کسی بات کو عقلی طور پر سمجھنے کے لئے انسان کے پاس سب سے بڑی چیز منطق (logic) ہے- منطق کے ذریعے کسی بات کو عقلی طور پر قابل فہم بنایا جاتا ہے- منطق کی دو بڑی قسمیں ہیں- ایک ہے، انتخابی منطق اور دوسری ہے مجبورانہ منطق ( compulsive logic)- منطق کے یہ دونوں طریقے یکساں طور پر قابل اعتماد ذریعے ہیں- دونوں میں سے جس ذریعے سے بھی بات ثابت ہو جائے، اس کو ثابت شدہ مانا جائے گا-
انتخابی منطق
انتخابی منطق وہ ہے جس میں آدمی کے لئے کئی میں سے ایک کے انتخاب کا موقع ہو- اس قسم کے معاملے میں ہمارے پاس ایسے ذریعےہوتے ہیں جن کو منطبق کر کے ہم ایسا کر سکتے ہیں کہ کئی میں سے صرف ایک کا انتخاب کریں اور بقیہ کو چھوڑ دیں-مثلاً سورج کی روشنی کو لیجئے- آنکھ سے دیکھنے میں سورج کی روشنی صرف ایک رنگ کی دکھائی دیتی ہے، لیکن پرزم (prism) سے دیکھنے میں سورج کی روشنی سات رنگوں میں بٹ جاتی ہے- اس طرح سورج کی روشنی کے رنگ کے بارے میں ہمارے پاس دو انتخاب ہو گئے- اب ہمارے لیے یہ ممکن ہو گیا کہ دونوں میں سے جس انتخاب میں منطقی وزن زیادہ ہو، ہم اس کو لیں- چنانچہ اس معاملے میں سات رنگوں کے نظریے کو مان لیا گیا- کیونکہ وہ زیادہ قوی ذریعے سے ثابت ہو رہا تھا-
مجبورانہ منطق
مجبورانہ منطق کا معاملہ اس سے مختلف ہے- مجبورانہ منطق میں آدمی کے پاس صرف ایک کا انتخاب ہوتا ہے- آدمی مجبورہوتا ہے کہ اس ایک انتخاب کو تسلیم کرے- کیونکہ اس میں ایک کے سوا کوئی اور انتخاب سرے سے ممکن ہی نہیںہوتا- مجبورانہ منطق کے معاملے میں صورت حال یہ ہوتی ہے کہ آدمی کو لازمی طور پر ماننا ہے اور ماننے کے لئے اس کے پاس ایک انتخاب کے سوا کوئی دوسرا انتخاب موجود نہیں-
مجبورانہ منطق کی ایک قریبی مثال ماں کی مثال ہے- ہر آدمی کسی خاتون کو اپنی ماں مانتا ہے- وہ مجبور ہے کہ ایک خاتون کو اپنی ماں تسلیم کرے- حالانکہ اس نے اپنے آپ کو اس خاتون کے بطن سے پیدا ہوتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا- اس کے باوجود وہ اپنی ماں کو یقین کے ساتھ مانتا ہے- یہ ماننا مجبورانہ منطق کے اصول کے تحت ہوتا ہے- ایسا وہ اس لیے کرتا ہے کہ اس معاملے میں اس کی پوزیشن یہ ہے کہ اس کو ایک خاتون کو ہر حال میں اپنی ماں ماننا ہے- اسی لئے وہ اپنی ماں کو یقین کے ساتھ اپنی ماں تسلیم کر لیتا ہے- کیونکہ اس کیس میں اس کے لیے کوئی دوسرا انتخاب موجود نہیں-
خدا کے وجود کو ماننے کا تعلق بھی اسی قسم کی مجبورانہ منطق سے ہے- خدا کے وجود کے پہلو سے اصل قابل غور بات یہ ہے کہ اس معاملے میں ہمارے لیے کوئی دوسرا انتخاب ہی نہیں- ہم مجبور ہیں کہ خدا کے وجود کو مانیں- کیونکہ اگر ہم خدا کے وجود کو نہ مانیں تو ہمیں کائنات کے وجود کی، اور خود اپنے وجود کی نفی کرنی پڑے گی- چونکہ ہم اپنی اور کائنات کے وجود کی نفی نہیں کر سکتے، اس لئے ہم خدا کے وجود کی بھی نفی نہیں کر سکتے-