اسلام کے پھلنے پھُولنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے پناہ دلیری اور پرو ایکٹیو دانشمندانہ حکمتِ عملی کا بھی بڑا دخل ہے۔ ویسے تو آخری نبیﷺکی زندگی میں انکی غیر روائیتی بہادری کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں لیکن ایسا ایک واقعہ تو نہایت شاندار ہے۔جب آپﷺ نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مدینہ ہجرت کی،وہاں ایک بڑی سیاسی تبدیلی ہونے والی تھی۔مدینہ کے صدیوں سے باہم لڑتے قبیلے ایک شخص عبد اللہ بن أبی بن سلول کو اپنا مُشترکہ بادشاہ بنانے پر کم و بیش تیار ہو چُکے تھے۔ عبد اللہ بن أبی کے لیے سونے کا تاج بھی تیّار ہو چُکا تھالیکن محمدﷺ اور دیگر مہاجرین کے مدینہ پہنچتے ہی وہاں کے زمینی اور سیاسی حقائق بدل گئے۔ اوس و خزرج جو وہاں باہم لڑنے والے بڑے قبائل تھے کے بیشتر لوگوں نے دیکھتے ہی دیکھتے اسلام قبول کر لیا اور اسلام نے اُنہیں ایسا نظریہ دیا کہ اُنکی وہ باہمی دشمنی ہی ختم ہو گئی جس سے فائدہ اٹھاتے ہُوئے عبد اللہ بن أبی نے وہ معاشرتی مقام حاصل کیا تھا کہ دونوں قبائل اسے بادشاہ بنانے پر راضی تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ آمد سے جس شخص کے سیاسی کیریر کو سب سے بڑا نُقصان پُہنچا وہ عبد اللہ بن أبی تھا۔دونوں قبائل کے کئی سو افراد کی حمایت اسے البتّہ ابھی بھی حاصل تھی اور یہ غُصے سے پھنک رہا تھا۔ایسے میں مکّہ کے قُریشی کُفّار جو نبیﷺ کے زندہ سلامت مکے سے چلے جانے پر سخت غُصے میں تھے ،نے عبد اللہ بن أبی کو ایک خط لکھ کر دھمکی دی جس میں کہا گیا تھا کہ اگر محمدﷺ تُمہارے بیچ زندہ رہے تو ہم تُم پر حملہ آور ہونگے اور اُن کے ساتھ ساتھ تُمہیں بھی قتل کریں گے۔تُمہارے مال اسباب کے ساتھ ساتھ تُمہاری خواتین پر بھی قبضہ کر کے اُنہیں اپنی لونڈیاں بنا لیں گے۔عبد اللہ بن أبی کے ہاتھ تو گویا اس خط کے ذریعے جواز آ گیا، اُس نے قبائل کے سینکڑوں لوگوں کو اکٹھا کر کے اُنہیں بھڑکایا کہ اپنی عزّت اور جان و مال کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ ہم خُود ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیں۔اُسکے ساتھیوں کو بات معقول لگی اور وہ تیار ہو گئے۔عین اسی وقت جب یہ کانفرنس جاری تھی،محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملے کی اطلاع ملی۔آپﷺ بے دھڑک اُس اجتماع میں پُہنچ گئے جہاں آپکے قتل کا مذاکرہ جاری تھا۔یہ آپﷺ کی بے پناہ دلیری اور معاملہ فہمی کی صلاحیت کا زندہ ثبوت تھا۔آپﷺ نے وہاں موجود افراد سے براہِ راست مخاطب ہو کر ایسی مدلل اور جامع ترین گُفتگو کی کہ سبھی لوگ آپﷺ سے قائل ہو کر وہاں سے مُنتشِر ہو گئے اور عبد اللہ بن أبی اُس وقت اکیلا رہ گیا۔گویا محمدﷺ نے بغیر لڑے صرف اپنی بہادری اور حکمت سے سینکڑوں ایسے افراد کو نیوٹرلائز کر دیا جو اُنکے قتل پر پُوری طرح آمادہ تھے۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں ایسے واقعات جا بجا ملتے ہیں جِن میں آپﷺ کی بہادری، دانش و حکمت اور کمیُونیکیشن کی طاقت نے آپﷺ کے جانی دُشمنوں کے دل بدل دیے ۔تبھی میں محمدﷺ کو کائنات کا سب سے دلیر دانِشور کہتا ہُوں۔