عقائد اسلامی کا بیان اور دعوتی پہلو
توحید
عقائد اسلامی میں اولین عقیدہ توحید ہے ، یہی اسلام کا مرکز و محور ہے اور اسلام کے باقی تمام عقائد بھی اسی کے گرد گھومتے ہیں اسی میں اگر خامی ہو توباقی سب کچھ نامکمل ہے ۔توحید اور اس سے متعلقہ تمام مباحث میں ‘‘تدبر ’’کا دعوتی پہلو پورے جوبن پر نظر آتا ہے۔
توحید ِ اسماء و صفات
توحید اسما و صفات بھی توحید کی اقسام میں سے ایک قسم ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی ربوبیت و الوہیت پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی ایمان لایا جائے کہ اللہ رب العزت اپنے تمام ناموں اور صفات میں کامل و اکمل ہے، اس کا ہر نام اور ہر صفت ہر قسم کے نقائص اور عیوب سے پاک ہے۔ پوری کائنات میں اس کے نام اور صفات میں نہ کوئی اس کا ہمسر ہے اور نہ شریک۔جس طرح اللہ کی ذات میں کوئی شریک نہیں ہے اس طرح اللہ کی صفات میں بھی کوئی شریک نہیں ہے ۔اس کی تمام صفات بیک وقت موجود رہتی ہیں جب اس کی کسی ایک صفت کا اظہار ہوتاہے تو اس کی باقی تمام صفات غائب نہیں ہو جاتیں۔اسی طرح اللہ کی تمام صفات اور اسماء بہترین ہیں،لہٰذا ان میں کسی بھی قسم کی تاویل، تعطیل ،تشبیہ یا انکار کا عقیدہ رکھنا صریحاً الحاد ہے۔ اللہ رب العزت کے کسی بھی نام کو اس سے دعا میں وسیلہ بنایا جاسکتا ہے اور یہی سب سے بہترین وسیلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمانِ مبارک ہے:وَللہ الاَسمَآء ْ الحْسنٰی فَادعْوہْ بہا(سورہ الاعراف)نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک آدمی کو سنا وہ ان الفاظ کے ساتھ دعا کررہا تھا:اَللّٰھْمَّ اِنِّی اَسئَلْکَ بِاَنَّکَ اَنتَ اللہْ لَآاِلٰہَ اِلَّآ اَنتَ الاَحَدْ الصَّمَدْ الَّذِی لَم یَلِد وَلَم یْولَد وَلَم یَکْن لَّہ کْفْوًا اَحَد‘‘اے اللہ! بے شک میں تجھ سے سوال کررہا ہوں؛ اس لئے کہ توہی اللہ ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تو ایسا اکیلا بے نیاز ہے کہ تیرا کوئی باپ نہیں اور نہ کوئی اولاد ہے اور نہ ہی کوئی تیرے ہم مثل ہے۔رسولِ معظم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس نے اللہ سے ایسے اسم اعظم کے ذریعے سوال کیا ہے کہ جب اس کے واسطے سے اللہ سے سوال کیا جائے تو وہ ضرور عطا کرے اور دعا کی جائے تو وہ ضرور قبول ہو۔ (ترمذی: کتاب الدعوات، باب جامع الدعوات عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم)
مولانا اصلاحی ؒجب اسمائے الہی کا بیان کرتے ہیں تو ان کے اسلوب میں یہ رنگ صاف جھلکتا ہے کہ و ہ قاری کا تعلق ان صفات الہی سے قائم کر نا چاہتے ہیں صفات باری تعالی کے بیان میں مولانا کا خاص دعوتی اسلوب ہے ۔ان کے خیال میں کہیں بھی اللہ تعالی اپنے اسماء الحسنی کو محض برائے بیت یا خانہ پری کے لیے بیان نہیں کر تے بلکہ ہر ہرمقام پہ ان کا خاص مطلب ہوتاہے جو کہ نہ صرف یہ کہ سورۃ کے نظم کا تقاضا ہوتا ہے بلکہ ان کے ذریعے مومن و کافر دونوں کو ایک خاص پیغام دینا بھی مقصود ہوتا ہے ۔اور وہی خاص پیغام اصل میں ان اسمائے الحسنی کی دعوت ہے چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
رحمان ورحیم
‘‘عربی زبان کے استعمالات کے لحاظ سے فَعلان کا وزن جوش و خروش اور ہیجان پر دلیل ہوتا ہے اور فعیل کا وزن دوام و استمرار اور پائیداری و استواری پر۔ اس وجہ سے ان دونوں صفتوں میں سے کوئی صفت بھی برائے بیت نہیں ہے بلکہ ان میں سے ایک خدا کی رحمت کے جوش و خروش کو ظاہر کر رہی ہے، دوسری اس کے دوام و تسلسل کو۔ غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ خدا کی رحمت اس خلق پر ہے بھی اسی نوعیت سے۔ اس میں جوش ہی جوش نہیں ہے بلکہ پائیداری اور استقلال بھی ہے۔ اس نے یہ نہیں کیا ہے کہ اپنی رحمانیت کے جوش میں دنیا تو پیدا کر ڈالی ہو لیکن پیدا کر کے پھر اس کی خبر گیری اور نگہداشت سے غافل ہو گیا ہو بلکہ اس کو پیدا کرنے کے بعد وہ اپنی پوری شان رحیمیت کے ساتھ اس کی پرورش اور نگہداشت بھی فرما رہا ہے۔ بندہ جب بھی اسے پکارتا ہے وہ اس کی پکار سنتا ہے اور اس کی دعاؤں اور التجاؤں کو شرف قبولیت بخشتا ہے۔ پھر اس کی رحمتیں اسی چند روزہ زندگی تک محدود نہیں ہیں بلکہ جو لوگ اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے رہیں گے ان پر اس کی رحمت ایک ایسی ابدی اور لازوال زندگی میں بھی ہو گی جو کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ غور کیجئے تو معلوم ہو گا کہ یہ ساری حقیقت اس وقت تک ظاہر نہیں ہو سکتی جب تک یہ دونوں لفظ مل کر اس کو ظاہر نہ کریں’’( اصلاحی، امین احسن، - ‘‘تدبر قرآن’’، ج ا ، ص ۴۸ ،فاران فاؤنڈیشن ،لاہور )
اس کے بالمقابل دیکھیے کہ مولانا مودودی ؒ کے خیال میں یہاں لفظ رحمان و رحیم کا استعمال بالکل اسی طرح ہے جس طرح ہم اردو میں لمبا تڑنگا یا گورا چٹا کہتے ہیں۔ یعنی اصل میں دونوں کا مفہوم ایک ہی ہوتاہے صرف مبالغہ آرائی مقصود ہوتی ہے ۔مولانا مودودیؒ کہتے ہیں:‘‘خدا کی رحمت اور مہربانی اپنی مخلوق پر اتنی زیادہ ہے کہ اس کے بیان میں بڑے سے بڑا مبالغے کا لفظ بول کر بھی جی نہیں بھرتا۔ اس لیے اس کی فراوانی کا حق ادا کرنے کے لیے پھر رحیم کا لفظ مزید استعمال کیا گیا۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ہم کسی شخص کی فیاضی کے بیان میں سخی کا لفظ بول کر جب تشنگی محسوس کرتے ہیں تو اس پر داتا کا اضافہ کر تے ہیں۔ رنگ کی تعریف میں جب گورے کو کافی نہیں پاتے تو اس پر چٹے کا لفظ اور بڑھا دیتے ہیں درازیِ قد کے ذکر میں جب لمبا کہنے سے تسلی نہیں ہوتی تو اس کے بعد تڑ نگا بھی کہتے ہیں۔’’( مودودی ، ابوالاعلی مودودی ،تفہیم القرآن، ج۱، ص۴۴، مکتبہ تعمیر انسانیت، لاہور)
دونوں تفاسیر اور مفسرین کا تقابل کیجیے تو صاف نظر آتا ہے کہ مولانا اصلاحی کس طرح ان اسمائے الحسنی کے بیان میں اس دعوت کو پوری طرح قاری کے دل میں اتا ر دینا چاہتے ہیں کہ اللہ نہ صرف اس کائنات کا خالق ہے بلکہ مالک بھی ہے ۔ وہ اس کائنات کو پیدا کر کے فارغ نہیں ہو گیا بلکہ اس کا ذرہ ذرہ اسی کے کنٹرول میں ہے اور اسی کے حکم کا محتا ج ہے۔ مولانا کی تحریر سے نہ صرف قاری کے دل و دماغ میں اللہ کی صفت رحمان و صفت رحیمیت کا باریک فرق سامنے آجاتاہے بلکہ اس پر ان نظریات کا رد بھی واضح ہو جاتا ہے کہ جن کے مطابق اللہ خالق تو ہے مگر اب اس نے اپنے اختیارات دیوی ، دیوتاؤں یا اپنے پسندیدہ بندوں کو سونپ دیے ہیں۔ یہ تحریر پورے زور سے اس بات کو واضح کر رہی ہے کہ اللہ روز ازل سے لے کر روز ابد تک اس کا ئنات کا تن تنہاخالق و مالک ہے اس نے اپنے اختیارات نہ توکسی کو سونپے ہیں اور نہ ہی ان میں کسی کو شریک کیا ہے ۔فرشتوں سے لے کر انبیا تک اور انبیاسے لے کر اولیا ء تک سب اسی کے بندے اور سب اسی کے حکم کے محتاج ہیں۔رحمان و رحیم کی صفات کی مزید وضاحت مولانا نے سورہ بقرہ کی آیت ۶۳ا (وا لہکم الہ واحد لا الہ الا ہو الرحمن الرحیم۔۔۔) کے ضمن میں بھی کی ہے۔یہاں مولانا نے ایک نہایت لطیف نکتے کی وضاحت کی ہے ۔ مولانا فرماتے ہیں کہ شرک کے اسبا ب و محرکات میں سے ایک بہت بڑا سبب خدا کے ہر قسم کے شغل و عملًااور ہر نو ع کے تعلق سے ارفع اور بالا تر ہونے کا تصور بھی ہے ۔ یہ تصور خدا کی بے نیازی کو اس قد ر بڑھا دیتا ہے کہ گویا مخلوق سے اس کا کوئی تعلق ہے ہی نہیں۔ قرآن مجید نے اللہ تعالی کی صفت رحمان و رحیمیت کو بار با ربیان کر کے گویا اس تصور کی جڑکاٹ دی ہے کہ خدا مخلوق سے الگ تھلگ ایک ہستی ہے جسے مخلوق سے کوئی سرو کار نہیں۔ یہ صفات مخلوق کو اس پر آمادہ کرتی ہیں کہ وہی تو ہے جس کا دامن رحمت سب کو ڈھانپ لیتا ہے اور وہی رحمان ورحیم ہی سب کے لیے مرجع اور سب کے لیے سہارے کی چٹا ن ہے ۔ اسی طرح مشر ک اور بت پرست قوموں نے خدا کے قہر و غضب کو اتنا بڑھایا کہ اس سے بچنے کے لیے انہیں دیوی دیوتاؤں کا سہارا لینا پڑا۔ لیکن ان صفات نے انسان پر واضح کیا کہ اسکی پناہ میں آنے کے لیے کسی بیرونی واسطے اور سہار ے کی ضرورت نہیں ۔ اس کا دروازہ سب کے لیے ہر وقت کھلا ہے ۔ یہی بات ایک اور انداز سے وا ذا سأ لک عبادی۔۔۔۔۔۔میں بیان کی گئی ہے۔
عزیز اور حکیم ،علیم اور حکیم
قرآن مجید میں ا ن صفات کا ذکر بھی عام طور پر ایک ساتھ ہوتا ہے یہاں بھی عام طور پر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ غالبا ً صوتی آہنگ کے استمرار کے لیے یہ الفاظ لائے گئے ہیں حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں قرآن مجید میں نہ تو کوئی ایک لفظ زائد ہے اور نہ بے مقصد۔ مولانا اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:‘‘ عزیز کے معنی غالب اور عزت وقوت والے کے ہیں۔ یعنی وہ ذات جو پوری قوت وصولت اور پورے اختیار واقتدار کے ساتھ اس کائنات پر فرمانروائی کر رہی ہے۔۔۔ حکیم کے معنی ہیں جس کے ہر کام میں حکمت، مصلحت اور مقصد و غایت ہو۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی ان دونوں صفتوں کا حوالہ بالعموم ایک ساتھ آتا ہے۔ اس سے اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کائنات پر پوری قوت اور پورے غلبے کے ساتھ حاوی اور متصرف ہے لیکن اس کے اس غلبہ واقتدار کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ اس کے زور میں جو چاہے کر ڈالے، بلکہ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے حکمت و مصلحت کے ساتھ کرتا ہے۔ اس کا کوئی کام بھی حکمت ومصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔’’(اصلاحی، امین احسن، - ‘‘تدبر قرآن’’، ج ا ، ص ۳۴۲، فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)
‘‘پھر فرمایا کہ وہ ایسا کیوں نہ کرے گا جب کہ وہ وحدہ لا شریک بھی ہے اورعزیز و حکیم بھی۔ اس کی عزت اور حکمت دونوں کا تقاضا ہے کہ وہ ایسا کرے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ یا تو وہ بے بس اور حق کے لیے غیرت سے خالی ہے یا وہ ایک کھلنڈرا ہے جس نے دنیا کو محض ایک کھیل تماشا بنایا ہے۔ ظاہر ہے کہ خدا کی عظیم ہستی کے متعلق اس قسم کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ’’(اصلاحی، امین احسن، - ‘‘تدبر قرآن’’، ج ۲ ، ص ۵۱، فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)
‘‘یہ اس قانونِ الٰہی کی قوت اور حکمت دونوں ہی پہلوؤں کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے تمام قوانین و احکام اس کی صفت کا عکس ہیں۔ وہ عزیز اور غالب ہے اس وجہ سے اس کو حق ہے کہ وہ جو چاہے حکم دے اور حکیم ہے اس وجہ سے اس کا ہر حکم حکمت و مصلحت پر مبنی ہے، اس کے بندوں کے لیے نہ تو اس کے حکم سے سرتابی جائز ہے اور نہ ان کے لیے یہ زیبا ہے کہ وہ اس کے کسی حکم کو خلاف حکمت و مصلحت قرار دیں۔’’(اصلاحی، امین احسن، - ‘‘تدبر قرآن’’، ج ۲، ص ۵۱۳، فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)
‘‘اِن شَآء َ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیم حَکِیم’ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ یہ چیز بہرحال اللہ ہی کی مشیت پر منحصر ہے اور اللہ کی مشیت اس کے علم و حکمت پر مبنی ہے۔ تنگی یا کشادگی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں، اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ اس وجہ سے اصل بھروسہ اللہ ہی پر ہونا چاہیے جس کا ہر کام علم و حکمت پر مبنی ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اسلام میں اصلی قدر و قیمت روحانی و ایمانی اقدار کی ہے۔ سیاسی اور معاشی مصالح ان کے تحت ہیں۔ ایمانی اقدار کے لیے معاشی مصالح قربان کیے جا سکتے ہیں لیکن پیٹ اور تن کے مفاد پر ایمان کو قربان نہیں کیا جا سکتا۔’’(اصلاحی، امین احسن، - ‘‘تدبر قرآن’’، ج ۲ ، ص ۵۵۶، فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)
قیام عدل پر صفاتِ الٰہی سے استدلال
‘‘کوئی یہ نہ سمجھے کہ خدا کی اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اس سے وہ بے خبر رہتا ہے۔ اس سے کوئی بات بھی مخفی نہیں رہتی، خواہ وہ بڑی ہویا چھوٹی، اور خواہ زمین میں پیش آئے یا آسمانوں میں ،خدا کا علم ہر چیز اور ہر جگہ کو محیط ہے اور محیط کیوں نہ ہو اسی نے تو سب کو پیداکیا اور وہی ہے جو رحموں کے اندر صورت گری فرماتا ہے تو جس نے پیدا کیا اور جس نے صورت گری فرمائی کیا وہ بھی بے خبر ہو سکتا ہے اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَق (کیا جس نے پیدا کیا وہ بھی نہ جانے گا)اس کے بعد توحید اور خدا کی صفات میں عزیز اور حکیم کا حوالہ دیا۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ محیط کل علم رکھنے والی ہستی اگر قیام عدل و قسط کا اہتمام نہ کرے تو اس کی وجہ یا تو یہ ہو سکتی ہے کہ اس کو عزت وقدرت حاصل نہیں ہے یا عزت و قدرت تو حاصل ہے لیکن اس کو اپنے کاموں میں کسی حکمت و مصلحت کی کوئی پروا نہیں، بس ایک کھلنڈرے کا کھیل ہے، خیر ہو یا شر، ظلم ہو یا انصاف اس سے اسے کچھ بحث نہیں، دونوں ہی چیزیں اس کی نظر میں یکساں ہیں یہ خیال بالبداہت باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ عزیز بھی ہے اور حکیم بھی، اسے ہر چیز پر قدرت بھی حاصل ہے اور اس کے ہر کام میں عدل و حکمت بھی ہے اور ساتھ ہی وہ ہر چیز سے با خبر بھی ہے تویہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ ان لوگوں سے انتقام نہ لے گا جو اللہ کی اس کتاب کا انکار کریں گے جو اس نے دنیا میں ازسرِ نو حق و عدل کے آثار و اعلام کو اجاگر کرنے کے لیے نازل فرمائی ہے۔’’ اصلاحی، امین احسن، - (‘‘تدبر قرآن’’، ج ۲، ص ۱۹، فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)
لطیف و خبیر
‘‘لَطِیف خَبِیر’ کی صفات کا حوالہ یہاں نہایت لطیف طریقہ سے آیا ہے۔ ‘لَطِیف’ کے معنی باریک بیں اور دقیقہ رس کے ہیں۔ یعنی وہ اپنی تدبیروں کو اس طرح بروئے کار لاتا ہے کہ کسی کو ان کا سان گمان بھی نہیں ہوتا۔ وہ بڑی خبر رکھنے والا ہے۔ لوگ صرف ظاہر کو دیکھتے ہیں لیکن وہ ماضی کے پردوں میں جو کچھ چھپا ہوا ہے اس سے بھی باخبر ہے اور مستقبل کے اوٹ میں جو کچھ ہے اس سے بھی باخبر ہے۔’’اصلاحی، امین احسن، -( ‘‘تدبر قرآن’’، ج ۵ ، ص ۲۸۱، فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)
علیم و خبیر
‘‘علیم و خبیر کی صفات کے حوالے سے مقصود ہر ایک کو تنبیہ کرنا ہے کہ خدا اچھی طرح با خبر ہے کہ اس قضیے میں کس کا رول کیا رہا ہے اور اسی کے مطابق وہ اس کے ساتھ معاملہ کرے گا۔’’(اصلاحی، امین احسن، ‘‘تدبر قرآن ’’ ، ج ۳، ص ۲۹۴، فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)
غفور ، رحیم
‘‘اللہ تعالیٰ بڑا ہی غفور رّحیم ہے۔ وہ تمہاری کوتاہیوں اور خامیوں سے درگزر فرمائے گا، صلہ دینے میں ذرا بھی کمی نہیں کرے گا۔ اس بات کا کوئی اندیشہ نہیں ہے کہ تمہارے اعمال کی قیمت کم کرنے کے لیے تمہارے چھوٹے چھوٹے نقائص کو بہانہ بنائے۔ اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ اگر اب تک تمہارے ذہن میں یہ غلطی سمائی رہی ہے کہ
ہے کہ اسلام کے لیے تم نے جو کچھ کیا یہ اللہ اور رسول پر تمہارا احسان ہے تو اب اس تنبیہ کے بعد تم اس غلطی کی اصلاح کرو اور اللہ سے مغفرت مانگو، وہ تمہاری مغفرت فرمائے گا۔ وہ بڑا ہی بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔’’(اصلاحی، امین احسن، - ‘‘تدبر قرآن’’، ج ۷ ، ص ۵۲۱، فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)
توحیدکے دلائل کے بیان میں دعوتی انداز
توحید کی دلیل، اضداد میں ہم آہنگی
مولانا کا خاص انداز ہے کہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر توحید کی وضاحت کرتے ہوئے ایسا اانداز اختیار کرتے ہیں کہ قاری کے دل میں یہ بات اتر جائے کہ توحید کی اہمیت کیا ہے ، یہ کیوں ضروری ہے اور اس کے عقلی و نقلی دلائل کیا ہیں؟توحید کے دلائل کے بیان میں مولانا چاہتے ہیں کہ ایک بندہ مومن کو دل کی گہرائیوں سے توحید پر اطمینا ن حاصل ہو جائے تا کہ زندگی کے کسی مقام اور کسی مرحلے پر بھی اس کا ایمان نہ ڈگمگائے اور نہ اس میں کوئی فرق پڑے۔مثلاً سورہ بقرہ آیات ا۲ تا ۲۹ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ‘‘اس مجموعہ آیات میں توحیداور رسالت کی دلیلیں بیان ہوئی ہیں۔ توحید کی دلیل اس توافق اور ہم آہنگی کے پہلو سے ہے جو اس کائنات کے تمام اضداد کے اندر پائی جاتی ہے۔زمین آسمان، شب وروز، نور ظلمت، سردی گرمی، عورت مرد وغیرہ۔ بہ ظاہر یہ گمان ہوتا ہے کہ شاید یہ کائنات اضداد اور باہم نبرد آزما قوتوں اور طاقتوں کی ایک رزمگاہ ہے۔چنانچہ یہی دھوکا بعض قوموں کو ہوا جس کے سبب سے انھوں نے نور اور ظلمت، نیکی اور بدی کے الگ الگ خالق ٹھیرالیے۔ اس قسم کی غلط فہمی میں مبتلا ہو کر اہل عرب بھی زمین کے لیے الگ اور آسمان کے لیے الگ دیوتا مانتے تھے۔ قرآن مجید نے اسی مغالطے کو یہاں رفع کیا ہے کہ اس کائنات میں جو تضاد نظر آتا ہے، وہ محض ظاہری ہے۔ حقیقتاً ان اضداد میں نہایت گہرے قسم کا توافق ہے۔ زمین بستر کی طرح بچھی ہوئی ہے اور آسمان شامیانے کی طرح تناہوا ہے۔ اس توافق کے ہوتے ہوئے یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ زمین کے اندر کسی اور دیوتا کا ارادہ کارفرما ہو اور آسمان میں کسی اور کی خدائی چل رہی ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو اختلاف کے نتیجے میں یہ دونوں خود بھی درہم برہم ہوجاتے اور ان کے ساتھ وہ بھی پس جاتے جو اس چکی کے دونوں پاٹوں کے بیچ آجاتے۔ ’’(اصلاحی، امین احسن، - ‘‘تدبر قرآن’’، ج ا ، ص ۱۴۷، فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)
اب انہی آیات کے تحت مولانا مودودی ؒ کی وضاحت دیکھئے ۔ وہ بالکل سرسری سے انداز میں تذکر ہ کر کے گزر جاتے ہیں ۔ لکھتے ہیں
‘‘یعنی جب تم خود بھی اِس بات کے قائل ہو اور تمہیں معلوم ہے کہ یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں، تو پھر تمہاری بندگی اسی کے لیے خاص ہونی چاہیے، دْوسرا کون اس کا حق دار ہو سکتا ہے کہ تم اس کی بندگی بجا لاؤ ؟ دْوسروں کو اللہ کا مدِّ مقابل ٹھہرانے سے مْراد یہ ہے کہ بندگی و عبادت کی مختلف اقسام میں سے کسی قسم کا رویّہ خدا کے سوا دْوسروں کے ساتھ برتا جائے۔ آگے چل کر خود قرآن ہی سے تفصیل کے ساتھ معلوم ہو جائے گا کہ عبادت کی وہ اقسام کون کون سی ہیں جنہیں صِرف اللہ کے لیے مخصوص ہونا چاہیے اور جن میں دْوسروں کو شریک ٹھہرانا وہ ‘‘ شرک’’ ہے ، جسے روکنے کے لیے قرآن آیا ہے۔’’ (مودودی ، ابوالاعلی مودودی ،تفہیم القرآن ، ج ا ، ص ۵۷،ادارہ ترجمان القرآن لاہور )
توحیدمیں تفویض کاپہلو
‘‘تفویض کا پہلو یہ ہے کہ اللہ کے عہد بندگی پر قائم رہنے والوں کو جو مشکلیں اور اذیتیں پیش آتی ہیں وہ ہر چیز کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرتے ہیں اس لئے کہ انہیں یہ اعتماد ہوتا ہے کہ وہ جس کی راہ میں یہ سب کچھ جھیل رہے ہیں، ہر قدم پر اسی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پھر جب آگے وہ ہے جس کی طلب ہے تو پیچھے کے اس سارے شوروغوغا کی کیا پروا۔کیا غم ہے اگر ساری خدائی ہو مخالف کافی ہے اگر ایک خدا میرے لئے ہے ۔’’ (اصلاحی، امین احسن، - ‘‘تدبر قرآن’’،ج ا ، ص۹۴ا ،فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)