انتخاب و ترجمہ ‘ محمد سلیم
معذوری!!جو ہر گھر کی کہانی ہے۔
لڑکا یا لڑکی: جوانی کی حدود میں قدم رکھ چکے ہیں، صحت قابل رشک، مگر گھر میں ایسے رہتے ہیں جیسے خصوصی افراد۔صبح اٹھیں گے، بستر ویسے ہی بے ترتیب چھوڑ دیں گے، ماں آ کر یہ درست کر دے گی۔ کپڑے تبدیل کریں گے، جہاں اتارے وہیں یا کسی کونے کھدرے میں رکھ چھوڑیں گے۔ ماں آئے گی، اٹھائے گی، دھوئے گی، استری کرے گی اور واپس ترتیب کے ساتھ ان کی الماری میں رکھ دے گی۔ کھانا انہیں تیار ملنا چاہیئے۔ کھانے سے پہلے یا کھانا کھا چکنے کے بعد ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ پلیٹیں اٹھانا یا گلاس واپس رکھ چھوڑنا‘بالکل نہیں۔ ماں آئیگی اور یہ سارے کام کرے گی۔
سکول، کالج یا یونیورسٹی جائیں گے، واپس لوٹیں گے تو سونے کیلیئے، سنیپ چیٹ، واٹس اپ یا ٹک ٹوک پر مستی کیلیئے، ٹویٹر، انسٹاگرام پر وقت گزاری کیلیئے یا پھر اپنے پسندیدہ سیریل ڈرامے دیکھنے کیلیئے۔ کھانا وہیں بیٹھے منگوائیں گے۔ فقط لقمے کیلیئے ہاتھ بڑھانا یا اسے نگلنا ان کا کام ہوگا۔ اس کیلیئے بھی ان کا شکریہ۔ کیونکہ اس کے بعد انہوں نے ٹی وی یا لیپ ٹوپ یا آئی پیڈ پر دوبارہ جہاد کیلیئے واپس جانا ہوگا۔ اور کبھی کبھار تو یہ اپنے فارغ وقت میں گھر کے دوسرے افراد کے ساتھ بیٹھنے کی مہربانی بھی کر دیتے ہیں۔ مگر کیا مجال ہے کہ اس دوران میں یہ اپنے موبائل کی سکرین سے نظریں ہٹاتے ہوں۔ کیونکہ یہ اپنے ان پیاروں کے نزدیک رہنا چاہتے ہیں جنہوں نے ابھی ابھی کوئی کمنٹ کیا ہو، قیمتی سٹیٹس اپلوڈ کیا ہو یا کوئی تصویر بھیجی ہو۔ فورا کمنٹ کر کے ان کی دلجوئی کرنا ان کا اولین فرض ہوتا ہے۔
اور یہ والے صاحبان: گھر کی کسی ذمہ داری میں بھلے وہ انتہائی چھوٹی سی ہی کیوں نہ ہو، میں اپنی کوئی ذمہ داری نہیں نبھاتے۔ اپنی جگہ پر گند مچا کر اٹھ جاتے ہیں، کھانا پسند نہ آئے تو ناراض ہو جاتے ہیں، گھر میں کوئی قابل مرمت کام یا قابل تبدیل چیز دیکھ لیں تو ان جان بن کر گزر جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ ذمہ داری تو باپ کی ہوتی ہے۔ اور صفائی ستھرائی یا ترتیب ماں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
منظر کشی کا اختتام ہوا۔
ہمارے ارد گرد یا ہمارے اپنے گھروں میں یہ ہو رہا ہے کئ بار اس پر بہت غور سے سوچا ہے اور ہر بار اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ: خیر سے ہم ایک معذور نسل تیار کرنے میں پوری طرح کامیاب ہو چکے ہیں۔ جی ایک معذور نسل۔اور خیر سے اب ہمارے پاس جو تیار نسل ہے ان کے تصرفات دیکھیئے تو لگتے ہیں کہ یہ اس گھر میں مہمان ہیں۔ نہ کوئی تعاون کرنے والے، نہ ہی کسی کام میں مدد کرنے والے، نہ کوئی اپنے اطراف کی کوئی ذمہ داری اٹھانے والے: پرائمری سکول سے لیکر کالج یونیورسٹی تک، بلکہ نوکری لگ جانے کے بعد بھی وہ اپنے والدین کے گھر میں مہمان بن کر رہتے ہیں۔وہ کسی ذمہ داری کو نہیں سمجھتے ما سوائے جیب خرچ لینے کو یا ڈرائیونگ لائسنس بر وقت بنوا کر دینے کو۔ اور ماں باپ دونوں گھر کی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں بھلے عمر جتنی ڈھلتی جائے اور قویٰ کتنے ہی کمزور کیوں نہ پڑتے جائیں۔ کیونکہ وہی خود ہی تو نہیں چاہتے کہ ان کی اولاد کو کوئی تکلیف اٹھانی پڑے۔
کام کی ذمہ داری لینا اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا تربیت ہے جو اولاد کے دل میں بوئی جاتی ہے اور اس کی آبیاری کی جاتی ہے۔ یہ کوئی ہاتھ پر سرسوں اگانے جیسی نہیں ہوتی۔ اور نہ ہی یہ کوئی ایسا آسان مسئلہ ہے کہ ذمہ داری اور مسئولیت اٹھانا شادی کے بعد خود بخود محسوس ہو جائے کیونکہ شادی کے بعد بھی وہ اسی ثقافت پر قائم رہیں گے جو انہوں نے اپنے والدین کے گھر سے سیکھی اور اپنائی ہوگی۔ کونسا سسرال اور کیسا پرایا گھر: وہی چلے گا جو سیکھا ہوگا۔ اور سیکھا کیا ہے: معذوری، دوسروں پر توکل اور بھروسہ۔اور اس کے بعد یہ والی نسل پھر کبھی بھی گھر یا خاندان بنانے، بیوی بچوں کی ذمہ داریاں اٹھانے کیلیئے اپنے آپ پر انحصار نہیں کر پاتی۔ کیونکہ آپ نے ان کی بنیاد ہی ایسے رکھ دی ہے۔ اور اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو آپ کے اس قیام کے نتائج کیسے نکلنے ہیں؟
پیارے سرپرست: اپنے بیٹے یا بیٹی کو گھر میں کچھ ذمہ داریاں اٹھانے کی عادت ڈالنا، اس کی شخصیت کی تعمیر اور سماجی طور پر ذمہ دار نسل کی تعمیر میں مدد کرتا ہے۔ذمہ داری لینا انہیں مضبوط بناتا ہے اور آنے والی چیزوں کا سامنا کرنے میں ان کی مدد کرتا ہے۔یہ آپ کو ان پر بھروسہ کرنے میں مدد کرتا ہے اور دوسروں کے بارے میں سوچنے میں ان کی مدد کرتا ہے، جس کی وجہ سے وہ کم خودغرض، اور ان کے گھروں اور اردگرد کے ماحول میں، یا پھر مستقبل میں ان کی ملازمت اور معاشرے میں زیادہ قابل تعریف اور موثر بنانے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔جب کہ ان کا آپ پر یا ان کی ماں پر انحصار انہیں سست، کمزور اور زیادہ کمتر بناتا ہے اور انہیں مستقبل کے لیے تیار نہیں کرتا۔ایک منحصر شخص ایک آزاد اور مستحکم خاندان کیسے بنا سکتا ہے؟ پھر ہم آج کی نسل میں طلاق کی بلند شرح پر سوچتے ہیں کہ "ان میں صبر کیوں نہیں ہوتا!"
حمل اور ولادت فطری امور ہیں، لیکن اپنے خاندان کے لیے جدوجہد کرنے اور زندگی کی مشکلات کو برداشت کرنے کے لیے، مرد ہو یا عورت، یہ ایک ایسا ہنر ہے جو پہلے والدین سے حاصل کرنا چاہیے۔
آخر میں، ماں اور باپ: اگر آپ اپنے بیٹے کو اپنے گھر کی ذمہ داری لینے کے لیے نہیں پالیں گے، تو کیا اسے یہ سب دنیا سکھائے گی؟یاد رکھیئے کہ دنیا کے دیئے ہوئے سبق آپ کی توقع سے زیادہ چونکا دینے والے، بے رحم، بہت ہی کم تر اور زیادہ ظالم ہوں گے۔اس کیلیئے مہربانی کر کے ان کی مدد کرو اور اس دنیا داری میں ان کے مددگار نہ بنو۔اپنے بیٹے یا بیٹی کو اپنے گھر میں مہمان نہ بنائیں، بلکہ ان کا رب آپ کا مددگار ہو، آپ کے گھر اور پھر ان کے گھر اور معاشرے میں وہ سرگرم ہوں۔ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہماری تعلیم کے ساتھ مدد کرے، ہماری اصلاح کرے، اور ہمارے لیے اپنی اصلاح کرے۔کیا آپ جانتے ہیں کہ: صحابہ کرام اور تابعین بیس سال سے کم عمر کی عمر میں لشکر کی قیادت کرتے تھے۔