہو۔
اگر آپ انگریزی سے اردو ترجمے کا کام کر رہے ہوں تو انگریزی بھلے اتنی اچھی نہ بھی ہو لیکن اردو کے لسانی و استعاراتی و علاقائی قواعد، محاورے، روزمرہ اور لہجوں سے آپ کو بنیادی واقفیت ضرور ہونی چاہیے۔ اگر آپ نے خدانخواستہ اس فن کو آسان جانا اور یہ فرض کر لیا کہ ترجمہ کرنا کون سا مسئلہ ہے ڈکشنری سامنے رکھو اور ترجمہ کر لو۔ بس یہیں سے آپ کی فنی بربادی شروع ہوجاتی ہے۔
ایک صحافتی اپرنٹس کوایک خبر ترجمے کے لیے دی گئی جس میں ایک جملہ یہ بھی تھا کہ ’’فارن منسٹر گوہر ایوب سیڈ پاکستان از ناٹ بنانا ری پبلک‘‘۔ غریب اپرنٹس نے اس کا ترجمہ کیا کہ ’’وزیرِ خارجہ گوہر ایوب نے کہا ہے کہ پاکستان کوئی کیلا جمہوریہ نہیں ہے‘‘
ڈکشنری زدہ نو وارد و نوزائدہ صحافیوں کو بعض اوقات یہ سمجھانا مشکل ہے کہ جملے کو پہلے دھیان سے پڑھا جائے۔ اگر سمجھ میں نہیں آ رہا تو کسی سے مفہوم پوچھ لیا جائے۔ اگر ایک لفظ یا اصطلاح کے پانچ یا چھ مختلف معنی ہیں تو ان میں سے مناسب معنی کے بارے میں مشورہ لینے یا پوچھنے سے توہین ہرگز نہیں ہوتی بلکہ مترجم بعد میں پے در پے شرمندگی سے بچ جاتا ہے۔ اور جب تک آپ عصری علوم اور لٹریچر سے کماحقہ نہ سہی واجبی واقف بھی نہ ہوں گے تو ڈکشنری کی تلوار آپ کو ہارا کاری کروانے کے لیے کافی ہے۔
حالیہ برسوں میں میڈیا میں کام کرنے والے جواں سال مترجم کے ساتھ ایک ٹریجڈی یہ بھی ہوئی ہے کہ پہلے اے پی پی، پی پی آئی اور دیگر نیوز ایجنسیوں کی خبریں صرف انگریزی میں آتی تھیں لہذا چار و ناچار ان کا ترجمہ اردو یا کسی اور زبان میں کرنا ہی پڑتا تھا۔اس بہانے مترجم کے تحت الشعور میں ضروری انگریزی الفاظ و اصطلاحات کا ایک خزانہ ترتیب پاتا چلا جاتا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ترجمہ کرنے کی صلاحیت رواں تر ہوتی جاتی لیکن جب سے نیوز ایجنسیوں نے انگریزی کے بجائے تمام خبریں اردو میں مہیا کرنی شروع کی ہیں تب سے ترجمہ کرنے اور سیکھنے کی رہی سہی مجبوری نے بھی ابلاغی کھڑکی سے کود کر جان دے دی ہے۔
آج صورت یہ ہے کہ بولی اور زبان میں تمیز ختم ہو گئی ہے۔ اکثر صحافیوں نے زبان کاغذ پر پڑھی نہیں بلکہ سنی ہے۔ اس سنی ان سنی کے نتیجے میں اپنے بہت سے ابلاغی ساتھیوں کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ خدانخواستہ بہرے ہوتے تو بالکل ہی جاہل ہوتے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ ’’وی ول لیو نو اسٹون اَن ٹرنڈ‘‘ کا ترجمہ یہی کیا جائے کہ کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا جائے گا۔ اس کا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ہم ہر ممکن کوشش کریں گے‘‘۔ لیکن اگر مجھے ’’وی ول لیو نو اسٹون ان ٹرنڈ‘‘ جیسے عام سے محاورے کا ترجمہ یہ ملے کہ ہم ہر پتھر اکھاڑ پھینکیں گے تو پھر
مجھے بھی یہ حق دیں کہ یہی پتھر میں مترجم پر نہ سہی اپنے ہی سر پے مار لوں۔
اور جنھیں اچھا ترجمہ آتا ہے ان میں سے بہت سوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے ملی جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے۔ جملے کا ترجمہ کرتے ہوئے اسے اپنے تعصبات اور خواہشات میں ایسا رنگ دیتے ہیں کہ جملہ کہیں کا کہیں پہنچ کر اگر فوت نہ بھی ہو تو پاگل ضرور ہو جائے۔ مثلاً ایک بار ایک نوجوان سب ایڈیٹر کو میں نے ایک نیوز ایجنسی کی ایک خبر دی جس میں ایک جملہ یہ تھا کہ ’’وائیل ایڈرینسگ اے گیدرنگ آف لیجسلیٹرز ان سری نگر، دی انڈین پرائم منسٹر مسٹر اٹل بہاری واجپائی ویہمنٹلی سیڈ دیٹ کشمیر از این انٹیگرل پارٹ آف انڈیا اینڈ وِِل رمین سو۔۔۔
اب ترجمہ ملاحظہ کیجیے ’’بھارتی وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی نے سری نگر میں منتخب ارکانِ اسمبلی کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر ڈھٹائی سے کام لیتے ہوئے ہرزہ سرائی کی کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹونگ انگ ہے اور رہے گا‘‘ اب بتائیے کہ آپ میری جگہ ہوتے تو حب الوطنی سے سرشار اس جوشیلے مترجم کا کیا کرتے۔ ترجمہ لفظ کا نہیں تحریر کا ہوتا ہے اور سب سے اچھا ترجمہ تحریر کا نہیں مصنف کا کیا جاتا ہے۔
***