مواخاتِ مدینہ کے بارے میں ذہن صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ نبیِ پاک علیہ السلام ایک نہایت مدبر اور امت کے وسیع تر مفاد کے لیے بہت دور اندیشی سے فیصلے کرنے والے تھے کیونکہ آپ کے پیشِ نظر لوگوں کا صرف دنیاوی مفاد نہ ہوتا تھا بلکہ اخروی مفاد بدرجہ اولیٰ سامنے رہتا تھا۔
مکہ چھوڑ کر پہلے حبشہ جانے کا حکم ہوا لیکن وہاں اسلام کے لیے فضا زیادہ سازگار نہ تھی۔ مدینہ کی طرف ہجرت میں ایک اہم بات یہ تھی کہ نبیِ پاک علیہ السلام کی والدہ حضرت آمنہ مدینہ سے تھیں چنانچہ مدینہ آپ کا ننھیال تھا۔
مدینہ ہجرت کرنے والے مہاجر وہ لوگ تھے جنھیں مکہ سے برضا و رغبت رخصت نہیں کیا گیا تھا بلکہ ان کا مال اسباب لوٹ کر یا اونے پونے ہتھیا کر مکہ سے در بدر کیا گیا تھا۔ ان میں سے بیشتر ایسے تھے کہ مکہ میں انھیں جان کے لالے پڑے ہوئے تھے اور قریب تھا کہ قتلِ عام کرکے ان متبعینِ محمد کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جاتا۔ عام ہجرت کا حکم اسی لیے آیا تھا۔ ان لوگوں کا قصور صرف شرک بیزاری اور خدائے واحد پر ایمان لانا ہی نہ تھا بلکہ عمومی غربت بھی تھی۔ ہجرت کرنے والوں میں جو چند مالدار لوگ تھے ان کو بھی اس displacement سے خاصا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔
ہجرت کرکے مدینہ پہنچنے والے لٹے پٹے تباہ حال لوگوں کا ایک بڑا مجمع تھا جن کے ساتھ بیوی بچے بھی تھے۔ یہ لوگ ہمیشہ کے لیے مدینہ آ پڑے تھے۔ اللہ بہت جزائے خیر دے انصارِ مدینہ کو جنھوں نے کھلی بانہوں اپنے ان دینی بھائیوں کا استقبال کیا۔ ان لوگوں کا یہ کردار انسانیت کی تاریخ میں ہمیشہ تابناک رہے گا اور اخروی عنایات تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کا مقدر ہوگئیں۔
مدینہ میں صرف انصار یعنی مدنی مسلمان نہ تھے بلکہ زیادہ آبادی شدید عناد رکھنے والے یہودیوں کی تھی۔ مدینہ کی مارکیٹ اور ساری برآمدات پر یہود کا مکمل کنٹرول تھا۔ مدنی مسلمان (انصار) ان کے ساتھ باہمی کاروباری تعلقات رکھتے ہوئے تجارت کرتے تھے۔ اسی طرح زرعی زمینیں بھی ساتھ ساتھ تھیں جن پر پانی اور لگان وغیرہ کے مسائل پیش آتے رہتے تھے۔ ایک چھوٹی مرکزی آبادی اور تجارتی منڈی میں ایک دم اتنے سارے لوگوں کے آکر آباد ہو جانے سے جہاں مہیا شہری سہولتوں میں طلب و رسد میں نمایاں عدم توازن در آیا وہاں کئی اور طرح کے لازمی عوامل بھی درپیش ہوئے جن میں علاقے کی اندرونی و بیرونی سیکورٹی کے مسائل اور علاقائی قیادت کا مسئلہ اہم ترین تھا کیونکہ اقتدار کا مرکز تبدیل ہونے والا تھا اور مدینہ کے قدیمی اقتدار دار قبائلی خاندانوں کا اجارہ ختم ہو رہا تھا۔ نبیِ آخر الزماں علیہ السلام نے ان زمینی حقائق اور پیش آمدہ چیلنجز کو پورے طور سے سمجھا اور اللہ کی تائید و نصرت مانگتے ہوئے اپنے جاں نثار احباب کو ساتھ لے کر ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔
سب سے بڑا مسئلہ معاشی عدم توازن کا تھا، اور جس کے ساتھ علاقے کے امن و امان کا گہرا تعلق تھا۔ جیب میں پیسہ اور پیٹ میں روٹی نہ ہو تو رات سے صبح ہوتے تک سارا منظر نامہ بدل جایا کرتا ہے۔ انصار تو مکہ سے اپنے مسلمان بھائیوں کے آ جانے پر نہال تھے لیکن معاندین معاشی ابتری اور علاقے کے امن و امان میں انتشار لاکر اپنے مقاصد پورے کرنا چاہتے تھے۔
معاشیات کا مسئلہ اور اس کے ساتھ جڑا ہوا امن و امان کا مسئلہ آپ علیہ السلام نے یوں حل کیا کہ مہاجرین کو انصار پر معاشی بوجھ بن جانے کے بجائے بطورِ مددگار ان کے ساتھ کر دیا۔ انصار باغوں کھیتوں والے تھے یا تجارت پیشہ۔ چنانچہ ایک انصاری کھیت کھیتی یا باغ والا بندہ ہے تو اس کے ساتھ ایک مہاجر اور اس کی فیملی کردی کہ کھیت اور باغ کے کام میں اس کی مدد کرو اور اپنے پیٹ بھرنے کا جائز بندوبست کرو۔ ایک انصاری تجارت کرتا ہے تو اس کے ساتھ ایک مہاجر اور اس کی فیملی کو جوڑ دیا کہ انصاری کی تجارت بڑھانے میں اس کی مدد کرو اور اپنا محنتانہ وصول کرکے اپنا اور اپنے اہلِ خانہ کا پیٹ پالو۔ مہاجر اور انصار عورتیں مل جل کر کھیت اور بازار کے کام کرتی تھیں۔
یہ بات ظاہر و باہر ہے کہ ہجرت کے بعد اگر پہلے ہی دن مہاجرین کے روزگار کا بندوبست نہ کیا جاتا تو علاقے میں جرائم میں اضافہ ہو جاتا اور امن و امان برقرار نہ رہتا بلکہ خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہو جاتی۔ آپ علیہ السلام کے مواخات کے اس بے نظیر فیصلے نے بے گھر و در ہونے والے مہاجرین کو انصار پر معاشی بوجھ بننے سے اور علاقے میں امن و امان کا مسئلہ کھڑا ہونے سے بچایا۔ اگر اس مسئلے کو یوں حل نہ کیا جاتا تو رفتہ رفتہ مفادات کا ٹکراؤ ہونے کی وجہ سے کچھ عرصہ میں آپسی تناؤ اور شکر رنجی ہوسکتی تھی، جیسا کہ آپ کے حینِ حیات کچھ مواقع پر اس کی صورت بننے بھی لگی تھی۔
یہاں یہ بات توجہ سے نوٹ کرنے کی ہے کہ عام خیال کے مطابق یہ ریاست کا کام ہے کہ لوگوں کے روزگار کا بندوبست کرے، لیکن ہجرتِ مدینہ کے موقع پر آپ علیہ السلام نے مہاجرین کے لیے ریاست سے کچھ مانگنے کے بجائے اس بنیادی انسانی مسئلے کو دونوں سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر خود حل کیا اور ریاست کو کمزور کرنے کے بجائے ریاست کو قوت دینے کا سبب بن گئے۔ ریاست ان عناصر کی ہمیشہ پشت پناہی کرتی ہے جو لوگوں کو جائز روزگار فراہم کرنے کا سبب بنتے ہوں۔ یہ عناصر ریاستوں کے دست و بازو ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ مواخاتِ مدینہ کے وقت قبائلی کنفڈریشن پر مشتمل اس جغرافیائی وحدت میں آپ علیہ السلام کے پاس کوئی ریاستی قوت و اقتدار نہ تھا اور آپ کا قبیلہ بھی یہاں جڑیں نہیں رکھتا تھا۔
نبیِ پاک علیہ السلام معاش کے وسائل بڑھانے اور کارآمد بنانے پر بہت توجہ دیتے تھے۔ آپ علیہ السلام کی اعتنا سے مدینہ اور ارد گرد کے علاقوں میں کئی کاروباری ذہن والے اور مالدار مہاجرین نے زرعی زمینوں کے بڑے قطعے اور باغات خریدے۔ ان بیشتر معاہدات میں نبیِ پاک علیہ السلام نے اپنا کئی سطحی کردار ادا کیا۔ اس اقدام سے مہاجر مسلمانوں کے قدم جمے اور انھوں نے پکے پیروں پر کام شروع کیا۔ جن مالدار مہاجرین کے کئی کئی غلام تھے وہ دراصل ان کے ملازم تھے جو ان کے کاروباروں اور کھیتوں باغوں میں کام کرتے تھے۔ ہم اپنی جہالت کی وجہ سے غلاموں اور لونڈیوں کو پتہ نہیں کیا کیا سمجھتے رہتے ہیں۔
آفرین ہے ان مہاجرین پر جنھوں نے اس دلجمعی سے اور اپنا بن کر انصار کے وسیلہ
ہائے معاش میں ان کا ساتھ دیا کہ ان کے دل جیت لیے۔ یہاں تک ہوا کہ کچھ تجارت پیشہ انصاریوں کی تجارت اتنی پھیلی کہ ایک دکان تھی تو دو ہوگئیں اور انھوں نے دوسری دکان مہاجروں کو دے دی۔ باغ اور کھیت والوں نے کھیتیوں کی نشو و نما بڑھنے سے باغ اور کھیت ہدیہ کرنا شروع کیے۔
مہاجر عورتوں بچوں نے بھی انصار عورتوں سے بہت محبت اور اپنائیت کا برتاؤ کیا۔ عورتوں نے عورتوں کے دل جیتے تو مکہ سے لٹ پٹ کر آنے والے ان لوگوں کے لیے انصار نے شادیوں کا بندوبست بھی کردیا۔ مشہور بات ہے کہ جس کی دو بیویاں تھیں اس نے ایک بیوی چھوڑ دینے کا عندیہ دیا۔
نبیِ پاک علیہ السلام نے کسی پر بوجھ بننے کے بجائے موقع موقع پر محنت کرکے کمانے کھانے کی ترغیب دی ہے اور اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے لیے تلاشِ معاش میں لگنے والوں کو بار بار مختلف الفاظ میں اجر کی بشارتیں دی ہیں۔ اللہ سمجھ دے۔