كيا ہندو اہل كتاب ہيں

مصنف : راشد شاذ

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : نومبر 2025

فكر ونظر

كيا ہندو اہل كتاب ہيں

راشد شاز

ابو ریحان البیرونی پہلے محقق نہیں ہیں جنہوں نے شبہ اہل کتاب میں ہندوٶں کا شمار کیا ہے۔ ہاں، انہیں یقیناً یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ پہلے باقاعدہ محقق ہیں جس نے ہندو مذہب کی کتب کا  براہ راست ہندو اساتذہ کی صحبت میں رہ کر علم حاصل کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہندو بھی دیگر امم سابقہ کی طرح ایک ایسی امت ہیں جس کی بناء کبھی توحید باری تعالٰی پر اٹھائی گئی تھی۔ بیرونی نے منی پاتنجلی کا یہ قول تائیداً نقل کیا ہے کہ "خدا کی وحدانیت کے دھیان میں مستغرق رہنے سے نیا شعور حاصل ہوتا ہے۔ خدا کا طالب تمام ہی مخلوق کی بھلائی چاہتا ہے اور جو اس کے تصور میں غرق رہ کر عرفان حاصل کرتا ہے ابدی نجات اس کا مقدر ہو جاتی ہے۔" (کتاب الہند)۔ البیرونی اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہندوٶں کی مذہبی کتابیں انہیں شبہ اہل کتاب کے زمرے میں رکھنے پر خاطر خواہ دلائل فراہم کرتی ہیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ سندھ و ملتان کی فتوحات کے دوران محمد بن قاسم نے اہلِ ہنود کے معابد کو عراق و شام کے یہودیوں اور عیسائیوں پر قیاس کیا اور ان سے اس بارے میں کوئی تعرض نہ کیا جیسا کہ چچ نامہ کے مصنف ابوالحسن محمد بن المدائنی نے تاریخی شواہد کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ قاضی ساعد اندلسی جو پانچویں صدی ہجری کے مصنف ہیں انہوں نے بھی طبقات الامم میں ہندوٶں کو صابیہ قرار دیا ہے۔ شہرستانی نے کتاب الملل و النحل میں برہمنوں کو مذہب براہیمی کا پیروکار بتایا ہے جو روحانیت کے تو قائل ہیں البتہ ان کی ایک جماعت ہیکل پرست ہے اور ایک مورتی پوجا کی قائل ہے۔ شہرستانی کے بقول یہ لوگ ثنویہ ہیں بالکل اسی طرح جس طرح مجوسی شیطان کو اہرمن اور خدا تعالٰی کو یزداں کہتے ہیں۔ فخرالدین رازی نے سورہ ہود کی تفسیر کے ذیل میں لکھا ہے کہ ہندوٶں کے سفر کے دوران ميں انہوں نے یہ محسوس کیا کہ کفارِ ہنود وجودِ باری تعالٰی پر متفق ہیں۔ متاخرین علماء میں قاضی ثناءاللہ پانی پتی نے آیت جزیہ کی تفسیر میں صاف لکھا ہے کہ ہندوستان کے ہندو اہل کتاب کہلانے کے مستحق ہیں:

"میں کہتا ہوں اگر مجوسیوں کے اسلاف کا اہل کتاب ہونا ان مجوسیوں کے اہل کتاب قرار دینے کے لئے کافی ہے تو ہمارے زمانے کے یہ ہندو بت پرست بھی اہل کتاب ہو جائیں گے۔ ان کے پاس بھی وید نام کی ایک کتاب ہے جس کے چار حصے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ یہ خدائی کتاب ہے۔ پھر ان کے اکثر اصول بھی شرعی اصول کے موافق ہیں اور جن اصول میں اختلاف ہے وہ شیطان کی آمیزش کا نتیجہ ہے۔ جس طرح شیطانی تفرقہ اندازی سے مسلمانوں کی ایک جماعت پھٹ کر تہتر فرقے بن گئی۔ ہندوٶں کے اہل کتاب ہونے کی تائید قرآن سے بھی ہوتی ہے [و ان من امۃ الا خلا فیھا نذیر]۔ ہر امت میں کوئی نہ کوئی پیغمبر ضرور گزرا ہے۔ مجوسیوں سے تو ہندو اہل کتاب کہلانے کے زیادہ مستحق ہیں۔ (تفسیر مظہری، جلد ۵، ص ۲۴۰)

اس بارے میں ابوالکلام آزاد کا یہ موقف بھی وزن رکھتا ہے کہ "ہندوستان کے ہندو باوجود ضبطِ شریعت و احکام و حفظ علوم و تمدن و ادعائے وجود صحفِ کتب محض پرستش قویٰ و اشکال و صورِ مظاہر فطرت کی بناء پر کیوں شبہہ اہل کتاب میں تسلیم نہ کئے جائیں۔" (جامع الشواہد، ص ۵۳ تا ۵۵)

ابتدائی صدیوں سے ہی مسلم علماء و محققین اہل ہنود کو شبہہ اہل کتاب پر قیاس کرتے رہے ہیں۔ بعضوں نے ان کے ذبیحہ کے سلسلے میں احتیاط کا مظاہرہ کیا اور ان کی عورتوں سے نکاح کو روا ،نہ رکھا جیسا کہ سیرت النبی کے مصنف سید سلیمان ندوی کا موقف رہا ہے۔ [سیرت النبی، جلد ۴، ص ۶۰۱] لیکن ذہنی تحفظ کا یہ رویہ بعد کی صدیوں کی پیداوار ہے ورنہ حضرت نفس ذکیہ کے صاحب زادے عبداللہ اشتر نے جب سندھ میں پناہ لی تو دیبل کے راجا نے نہ صرف یہ کہ انہیں پناہ دی بلکہ اپنی لڑکی سے ان کی شادی بھی کر دی۔ جس سے اس خیال کی توثیق ہوتی ہے کہ ہندوستان میں فقہی اسلام اور سیاسی مصالح کی مداخلت سے پہلے اہل ہنود کے سلسلے میں ہمارے دل و دماغ کسی ذہنی تحفظ سے یکسر خالی تھے۔ بلکہ یہ کہہ لیجئے کہ جب تک عربیت کو دین کا اصل الاصل قالب قرار دینے کی ریت قائم نہ ہوئی تھی مذاہب اہل ہنود کے سلسلے میں زبان و ثقافت سے ماوراء، ہم ان کی نظری حیثیت کے سلسلے میں کسی التباس یا تنگ نظری کا شکار نہ تھے۔ البتہ جب اکبر کے دینِ الٰہی کے ردعمل میں عربیت پر اصرار بڑھا تو مقامی ثقافت کے سلسلے میں ہم ایک طرح کے تحفظ ذہنی کا شکار ہو گئے۔ زبان و ثقافت کے اس حجاب کو جب بھی ہٹانے کی کوشش کی گئی ایسا محسوس ہوا کہ قرآن مجید میں صحفِ اولٰی سے جن کتابوں کی طرف اشارہ ہے ان میں ہندوٶں کے کتب سماوی بھی شامل ہیں جو کوئی بھی گائتری منتر اور سورہ فاتحہ کا تقابلی مطالعہ کرتا ہے وہ اس احساس سے خالی نہیں رہ پاتا۔ اسی طرح جب قرآن مجید کی آیات کا مانوس ہندی لب و لہجہ میں ترجمہ ہوتا ہے تو اہل دل ہندوٶں کو ایسا محسوس ہوتا ہے گویا یہ سب کچھ ان ہی قدیم کتب سماوی کا نیا سلسلہ ہو۔ فضل الرحمٰن گنج مراد آبادی نے قرآن مجید کی بعض سورتوں کو ہندی قالب میں کچھ اس طرح پیش کیا تھا۔ (ذالک الکتاب لا ریب فیہ) یعنی اس مہاوید کے پرمیشوری ہونے میں کوئی دُبدھا نہیں۔ (ھدی للمتقین) جو بھگتوں کو بھلی راہ پر لگاتا ہے۔ (واذکر فی الکتاب ابراھیم انہ کان صدیقا نبیاً) کا ترجمہ کچھ اس طرح کیا گیا تھا۔ اور آکاش پوتھی میں تو ابراہیم نبی کی کتھاسن وہ مہا شدھ سنتِ بچن اوتار تھا۔ [یٰسین والقرآن الحکیم] کا ترجمہ اے پُرن جوت پکے وید کی قسم کیا گیا تھا اور (لو انزلنا ھذا القرآن علی جبل) کا ہندی قالب کچھ اس طرح تھا: اگر یہ ست وید کسی پہاڑ پر اتارے۔ (منموہن کی باتیں، مطبوعہ خدا بخش لائبریری، پٹنہ) اس قبیل کے ترجموں سے اس بات کا بآسانی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر عربیت کا تہذیبی اور لسانی قالب ترجموں کے ذریعہ چاک کیا جانا ممکن ہو تو متبعین محمد اور اہل ہنود پر مشتمل شبہہ اہل کتاب کے مابین اشتراکِ فکر و عمل کی وقیع نظری بنیادیں فراہم ہو سکتی ہیں اور وہ بھی دوسرے اہل کتاب کی طرح کلمہء سواء کی دعوت کے مستحق قرار دئیے جا سکتے ہیں۔