اعلیٰ انسان کی دو خصوصیات۔
محمد علی کلے ایک امریکی باکسر تھے جنھیں بلامبالغہ بیسویں صدی کے مقبول ترین لوگوں میں سے ایک شخص سمجھا جاتا ہے۔ 1974 میں جارج فورمین کے ساتھ ان کے باکسنگ میچ کو دنیا کی ایک چوتھائی آبادی نے براہ راست دیکھا جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ ان کی عوامی مقبولیت بے پناہ تھی، مگر اس کے باوجود انھوں نے زندگی میں کبھی کسی کو آٹو گراف دینے سے انکار نہیں کیا۔ اور اس کے لیے وہ گھنٹوں لوگوں کو آٹوگراف دیتے رہتے تھے۔ ان کے اس رویے کا سبب یہ تھا کہ ان کے بچپن میں ان کے آئیڈیل نے آٹوگراف دینے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ انسان اگر اعلیٰ انسان ہو تو وہ محرومی ملنے کے باوجود دوسروں کو محروم نہیں کرتا۔
اعلیٰ انسان کی دوسری خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی کمزوری کو یاد رکھتا ہے۔ وہ کمزوری اگر دور کی جاسکتی ہے تو اسے دور کرتا ہے اور نہیں کی جاسکتی تو اس کے ساتھ کوئی ایسی خوبی جمع کرتا ہے جو اس کمزوری کو ڈھانپ لیتی ہے۔ محمد علی سیاہ فام امریکی تھے اور ان کے زمانے میں سیاہ فام امریکیوں کے ساتھ امریکی معاشرے میں بہت برا سلوک کیا جاتا تھا۔ محمد علی کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اس کمزوری کو دور کریں، چنانچہ انھوں نے اپنے فن اور اپنی سیرت میں ایسی غیرمعمولی خوبیاں جمع کرلیں جن کی بنا پر وہ ساری زندگی نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر کے مقبول ترین شخص رہے۔
آج کے نوجوانوں کے لیے بھی درست راستہ یہ ہے کہ اپنی محرومیوں اور کمزوریوں کا بوجھ اٹھائے رکھنے کے بجائے خود میں خوبیاں جمع کریں۔ اس کے نتیجے میں وہ دنیا بھر کے محبوب بنیں گے۔ لیکن اپنی محرومیوں کا ماتم کرتے رہنا اور کمزوریوں کو اپنے وجود سے چمٹائے رکھنا ایک منفی رویہ ہے۔ اس رویے کو اختیار کرنے والوں کا انجام یہ ہے کہ نہ وہ دنیا میں لوگوں کے محبوب بن پاتے ہیں اور نہ آخرت میں خدا کے محبوب بن سکیں گے۔
زندگی کی نشانیاں ۔
ڈاکٹر مظہر نے میرے سامنے وزیٹنگ کارڈ رکھ دیا۔ اس پر نام کے نیچے ’’ڈپٹی کمشنر انکم ٹیکس‘‘ کا عہدہ درج تھا۔ یہ ان صاحب کا وزیٹنگ کارڈ تھا جن کے موتیا کا آپریشن ڈاکٹر مظہر نے حال ہی میں کیا تھا اور جن کا تذکرہ ڈاکٹر صاحب بڑے جوش کے ساتھ مجھ سے کر رہے تھے۔
ڈاکٹر مظہر کا آئی کلینک میرے پڑوس میں واقع ہے۔ وہ اپنی شخصیت اور مقصد دونوں اعتبار سے معاشرے کے قابل فخر اور قابل تقلید شخص ہیں۔ ان کی زندگی کا مقصد عام آدمی تک اعلیٰ ترین علاج کی سہولت بہت کم نرخ پر پہنچانا ہے۔ انہوں نے آنکھوں کا سرجن ہونے کے ناطے اسی شعبے سے آغاز کیا۔ بعض صاحب دل لوگوں نے ان کی مدد کا فیصلہ کیا یوں وہ کلینک وجود میں آیا جہاں ایک عام آدمی کو بہت کم فیس پر اعلیٰ ترین علاج کی سہولت مہیا کی جاتی ہے اور جب کبھی کوئی ضرورت مند شخص ان کے کلینک آتا ہے تو وہ بھی مایوس نہیں لوٹتا۔ اس کے لیے بھی، صاحب ثروت افراد کے تعاون سے، مفت علاج کا بندوبست کر دیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے سلسلہ کلام جاری رکھا اور کہنے لگے کہ جب میں نے ان صاحب کو موتیا کے آپریشن کے لیے سات ہزار کی رقم بتائی تو ان کے چہرے پر ایک سوالیہ نشان پیدا ہوا۔ یہ سوالیہ نشان ہمارے ہاں ہر اس سفید پوش شخص کے چہرے پر پیدا ہوجاتا ہے جسے قدرت بیماری کی آزمائش میں ڈال دیتی ہے۔ میں نے اس سوال کو پڑھ لیا اور ان کا آپریشن بغیر کسی فیس کے کر دیا۔ لیکن انکم ٹیکس کے محکمے کا ڈپٹی کمشنر عہدے کا آدمی، جو رزق حرام کے گندے نالے سے نہا کر، امریکہ میں علاج کرانے کی استعداد رکھ سکتا تھا، اس کا یوں سفید پوش ہونا، اس کے بے داغ ہونے کی نشانی ہے۔
میں نے کارڈ دوبارہ دیکھا اور سوچا کہ ایسے صاحب کردار انکم ٹیکس افسر کا وجود معاشرے کے زندہ ہونے کی نشانی ہے اور ان کا مفت علاج ہونا بھی معاشرے کے زندہ ہونے کی ایک نشانی ہے۔ جب تک زندگی کی یہ نشانیاں باقی ہیں، ہمارا معاشرہ سارے برے لوگوں کے باجود زندہ رہے گا۔
معاشرے کو بہتر بنانے کا نسخہ
میری ابتدائی رسمی تعلیم تمام تر اردو زبان میں ہوئی ہے۔ تاہم اسکول کے زمانے میں میرے گھر والوں نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ انگریزی میں مہارت بھی بہت ضروری ہے، مجھے انگریزی زبان کے ایک انسٹیٹیوٹ میں داخل کرا دیا جو اُس زمانے میں شہر کا واحد انسٹیٹیوٹ تھا اور جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور انگریزی کے ماہرین انگریزی زبان کی تعلیم دیا کرتے تھے۔
یہ انسٹیٹیوٹ گھر سے کافی دور تھا۔ وہاں جانے کے لیے دو بسیں بدلنی پڑتی تھیں۔ اپنے گھر سے ہم ایک منی بس میں بیٹھا کرتے تھے۔ اسی منی بس کے راستے سے ہمیں دوسری بس مل جایا کرتی تھی۔ مگر یہ منی بس کا کوئی اسٹاپ نہ تھا۔ بسوں ویگنوں میں سفر کرنے والے جانتے ہیں کہ انھیں مسافر بٹھانا ہو تو یہ کہیں بھی بس روک لیتے ہیں اور اتارنا ہو تو اسٹاپ ہی پر روکتے ہیں۔ چنانچہ وہاں بنے ایک اسپیڈ بریکر پر منی بس جب آہستہ ہوتی تو ہم چلتی ہوئی منی بس سے چھلانگ لگا کر اتر جایا کرتے۔ یہ ایک خطرناک کام تھا مگر ہمارا روز کا معمول تھا۔یہ منی بس ہمارے گھر تک عام طور پر خالی ہوتی تھی۔ اس لیے ہمیں سیٹ مل جایا کرتی تھی۔ مگر بعد میں آنے والے کھڑے ہو کر سفر کیا کرتے تھے۔ میری عادت تھی کہ اگر کوئی بزرگ آجاتا تو میں اپنی سیٹ اسے دے کر خود کھڑا ہوجاتا تھا۔ ایک روز ایسا ہی ہوا کہ ایک بزرگ بس میں چڑھے اور میں ان کے لیے اپنی سیٹ چھوڑ کر کھڑا ہوگیا۔ دوسری بس ملنے کی جگہ قریب آئی تو میں دروازے کے پاس چلا گیا تاکہ حسب معمول چھلانگ لگا کر اتر سکوں۔ کنڈکٹر نے جب دیکھا کہ میں وہی سیٹ چھوڑنے والا لڑکا ہوں اور یہاں حسب معمول منی بس نہیں رکے گی تو اس نے زور سے دروازے کو ہاتھ مار کر کہا۔ استاد گاڑی جام کر۔ بڑا قیمتی آدمی ہے۔گاڑی مکمل رک گئی۔ میں آرام سے اتر گیا۔ کنڈکٹر نے”ڈبل ہے“ کا نعرہ لگایا۔ گاڑی تیزی سے آگے نکل گئی۔ اس واقعے پر کئی عشرے گزر چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس عاجز پر بہت فضل فرمایا ہے اور اس کی تحریروں اور تقریروں کی تحسین اور تعریف میں بڑے بڑے لوگوں نے بہت کچھ کہا ہے۔ ان میں سے کوئی بات مجھے یاد نہیں۔ مگر اُس کنڈکٹر کی یہ آواز آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے۔
اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اُس وقت میں ایک عام سا اسٹوڈنٹ تھا جس کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ ہم عام لوگوں کی تعریف کرنے، ان کی حوصلہ افزائی کرنے اور ان کی خدمات کا اعتراف کرنے میں بہت بخیل واقع ہوئے ہیں۔ ہم خاص لوگوں کی تعریف کر دیتے ہیں۔ بلکہ بارہا ان کی عقیدت کو زندگی بنا لیتے ہیں۔ مگر عام آدمی اکثر ہمارے اعتراف سے محروم رہ جاتا ہے۔
ہم یہ بات نہیں جانتے کہ انسانی معاشرے خاص لوگ نہیں بلکہ عام لوگ چلاتے ہیں۔ ان کا اعتراف کرنا اور ان کی تعریف کرنا ان کے اندر ایک نئی زندگی پیدا کر دیتا ہے۔ اس اعتراف کے بعد وہ لوگ مزید شوق اور لگن سے اپنا کام کرتے، ذمہ داریاں اٹھاتے اور قربانیاں دیتے ہیں۔ یہ عام لوگ ہم میں سے ہر شخص کے اردگرد پائے جاتے ہیں۔ کوئی کنڈکٹر، کوئی ڈرائیور، کوئی ملازم، کوئی ماتحت، کوئی پھل فروش کوئی نانبائی اور کوئی طالب علم۔ یہ عام آدمی کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ آپ کا ایک جملہ، آپ کی ایک تھپکی، آپ کی ایک حوصلہ افزا مسکراہٹ؛ اس عام آدمی کو خاص بنا سکتی ہے۔ اس میں نئی روح اور نئی توانائی بھر سکتی ہے۔ اس کو اور زیادہ اچھا اور ذمہ دار بنا سکتی ہے۔
ہم سب کو دوسروں کی خوبیوں کے عدم اعتراف کی بری عادت کو چھوڑنا ہوگا۔ جہاں کوئی اچھا کام دیکھیں، جہاں اچھا رویہ دیکھیں، جہاں ذمہ داری اور فرض شناسی دیکھیں۔ اس کا اعتراف کریں۔ یہ معاشرے کو بہتر بنانے کا بہت آسان اور سستا نسخہ ہے۔