فہم قرآن
سورہ البقرہ کی آیت ٦٢ میں ہے
ان الذين آمنوا والذین ھادوا والنصاری والصابئین من آمن باللہ والیوم الآخر و عمل صالحا فلھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون
بلاشبہ جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی، مسیحی یا صابی ہوئے، جو کوئی اللہ اور قیامت پر ایمان لایا اور اس نے اچھے کام کئے ان کے لئے ان کے رب کے پاس عمدہ بدلہ ہے اور انہیں کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے-
اس آیت کو سارے سیاق و سباق سے الگ کر کے مختلف نتائج اخذ کئے گئے ہیںاس کی بنا پر وحدت ادیان کا نظریہ پیش کیا گیا
اس کی بنا پر یہ کہا گیا کہ نجات کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے-لیکن یہ نتائج مزید غور و فکر کے متقاضی ہیں-درحقیقت قرآن ایک وحدت ہے اور اسے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے ایک وحدت کے طور پر دیکھا اور سمجھا جائے-یہ آیات بنی اسرائیل کے تذکرہ کے ضمن میں ہیں، جن میں سے ہر ایک کا یہ عقیدہ تھا کہ صرف یہود یا صرف نصاری ہی نجات کے مستحق ہیں جیسا کہ اب مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ صرف ہمیں مستحق نجات ہیں-اس آیت نے اس غلط فہمی کو دور کر دیا کہ نجات کسی خاص امت یا طبقے کا استحقاق ہے بلکہ یہ بتایا گیا کہ نجات کا اساسی طور پر تین کاموں سے تعلق ہے-
اللہ پر ایمان
قیامت پر ایمان اور
اچھے اعمال
ساری انسانیت کے لئے یہ تین مشترکہ بنیادی امور ہیں-
اس کے بعد رہا رسالت پر ایمان تو اس کے نمائندے انسانیت کی پوری تاریخ میں بدلتے رہے ہیں کبھی نوح کبھی ابراھیم، کبھی موسیٰ، کبھی عیسیٰ اور اب محمد بن عبداللہ-
انبیاء پر ایمان کے حوالے سے ایسا کوئی سسٹم نہیں تھا کہ ہر فرد کو اپنے عہد کے نبی کے بارے میں لازماً معلوم ہو کہ یہ میرے عہد کے لیے اللہ کا فرستادہ ہے-
اس لئے قدرتی طور پر لوگ تین حصوں میں تقسیم ہو گئے-
ایک وہ جنہیں معلوم ہی نہیں ہوا کہ ان کے عہد میں کون نبی ہے یا کیا بعثت انبیاء کا کوئی سسٹم ہے بھی-یا انسان نے بس فطری فہم و دانش سے رہنمائی حاصل کرتے رہنا ہے-
یا اس نے ایسا کچھ سنا تو ہے لیکن اسے مزید تحقیق کا وقت نہیں ملا یا اس نے ضرورت محسوس نہیں کی اس لئے وہ فطرت کی رہنمائی میں زندگی گزارتا رہا نہ کسی نبی پر ایمان لایا نہ کسی کی مخالفت کی-
دنیا میں سب سے بڑی تعداد اسی قسم کے لوگوں کی ہے-ان کی آخرت کا امتحان اور اس کا فیصلہ آیت میں مذکور تین امور کی بنیاد پر ہوگا-
دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو کسی نبی اور اس کی تعلیمات سے آگاہ ہوئے، ان پر غور و فکر کرنے کے بعد حسد، بغض یا عناد کی وجہ سے مخالف ہو گئے جیسا کہ عہد نبوی کے یہود و نصاری سے لے کر دور حاضر کے مستشرقین تک-ان کے لئے قرآن نے جابجا آخرت کے عذاب کی وعید سنائی ہے-
تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کے پاس الہامی ہدایت موجود ہے اور وہ اس پر ایمان رکھنے کی وجہ سے یہ کہتے ہیں کہ ہم خود راہ راست پر ہیں اس لیے ہمیں قرآن یا آخری نبی پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں ہے-وقالوا کونوا ھودا او نصاری تھتدوا
ان کی حیثیت مختلف ہے اور وہ سورہ البقرہ کی آیت نمبر ٦٢ کا مصداق نہیں ہیں بلکہ سورہ البقرہ ہی کی آیت نمبر ١٣٦‘١٣٧ میں انہیں بتایا گیا ہے کہ جب تک وہ قرآن اور نبی آخر الزمان پر ایمان نہیں لائیں گے راہ راست پر نہیں ہوں گے-
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کا صحیح فہم عطا فرمائے آمین