ثُمَّ تَوَلَّیٰ إِلَی الظِّلِّ۔۔۔۔
یہ بھی قرآن کی ایسی ہی ایک تعبیر ہے جو لب پہ آتے ہی دل ودماغ کو اپنے پروٹوکول پر لگا دیتی ہے۔ یہ وفا اور حیا کا ایک قصہ ہے جسے سورہ قصص میں بیان کیا گیا ہے۔
پس منظر کچھ یوں ہے کہ حضرت موسیٰ سے فرعون کا ایک بندہ مارا جاتا ہے، کسی مہربان کے بروقت الرٹ کرنے پر مصر سے کوچ کر کے مدین پہنچ جاتے ہیں۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک منڈیر پر دو خواتین اپنے جانور لیے ہجوم کے پیچھے رکی ہیں۔ حضرت آگے بڑھ کر ان سے تعاون کرتے ہیں۔ ان کے جانوروں کو پانی پلا کر ان کے حوالے کر دیتے ہیں۔ قرآن اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ''ثُمَّ تَوَلَّیٰ إِلَی الظِّلِّ'' (پانی پلانے کے بعد موسی نے ایک سائے کی طرف رخ کیا)۔۔ واہ واہ ۔۔ کیا خوبصورت جملہ ہے۔ کیا بلاغت کا خزانہ ہے۔ چار لفظوں میں سب سمجھا دیا۔
ثُمَّ تَوَلَّیٰ إِلَی الظِّلِّ۔۔۔ جی ہاں سایہ، جہاں درجہ حرارت کو اعتدال میں لایا جاتا ہے، جہاں تمازت کو کم کیا جاتا ہے۔ تمازت دھوپ کی ہو یا جذبات کی۔ حیا کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ ہم ایسے نیکی کے کاموں سے شرمانے لگیں، ایسی رفاہی خدمات سے ہچکچانے لگیں، ہاں یہ ضرور تعلیم دی گئی ہے کہ ایسا معاشرتی کردار ادا کرنے کے بعد اپنے جذبات کو انگھیٹی پر رکھنے کے بجائے انہیں سائبان دیجیے۔ خود کو ٹھنڈا کیجیے۔ جیسے انبیاء نے کر کے دکھایا ہے۔ لیکن رکیے!
یہ قصہ ایک پچیس تیس سالہ بھر پور جوان کا ہے جو غیر شادی شدہ ہے۔ یہی نہیں وہ اپنے پورے کنبے کو خیر باد کہہ کر تن تنہا دیارِ غیر میں نو وارد ہے۔ خدا نے انسان کی فطرت ایسی رکھی ہے کہ جس قدر بھی بے لوث ہو اگلے سے اچھائی کی توقع ضرور رکھتا ہے۔ وحشتوں کے اندھیروں میں حضرت موسیٰ کو ان باحیا خواتین کے ساتھ یہ نیکی جگنو کی طرح چمکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ایک آس لگ گئی وہی جو ایسے موقع پر ایک نوجوان کو لگتی ہے، دبے لفظوں اس کا اظہار بھی کیا (رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر)۔ آپ نے خود کو نیکی تک محدود ضرور رکھا، مگر ایسی بھی کیا بے غرضی کہ نیکی کی اور فرشتے کی طرح آناً فاناً غائب۔۔
حیا جب آتی ہے تو کارسپانڈنگ کے آداب بھی سکھا دیتی ہے، چنانچہ حضرت موسیٰ ایک اوٹ میں ہولیے۔ پاس ہی ذرا سائے میں رک گئے۔ یہ حیا سے آراستہ ایک محبت بھرا اقدام تھا، یہ عام سایہ نہیں تھا امید کے درخت کا سایہ تھا۔ یہ سایہ معمولی نہیں تھا یہ جوابی خط کا ایڈریس تھا جو بہت عمدگی سے قاصد کو سمجھا دیا گیا۔سو کچھ ہی دیر میں جواب آجاتا ہے۔ تمشی علی استحیا۔۔ موسیٰ کی محبت حیا کی چادر اوڑھے چلتی آرہی ہے ۔ جناب! ان ابی یدعوک (میرے ابا جی آپ کو یاد فرما رہے ہیں)۔
قصہ مختصر حضرت موسیٰ جب وہاں پہنچتے ہیں اور اپنا تعارف پیش کرتے ہیں (قص علیہ القصص) تو سفارش آجاتی ہے۔
''ابا جان پلیز (یا ابت ۔۔۔) انہیں اجرت پر رکھ لیجیے'' سفارش سنی گئی۔ یہ سفارش حضرت موسیٰ کے لئے اشارہ تھی کہ جذبات دو طرفہ ہیں۔ ابا جی نے فرمایا آٹھ دس سال گھر کی ذمہ داریاں سنبھال کر دکھاؤ تو سوچا جا سکتا ہے۔ بھلا ایسی دو طرفہ محبت کو ٹھکرایا جاسکتا تھا؟ چنانچہ یہ سخت شرط قبول کی، اسے پورا کیا اور صلہ پالیا۔حضرت موسیٰ نے دس سال اس پاکیزہ محبت پر وار دیے اور یہ سبق عام کیا کہ محبت کس قدر انمول دولت ہے، کتنا قیمتی جوہر ہے، جس کی حفاظت پر عمر بھر پہرا دینا پڑتا ہے۔ اس صافی چشمے کو گدلا ہونے سے بچانے کے لئے کہاں تک قربانی دینا پڑتی ہے۔ محبت میں کسی کے لئے مرنے کے قصے تو عام ہیں مگر کسی کے لئے جیا کیسے جاتا ہے یہ ہمیں اس خوبصورت قصے سے معلوم ہوتا ہے۔ اللہ ہم سب کو پاکدامنی نصیب فرمائے۔
٭٭٭