جواب: بلا شبہ جہالت اور کم علمی ایک بڑا مرض ہے اور اس سے بھی بڑا مرض یہ ہے کہ جاہل اپنے آپ کو عالم تصور کرے۔ ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے نام نہاد روشن خیال لوگ پائے جاتے ہیں۔ جنھوں نے دنیوی علوم تو حاصل کر رکھے ہیں لیکن قرآن وسنت اور شریعت کے سلسلے میں ان کا علم صفر ہے۔ اس کے باوجود دینی معاملات و مسائل میں وہ اپنی جاہلانہ رائے دینے سے گریز نہیں کرتے۔ حد تو یہ ہے کہ قرآن و سنت کا علم نہ ہونے کے باوجود اپنی رائے کو برحق اور قرآن و سنت کے مطابق قراردیتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر ایسے ہیں جو فقط نام کے مسلمان ہیں اور ان کے کام غیر مسلموں جیسے ہیں۔ چونکہ اسلام اور اسلامی احکام میں انہیں کوئی خاص دلچسپی اور رغبت نہیں ہے اس لیے غیر مسلموں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے یہ لوگ بہت سارے شرعی احکام کو بدل دینا چاہتے ہیں
مہر کی حیثیت قرآن وسنت سے ثابت ہے اور اس پر تمام امت کا مکمل اتفاق ہے۔ مہر ایک ایسی حقیقت ہے جسے سب جانتے اور قبول کرتے ہیں۔ البتہ اس کی حکمت و مصلحت سے بعض لوگ ناواقف ہیں اس لیے اس کی وضاحت ضروری ہے۔
(1) مہر عورت کے لیے باعث ذلت نہیں بلکہ اس کے برعکس باعث عزت و شرف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں پر فرض کیا ہے کہ نکاح کے وقت عورتوں کو مہر ادا کریں ۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت ایک پسندیدہ چیز ہے جسے پانے کے لیے مرد کوشاں اور سرگرداں رہتا ہے اور اپنی اس پسندیدہ چیز کو حاصل کرنے کے لیے اپنی دولت اور پیسے خرچ کرتا ہے۔یہ تو عورت کے لیے بہت عزت کی بات ہے کہ وہ مرد کی مرغوب و پسندیدہ چیزہے۔ عورت کے لیے ذلت کی بات یہ ہے کہ وہ مرد کو حاصل کرنے کے لیے پیسے خرچ کرے۔بعض ملکوں مثلاً ہندوستان میں مرد نہیں بلکہ عورت اپنے شوہر کو حاصل کرنے کے لیے خرچ کرتی ہے جہیز کے نام پر مرد منہ مانگی قیمت وصول کرتا ہے۔ عورت مرد کو حاصل کرنے کے لیے پیسے خرچ کرے یہ چیز اس کے لیے باعث رسوائی و ذلت ہے۔
(2) مہر کی ادائی محض اظہار الفت و محبت کے لیے ہوتی ہے۔ یہ عورت کے جسم کی قیمت اور معاوضہ نہیں ہے۔ اس کی حیثیت تحفہ(Gift)کی ہے جو مرد اپنی خوشی سے اپنی جان عزیز کو عطا کرتا ہے۔ اس سلسلے میں اللہ فرماتا ہے وَاٰتُوا النِّسَاۗءَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحْلَۃٍ ۭ (النساء: 4) ”اور عورتوں کو ان کے مہر بہ طور عطیہ کرو۔“
اس آیت میں مہر کو عطیہ اور تحفہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
(3) مہر فرض کر کے ہمیں یہ احساس دلایا گیا ہے کہ شادی بیاہ کوئی کھیل نہیں بلکہ ایک سنجیدہ عمل ہے۔ انسان اپنے روزمرہ کے کاموں میں بہت ساری کارروائیوں کے لیے فیس ادا کرتا ہے تاکہ اسے ان کار روائیوں کی اہمیت کا احساس رہے۔ اسی طرح شادی بیاہ ایک اہم اور سنجیدہ کارروائی ہے جس میں فیس کی ادائی لازمی ہے تاکہ اس کی اہمیت کا پاس و لحاظ رہے۔
(4) چونکہ فیملی کی سطح پر اللہ تعالیٰ نے شوہر کو گھر کا نگہبان اور ذمہ دار مقرر کیا ہے اور بیوی پر اسے ایک درجہ فضیلت عطا کی ہے اس لیے مرد کے لیے ضروری قراردیا گیا کہ گھر کے نان و نفقہ کا ذمے دار بھی وہی ہو اور اپنی دولت کا ایک حصہ مہر کے طور پر اپنی بیوی کو عطا کرے کیوں کہ اس شادی کی وجہ سے بیوی پر اسے فضیلت عطا کی گئی ہے۔مہر کی ان حکمتوں اور مصلحتوں کے ساتھ ساتھ مہر سے متعلق چند باتوں کا ذہن نشین کرنا بھی ضروری ہے:
(1) مہر کی ادائی فرض ہے لیکن اسلام نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ مہر کی رقم میں مبالغہ آرائی سے پرہیز کیا جائے اور اسے کم سے کم رکھا جائے تاکہ مردوں کے لیے یہ چیز باعث مشقت نہ بن جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد أكثرهن بركة أقلهن صداقًا (عورتوں میں سب سے بابرکت وہ ہیں جن کا مہر سب سے کم ہے) سے یہی ثابت ہوتا ہے۔خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعض بیویوں کو محض چند درہم مہر ادا کیے۔ اپنی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی کے موقع پر جو قلیل مہر مقرر کیا تھا وہ محض ایک زرہ پر مشتمل تھا۔ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کی شادیوں کے موقع پر مہر مقرر کیا کہ وہ اپنی بیویوں کو قرآن کی تعلیم دیں
(2) مغرب زدہ لوگوں کی یہ سوچ غلط ہے کہ مہر عورت کے جسم اور جنسی لذت کا معاوضہ ہے۔ کیوں کہ شادی کے بعد صرف شوہر اپنی بیوی سے جنسی لذت نہیں اٹھاتا ہے بلکہ بیوی بھی اپنے شوہر کے جسم سے جنسی لذت اٹھاتی ہے۔ شادی کے بعد دونوں ہی ایک دوسرے سے جنسی لذت اٹھاتے ہیں لیکن مہر صرف مرد ادا کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مہر جنسی لذت کا معاوضہ نہیں ہے۔
(3) یہ سوچنا غلط ہے کہ شادی کا مقصد صرف جنسی لذت کا حصول ہے۔ جنسی لذت کا حصول شادی کے بہت سارے مقاصد میں سے ایک مقصد ہے۔ اس لیے مہر کو اس نظر سے دیکھنا کہ یہ چیز جنسی لذت کا معاوضہ ہے ایک غلط سوچ ہے شادی کا مقصد جہاں جنسی لذت کا حصول ہے وہیں اس کے دوسرے مقاصد بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْہَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ (الروم: 21)
”اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمھارے لیے تم ہی سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو۔ اور اس نے تمھارے درمیان محبت و رحمت کا جذبہ پیدا کیا۔ بلا شبہ اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غورو فکر کرتے ہیں۔“البتہ اسلام جنسی لذت کے حصول کو ایک گندا اور گھناؤ ناعمل نہیں قراردیتا ہے بلکہ اسلام کی نظر میں حلال طریقہ سے جنسی لذت حاصل کرنا بھی ایک کار ثواب ہے جیسا کہ بعض حدیثوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت کی ہے۔
جواب: میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ میں دور حاضر کے اس چلن سے بالکل متفق نہیں ہوں کہ پہلے محبت کی جائے پھر شادی کی جائے۔یہ وہ راستہ ہے جس کی ابتدا بھی نامناسب ہوتی ہےاور جس کا انجام بھی اکثر و بیشتر غیر اطمینان بخش ہوتا ہے۔مثلاًوہ محبت جو ٹیلی فون پر گفت و شنیدسے شروع ہوتی ہے یا وہ محبت جو جوانی کے جوش میں لڑکیوں کے پیچھے چکر لگانے سے شروع ہوتی ہے یہ ایسی محبت ہوتی ہےجس میں عقل اور سوجھ بوجھ کا عمل دخل نہیں ہوتا ہے۔محض جذباتیت ہوتی ہےاکثر تو یہ ہوتا ہے کہ ایسے لڑکے لڑکیوں میں محبت ہو جاتی ہے جن کے درمیان سماجی تفاوت ہوتا ہے یا خاندانی چپقلش ہوتی ہے یا کوئی ایسی بات ہوتی ہے جوان کی شادی کے درمیان دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہے۔چونکہ اس محبت کی ابتدا جذباتیت سے ہوتی ہے اس لیے یہ لڑکے اور لڑکیاں غلطیاں اور گناہ کر بیٹھتے ہیں اس لیے کہ بہر حال وہ انسان ہیں۔ فرشتے نہیں ہیں۔میری نظر میں شادی کا افضل اور مناسب ترین طریقہ یہ ہے کہ طرفین خوب سوچ سمجھ کر ایک دوسرے کےبارے میں مکمل واقفیت حاصل کر کے شادی کا فیصلہ کریں۔ شادی کا فیصلہ کرتے وقت اس بات کا اطمینان کر لیا جائے کہ فی الحال ایسی کوئی بات تو نہیں ہے جو آگے چل کر اس شادی کو ناکام یا شادی شدہ زندگی کو جہنم بنادے ۔ مثلاً طرفین کے درمیان کفو یعنی برابری نہ ہو یا کسی قسم کی قانونی رکاوٹ ہو وغیرہ -یہ بھی ضروری ہے کہ طرفین ایک دوسرے کو دیکھ لیں۔ ایسے موقعے پر مناسب یہ ہوگا کہ لڑکا اس طرح لڑکی کو دیکھے کہ لڑکی کو اس کی خبرنہ ہوتاکہ رشتہ طے نہ ہونے کی صورت میں لڑکی کے جذبات مجروح نہ ہوں اور مناسب یہ ہے کہ لڑکے والے یہ رشتہ لے کر لڑکی کے گھروالوں کے پاس جائیں اور نہایت اطمینان اور تمام پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے اس معاملے کو طے کریں۔اگر کوئی ایسی صورت حال ہوتی ہے جس کا تذکرہ سوال میں ہے طرفین کے درمیان خودبخود محبت ہو جاتی ہے اور یہ دونوں شادی کے لیے مناسب وقت کا انتظار کرتے ہیں اور انتظار کی اس مدت میں کوئی غلط قدم نہیں اٹھاتے ہیں تو ایسی صورت حال میں گھر والوں کو چاہیے کہ اس معاملہ کو سنجیدگی سے لیں اور دوپیار کرنے والوں کو محض چھوٹے چھوٹے اسباب کی بنا پر ایک دوسرے سے جدانہ کریں اور ان کی شادی کردیں۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لم يَر لِلَمُتَحَابِينَ مِثَل النَكاَح (ابن ماجہ)”دومحبت کرنے والوں کے لیے شادی سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔“
ذرا اس حدیث کے پس منظر پر غور کیجیے ۔ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے پاس ایک یتیم بچی ہے جس سے شادی کے خواہش منددو شخص ہیں ان میں سے ایک غریب ہے اور دوسراامیر،لیکن یہ یتیم بچی غریب شخص سے محبت کرتی ہے اور اسی سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ اس بات پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو پیار کرنے والوں کے لیے شادی سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔بہتر ہوگا کہ دوپیار کرنے والوں کے درمیان غریبی اور امیری کو نہ آنے دیا جائے اور ان کی مرضی کے مطابق ان کی شادی کر دی جائے یہ بات ذہن نشین رہے کہ اسلام ایک عملی (Practical)دین ہے کسی سے محبت ہو جانا ایک فطری بات ہے۔ اسلام کی نظر میں یہ کوئی گناہ نہیں ہے نہ اسلام اس فطری جذبہ کی روک تھام چاہتا ہے بلکہ اسلام اس بات پر ابھارتا ہے کہ اس فطری جذبہ کو شرعی اور قانونی حیثیت عطا کردی جائے۔ان دونوں کو گناہوں میں ملوث نہ ہونے دیا جائے بلکہ ان کی شادی کردی جائے۔ بہ شرطے کہ اس شادی میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ والدین جھوٹی شان کی وجہ سے یا حسب نسب کے چکر میں پڑ کر یا محبت کو غیر اسلامی عمل سمجھ کر دو محبت کرنے والوں کے درمیان دیوار بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں خود بھی مصیبت میں پڑتےہیں اور اپنے بچوں کی زندگیاں بھی تباہ کر ڈالتے ہیں۔ بعض بچے ذرا تیز قسم کے ہوتے ہیں تو وہ والدین سے بغاوت کر کے اپنی الگ دنیا بسا لیتے ہیں اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ جھوٹی شان اور حسب ونسب کو معیار بنانے کی بجائے دین اور بااخلاق ہونے کو معیار بنایا جائے۔ دین اور اخلاق کے معیار پر اترنےوالے رشتہ کو ٹھکرانا یقیناًبڑی بد قسمتی کی بات ہوگی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا أَتَاكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ خُلُقَهُ وَدِينَهُ فَزَوِّجُوهُ إِلاَّ تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ (ترمذی،ابن ماجہ)”جب تمھارے پاس ایسا رشتہ آئے جس کے اخلاق اور دین داری سے تم مطمئن ہو تو اسے شادی کے لیے منتخب کرلو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں زبردست فتنہ و فساد پھیل جائے گا۔ “
جواب: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جس قدر عزت و احترام عطا کیا ہے اور جتنا عدل وانصاف کیا ہے کسی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ اسلام نے عورت کو تمام حیثیتوں میں اس کے مکمل حقوق عطا کیے ہیں خواہ اس کے یہ حقوق ماں کی حیثیت سے ہوں بیوی کی حیثیت سے ہوں بہن کی حیثیت سے ہوں بیٹی کی حیثیت سے ہوں یا ایک انسان کی حیثیت سے ہوں- اسلام نے ان تمام جاہلی رسم ورواج کو یکلخت کالعدم قراردیا جن کی بنیاد پر عورتوں پر ظلم ہوتا تھا۔
قرآن مجید میں مرد و عورت کے تعلقات کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے نہایت بلیغ تعبیر استعمال کی ہے:
﴿هُنَّ لِباسٌ لَّكُم وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ (البقرۃ: 187)”وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرد عورت کو ایک دوسرے کے لیے لباس قراردیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے وہ سب کچھ ہیں جو لباس کی خصوصیات ہوتی ہیں مثلاً پردہ پوشی ذریعہ زینت و زیبائش سردی و گرمی سے حفاظت اور باعث عزت و وقار اللہ کے فرمان کے مطابق مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کے لیے لباس کاکام دینا چاہیے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مرد وعورت میں سے ہر ایک دوسرے کا فطری طور پر محتاج ہے۔ ان میں سے کوئی ایک دوسرے سے مستغنی اور بے نیاز نہیں ہو سکتا ۔یہی اللہ کا بنایا ہوا قانون فطرت ہے۔انسانوں کے لیے بھی اور تمام کائنات کی مخلوقات کے لیے بھی، اللہ کا ارشاد ہے:وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ (الذاريات : 49)”اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے پیدا کیے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔“
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کی تخلیق کی تو جنت میں انھیں اکیلا و تنہا نہیں چھوڑدیا بلکہ ان کے سکون وآرام کے لیے اور ان کی تنہائیوں کو دور کرنے کے لیے ایک عورت یعنی حضرت حوا علیہ السلام کو پیدا کیا۔ اس بات سے اسلام کا یہ موقف واضح ہو جاتا ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے ”فریق مخالف“ کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ دونوں مل جل کر ایک دوسرے کی شخصیت کی تکمیل کرتے ہیں۔ اسی مفہوم میں اللہ کا یہ فرمان ہے بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ (تم ایک دوسرے کا حصہ ہو) تم دونوں کے درمیان تعاون اور اتحاد کا جذبہ ہونا چاہیے نہ کہ نفرت دشمنی اور ایک دوسرے کی مخالفت کا۔اسلام کی ان بنیادی تعلیمات پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بیویوں کے ساتھ نارواسلوک کرنا‘ انھیں ڈانٹنا مارنا اور گالم گلوچ کرنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام تو ایسا مذہب ہے جو جانوروں کوبھی گالی دینے سے منع کرتا ہے کجا کہ انسانوں کو گالی دی جائے اور وہ بھی اپنی شریک حیات کو، حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے اپنی اونٹنی کو گالی دی اور اسے لعن طعن کیا۔ نبی نے اس عورت کو سخت تنبیہ کی اور اس غلطی کی پاداش میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ اس عورت کی اونٹنی لے لو اور اسے آزاد چھوڑدو تاکہ کوئی اسے استعمال نہ کرے۔ غور کریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جانور کو گالی دینے اور لعن طعن کرنے سے سخت منع فرمایا ہے تو اپنی شریک حیات کو لعن طعن کرنا گالی دینا اور اس سے بھی بڑھ کر اسے مارنا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ یہ باتیں سراسر قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ قرآن نے صرف ایک صورت میں عورت کو مارنے کی اجازت دی ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے بغاوت پر اتر آئے ۔ ایسی صورت میں بھی پہلی فرصت میں مارنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ پہلے بیوی کو نصیحت کی جائے۔ نصیحت سے نہ مانے تو حکم ہے کہ اس کا بستر الگ کردیا جائے اور اس پر بھی نہ مانے تو اسے مارنے اور اس پر سختی کرنے کی اجازت دی گئی ہے ارشاد ربانی ہے:وَالّٰتِي تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاہْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِــعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْہِنَّ سَبِيْلًا ۭ (النساء: 34)”وہ بیویاں جن کی بغاوت کا تمھیں اندیشہ ہو تو تم انھیں نصیحت کرو اور بستر سے انھیں الگ کردو اور انھیں مارو۔ پس اگر وہ مان جائیں تو پھر انھیں ستانے کا کوئی بہانہ نہ تلاش کرو۔“
اس آیت کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ اطاعت گزار اور فرماں بردار بیوی کو ستانے اور پریشان کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جائیں جو حضرات خواہ مخواہ اپنی نیک بیویوں پر گرجتے برستے رہتے ہیں اور انھیں تنگ کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر ہزار بار غور کریں۔
مذکورہ صورت حال میں مارنے کی اجازت کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولن یضرب خیارکم (شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتےہیں) شرفاء اپنی بیویوں کو مارنے کی بجائے پیار محبت اور نرمی سے سمجھاتے ہیں اور اس کی بہترین مثال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بارے میں فرماتے ہیں:خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي۔ (ترمذی)”تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہتر ہے اور میں اپنی بیویوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا علم رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی عورت بلکہ کسی بھی انسان یا جانور پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ با مرتبہ اور وسیع الظرف انسان کو زیب نہیں دیتا کہ ماتحت رہنے والوں کو مارے پیٹے اور ان کے ساتھ براسلوک کرے- کسی مرد کو یہ کیسے گوارا ہو سکتا ہے کہ رات میں اپنی بیوی سے جنسی لذت حاصل کرے اور دن میں اسے مار پیٹ اور گالم گلوچ کے ذریعے اذیت پہنچائے۔ یہ کام تو کوئی رذیل اور بد اخلاق شخص ہی کر سکتا ہے۔ جبھی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتے ہیں گویا اپنی بیوی کو مارنے والے لوگ رذیل ہوتے ہیں البتہ اگر کبھی انتہائی غصے کی حالت میں یا غلطی سے کسی مرد نے اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھادیا یا گالم گلوچ کیا تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کومنانے اور خوش کرنے کی کوشش کرے۔
یہ وہ اسلامی تعلیمات ہیں جن پر عمل کر کے گھر کے ماحول کو پرسکون اور خوشگوار بنایا جا سکتا ہے اور ان پر عمل نہ کیا جائے تو شوہر اور بیوی کے ساتھ ساتھ بچوں کا مستقبل بھی تباہ ہو جاتا ہے۔
جواب: اسی طرح کی غلط بیانی اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے بعض لوگ اسلامی شریعت کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں اسلامی شریعت پر اعتراض کرنے سے پہلے انھیں چاہیے تھا کہ اسلامی شریعت سے خاطر خواہ واقفیت حاصل کریں۔ اگر انھیں اس کی واقفیت نہیں ہے تو انہیں چاہیے کہ قرآن و سنت کا مطالعہ کریں تاکہ اسلامی شریعت کا صحیح صحیح علم ہو سکے۔ مصیبت یہ ہے کہ اس قسم کے لوگ قرآن و حدیث کا مطالعہ کم کرتے ہیں اور سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے یا کسی مسلمان کے غلط رویے کو دیکھ کر سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہی اسلامی شریعت ہے اور پھر اسلامی شریعت پرسیدھے اعتراضات کی بوچھاڑ شروع کر دیتے ہیں
اس اعتراض سے پہلے انھیں چاہیے تھا کہ شادی اور طلاق سے متعلق قرآن و حدیث کے احکام کا مطالعہ کر لیتے اور جان لیتے کہ اس سلسلے میں اسلام کا کیا موقف ہے۔
اسلام کی نظر میں شادی ایک مضبوط اور مستحکم بندھن ہے اور اس بندھن کی بنیاد باہمی الفت و محبت پر ہونی چاہیے تاکہ ایک دوسرے کے تعان سے پرسکون زندگی گزاریں۔یہ وہ مضبوط رشتہ ہے جو دو خاندانوں کی مستقل دوڑ بھاگ گفت و شنید شادی کی تقریبات مہر کی ادائی اور نہ جانے کن کن مرحلوں کے بعد وجود میں آتا ہے ظاہر ہے اس قدر مضبوط رشتے کو توڑ دینا کوئی قابل تعریف بات ہے اور نہ کوئی آسان بات کہ جب جی چاہا اسے ختم کر دیا نہ تو شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی بنیاد پر اس رشتہ کو ختم کردے اور نہ بیوی ہی کو اس کا حق دیا گیا ہے۔ یہ کہنا کہ اسلامی شریعت نے طلاق کے معاملے میں مردوں کو پوری آزادی عطا کر رکھی ہے کہ جب چاہے اور جیسے چاہے طلاق کا وار کردےبالکل غلط بات ہے -یہ بات وہی کہہ سکتا ہے جسے اسلامی شریعت کا علم نہیں ہے۔ اسلامی شریعت نے مرد کو طلاق کا حق ضرور دیا ہے لیکن اس کے استعمال کی پوری آزادی نہیں دی ۔اس حق کو استعمال کرنے سے پہلے چند شرائط کا پورا کرنا لازمی ہے۔ مثلاً:
(1) طلاق دینے سے پہلے اس رشتہ کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے ہر ممکن ذریعہ اختیار کیا جائے جب تمام تدبیریں ناکام ہو جائیں اور تمام راستے بند ہو جائیں تب طلاق کے بارے میں سوچا جائے۔
(2) اللہ تعالیٰ نے شوہر کو اس بات کی ترغیب دی ہے کہ ناپسندیدگی کے باوجود آدمی اپنی بیوی کو طلاق نہ دے بلکہ اس پر راضی بہ رضا رہنے کی کوشش کرے۔اللہ فرماتا ہے:فَاِنْ كَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَہُوْا شَـيْــــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللہُ فِيْہِ خَيْرًا كَثِيْرًا (النساء: 19)
”اگر تم انھیں ناپسند کرو توعین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں تمھارے لیے بہت بھلائی رکھ دے۔“
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ بیوی کی برائیوں پر نہیں اس کی اچھائیوں پر نظر رہے۔لا يَفْرَكْ مؤمن مؤمنة، إِن كَرِه منها خُلُقاً، رضي منها آخَرَ ”مومن مرد کو اپنی بیوی سے نفرت نہیں کرنی چاہیے اپنی بیوی کی کوئی بات ناگوارگزرتی ہوتواس کے اندر دوسری عادتیں ہیں جو اسے اچھی لگتی ہوں۔“
(3) طلاق دینے کے لیے طلاق کا مصمم ارادہ کرنا ضروری ہے۔ اسی لیے نہایت غصے کی حالت میں دی ہوئی طلاق یا کسی کے دباؤ میں آکر دی گئی طلاق ،طلاق شمار نہیں ہوگی ۔کیوں کہ ایسی حالت میں طلاق کا بامقصد ارادہ نہیں ہوتا ۔
(4) مصمم ارادے کے باوجود طلاق صرف اسی حالت میں جائز ہے جب عورت حیض کی حالت میں نہ بلکہ ایسی پاکی کی حالت میں ہو جس میں ان دونوں کے درمیان تعلقات قائم نہ ہوئے ہوں۔
(5) طلاق کی اجازت صرف شدید ضرورت کے وقت دی گئی ہے جسے ہم مجبوری کی حالت سے تعبیر کرتے ہیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ(اللہ کی نظر میں حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے) ایک دوسری جگہ فرمایا لاتُطَلِّقُوا النِّسَاءَ إِلا عَنْ رِيبَةٍ (بلا وجہ عورتوں کو طلاق نہ دو) اسی لیے اسلامی شریعت کی نظر میں بغیر کسی سبب کے دی ہوئی طلاق مکروہ اور حرام ہے۔ کیوں کہ بلاوجہ بسے بسائے گھر کو اجاڑدینا اتنا ہی بڑا گناہ ہے جیسے مال و دولت کو بلا وجہ برباد کرنا۔ان تمام شرطوں کو پورا کرنے کے بعد ہی اسلام نے مرد کو اجازت دی ہے کہ وہ طلاق دے سکتا ہے طلاق دینے کے بعد اسلام نے مرد کو اس کا پابند بنادیا ہے کہ اگر اس نے مہر کی رقم ادا نہیں کی ہے تو فوراً اس کی ادائی کرے۔ عدت کی مدت میں اپنی مطلقہ بیوی کا سارا خرچ برداشت کرےاور اگر بچے ہیں تو اس وقت تک ان کی مالی کفالت کرے جب تک وہ بڑے نہ ہو جائیں بعض علماء کرام مثلاً حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، امام زہری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک مرد پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ اپنی مطلقہ بیوی کو طلاق کے عوض کچھ مال و دولت عطا کرے کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ (البقرۃ: 241)
”اور اسی طرح جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو انھیں بھی مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔“
مومن مردوں پر واجب ہے کہ اپنی بیویوں کو کچھ مال و دولت عطا کریں۔ اور اس مال و دولت کی مقدار شوہر کی مالی حیثیت کے مطابق مقرر کی جائے گی۔ کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:عَلَي الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ ۚ (البقرۃ: 236)
”مال دار پر اس کی مال داری کے مطابق فرض ہے اور تنگ دست پر اس کی تنگ دستی کے مطابق۔“
اس تفصیل اور توضیح کے بعد یہ کہنا سرا سر غلط ہو گا کہ اسلام نے طلاق کے سلسلے میں عورتوں کے ساتھ ناانصافی کی ہے اور مردوں کو مکمل آزادی دی ہے کہ وہ جب اورجیسے چاہیں اس حق کا استعمال کر سکتے ہیں۔اسلام نے مردوں کو طلاق کی اجازت صرف ناگزیر حالات میں دی ہے۔اگر مردوں کو طلاق کے حق سے بالکل محروم کردیا جاتا تو یہ ان کے ساتھ انصافی ہوتی کیوں کہ شادی شدہ زندگی میں بسا اوقات ایسے لمحے آتے ہیں جب بیوی سے نباہ کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ اور زندگی عذاب بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو اس بات کا حق دیا ہے کہ اپنی زندگی کو تباہ برباد کرنے سے بچالیں اور خوب صورتی کے ساتھ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر لیں لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ اسلام نے یہ حق صرف مردوں کو عطا کیا اور عورتوں کو اس حق سے محروم کردیا ہو۔ ہر گزایسا نہیں ہے ذرا غور کریں کہ جس شریعت نے عورتوں کو اس بات کا مکمل حق دیا ہے کہ ان کی شادی ان کی مرضی کے بغیر نہ ہو وہ شریعت عورتوں کو اس بات پر کیسے مجبور کر سکتی ہے کہ وہ ایسے مرد کے ساتھ زندگی گزارتی چلی جائیں جسے وہ سخت ناپسند کرتی ہوں اور جس کے ساتھ نباہ نا ممکن ہو گیا ہو۔ بلا شبہ جس شریعت نے عورتوں کو اپنی مرضی کے مطابق شادی کرنے کا پورا حق دیا ہے اسی نے انھیں اس بات کا بھی پوراحق دیا ہے کہ اپنی غیر مطمئن شادی شدہ زندگی سے اپنی مرضی کے مطابق نکل سکیں۔ اس حق کو شریعت کی اصطلاح میں خلع کہتے ہیں البتہ جس طرح شریعت نے مردوں کو طلاق کا حق صرف ناگزیر حالات میں عطا کیا ہے اور مردوں کو حکم دیا ہے کہ طلاق دینے سے قبل خوب غور کر لیں جلد بازی میں فیصلہ نہ کریں اسی طرح عورتوں کو بھی صرف ناگزیر حالات میں خلع کی اجازت ہے اور انھیں بھی حکم ہے کہ خلع کے مطالبہ سے قبل اس پر خو ب غور کر لیں اور جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کریں۔ ابو داؤد کی روایت ہےأَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّة (ابو داؤد) ”جو عورت اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ بغیر کسی شدید حاجت کے کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔“
خلع کا طریقہ یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر سے خلع کا مطالبہ کرے اور مہر کی رقم واپس کرنے کے لیے تیار ہو۔اگر شوہر طلاق دینے پر رضا مندی نہ ظاہر کرے تو عورت اپنا معاملہ اپنے اور اپنے شوہر کے گھرولواں کے سامنے پیش کرے تاکہ وہ سب مل کر شوہر کو طلاق دینے پر راضی کریں اگر شوہر پھر بھی تیار نہ ہو تو عورت اپنا معاملہ عدالت میں پیش کرے تاکہ عدالت ان کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ کردے جسے قانون کی زبان میں ”فسخ“ کہتے ہیں۔
بخاری شریف کی حدیث ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائیں اور فرمایا کہ مجھے اپنے شوہر کےدین واخلاق سے کوئی شکایت نہیں ہے۔البتہ مجھے اپنا شوہر ہی ناپسندہے اور میں علیحدگی چاہتی ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا تم مہر میں لیاہوا باغ واپس لوٹانے کو راضی ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ بالکل راضی ہوں۔ انھوں نے باغ واپس کر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی۔
عورت کو اس سے زیادہ انصاف اور کیا چاہیے کہ مرد طلاق دیتا ہے تو اسے مہر کی رقم واپس نہیں ملتی ہے بلکہ مزید کچھ روپے پیسے عورت کو دیتا ہے۔ لیکن عورت جب خلع کا مطالبہ کرتی ہے تو اسے اپنی جیب سے کچھ نہیں دینا ہوتا ہے بلکہ مرد سے وصول کی ہوئی مہر کی رقم مرد کو واپس کرنی ہوتی ہے۔ وہ حضرات جو طلاق کے معاملے میں اسلامی شریعت پر اعتراض کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ اس مسئلے پر انصاف کے ساتھ غور کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک کو انصاف دلانے کے چکرمیں دوسرے کی حق تلفی ہو رہی ہو۔ عام طور پر یہ لوگ عورتوں کے لیے کچھ زیادہ ہی نرم گوشہ رکھتے ہیں اور عورتوں کو حق دلانے کے معاملے میں اتنے جوشیلے ہو جاتے ہیں کہ انھیں احساس بھی نہیں ہوتا ہے کہ اس طرح وہ مردوں کے ساتھ حق تلفی کر رہے ہیں- اسلام کا قانون ایسانہیں ہےکہ ایک کے ساتھ انصاف ہو اور دوسرے کے ساتھ ظلم، اگر انھیں اس بات پر اعتراض ہے کہ طلاق کے معاملے میں مردوں کو عورتوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں تو انھیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں پرکچھ زیادہ ذمے داریاں بھی رکھی گئی ہیں۔ مردوں پر نان و نفقہ کی ذمے داری ہے‘ مہر کی ذمے داری ہے‘بیوی بچوں کی کفالت کی ذمے داری ہےاور طلاق کی صورت میں مزید رقم ادا کرنے کی ذمے داری ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہوگا کہ مردوں پر ذمے داریاں تو زیادہ ہوں لیکن ختیارات کم ہوں۔اور عورتوں پر ذمے داریاں تو کم ہوں لیکن اختیارات زیادہ ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا قانون بالکل حق اور انصاف پر مبنی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ کھلے ذہن کے ساتھ اس معاملہ پر غور و خوض کیا جائے۔