عورت اور منڈی مویشیاں

مصنف : آفاق احمد

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : ستمبر 2018

اصلاح و دعوت
عورت اور منڈی مویشیاں
آفاق احمد

                                                                                                                          

عورت اور منڈی مویشیاں 
"وہ سامنے دروازہ ہے، آپ بھی وہاں سے چل کر جا سکتی ہیں"۔یہ الفاظ ایک لڑکی کے تھے جو اْس نے رشتہ دیکھنے کے لیے آنے والی خاتون کو کہے تھے۔آج سے بیس بائیس سال پہلے کا سچا واقعہ ہے جو میری بڑی بہن کی کلاس فیلو کے ساتھ پیش آیا۔
گھر، خواتین رشتہ دیکھنے آئی تھیں۔ لڑکی چائے اور دیگر لوازمات لے کر آئی لیکن لڑکے کی والدہ کی تسلی نہ ہوسکی یا انہیں ایسا لگا کہ چال ٹھیک نہیں، کوئی نقص نہ ہو۔فوراً کہا کہ ذرا چل کر دکھانا، تاکہ وہ خاتون جانچ سکیں کہ نقص تو نہیں۔اس بات سے ہمیں اور دوسرے سننے والوں کو بھی ایسا تاثر ملا گویا کسی منڈی میں خاتون کھڑی ہوں اور جس طرح جانور چلا کر تسلی کی جاتی ہے، اسی طرح لڑکی کو چلا کر تسلی کرنے لگی ہوں۔ لڑکی نے فوری ردِ عمل دیا اور انہیں دروازے کی طرف اشارہ کرکے بولی:’’وہ سامنے دروازہ ہے، آپ بھی وہاں سے چل کر جاسکتی ہیں۔‘‘
رشتہ دیکھنے میں لڑکے کی ماں بہن کا انداز دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی دیکھنے نہیں نکلیں بلکہ منڈی سے کوئی جانور دیکھنے نکلی ہیں۔یہ غیر اخلاقی طرزعمل اور رویہ یقیناً قابلِ ترک ہے، یہ انسانی عزت اور خود داری کے خلاف ہے۔ پہلے زمانے میں بھی رشتے ہوا کرتے تھے اور آج سے زیادہ اچھے نبھا کرتے تھے، تب خواتین کونسی دوربینیں یا خودربینیں لگایا کرتی تھیں۔
بطور لڑکی کے یا اْس کے گھروالوں کے، ہم سب درج بالا طرز سخت ناپسند کریں گے اور اسے غیر اخلاقی رویہ گردانیں گے۔لیکن ایسا کیا فقط رشتے کے معاملے میں ہورہا ہے یا دیگر میدانوں میں بھی ہماری بہن بیٹیوں کا تقدس پامال کیا جارہا ہے؟میڈیا کی ترقی کے ساتھ خواتین ماڈلنگ کو عروج بھی آ گیا، فرانس اور دیگر مغربی ممالک سے چلنے والا یہ سفر مشرقی ممالک تک بھی آ پہنچا۔ دونوں اطراف مرد و زن بیٹھ جاتے ہیں اور خواتین ماڈلز درمیانی سٹیج جسے ریمپ کہا جاتا ہے، مخصوص چال چلتے ہوئے چکر لگاتی ہیں، اسے ملبوسات کی نمائش کا نام دیا جاتا ہے لیکن در حقیقت یہ خواتین کی نمائش ہے۔
تذلیل کے لیے الفاظ بھی استعمال کیے جاتے ہیں لیکن آنکھیں، کان اور منہ بند ہوں تو کیا فرق پڑے گا۔ خواتین کی اس مخصوص چال کے لیے لفظ مستعمل ہے کیٹ واک Cat Walk یعنی بلی کی چال۔ چال کے لیے مماثلت جانور سے دی جارہی ہے لیکن پھر بھی نام نہاد ترقی کی چکا چوند مصنوعی روشنیاں اس اصطلاح کو بظاہر خوشنما بنا کر پیش کردیتی ہیں۔اوپر رشتے کی مثال میں ہمیں ایسے لگا کہ لڑکی کو ایسے دیکھا جارہا ہے جیسے منڈی میں جانور چلا کر دیکھا جاتا ہے اور یہی طرز اس سے کئی گْنا زیادہ نمائش کے ساتھ اس نام نہاد ملبوسات کی ماڈلنگ میں پوری دنیا میں روا رکھا جارہا ہے۔اس سے مزید بدترین، گھٹیا ترین پیمائش و نمائش سے خواتین کو حْسن کے مقابلوں میں گزارا جاتا ہے۔ اسے ہم لاکھ ماڈرن ازم، جدت یا نئے تقاضے قرار دیں لیکن یہ حقیقت میں خواتین کی بدترین تذلیل ہے۔ اْن کی انا، تقدس اور خود داری پر کاری ضرب ہے جسے شہرت اور پیسے کی آڑ میں چْھپا دیا جاتا ہے۔یہی حال اشتہار سازی کی صنعت میں ہے جہاں خواتین ماڈلز کو فقط نمائش کے لیے پیش کیا جاتا ہے، بسا اوقات جان بوجھ کر بیہودہ اشتہارات بنائے جاتے ہیں تاکہ اْن کی مصنوعات کی شہرت جلد سے جلد سے ہر طرف پھیل سکے۔
کیا یہ طرز رشتوں اور میڈیا تک محدود ہے؟؟؟
نہیں، نوکریوں کا میدان دیکھیں۔ایسے واقعات پاکستان میں بھی سننے میں آئے جہاں نوکری دینے والوں کو حجاب پہننے پر یا دوپٹہ اوڑھنے پر اعتراض ہوا اور نوکری سے انکار کردیا گیا۔کیا نوکری کی مطلوبہ اہلیت کا تعلق ڈگری اور ذہنی صلاحیت سے ہے یا لباس اور سراپے سے؟بڑے کیش اینڈ کیری پر لڑکیوں کو جس طرز کے کام کرنے کا کہا جاتا ہے، کیا وہ عورت کے نازک وجود سے میل کھاتے ہیں؟خالصتاً مردانہ طاقت والے کام، لوڈنگ، سیٹنگ اور دیگر کام۔
اور یہ استحصال یہاں تک محدود نہیں رہتا بلکہ کچھ اداروں میں تو بات جنسی استحصال تک جاپہنچتی ہے جسے ملازمت کا حصہ اور ترقی کا راستہ سمجھا جاتا ہے۔
بظاہر عورت کی ترقی کی باتیں کرنا اور حقیقت میں اْسے اْس کے جائز مقام سے نیچے گرا دینا، پھر اْسے پیسے اور دیگر سہولیات پر راضی رکھنا۔
ہم نے دیکھا کہ پوری دنیا میں دو طرز بڑھے ہیں:
ایک ڈپریشن اور تناؤ نے گھیر لیا ہے بیشک ہاتھ میں پیسہ اور تمام آسائشیں موجود ہوں۔دوسرا سکون آور ادویات، نشوں اور شراب میں پناہ لینے کا تناسب بڑھا ہے۔ اور کچھ لوگ ان دونوں علتوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔مغربی دنیا سے لے کر مشرقی دنیا تک متمول اور مشہور لوگوں میں خودکشی کا رجحان جو ہندوستان کے دروازے پر بھی دستک دے چکا ہے اور ہم بھی اتنا پیچھے نہیں۔
آخر میں مشہور کامیڈین جم کیری Jim Carrey کا مشہور قول:
I think every body should get rich and famous and do everything they ever dreamed of so they can see that it is not the answer.
"میرا خیال ہے کہ ہر شخص کو امیر اور مشہور ہونا چاہیے اور ہر کام کرنا چاہیے جس کا اْس نے کبھی خواب دیکھا ہو تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ یہ جواب نہیں ہے"
جم کیری وہ مشہورومعروف اداکارہے جس پر شہرت اور دولت کی گویا بارش ہوگئی لیکن پھر بھی وہ روحانیت کی طرف مائل ہوا اور پھر ایسے بظاہر لاابالی انسان کی زبان سے گہری نفسیات کی باتیں منظرِ عام پر آئیں کاش کہ ہم اس اندھی دوڑ میں اندھا دھند دوڑنے سے پہلے سمجھ سکیں کہ زندگی کے سوالات کا یہ جواب نہیں، زندگی کا یہ مقصد نہیں۔
***
ڈیجیٹل بد نظری
جدید قسم کی بدنظری کا کیا علاج ہے؟پہلے بھی بدنظری کے بیہودہ مناظر دیگر میڈیا کے ذریعے موجود رہتے تھے لیکن جو آزادی، آسانی اورمحفوظ تنہائی ڈیجیٹل میڈیا نے فراہم کی ہے وہ انتہائی مہلک ہے خاص طور پر موبائل نے گویا بدنظری کے ہیجان انگیز مناظر کا ایک سمندر، فنگرٹپس پر مہیا کردیاہے ۔اس سے انکار نہیں کہ نکاح اس کا تدارک کرنے والا عمل ہے اور جلد سے جلد اس کا سرانجام پانا بہت سی برائیوں سے محفوظ کردیتا ہے۔لیکن ڈیجیٹل بدنظری نے ایک نئی جہت رْوشناس کروائی ہے۔ محض تیرہ چودہ سال کی عمر سے شروع ہونے والا یہ سفر بعض اوقات نکاح کے بعد بھی قابو میں نہیں آپاتا۔شادی شدہ افراد بھی اس علت کا شکار ہیں گویا ازدواجی معاملات اور ڈیجیٹل بدنظری کے معاملات متوازی طور پر چلتے رہتے ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ہیجان انگیز مناظر مسلسل دیکھتے رہنا ایک ایسی عادت کی شکل اختیار کرجاتا ہے کہ چھوڑے نہیں چھوڑی جاتی۔اسے ہم ایک نشہ کہہ سکتے ہیں انگریزی میں اس خاص مسئلے کے لیے بھی Addiction کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے یہ عادت ایک نشے کی صورت اختیار کرجاتی ہے اور اس نشے کا عادی بالکل اْسی طرح اسے دیکھنے کا شوق پورا کرتا ہے جیسے ایک نشئی نشے کا سگریٹ پینے کے لیے مرا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ لَت بعض اوقات شادی کے بعد بھی اْتر نہیں پاتی۔ اب کریں تو کیا کریں؟۔
پہلی بات کہ اسے غلط چیز ضرور تصور کیا جائے، اسے گناہ مانا جائے اور اس کی سنگینی مانی جائے کیونکہ جس طرح ہیروئن اور دوسرے نشوں کی لت والا گھربار اور بیوی بچوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے، اسی طرح اس نشے میں انسان بیوی کے ازدواجی حقوق بھی غصب کرنا شروع کر دیتاہے۔
دوسری بات یہ کہ توبہ کو لازمی پکڑیے، جب جب ہو تب تب توبہ۔اب آتے ہیں ایک نفسیاتی حل کی طرف۔موبائل نے ایسی آسانی فراہم کردی ہے کہ نہ گھر میں کوئی ڈر رہا، نہ سکول کالج میں اور نہ دفترپارک میں اب سوچنے کی بات ہے کہ جب یہ کام کیا جارہا ہے اگر اْس وقت کرنے والا کسی اور کام میں مصروف ہو تو کیا وہ یہ کام کرے گا؟مثلاً ایک کالج کا لڑکا ہے جو ہیڈ بوائے بھی ہے، کیا وہ اپنی ڈسپلن کی ڈیوٹی ادا کرتے ہوئے ایسا کرسکتا ہے؟ایک دفتر میں یہ کام کرنے والا جیسے ہی اوپر سے کوئی دفتری کام ایمرجنسی میں آتا ہے تو یہ کام جاری رکھے گا؟گھر میں ایسا کام کرنے والا اگر یہ کام کررہا ہو تو کوئی مہمان آجائے تو کیا وہ یہ کام جاری رکھے گا؟ہرگزنہیں، اسے شائبہ بھی نہیں ہوگا کہ یہ کام جاری رکھنا ہے۔یہ غیراختیاری توجہ کا ہٹنا ہے جسے ہم interruption بھی گردان سکتے ہیں یا پھر ذہن کا دوسری طرف بٹنا بھی کہہ سکتے ہیں یعنی Diversion of Mind۔۔۔.
جی جناب تو یہ ہے نفسیاتی نبض۔اب اسی نبض کو اختیاری طور پر حاصل کرنا ہے، شروع میں مشکل ضرور ہوگی لیکن رفتہ رفتہ سہل ہوتا جائے گا اور پھراس لَت سے نجات ملنا شروع ہوجائے گی۔سب سے پہلی اہم اختیاری مداخلت یا ذہن کا بدلنا ہے پنج وقتہ نماز پڑھنا، شروع میں چاہے گھسٹ کر ہی کیوں نا پڑھنی پڑے۔نماز کا ایک اور اہم فائدہ پاکی کی حالت میں رہنا ہے تاکہ فجر سے عشا کا عدد پورا ہوسکے۔ اب دوسرے نمبر پر اپنے فارغ اوقات کا تعین کرنا ہے جس میں اس بْری عادت کی طرف بندہ زیادہ متوجہ ہوتا ہو۔ان فارغ اوقات کو بدل دینا ہے مصروف اوقات سے۔اگر طالبعلم ہیں اور فارغ ہیں تو کوئی زبان سیکھ سکتے ہیں؛ عربی یا انگریزی، آجکل چائینز زبان بھی کافی سیکھی جارہی ہے۔اگر نوکری پیشہ ہیں تو مختصر شارٹ کورسز کرسکتے ہیں۔یہ کورسز ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ ان فارغ اوقات پر بند باندھنے کے لیے ہیں تاکہ یہ نشہ ٹوٹ سکے جب ایک دفعہ نفس پر قابو آجائے گا تو انسان خودبخود اس عادت کی طرف مائل نہیں ہوگا۔
تیسری اہم چیز ہے جس میں جبر کرنا پڑے گا کہ خود زبردستی اْس جگہ کو چھوڑا جائے جہاں اس گناہ کا ارتکاب کرنے لگا ہے۔ شروع میں یقیناً مشکل لگے گا لیکن رفتہ رفتہ آسانی ہوگی۔ جیسے ہی یہ خیال کْوندا ہے اور فراغت بھی ہے تو فوری طور پر والدین کے پاس بیٹھ گئے یا بہن بھائیوں کے پاس یا بیوی بچوں کے پاس اور اْن سے خوش گپیوں میں مشغول ہوگئے۔یہ ذہن کا بدلنا، یہ جگہ کا بدلنا بہت اہم عناصر ہیں جو اس عادتِ بد کو چھوڑنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
ساتھ ساتھ کم از کم ہفتہ وار ایسی مصروفیات ضرور رکھیں جس میں اللہ تبارک تعالیٰ اور رسولِ کریم ﷺکا نام لیا جاتا ہے، یعنی اپنی ہی بری صحبت سے جہاں نکلنا اہم ہے وہاں اچھی صحبت میں جانا اہم ترین ہے۔کبھی یہ سوچ کر ان اچھی جگہوں پر جانا نہ چھوڑیں کہ مجھ سے تو گناہ سرزد ہوتے ہیں، میں تو گناہ گار آدمی ہوں، یہ خیالات یہ وساوس شیطان کی تلبیس اور چال ہے۔اس نشہ نما عادت سے جلد از جلد جان چھڑوانے کی ضرورت ہے، یہ انسان کی ذہنی، جسمانی اور روحانی تینوں استعداد بْری طرح کمزور کرنے والی ہے، اسی سے اس عادتِ بد کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ہرگز ہلکا لینے والی نہیں، چھوڑنا مشکل سہی لیکن ناممکن نہیں بس یہ نفسیاتی کْلیے ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔کبھی کبھی دو نفل حاجات پڑھ کر مانگنا بھی مجرب ہے اور دو نفل توبہ سے اس گناہ کی آگ پر مسلسل پانی بھی چھڑکتے رہنا بھی ہم نسخہ ہے۔
***
کسی کا مذاق اڑانا
یونیورسٹی میں جب نیا نیا جانا ہوا تو وہ یونین کی طاقت کا آخری سال تھا، تین طلباء4 کی تصاویر کے حامل بڑے بڑے بورڈز جابجا نصب تھے۔یہ تین طلبا یونین کے شہدا تھے جن کی مظلومیت کے حق میں اشعار بھی درج تھے۔ معلوم ہوا کہ مخالف لڑکے نے انہیں فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا جب یہ اسلام آباد سے گھوم پھر کر یونیورسٹی بس پر رات دیر سے واپس پہنچے تھے، دو طلبا تو یونین ہی کے تھے جبکہ تیسرا لڑکا عام طالبعلم تھا جو فائرنگ کی زد میں آگیا۔یونین کا دور ختم ہوا، سرکاری ہاتھ اِن کے اوپر سے اْٹھا لیا گیا اور ہم سب نے سْکھ کا سانس لیا۔
وقت گزرتا گیا اور ہم بھی سینیئر ہوتے گئے، پھر ہمارے ایک محترم استاد صاحب نے ایک دن کلاس میں اوپر درج کیے گئے واقعے سے مختلف واقعہ سْنایا۔اْن کا کہنا تھا کہ جس لڑکے نے قتل کیے، وہ مخالف یونین کا رْکن نہیں بلکہ ایک عام طالبعلم تھا۔اس کا قد چھوٹا تھا اور یونین کے لڑکے اپنی روایتی اکڑ اور خودسری میں اس کے قد کا مذاق اْڑایا کرتے تھے۔ اْسے نازیبا جگتیں کستے اور پھر خوب قہقہے مارا کرتے ۔یونین اپنے جوبن پر تھی اس لیے کوئی کچھ کہہ بھی نہیں پاتا تھا۔اس لڑکے کے اندر جو ایک شریف النفس اور بے ضرر لڑکا تھا، لاوہ پکتا رہا اور پھر اْس نے فیصلہ کیا کہ وہ اْن لڑکوں کو قتل کردے گا جو سب سے زیادہ مذاق اْڑانے میں پیش پیش تھے۔ساری منصوبہ بندی کرلی گئی، ویک اینڈ پر یونین کے لڑکے جبراً یونیورسٹی بس لے کر اسلام آباد جایا کرتے تھے اور آوارہ گردی کرکے رات گئے لوٹا کرتے تھے، یہی وقت ہدف بنایا اور ساتھ فرار کی منصوبہ بندی بھی کرلی گئی۔یونین کی طاقت کے اس دور میں یونین کے کرتا دھرتا
لڑکوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک عام چھوٹا سا لڑکا اْن پر ہتھیار اْٹھا سکتا ہے اور پھر وہی ہوا کہ یہ لڑکے مارے گئے اور قاتل خود فرار ہوگیا جس کا بعد میں صحیح پتہ نہ چل سکا کہ کہاں گیا۔
رنگ، قد اور صحت؛ یہ تین چیزیں ہیں جن کا ہمارے اردگرد بہت مذاق اْڑایا جاتا ہے۔
رنگ کالا ہو تو مصیبت؛ کالو شاہ، کالا شاہ کاکو، توا، حبشی، رات ہوگئی اور نہ جانے کیا کیا۔قد چھوٹا ہو تو گرنیڈ اْستاد، ٹَینا، چھوٹو، لمبا ہو تو لمبو، بمبو، کھمبا اور نہ جانے کیا کیا۔
پتلا ہو تو کانگڑی، موٹا ہوتو طرح طرح کے القابات۔مضبوط اعصاب کا ہو یا گھر کی تربیت مضبوط ہو تو ہنس کر ٹال دیا جاتا ہے لیکن شخصیت کمزور ہو اور احساسِ کمتری دل میں گھرکرچکا ہو تو خاموش لاوہ، نفرت اور غصہ اندر پنپتا رہتا ہے۔میں اس لڑکے کے عمل کی ہرگز حمایت نہیں کررہا بلکہ دو باتیں کہنا چاہ رہا ہوں:
ایک، اگر آپ مذاق اْڑانے والے ہیں تو ایسا نہ کیجیے، اللہ نے دوسرے کو جیسا بھی بنایا ہے، وہ بھی آپ کی طرح اللہ کی تخلیق ہے، اْس کی خوبیاں دیکھیے، اْس کی اچھائیاں دیکھیے اور نہیں دیکھ سکتے تو کم ازکم بْرا نہ کہیے۔دو، اگر آپ کا مذاق اْڑ رہا ہے تو یاد رکھیے کہ جتنا ردِ عمل دیں گے تو اْتنا مذاق زیادہ اْڑے گا۔ جتنا ناگواری کا اظہار کریں گے، اْتنا چِڑانے والے مزید چِِڑائیں گے، یہ کوئی ایسے عیب نہیں کہ جن پر اپنی شخصیت کمزور کرلی جائے۔کیا حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا رنگ سیاہ نہیں تھا؟ اور ہمارے ہاں تو اْتنا کالا رنگ ہوتا بھی نہیں۔
کیا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قد چھوٹا نہیں تھا؟اپنی شخصیت کو ان عیوب کے پیچھے نہ چھپائیے اور اپنے اندر وہ محاسن اور خوبیاں پیدا کریں جو اصل مقصود ہیں۔
والدین سے گزارش: اگر آپ کے اپنے بچے یا اردگرد کسی قریبی بچے کا ایسے مذاق اْڑایا جارہا ہے تو اْس بچے کا حوصلہ بڑھائیے ، اْسے بتائیے کہ دنیا تنوع پر قائم ہے، اللہ نے جسے جیسا بنایا وہ اْس کے لیے سب سے بہتر ہے۔ وہ اْس میں سے سب سے زیادہ اچھا اپنا کردار ادا کرسکتا ہے، اپنی شخصیت نکھار سکتا ہے۔ساری دنیا میں قد برابر ہوتے، رنگ ایک جیسے ہوتے، آوازیں ایک جیسی ہوتیں، ہنر ایک جیسے ہوتے تو کیا دنیا کا نظام قائم رہنا تھا، ہر طرف یکسانیت کی وجہ سے بوریت ہی
ہونی تھی۔اور اگر آپ کا بچہ دوسروں کا مذاق اْڑا رہا ہے تو اْس کی حوصلہ افزائی نہ کیجیے بلکہ حوصلہ شکنی کیجیے، اْسے بتائیے کہ اللہ کی بنائی ہوئی تخلیق کا مذاق اْڑانا کتنا بڑا گناہ ہے، کسی کی دل آزای کرنا کتنا بڑا گناہ ہے۔
اسلام آباد میں اسی ضمن میں ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا جب سینٹورس Centaurus میں تیسرے فلور سے ایک بیس سالہ نوجوان نے کْود کر خودکشی کرلی، والدین نے خودکشی کی تردید کی لیکن بعد میں ویڈیو بھی سامنے آگئی جس میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ لڑکا کیسے خود کود رہا ہے۔اس کا نفسیاتی جائزہ جب سامنے آیا تو معلوم ہوا کہ اْس کے رنگ اور پتلی آواز کا مذاق اْڑایا جاتا تھا اور وہ اسی نفسیاتی دباؤ میں تھا جو نہ جانے بچپن سے ایک آسیب کی طرح اْس کا پیچھا کررہا تھا اور جب اعلٰی تعلیمی ادارے میں داخل ہوا تو وہاں سب سے پست اخلاق کے طلبا سے ملاقات ہوئی جہاں یہ دباؤ شدید تر ہوتا گیا اور خودکشی پر منتج ہوا۔یہ اتنا سادہ پہلو نہیں جب ہم یا ہمارا بچہ کسی کا مذاق اْڑاتا ہے یا ہمارے اردگرد کسی بچے کا مذاق اْڑایا جارہا ہو۔ نظر انداز نہ کیجیے، عام بات نہ سمجھیے، کونسلنگ کیجیے، سمجھائیے، ہمت دیجیے، مضبوطی دیجیے۔
معاشرے میں ایسے واقعات ہونے سے روکنا ہمارا کام ہے جن کے پیچھے بظاہر ایک روزمرہ کا عام سمجھے جانے والا رویہ ہے۔

***