نبی کریم علیہ السلام قریش کے ایسے خاندان سے تھے جو پیسے سے پیسہ بناتا تھا اور بے حساب کماتا تھا۔ آپ کے دادا سو سو اونٹ صدقہ کیا کرتے تھے۔ چچا ابوطالب مالدار تھے تبھی فارن بزنس ٹور پر جاتے تھے اور بچوں بھتیجوں کو بھی فارن کے ٹور لگواتے تھے۔ آپ علیہ السلام کا اپنا اٹھنا بیٹھنا بھی مالدار ترین لوگوں میں تھا جیسے حضرت ابوبکر (فارن کے ریشمی کپڑے کے امپورٹر)، حضرت عثمان (آفشور بزنس) اور مطعم بن عدی وغیرہ۔ اگر لوگ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے آتے تھے تو اُس کی وجہ بھی مالی حیثیت اور تونگری تھی ورنہ کمزور حیثیت شخص کے پاس کوئی نہیں جاتا۔ شادی ہوئی تو اپنے برابر کے اور قدیم مذہبی خاندان کی اور مکہ کی مالدار ترین بزنس ٹائیکون سے۔ ایک وقت میں امِ ہانی سے شادی کی خواہش کی تو جنابِ ابوطالب جیسے خاندانی انسان نے غالبًا اِس لیے انکار کر دیا کہ جس کی بیوی خدیجہ جیسی مالدار ہے اُس کے سامنے امِ ہانی کہاں ٹھہرتیں؟ مدینہ گئے تو وہاں کے بڑے مالداروں عبداللہ بن ابئی اور سعد بن عبادہ وغیرہ سے ربط اور کاروبار۔ آس پاس کے رئیسوں سے تعلق اور تحائف کا لین نہیں دین بھی تھا تبھی اس کلاس میں اٹھنا بیٹھنا رہا۔ ایسے میں ایک بار ایک غریب کی طرف توجہ نہ کی تو وحیًا تنبہ فرمایا گیا۔ بیسیوں باغوں اور ریوڑوں کے سودے کیے۔ بیٹیاں بیاہیں تو بنوامیہ کے رئیس ترین انسان سے۔ حضرت خدیجہ فوت ہوئیں تو ان کی ساری دولت بھی مل گئی۔ جتنی شادیاں کیں وہ سبھی ٹھیک ٹھاک مالدار عورتیں تھیں اور اپنے اپنے گھر کاروبار اور لونڈیاں غلام رکھتی تھیں۔ بعض نے تو اپنے غلام لونڈیاں نبی کریم کو بھی ہبہ کیے۔ فدک کی جائیداد قرآن نے آپ کے ذاتی تصرف میں دی تو یہ کوئی انہونی نہ تھی کہ لوگوں کو اس پہ اچنبھا ہوتا۔ فتح مکہ میں مویشیوں سے بھری ہوئی وادیِ جعرانہ صفوان بن امیہ کو دی تو وہ چیخ اٹھا کہ ایسی سخاوت صرف نبی کرسکتا ہے۔
یاد رہے کہ جب آپ نے دعوائے نبوت کیا تو اپنے پہلے ہی پبلک خطاب میں وقت کی دونوں سپر طاقتوں کے باجگزار ہونے اور ان کی شہزادیوں کے لونڈیاں بنانے کا تذکرہ کیا اور اپنی ضروریات کے لیے ایک پہاڑ سونے اور ایک چاندی کا ہونے کی بات کی، اور یہ ایسی بات نہ تھی کہ لوگ اس پر حیران ہوئے ہوں۔ ایسا بڑا مالی دعویٰ حضرت سلیمان سمیت پہلے کسی نبی نے نہ کیا تھا۔
اگر نبی کریم اور ان کا خاندان معاشًا کمزور ہوتے تو مکہ میں نبوت کے ابتدائی ایام میں ہی قریش کے سردار آپ سے نمٹ لیتے۔ اگر ایک ابوطالب کے سامنے کھڑے ہونے سے سب خاموش ہو جاتے تھے تو وجہ ابوطالب کی معاشی مضبوطی تھی۔ تمام سردار آخر ابوطالب کے گھر آکر ان کا منت ترلہ ہی کیوں کرتے تھے کہ بھتیجے کو سمجھاؤ، وہ تو راہ چلتے بھی جو چاہتے کر کرا سکتے تھے۔
القصہ نبی کریم بلاشبہ بہت مالدار تھے۔ مثال لیجیے کہ ہر بیوی کا نان نفقہ کتنا تھا؟ مالِ غنیمت کے کروڑوں اربوں مال میں خمس کے مالک آپ ہوتے تھے۔ ہزاروں مالدار صحابہ آپ کے ایک اشارے کے منتظر ہوتے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم آپ علیہ السلام اور آپ کی ازواج کے لائف سٹائل کے بارے میں جب پڑھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ گھر میں کھانے کو شاذ و نادر ہی کچھ اچھا میسر ہوتا، تن پہ کپڑے بھی پیوند لگے اور حجروں کی چھتیں کھجور کی ٹہنیوں کی بنی ہوتیں جن کا ثبوت بھی موجود ہے ورنہ تو remains میں محلات یا پکے کشادہ گھر ملتے، اور آپ کے زیرِ استعمال رہنے والی چیزوں میں عمامہ شریف، جبہ اور گھسے ہوئے نعلین شریف نہ ہوتے بلکہ کوئی قیمتی جواہرات سے جڑی ہوئی پوشاک ہوتی، کوئی قیمتی تخت یا برتن ہی ہوتا۔
سوال یہ ہے کہ اِتنا مال و دولت کہاں گیا؟ چھپا دیا گیا یا خفیہ تعیش میں استعمال ہوا؟ (نعوذ باللہ )کسی خاص کاروبار یا مشن میں لگا دیا گیا؟ ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے اور جے آئی ٹی بٹھانے کی ضرورت نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ تمام تر دولت اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں صرف ہوئی، انفاق فی سبیل اللہ میں بہا دی گئی، غلاموں کو آزاد کرانے اور رفاہی پراجیکٹس میں استعمال ہوئی، جنگوں میں استعمال ہوئی، اور اس زمانے کے مطابق جن ہتھیاروں کی ڈیمانڈ تھی ان سے اپنی حربی طاقت کو بڑھایا گیا۔ آپ علیہ السلام نے خود اپنی ذات کے لیے فقیری کو چنا اور سخاوت کو اپنایا۔ تاریخ اور قرآن کا بیان ہے کہ ازواجِ مطہرات آج کی خواتین کی طرح لگژری کی ڈیمانڈز کرتی تھیں مگر آپ کے زیرِ تربیت آپ کے تمام اہلِ خانہ برضا و رغبت سادہ زندگی اپنائے ہوئے تھے۔ حد یہ ہے کہ لوگ تواریخ میں لکھا یہ واقعہ اب ذکر کرنا ہی بھول گئے ہیں کہ جنابِ عائشہ کے بازوؤوں میں سونے کے اِتنے بھاری کڑے تھے کہ ہاتھ تھک جاتے تھے، اور اُن کا شادی کا جوڑا اِس قدر قیمتی اور فیشن ایبل تھا کہ مدینہ کی دو سو لڑکیوں نے اپنی اپنی شادی کی رات میں وہ جوڑا مانگ کر پہنا تھا۔ تو جناب، آپ علیہ السلام ایک مالدار اور طاقتور آدمی تھے اور اس مال اور طاقت کی تقسیم جس طرح آپ نے کی اُس کی پوری دنیا شاہد ہے اور غیرمسلم بھی اُس کے معترف ہیں، اور آپ کے لائف سٹائل کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ اگر کچھ لوگ یہ ابہام پیدا کرنا چاہتے ہیں تو اپنی سی کوشش کرکے دیکھ لیں۔ رام بھلی کرے گا۔
سو یہ ایک صریح مغالطہ ہے جسے دانستہ و نادانستہ تاریخ میں گھسیڑا گیا ہے کہ نبی یا نبی کا خاندان معاشی طور پر کمزور تھے یا کسی بھی دور میں کمزور رہے تھے، اور آپ کے قریبی ساتھی ابوبکر و عمر وغیرہم خدانخواستہ معاشًا بدحال و بے وقار لوگ تھے۔ یہ مغالطہ اِس لیے بھی بہت گھنا ہوگیا کہ اچھے بھلے اہلِ علم کو بھی فقر اور مفلسی کا فرق معلوم نہیں ہے۔ نبی کریم نے مفلسی سے پناہ مانگی ہے لیکن فقر کو اپنا فخر قرار دیا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ چونکہ عوام کی تربیت ایسے کی
گئی ہے کہ اُس نے صاحبِ مال و اقتدار کو برا بھلا کہنا ہی کہنا ہے اِس لیے بھی نبی کو مفلس اور بے زر و در دکھانا ضروری ہوتا ہے۔
اردو میں یہ بات سر سید احمد خاں سے پہلے کسی نے نہیں لکھی کہ اسلام فقیر بنانے نہیں بلکہ عزتیں اور مال و متاع و جاہ و حشم دینے آیا تھا اور نبی کریم و اصحاب اِسی مال و عزت کا بے مثال بے نظیر نمونہ تھے۔