تدبر کے ترجمے کا دعوتی اسلوب و تقابلی مطالعہ
مولانا نے قرآن مجید کا جو ترجمہ کیا ہے وہ عصری اسلو ب میں ہے جسے پڑھنا اور سمجھنا آسان ہے ۔اس میں نہ تو متروک الفاظ و محاورات کااستعمال ہے اور نہ ہی اس میں غیر ضروری عربی اورفارسی تراکیب ہیں۔ مزید برآں اس میں روانی اور تسلسل بھی ہے جسے پڑھ کرلفظی ترجموں کی طرح یکسانیت یا بیزاری کا احساس نہیں ہوتا۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مولانا کے ترجمے کا اسلوب بھی بذات خو د ایک دعوت ہے اور یہ دعوت قاری کا رشتہ قرآن سے مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے ۔
مثلاً سورۃ بقرۃ ۸۴۔۔۸۶
وَإِذْ أَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ لاَ تَسْفِکُونَ دِمَاء کُمْ وَلاَ تُخْرِجُونَ أَنفُسَکُم مِّن دِیَارِکُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْہَدُونَ (84) ثُمَّ أَنتُمْ ہَـؤُلاء تَقْتُلُونَ أَنفُسَکُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِیْقاً مِّنکُم مِّن دِیَارِہِمْ تَظَاہَرُونَ عَلَیْہِم بِالإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِن یَأتُوکُمْ أُسَارَی تُفَادُوہُمْ وَہُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیْکُمْ إِخْرَاجُہُمْ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَتَکْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاء مَن یَفْعَلُ ذَلِکَ مِنکُمْ إِلاَّ خِزْیٌ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یُرَدُّونَ إِلَی أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللّہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (85) أُولَـئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُاْ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا بِالآَخِرَۃِ فَلاَ یُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَلاَ ہُمْ یُنصَرُونَ (86)
‘‘اور یاد کرو جب کہ ہم نے تم سے اقرار لیا کہ اپنوں کا خون نہ بہاؤ گے اور اپنوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالو گے۔ پھر تم نے ان باتوں کا اقرار کیا اور تم اس کے گواہ ہو۔پھر تم ہی لوگ ہو کہ اپنوں کو قتل کرتے ہو اور اپنے ہی ایک گروہ کو ان کی بستیوں سے نکالتے ہو۔ پہلے ان کے خلاف حق تلفی اور زیادتی کر کے ان کے دشمنوں کی مدد کرتے ہو۔ پھر اگر وہ تمہارے پاس قیدی ہو کر آتے ہیں تو ان کا فدیہ دے کر چھڑاتے ہو حالانکہ سرے سے ان کا نکالنا ہی تمہارے لیے حرام تھا۔ کیا تم کتاب الٰہی کے ایک حصہ پر ایمان رکھتے ہو اور اس کے دوسرے حصے کا انکار کرتے ہو؟ جولوگ تم میں سے ایسا کرتے ہیں ان کی سزا دنیا کی زندگی میں رسوائی کے سوا اور کچھ نہیں اور آخرت میں یہ شدید ترین عذاب کی طرف بھیجے جائیں گے۔ اللہ اس چیز سے بے خبر نہیں ہے جو تم کر رہے ہو۔یہی لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی تو نہ تو ان کا عذاب ہی ہلکا کیا جائے گا اور نہ ان کو کوئی مدد ہی پہنچے گی۔
دیگر تراجم سے تقابلی جائزہ
شاہ عبدالقادر ؒ
‘‘اور جب لیا ہم نے اقرار تمھارا، نہ کرو گے خون آپس میں، اور نہ نکال دو گے اپنوں کو اپنے وطن سے، پھر تم نے اقرار کیا اور تم مانتے ہو۔ پھر تم ویسے ہی خون کرتے ہو آپس میں، اور نکال دیتے ہو اپنے ایک فرقے کو ان کے وطن سے، چڑھائی کرتے ہو ان پر گناہ سے، اور ظلم سے۔ اور اگر وہی آویں تم پاس کسی کی قید میں پرے، تو ان کی چھڑوائی دیتے ہو، اور وہ بھی حرام ہے تم پر ان کا نکال دینا۔ پھر کیا مانتے ہو تھوڑی کتاب اور منکر ہوتے ہو تھوڑی سے؟ پھر کچھ سزا نہیں اس کی، جو کوئی تم میں یہ کام کرتا ہے، مگر رسوائی دنیا کی زندگی میں۔ اور قیامت کے دن پہنچائے جاویں سخت سے سخت عذاب میں۔ اور اللہ بے خبر نہیں تمھارے کام سے۔ وہی ہیں جنھوں نے خرید کی دنیا کی زندگی آخرت دے کر۔ سو نہ ہلکا ہو گا ان پر عذاب اور نہ ان کو مدد پہنچے گی’’۔
مولانا اشرف علی تھانویؒ
‘‘ اور (وہ زمانہ بھی یاد کرو) جب ہم نے تم سے یہ قول و قرار بھی لیا کہ باہم خونریزی مت کرنا اور ایک دوسرے کو ترک وطن مت کرنا۔ پھر تم نے اقرار بھی کر لیا اور اقرار بھی ضمناً نہیں بلکہ ایسا صریح جیسے تم شہادت دیتے ہو۔ پھر تم یہ (آنکھوں کے سامنے موجود ہی) ہو کہ قتل قتال بھی کرتے ہو اور ایک دوسرے کو ترک وطن بھی کرتے ہو اس طور پر کہ ان نبیوں کے مقابلہ میں ان کی مخالف قوموں کی مدد کرتے ہو گناہ اور کفر کے ساتھ اور ان لوگوں میں سے کوئی گرفتار ہو کر تم تک پہنچ جاتا ہے تو ایسوں کو کچھ خرچ کرکرا کر رہا کرا دیتے ہو حالانکہ یہ بات (بھی معلوم) ہے کہ تم کو ان کا ترکِ وطن گرا دینا نیز ممنوع ہے تو کیا (پس یوں کہو کہ) کتاب (توریت) کے بعض (احکام) پر تم ایمان رکھتے ہو اور بعض پر ایمان نہیں رکھتے ہو اور کیا سزا ہو ایسے شخص کی جو تم لوگوں میں سے ایسی حرکت کے بجز رسوائی کے دنیوی زندگانی میں۔ اور روزِ قیامت کو بڑے سخت عذاب میں ڈال دیے جاویں۔ اور اللہ تعالیٰ (کچھ) بے خبر نہیں ہیں تمھارے اعمال (زشت) سے۔یہ وہ لوگ ہیں کہ انھوں نے دنیوی زندگانی (کے حظوظ) کو لے لیا ہے بعوض (نجات) آخرت کے، سو نہ تو ان کی سزا میں (کچھ) تخفیف کی جاوے گی اور نہ کوئی ان کی طرفداری (پیروی) کرنے پاوے گا ۔’’
مولانا احمد رضا خانؒ
‘‘اور جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ اپنوں کا خون نہ کرنا اور اپنوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالنا پھر تم نے اس کا اقرار کیا اور تم گواہ ہو۔پھر یہ جو تم ہو اپنوں کو قتل کرنے لگے اور اپنے میں سے ایک گروہ کو ان کے وطن سے نکالتے ہو، ان پر مدد دیتے ہو (ان کے مخالف کو) گناہ اور زیادتی میں اور اگر وہ قیدی ہو کر تمھارے پاس آئیں تو بدلہ دے کر چھڑا لیتے ہو اور ان کا نکالنا تم پر حرام ہے تو کیا خدا کے کچھ حکموں پر ایمان لاتے ہو اور کچھ سے انکار کرتے ہو تو جو تم میں ایسا کرے اس کا بدلہ کیا ہے مگر یہ کہ دنیا میں رسوا ہو اور قیامت میں سخت تر عذاب کی طرف پھیرے جائیں گے اور اللہ تمھارے کوتکوں سے بے خبر نہیں۔ یہ ہیں وہ لوگ جنھوں نے آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی مول لی تو نہ ان پر سے عذاب ہلکا ہو اور نہ ان کی مدد کی جائے’’۔
مولانا محمد جونا گڑھیؒ
‘‘اور جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ اپنوں کا خون نہ کرنا اور اپنوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالنا پھر تم نے اس کا اقرار کیا اور تم گواہ ہو۔پھر یہ جو تم ہو اپنوں کو قتل کرنے لگے اور اپنے میں سے ایک گروہ کو ان کے وطن سے نکالتے ہو، ان پر مدد دیتے ہو (ان کے مخالف کو) گناہ اور زیادتی میں اور اگر وہ قیدی ہو کر تمھارے پاس آئیں تو بدلہ دے کر چھڑا لیتے ہو اور ان کا نکالنا تم پر حرام ہے تو کیا خدا کے کچھ حکموں پر ایمان لاتے ہو اور کچھ سے انکار کرتے ہو تو جو تم میں ایسا کرے اس کا بدلہ کیا ہے مگر یہ کہ دنیا میں رسوا ہو اور قیامت میں سخت تر عذاب کی طرف پھیرے جائیں گے اور اللہ تمھارے کوتکوں سے بے خبر نہیں۔ یہ ہیں وہ لوگ جنھوں نے آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی مول لی تو نہ ان پر سے عذاب ہلکا ہو اور نہ ان کی مدد کی جائے۔’’
مولانا مودودیؒ
‘‘پھر ذرا یاد کرو، ہم نے تم سے مضبوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا اور نہ ایک دوسرے کو گھر سے بے گھر کرنا۔ تم نے اس کا اقرار کیا تھا، تم خود اس پر گواہ ہو۔مگر آج وہی تم ہو کہ اپنے بھائی بندوں کو قتل کرتے ہو، اپنی برادری کے کچھ لوگوں کو بے خانماں کر دیتے ہو، ظلم و زیادتی کے ساتھ ان کے خلاف جتھے بندیاں کرتے ہو، اور جب وہ لڑائی میں پکڑے ہوئے تمھارے پاس آتے ہیں، تو ان کی رہائی کے لیے فدیہ کا لین دین کرتے ہو، حالانکہ انھیں ان کے گھروں سے نکالنا ہی سرے سے تم پر حرام تھا۔ توکیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں، ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں؟ اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے جو تم کر رہے ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں، جنھوں نے آخرت بیچ کر دنیا کی زندگی خرید لی ہے، لہٰذا نہ ان کی سزا میں کوئی تخفیف ہو گی اور نہ انھیں کوئی مدد پہنچ سکے گی۔’’
اس کا اگر ہم تقابلی جائزہ لیں تو مولانا موددوی کاترجمہ اس کے ہم پلہ کہا جاسکتا ہے جبکہ دیگر بزرگوں کے تراجم میں بہر حال وہ سلاست روانی اور دعوتی اسلوب مفقود ہے ۔البتہ اس میں شاہ عبدالقاد ر ؒ کے ترجمے کا استثنا ہے کیونکہ یہ وہ پہلا ترجمہ ہے جس نے باقی تمام تراجم کی راہیں کھولی ہیں۔ اپنے زمانے کے اعتبار سے یہ بہر حال ایک بہت نایاب چیز ہے۔
ایک اور مثال ملاحظہ کیجیے ۔
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَکُم مِّنَ الأَرْضِ وَلاَ تَیَمَّمُواْ الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِیْہِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِیْہِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ (267)
‘‘اے ایمان والو، اپنے کمائے ہوئے پاکیزہ مال میں سے خرچ کرو اور ان چیزوں میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کی ہیں اور اس میں سے وہ مال تو خرچ کرنے کا خیال بھی نہ کرو، جس کو خدا کی راہ میں تو خرچ کرنے پر آمادہ ہو جاؤ لیکن اگر وہی مال تمہیں لینا پڑ جائے تو بغیر آنکھیں میچے اس کو نہ لے سکو اور اس بات کو خوب یاد رکھو کہ اللہ بے نیاز اور ستودہ صفات ہے۔’’
شاہ عبدالقادرؒ
‘‘اے ایمان والو! خرچ کرو ستھری چیزیں اپنی کمائی میں سے، اور جو ہم نے نکال دیا تم کو زمین میں سے، اور نیت نہ رکھو گندی چیز پر کہ خرچ کرو اور تم آپ وہ نہ لو گے، مگر جو آنکھیں موند لو اور جان رکھو کہ اللہ بے پروا ہے، خوبیوں والا’’
مولانا اشرف علی تھانویؒ
‘‘اے ایمان والو (نیک کام میں) خرچ کیا کرو عمدہ چیز کو اپنی کمائی میں سے اور اس میں سے جو کہ ہم نے تمھارے لیے زمین سے پیدا کیا ہے۔ اور ردی (ناکارہ) چیز کی طرف نیت مت لے جایا کرو کہ اس میں سے خرچ کرو حالانکہ تم کبھی اس کے لینے والے نہیں، ہاں مگر چشم پوشی کر جاؤ (تو اور بات ہے) اور یقین کر رکھو کہ اللہ تعالیٰ کسی کے محتاج نہیں، تعریف کے لائق ہیں’’
مولانا احمد رضا خانؒ
‘‘اے ایمان والو، اپنی پاک کمائیوں میں سے کچھ دو اوراس میں سے جو ہم نے تمھارے لیے زمین سے نکالا اور خاص ناقص کا ارادہ نہ کرو کہ دو تو اس میں سے اور تمھیں ملے تو نہ لو گے جب تک اس میں چشم پوشی نہ کرو اور جان رکھو کہ اللہ بے پروا سراہا گیا ہے’’
مولانا محمد جونا گڑھیؒ
‘‘اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور زمین میں سے تمھارے لیے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو۔ ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرنا، جسے تم خود لینے والے نہیں ہو، ہاں گر آنکھیں بند کر لو تو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ بے پروا اور خوبیوں والا ہے۔’’
مولانامودودیؒ
‘‘اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمھارے لیے نکالا ہے، اُس میں سے بہتر حصہ راہ ِخدا میں خرچ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی راہ میں دینے کے لیے بری سے بری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو، حالانکہ وہی چیز اگر کوئی تمھیں دے تو تم ہر گز اُسے لینا گوارا نہ کرو گے اِلاّ یہ کہ اس کو قبول کرنے میں تم اغماض برت جاؤ۔ تمھیں جان لینا چاہیے کہ اللہ بے نیاز ہے اور بہترین صفات سے متصف ہے۔’’