قرآنیات
قرآن مجید میں’کتاب و حکمت‘ کا مطلب
رضوان اللہ
’کتاب و حکمت‘ کے الفاظ قرآن مجیدمیں کئی مقامات پرآئے ہیں؛ الگ الگ سے بھی اورایک ساتھ بھی۔جن آیتوں میں یہ الگ آئے ہیں وہاں ان کے معنی کی تعیین میں مسئلہ پیدا ہوا اورنہ ہی کوئی قابل ذکر اختلاف واقع ہوا ہے، مگرجہاں یہ ایک دوسرے پرعطف ہوکرآگئے ہیں وہاں کچھ علمی مسائل پیداہوگئے اور علماکے مابین اچھاخاصا اختلاف رائے بھی ہو گیا ہے۔ ان کے استعمال کی اس مخصوص صورت میں،اہل تفسیرنے ان کے کیامعانی بیان کیے ہیں،اورجو معانی بیان کیے ہیں وہ قرآن کی زبان،اس کے سیاق اوراس کے عرف سے کس حدتک موافق ہیں؛ اس تحریر میں ہمارے پیش نظرانھی سب چیزوں کامطالعہ کرناہے۔اوراس کے بعدیہ بھی دیکھنا ہے کہ اس معاملے میں وہ کون سی رائے ہے جواپنی علمی حیثیت میں اس قدر وقیع ہے کہ وہ دیگرآرا سے فائق ہوجاتی اور بجا طور پر تقاضا کرتی ہے کہ اسے ہی قرین صواب سمجھا جائے اوراسے ہی قبولیت کی سندعطا کی جائے۔
یہ الفاظ اگرچہ دس آیتوں میں ایک دوسرے پرعطف ہو کر آئے ہیں،مگر اس تحریری مطالعے کے لیے ہم صرف ایک آیت کا انتخاب کر رہے ہیں۔ صرف ایک آیت کا انتخاب کرنااوردس میں سے اسی ایک کوترجیح دینا،اس کی وجہ بھی محض یہ ہے کہ مذکورہ الفاظ اپنی اس صورت میں پہلی بار اسی میں استعمال کیے گئے ہیں، اورہرمفسرنے اسی کے تحت اپنی تحقیق بیان کردی ہے اور پھر اسی تحقیق کو باقی نو آیتوں میں بھی بغیرکسی تبدیلی کے برقرار رکھاہے۔وہ ایک آیت یہ ہے:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْْہِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ اِنَّکَ اَنْتَ العَزِیْزُ الحَکِیْمُ.(البقرۃ۱۲۹:۲)
’’اے ہمارے پروردگار،اورانھی میں سے تو ان کے اندر ایک رسول اٹھا جو تیری آیتیں انھیں سنائے اور انھیں کتاب اورحکمت کی تعلیم دے اورانھیں پاکیزہ بنائے۔اس میں شبہ نہیں کہ توبڑا زبردست ہے،بڑی حکمت والا ہے۔‘‘
کتب تفسیرکے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ زیربحث الفاظ کامدعابیان کرنے کے لیے جو آر ا بھی اب تک اختیار کی گئی ہیں وہ سب کی سب،اپنے تنوع کے باوجود، بنیادی طورپر دو طرح کی ہیں: ایک کے مطابق یہ الفاظ اکٹھے ہو کر آئیں یا پھرعلیحدہ سے استعمال ہوں،دونوں صورتوں میں اپنا لغوی مفہوم ہی بیان کرتے ہیں۔ دوسری کے مطابق جب یہ ایک دوسرے پرعطف ہوجائیں تو لغوی مفہوم سے ذراسااوپراُٹھ جاتے اوراپنے مصداقات اور اصطلاحی معانی کابیان کرنے لگتے ہیں۔اس فرق کالحاظ رہے تو اس مسئلے کی تمام آراکو صرف دوقسموں کے تحت پڑھا جاسکتاہے۔
قسم اول
اس سلسلے کی ایک رائے وہ ہے جوابن عباس اورابن جریج نے تفسیرکی کتابوں میں نقل کی ہے۔ اس کے مطابق آیت میں ’الکتاب‘ کالفظ اصل میں ’کتَب یکتُب‘ سے اسی طرح مصدر ہے،جس طرح کہ ’الکتابۃ‘ ہے،ا ور اسی کے مانند اس کامعنی بھی لکھنااور تحریرکرناہی ہے۔الفاظ کو لغوی انداز میں دیکھنے کایہی وہ طرزہے جس پربعض دوسرے علمانے ’الحکمۃ‘ کا معنی بھی بیان کیا ہے۔ ان کے مطابق ’الحکمۃ‘ سے مراد اصل میں وہ دانائی ہے جو صحیح فیصلہ کرنے یاکسی قول اور عمل میں صحیح رویہ اپنانے،یاابن زید کے الفاظ میں اچھائی کی رغبت اور برائی سے نفرت پیداکرنے کے لیے ازحد ضروری ہوتی ہے۔ان سب آرا کی روشنی میں مذکورہ آیت کاترجمہ کیاجائے تووہ یوں ہوتا ہے: ’’اے ہمارے پروردگار، اورانھی میں سے توان کے اندر ایک رسول اٹھا جو انھیں لکھنا بھی سکھائے اور انھیں دانائی کاعلم بھی دے‘‘۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کتاب کالفظ مصدری معنی میں بھی آجاتاہے اور اس وقت اس کامعنی لکھنااورتحریرکرناہی ہوتاہے ، اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ حکمت کااصل معنی دانائی اوردانش مندی ہی ہے؛مگرلغت کے ساتھ ساتھ آیت کا سیاق اورپھردین کی حقیقت اوراس کے مقاصد کوبھی اگر سامنے رکھاجائے تو یہاں ’الکتاب‘ سے کتابت اور ’الحکمۃ‘ سے دانائی مرادلینے میں کچھ موانع حائل ہوجاتے ہیں۔مثال کے طورپر:
پہلا: نبی اس لیے نہیں بھیجے جاتے کہ وہ لوگوں کی مادی ضرورتیں پوری کریں اور نہ ہی اس لیے کہ وہ کسی فلسفی اورحکیم کی طرح انھیں دانائی کے اسباق پڑھایاکریں کہ یہ سب دنیوی امور ہیں اوران کے لیے انسان کو ودیعت کی گئی عقل ودانش ہی کفایت کرتی ہے۔ انھیں تواس لیے بھیجا جاتاہے کہ وہ آکراِتمام ہدایت کریں اور اس ہدایت کو اس قدر واضح کردیں کہ خدا کے حضور کسی کے لیے بھی عذرکرنے کاکوئی موقع نہ رہ جائے۔ نبیوں کی بعثت کے یہ مقاصد اگر پیش نظر رہیں توپھرظاہر ہے ، اُس رائے کو مان لیناممکن نہیں رہتاجس کے مطابق ان عظیم ہستیوں کوشاید اس لیے بھیجا جاتا ہے کہ وہ آئیں اوراپنی قوم کو خواندہ بنائیں، اورآخرکاراُن میں لکھاری اور دانش ور قسم کی مخلوق پیدا کر ڈالیں۔
دوسر ا: یہ کہ مذکورہ آیت اصل میں حضرت ابراہیم اوران کے فرزندحضرت اسماعیل علیہما السلام کی دعا کا ایک جز ہے جوانھوں نے اس وقت مانگی تھی جب پروردگارعالم کی رضاجوئی کے لیے وہ اپنا گھر بار اور وطن چھوڑ آئے تھے اور اپنی ذریت میں سے ایک حصے کوعرب کے صحرامیں بسارہے تھے نیزیہ بھی واقعہ ہے کہ وہ اس جگہ خدائے واحد کی عبادت اور اس کی ہدایت کے فروغ کے لیے ایک مسجد بھی بنارہے تھے۔ان عظیم مقاصد اوراحوال کی اگر رعایت رہے توان حضرات کااپنی دعامیں اس رسول کو طلب کرناتوسمجھ میں آتاہے جوآکرانھی کے اہداف کوپوراکرے،مگراس شخص کی طلب کرنا کسی بھی صورت سمجھ میں نہیں آتا جو مذکورہ اہداف کے بجائے اپنی قوم کی خواندگی کا لائحہ عمل لے کر آئے اورجس کا آناعبادت گاہ کے بجائے کسی اکیڈمی یا پھر کسی اسکول سے زیادہ مناسبت رکھتاہو۔
تیسرا: یہ کہ ہمیں علم ہے کہ ان بزرگوں کی دعا قبول ہوئی اورقرآن مجید نے بھی اس قبولیت کی خبر یہ کہہ کر دی کہ وہ رسول آچکا ہے اورانھی اوصاف کے ساتھ آچکا ہے جن کی خواہش انھوں نے اپنے رب سے کی تھی۔ اب قرآن مجید کی اس خبر کواگر مانا جائے،اورماننا بھی چاہیے، توپھراس رائے کومان لینا ممکن نہیں رہتا، جس کے مطابق یہ دعا،کم سے کم، خواندگی کے معاملے میں قبول نہیں ہوئی۔ اس لیے کہ وہ رسول اُمّی تھے۔ خودلکھناپڑھناجانتے تھے اور نہ زندگی بھرکسی ایک فردکو انھوں نے یہ سب کچھ سکھایا ۔
قسم دوم
بعض علما کے نزدیک ’الکتاب‘ کا لفظ یہاں تحریرکرنے کے معنی میں نہیں،بلکہ اپنے اصطلاحی اطلاق،یعنی قرآن مجید کو بیان کرنے کے لیے آیاہے۔اسی طرح ’الحکمۃ‘ کا لفظ محض صحیح فیصلے کے لیے نہیں،بلکہ حق وباطل میں صحیح فیصلے کے لیے اورکسی بھی قول وعمل میں صحیح رویے کے لیے نہیں، بلکہ دینی قول وعمل میں صحیح رویے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ ان لفظوں کی تفسیرمیں یہی اقوال ہیں جو اپنی کامل صورت میں جب ایک رائے میں متعین ہوگئے تووہ رائے ایسی مشہور اورمقبول ہوئی کہ زمانہ حال اورسابق کے تمام علمانے اسے اختیارکرلیا،یہاں تک کہ اسے دنیائے تفسیرمیں حرف آخر اوراس کے مقابل میں ہردوسری راے کوجادہ مستقیم سے ہٹی ہوئی تصورکرلیا گیا۔ یہ رائے حدیث اور فقہ کے جیدعالم،امام شافعی کی رائے ہے اوران کی کتاب ’’الرّسالۃ‘‘ اور ’’احکام القرآن‘‘ میں تفصیل سے دیکھی جا سکتی ہے۔
امام شافعی کی رائے
ان کے نزدیک مذکورہ آیت میں ’الکتاب‘ سے مراد توقرآن مجیدہی ہے،جیساکہ اہل تفسیر کا عمومی موقف ہے، مگر ’الحکمۃ‘ کالفظ اپنے کامل مصداق، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے لیے آیا ہے۔اس دعوے کی دلیل میں جوکچھ ان کی اوران کے اصحاب کی طرف سے کہاگیاہے وہ یہ ہے کہ ’الکتاب‘ کے بعد ’الحکمۃ‘ کابیان چونکہ وا ؤعطف کے ساتھ ہواہے جوکہ مغایرت پر دلالت کرتاہے، اس لیے اس سے مراد کتاب نہیں،بلکہ کوئی دوسری چیز ہے۔ اور وہ دوسری چیز سنت کے سواکچھ اورنہیں ہو سکتی،اس لیے کہ دین میں خداکے ساتھ اگر کسی کی اطاعت کا حکم ہے تو وہ اس کے رسول ہی کی اطاعت کاحکم ہے۔اس رائے کے مطابق آیت کاترجمہ یوں ہوتاہے: اے ہمارے پروردگار، اور انھی میں سے تو ان کے اندر ایک رسول اٹھاجو تیری آیتیں انھیں سنائے اور انھیں قرآن اور سنت کی تعلیم دے۔
یہ رائے اس لحاظ سے توصحیح ہے کہ وہ تمام اعتراضات جوسابقہ رائے پر وارد ہوئے تھے وہ سب کے سب اس پروارد نہیں ہوتے۔مثلاً،اس پریہ نہیں کہاجاسکتاکہ یہ دین کی حقیقت اوراس کے مقاصد سے ناواقفیت پرمبنی رائے ہے،اس لیے کہ قرآن وسنت انسان کی دنیوی نہیں،بلکہ دینی ضرورت ہی ہیں۔اس پریہ کہنابھی ممکن نہیں ہے کہ دعائے سیدنا ابراہیم و سیدنا اسماعیل اور اس رائے کے مصداقات میں کوئی بُعد ہے اس لیے کہ ان سب میں ایک واضح مناسبت، بہرحال،پائی جاتی ہے۔ مزیدیہ کہ ’الکتاب‘ سے قرآن مرادلے لیا جائے تو ایساکرلینے میں بھی، کم سے کم، لفظ کی حد تک کوئی مسئلہ نہیں ہے۔مگر اس سب کے باوجود، کچھ سوالات پھربھی ایسے ہیں جواس رائے پر بھی سر اٹھا لیتے اور ان کا جواب نہ ملے تو طبیعت میں خلجان پیدا کیے رکھتے ہیں۔ مثال کے طورپر:
اس رائے میں ’الحکمۃ‘ کو سنت سے تعبیرکر لینے کی تقریب محض اس وجہ سے پیداہوئی کہ پہلے یہ سمجھ لیاگیا کہ ’الکتاب‘ سے مراد قرآن ہی ہے اوریہ بات گویاایک طے شدہ حقیقت اور ناقابل انکار سچائی ہے۔حالانکہ ’الحکمۃ‘ سے مراد سنت ہے یاکچھ اور،یہ توبعدکی بات ہے،سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں ’الکتاب‘ سے کیاقرآن ہی مراد ہے، اورخود اس دعوے کی دلیل کیاہے؟ہم جانتے ہیں کہ اسی قرآن میںیہ لفظ ایک سے زیادہ معانی کے لیے آیاہے اوران مختلف معانی کے ہوتے ہوئے یہ جائزہی نہیں ہے کہ بناکسی دلیل اورقرینے کے ان میں سے ایک کوترجیح دے کرپھراسے ہی لفظ کاحتمی مصداق قرار دے لیا جائے۔ یہاں تک کہ اسی کی روشنی میں بعد والے لفظ کا مصداق بھی متعین کیا جائے۔ تاہم، ہوسکتاہے اس کے جواب میں کوئی یہ کہہ دے کہ ’الکتاب‘ سے متصل پہلے تلاوت آیات کا ذکر ہوجانا، اس بات کاواضح قرینہ ہے کہ یہ لفظ لازمی طورپر یہاں قرآن ہی کے معنی میں ہے۔ اس پر پھریہ سوال ہوگا کہ جن مقامات پران کی یہ ترتیب بدل گئی اور دونوں کے درمیان فصل آ گیا ہے، وہاں بھی اس سے قرآن مراد لے لینے کاآخر کیا قرینہ ہے؟ اوریہ بھی کہ ان جگہوں پر جہاں سرے سے آیات کا ذکر ہی نہیں،وہاں کون ساایساقرینہ ہے جس کی بنیادپر ’الکتاب‘ کو پھربھی قرآن کا عین متبادل سمجھ لیاجاسکتا ہے۔
دوسراسوال یہ ہے کہ اس بات میں توکوئی بحث نہیں کہ واؤ یہاں مغایرت کے لیے ہے،اس لیے لازم ہے کہ ’الحکمۃ‘ کو ’الکتاب‘ سے الگ چیزسمجھاجائے،مگروہ الگ چیز کیا سنت ہی ہے؟ اس دعوے کی مذکورہ رائے میں کیادلیل ہے؟اوراس سلسلے میں ان کی طرف سے یہ کہہ دینے کی بھی کیاحیثیت ہے کہ اللہ کے ساتھ چونکہ اس کے رسول کی اطاعت بھی لازم کی گئی ہے، اس لیے الحکمۃ یہاں سنّت ہی کے مفہوم میں ہے؟اس لیے کہ رسول اللہ کی سنت کاواجب الاطاعت ہونا اور اس آیت میں ’الحکمۃ‘ سے مراد سنت ہونا، دونوں باتیں ہرگزایسی نہیں ہیں کہ ایک سے دوسرے پردلیل لائی جاسکے۔
تیسراسوال یہ ہے کہ سنت سے مراداگرعملی ہدایات ہیں تب بھی اوراگراس سے مراد قرآن مجیدکی تفہیم وتبیین ہے تب بھی، اس کے اور ’الحکمۃ‘ کے درمیان کون سامعنوی اشتراک ہے کہ جس کی بنیادپرانھیں ایک دوسرے کا مصداق قراردیاجاسکے؟اس لیے کہ لفظ اوراس کے مصداق میں کچھ نہ کچھ اشتراک ضرورہواکرتاہے،جیسے قرآن اور ’الکتاب‘ کے لفظ میں وہ مشترک عنصر بالکل نمایاں ہے کہ جس کی بنیادپرایک کودوسرے کی مراد قرار دے لینا پھربھی رواہوسکتاہے۔بلکہ ’الحکمۃ‘ اور سنت کا معاملہ تویہ ہے کہ یہاں کسی اشتراک کاپایا جانا توکجا، ’الحکمۃ‘ کالغوی مفہوم ہی اس بات سے اِباکرتاہے کہ اس کورائج شدہ عمل یاکسی شرح ووضاحت کا مصداق سمجھ لیاجا سکے۔اوراگرکہیں سنت سے عملی ہدایات اورتفہیم وتبیین کے بجائے ہرنوع کی احادیث مرادلے لی جائیں توصورت حال مزید غیرمعقول ہوجاتی ہے۔اس لیے کہ ان احادیث میں صرف حکمت ہی نہیں، رسول اللہ کا اسوہ حسنہ،تاریخ عرب، اخبار غیب اور احوال آخرت سمیت بہت سی دوسری چیزیں بھی پائی جاتی ہیں؛ اوران سب کو حکمت کے جزئی نام سے موسوم کردینا، کسی طرح بھی موزوں نہیں ہے۔ البتہ، یہاں ممکن ہے کہ کوئی یہ کہہ دے کہ جس طرح نمازکے اجزا مثلاً، سجدہ اور رکوع بول کر بعض اوقات ہم پوری نماز مراد لے لیتے ہیں،اسی طرح سنت کاایک جز چونکہ حکمت بھی ہے، اس لیے اس ایک جز کو بول کر ہم پوری سنت بھی مراد لے سکتے ہیں اس پرپھریہ سوال اٹھے گاکہ حکمت کے یہ مضامین صرف سنت کے ساتھ تومخصوص نہیں،یہ توقرآن میں بھی پائے جاتے، بلکہ احادیث کی نسبت زیادہ پائے جاتے
ہیں توپھرکیاوجہ ہوئی کہ مذکورہ آیت میں قرآن کے لیے ’الکتاب‘ کا علیحدہ لفظ لایا گیا؟ اور کیوں نہ اسے بھی ’الحکمۃ‘ کے تحت ہی بیان کردیا گیا؟
اس رائے پرچوتھا سوال یہ پیداہوتاہے کہ البقرہ کی زیربحث آیت میں تونہیں،مگرایک اورجگہ ’الحکمۃ‘ کے ساتھ جو ’انزل‘ کافعل آگیا ہے تو اس کے ہوتے ہوئے کیایہ ممکن بھی ہے کہ اس سے سنت یاپھراس کے ایک ماخذ، یعنی حدیث کومرادلیا جاسکے؟ اس لیے کہ ’انزل‘ کا فعل حدیث اور سنت کے لیے کسی طرح بھی موزوں نہیں ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ان کے لیے قرآن نے بھی اس فعل کواستعمال نہیں کیاہے۔ تاہم اس پربھی یہ کہاجا سکتاہے کہ ’انزل‘ کا فعل چاہے حدیث وسنت کے لیے موزوں نہیں، مگر اسے ان کے ساتھ بالکل اسی طرح لایا گیا ہے جس طرح قرآن ہی میں لوہے اور اَنعام کے ساتھ اسے لایا گیاہے،اوراس سے مقصود حدیث وسنت کے ماخذ کا پتادینا اور ان کے ذریعے سے ہم پرہونے والی عنایت خاص کو بیان کرنا ہے۔ اس دلیل کواحتمال کے درجے میں سہی،بہرحال مان لیا جاسکتاتھا،مگرایک جگہ ’الحکمۃ‘ کے ساتھ جب ’یتلی‘ کا فعل آگیاتو اس کابھی کوئی موقع نہ رہا۔ وہاں جب یہ فرما دیا گیاکہ اے نبی کی بیویو،اللہ کی ان آیات اوراس حکمت کا ذکرکرو جو تمھارے گھروں میں تلاوت کی جاتی ہیں تو اس کے بعدیہ بالکل واضح ہو گیا کہ ’الحکمۃ‘ جوکچھ بھی ہو، مگرحدیث و سنت نہیں ہے۔اس لیے کہ حدیث و سنت ایسی شے نہیں کہ جس کی تلاوت کی جاتی ہواورنہ ہی کسی تاریخی شہادت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ کے گھرانے میں اس کی تلاوت کی جایاکرتی تھی۔
حمید الدین فراہی کی راے
اس مسئلے میں ایک رائے وہ ہے جسے مولانا حمیدالدین فراہی نے بیان کیاہے۔ ان کے شاگرد، مولانا امین احسن اصلاحی بھی ’’تدبرقرآن‘‘ میں اسے ہی بیان کرتے اورخودمولاناکے تلمیذ، جناب جاوید احمد غامدی بھی ’’البیان‘‘ میں اسے ہی اختیار کرتے ہیں۔اس رائے کے مطابق کتاب و حکمت کے الفاظ قرآن مجید میں جب ایک دوسرے کے ساتھ مل کراستعمال ہو ں تو اول الذکر سے کتابت یا پھر قرآن مجید نہیں، بلکہ قانون اورشریعت کے احکام مراد ہوتے ہیں اورثانی الذکر سے دانائی اور سمجھ داری یاپھر حدیث اور سنت نہیں،بلکہ ایمان اوراخلاق مرادہوتے ہیں۔
زیربحث الفاظ کی تحقیق میں جوآرابھی اب تک بیان ہوئی ہیں،ہمارے نزدیک مذکورہ رائے ان سب میں سے درست اورمبنی بر حق ،اوراس میں بیان کردہ مصداقات ان الفاظ کی صحیح ترین تعبیر ہیں۔یہی وہ رائے ہے جواپنے اندر واضح ترعلمی وفکری بنیادیں رکھتی، اس میں دین کی حقیقت سے گہری واقفیت پائی جاتی اورسب سے بڑھ کریہ کہ اس میں قرآن مجیدکی تصریحات سے اعراض یا پھر انحراف نہیں،بلکہ ان کے ساتھ صدفی صدمطابقت پائی جاتی ہے۔ تاہم اس پر دو بڑے اہم سوال ہیں جن کاجواب اگردے دیا جائے تب ہی علمی دنیا میں اس کا صائب اور معقول ہونا تسلیم کیا جاسکتاہے:پہلا یہ کہ اس رائے میں بیان کردہ کتاب وحکمت کے مطالب کی قرآن مجیدمیں بنیاد کیا ہے؟ دوسرایہ کہ جب یہ ایک دوسرے پرعطف ہو کر آئیں تو اس بات کی کیا دلیل ہے کہ ان کے معانی وہی ہو ں گے جواس رائے میں مذکورہوئے ہیں؟ان دونوں سوالوں کے جواب جو امام فراہی کی کتاب، ’’مفردات القرآن‘‘ میں بیان ہوئے اور انھی کی توضیح میں کچھ مزید اضافوں کے ساتھ بیان ہوسکتے ہیں،وہ کچھ یوں ہیں:
کتاب کا معنی
کتاب کالفظ قرآن مجیدمیں کئی معنوں میں استعمال ہواہے۔مثال کے طورپرآیت قرآنی ’لولا کتاب من اللّٰہ سبق لمسکم فیما اخذتم عذاب عظیم‘ میں یہ قضااورفیصلے کے لیے اور ’یایّھا الملؤا انّی القی الی کتاب کریم‘ میں یہ مکتوب،یعنی خط کے لیے استعمال ہوا ہے۔ ’ولا اصغر من ذٰلک ولا اکبر الا فی کتاب مبین‘۔ میں یہ کتاب کے لیے آیاہے تو ’الم، ذٰلک الکتاب‘ میں یہ صرف کتاب کے لیے نہیں، بلکہ خداکی کتاب کے لیے آیا ہے۔ اسی طرح آیت ’قال الذی عندہ علم من الکتاب‘ میںیہ محض قانون کے معنی میں استعمال ہواہے، مگر ’ولا تعزموا عقدۃ النکاح حتی یبلغ الکتاب اجلہ‘ میں یہ خاص قانون شرعی کے لیے استعمال ہواہے؛ اور اس لفظ کایہ وہی معنی ہے جس کامذکورہ رائے میں دعوی کیا گیا ہے، بلکہ اس مخصوص معنی کے لیے وہ آیت توبالکل ہی واضح ہے جس میں مردار، خون، سور کے گوشت اور غیر اللہ کے ذبیحے کے بارے میں قانون شرعی بیان کرنے کے بعد اس لفظ کویوں لایا گیا ہے: ’ان الذین یکتمون ما انزل اللّٰہ من الکتاب‘۔ غرض یہ کہ ان تمام حوالوں سے یہ بات آخری درجے میں ثابت ہو جاتی ہے کہ جس طرح ’الکتاب‘ سے کئی دوسرے مفاہیم مرادلیے جاتے ہیں، اسی طرح قانون اورپھراسی کاایک مصداق، یعنی شریعت کاقانون بھی اس سے مراد لیا جاتا ہے۔
حکمت کا معنی
یہ لفظ بھی قرآن مجیدمیں کئی مطالب کے لیے استعمال ہواہے۔مثال کے طورپرآیت قرآنی ’وشددنا ملکہ واتینہ الحکمۃ‘ میں اس کامطلب قوت فیصلہ ہے۔ ’ادع الٰی سبیل ربک بالحکمۃ‘ میں اس سے مراد دلیل وبرہان ہے۔ ’ومن یوت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا‘ میں اس کامعنی دانائی اورسمجھ داری ہے۔ اور ’ولقد اٰتینا لقمٰن الحکمۃ ان اشکر للّٰہ‘ میں یہ اس دانائی کے لیے آیاہے جوانسان کے اچھے خلق کا باعث ہواکرتی ہے۔اب جہاں تک اس لفظ کے ان معنوں کا ذکرہے جو مذکورہ رائے میں بیان ہوئے ہیں،یعنی ایمان اور اخلاق توقرآن مجید کی روشنی میں ان کی تعیین اس طرح ہوتی ہے:
جس طرح قرآن میں ’الکتاب‘ کامعنی واضح ہواہے،یعنی پہلے شریعت کے قانون کابیان ہوا اورپھراس کے لیے لفظ کتاب کااستعمال ہوگیا، اسی طرح سورہ بنی اسرائیل میں انسانی اخلاق کے فضائل ا وراس کے ر ذائل تفصیل سے بتادینے کے بعدجب یہ کہہ دیا گیا: ’ذٰلک مما اوحٰٓی الیک ربک من الحکمۃ‘ تویہاں بھی آپ سے آپ واضح ہو گیا کہ ’الحکمۃ‘ کاایک مطلب اخلاق بھی ہے۔
’الحکمۃ‘ کے دوسرے معنی،یعنی ایمان کی بھی قرآن مجیدنے ایک جگہ وضاحت کردی ہے، اور اس کے لیے تصریف آیات کاوہ عمل کیاہے جس میں ایک لفظ کوایک جگہ بیان کیاجاتااوردوسری جگہ اس کامتبادل رکھ کراس کامعنی و مفہوم کھول دیاجاتا ہے ۔ مثلاً، آیت ’تظاھرو ن علیھم بالاثم والعدوان‘ میں ’اثم‘ اور ’عدوان‘ کے ا لفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ان دونوں کے مفہوم کواس طرح کھولاہے کہ ایک جگہ ’اثم‘ کے بجاے ’ظلم‘ کالفظ اورایک جگہ ’عدوان‘ کے بجاے ’البغی‘ کا لفظ رکھ دیاہے، اوراس طرح یہ واضح کردیاہے کہ اول الذکرسے مراد حق تلفی اور دوسروں کا حق دبا لینا ہے اور ثانی الذکرسے مراد دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرناہے۔سو تصریف آیات کے اسی طرزپر،قرآن مجیدنے آیت ’ماکنت تدری ما الکتاب ولا الایمان‘ میں ’الحکمۃ‘ کالفظ حذف کیا اور اس کی جگہ ’الایمان‘ کالفظ استعمال کردیا ، اوراس طرح نہایت واضح انداز میں ہمیں بتا دیا کہ ’الحکمۃ‘ کاایک معنی ایمان بھی ہے۔
کتاب و حکمت کا معنی
یہ بات ثابت ہوجانے کے بعدکہ کتاب قانون کے لیے اورحکمت ایمان واخلاق کے لیے بھی استعمال ہو تے ہیں اوران کایہ استعمال خود قرآن میں بھی ہواہے،اب دوسرے سوال کو لیتے ہیں۔یعنی قرآن میں جب یہ ایک دوسرے پرعطف ہوکرآئیں توکیااس وقت بھی ان سے یہی مفاہیم مرادہوتے ہیں؟ اس سوال کاجواب اس طرح دیاجاسکتاہے:
زبان کایہ عمومی عمل ہے کہ لفظ جس طرح سیاق کے بدل جانے سے تعمیم اورکبھی تخصیص میں چلا جاتاہے،اسی طرح یہ کسی خاص لفظ کے ساتھ آجائے توبھی اپنے اندراس قسم کی تبدیلیاں پیدا کرتا چلاجاتا ہے۔اس عمل کوسمجھنے کے لیے بھی لفظ ’اثم‘ اور ’عدوان‘ کی مثال کفایت کرتی ہے۔ ’اثم‘ جو مطلق گناہ کے لیے اور ’عدوان‘ جومحض اقدام کے لیے بھی آجاتا ہے، ہم جانتے ہیں کہ جب یہ ایک دوسرے کے مقابل میں استعمال ہوں تودیگرسب معانی سے مجردہوجاتے اور بالترتیب، حقوق کی تلفی اور ان پر تعدی کے ساتھ خاص ہوجاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح کتاب و حکمت کے الفاظ جن آیتوں میں ایک دوسرے کے ساتھ آئے ہیں،وہاں تقابل کے اسی اصول پریہ اپنے دوسرے معانی سے مجرد اور کچھ معنوں میں خاص ہوجاتے ہیں۔
وہ خاص معانی کیاہیں؟انھیں معلوم کرنے کااصل طریقہ تویہ ہے کہ تمام آیات کاتتبع کرلیا جائے اورجومعانی ہر جگہ ٹھیک بیٹھتے، منشائے متکلم کوواضح کرتے اورکلام کے مدعاکاصحیح ترین ابلاغ کرتے ہوں، انھیں اختیار کر لیا جائے۔ لیکن اس کاایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس سلسلے میں اگرکوئی وضاحت موجودہوتواس کودیکھ لیاجائے۔اس لیے کہ قرآن مجید میں اس طرح کی وضاحتیں ، بالعموم،کی بھی جاتی ہیں؛ اوراس وضاحتی عمل کو تفصیل بعد از اجمال اورایک دوسری اصطلاح میں توضیح بعدازابہام کا نام دیا جاتا ہے۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ بعض اوقات کسی شے کو ابہام یاپھراجمال میں ذکر کرنے کے بعد پھر اس کی توضیح اورتفصیل کردی جاتی ہے،اوریہ عمل کسی دوسری سورہ یا پھراسی سورہ کی کسی دوسری آیت اوربعض مرتبہ اسی خاص آیت میں بھی ہو سکتا ہے۔ مسئلہ زیربحث میںیہ عمل یوں ہوا ہے کہ آیت ’ویعلمہ الکتاب والحکمۃ والتوراۃ والا نجیل‘۔ میں کتاب وحکمت کے بعدواؤبیانیہ لایاگیااورپھر یہ وضاحت کردی گئی کہ یہ دونوں اپنی حقیقت میں تورات وانجیل ہی ہیں۔اب تورات چونکہ سراسر قانون اورانجیل محض ایمان واخلاق کے مباحث پر مشتمل ایک کتاب ہے، اس لیے یہ بات بھی آپ سے آپ واضح ہوگئی کہ کتاب و حکمت سے مراد بھی اصل میں قانون اورایمان و اخلاق ہی ہیں۔ نیز اسی وضاحت کی بنیادپرہراس مقام کی بھی جس میں کتاب و حکمت کااکٹھے ذکرہواتھا ، وضاحت ہوگئی کہ وہاں بھی ان سے مراد، بہرحال، قانون اور ایمان واخلاق ہی ہیں
ہوسکتاہے اس مقام پرکوئی یہ سوال کرے کہ کتاب وحکمت میں سے کس سے مراد قانون ہے اور کس سے مراد ایمان واخلاق ہے،اس بات کی یہاں کوئی دلیل نہیں،اس لیے یہ کیوں روا نہیں کہ ہم مذکورہ رائے کے برعکس، کتاب سے ایمان واخلاق اورحکمت سے قانون مراد لے لیں؟ یہ جان لینے کے بعدکہ مذکورہ الفاظ جب الگ سے استعمال ہوں توکتاب سے مراد قانون ہوتا اور حکمت سے مراد ایمان واخلاق ہوتے ہیں، مزید وضاحت کی ضرورت تو نہیں رہتی،مگر پھر بھی اس کاجواب ایک اورطریقے سے بھی دیاجاسکتاہے۔وہ اس طرح کہ کسی بھی اچھے کلام میں بعض اوقات متعدد چیزوں کو بیان کرنے کے بعدان کے متعلقہ امورکو انھی کی ترتیب میں اورکبھی اس سے اُلٹ ترتیب میں بیان کیاجاتاہے۔یہ عمل ترتیب وارہوتو بلاغت کی اصطلاح میں لف ونشر مرتب کہلاتا اوراگر اس کے برعکس ہوتو لف ونشر غیرمرتب کہلاتا ہے۔ اوران دونوں میں سے متکلم نے کس عمل کواختیارکیاہے، اس میں فیصلہ کن شے بیان کردہ امورکے بارے میں قاری اور سامع کا ذاتی علم ہوتا ہے۔ مثال کے طورپر’’یہ اسی کی رحمت ہے کہ اس نے تمھارے لیے رات اور دن بنائے تاکہ تم اس میں سکون وآرام کرواور اس میں اس کافضل تلاش کرو۔‘‘ اس آیت میں ظاہرہے،متکلم کویہ بتانے کی کوئی حاجت نہیں کہ آرام کرنے اورروزی تلاش کرنے کے افعال دن اور رات میں سے کس کس سے متعلق ہیں۔اس لیے کہ ہر پڑھنے اورسننے والااپنے علم کی بنیادپر بخوبی جان لے سکتاہے کہ رات سکون وآرام سے اوردن روزی روٹی کی تلاش سے متعلق ہے بالکل اسی طرح مذکورہ بالاآیت میں بھی جب کتاب وحکمت کے بعدتورات اور انجیل کے الفاظ آجاتے ہیں توقرآن کاہروہ طالب علم جوسابقہ الہامی کتب کا بھی کچھ نہ کچھ علم رکھتاہو، نہایت آسانی سے جان لیتا ہے کہ یہاں لف و نشر مرتب ہوا ہے اور تورات کتاب کااورانجیل حکمت ہی کا بیان ہے؛ اور نتیجتاًکتاب وحکمت سے مراد بالترتیب،قانون اورایمان واخلاق ہی ہے
مذکورہ رائے کے مبنی بردلائل ثابت ہوجانے کے بعدضمنی طورپرایک اوربات بھی اس کی تائید میں کہی جا سکتی ہے۔ وہ یہ کہ علمی لحاظ سے یہ انتہائی وقیع،قابل قدراوربہت سی آیتوں کی شرح و وضاحت کرنے والی رائے توہے ہی،اسے اگرمان لیاجائے تو کئی دوسری حقیقتیں بھی دریافت ہونے لگتی ہیں ۔مثال کے طورپرایک یہی بات کہ دین اپنی اصل میں دوچیزوں کا مجموعہ ہے: اس میں یا تو مابعدالطبیعیاتی اور اخلاقی اساسات کا بیان ہوتاہے کہ جسے ایمانیات اور اخلاقیات کہتے ہیں،یا پھر انھی اساسات پر مبنی حدود، قیود اور کچھ مراسم کا بیان ہوتاہے کہ جسے شریعت کانام دیتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ دین کی یہ اتنی بڑی حقیقت تب ہی معلوم ہوسکتی ہے جب مذکورہ رائے کے مطابق آیات کو دیکھا جاے؛ اور بالخصوص، اس آیت کو: ’واذ اخذ اللّٰہ میثاق النبیٖن لما اٰتیتکم من کتاب وحکمۃ‘ اس میں قرآن نے بحیثیت مجموعی دین کاذکر کرنے کے بجائے،جواس کاعمومی انداز بھی ہے، متبادل کے طور پر اس کے اجزا، یعنی کتاب اورحکمت کوبیان کیاہے اوراس طرح مذکورہ بالاحقیقت کی طرف گویاانگلی رکھ کراشارہ کر دیا ہے۔
***