ہم پانچوں دوست تقریباً دس سال بعد ملے۔تین گھنٹے کی ملاقات میں آدھ گھنٹہ گپ شپ کی ہوگی۔باقی وقت فیس بک چیک کرنے، واٹس ایپ کے پیغامات کی ترسیل اور چھان بین اور انٹ شنٹ کالوں کا جواب دینے اور اسی طرح کے 'ارجنٹ' مگر غیر ضروری کاموں میں صرف ہوگیا۔ اٹھنے لگے تو ایک دوست کی بات یاد آئی جس نے کہا تھا کہ کچھ عرصے بعد امارت اور سٹیٹس کا سمبل یہ ہوگا کہ بندہ فیس بک پر موجود نہیں ہے اور نہ ہی کسی قسم کے فون پر دستیاب ہے۔
نوبل انعام یافتہ ڈیسمنڈ ٹوٹو نے اس حوالے سے شاندار مثال دی ہے۔انہوں نے کہا کہ شروع شروع میں جب عیسائی مشنری افریقہ میں آئے تو ان کے ہاتھ میں بائبل تھی اور ہمارے ہاتھوں میں افریقہ کی لاکھوں ایکڑ زمین تھی۔پادریوں نے کہا 'آؤ آنکھیں بند کریں اور خداوند کی عبادت کریں.۔جب ہماری آنکھیں کھلیں تو پتہ چلا کہ بائبل ہمارے ہاتھ میں ہے اور ہماری زمینیں پادریوں کے قبضے میں جاچکی ہیں۔
جب فیس بک اور وٹس ایپ کے جن کا نزول ہوا تو اس وقت ہمارے پاس وقت اور آزادی تھی جب کہ ان کے پاس انٹرنیٹ اور انفارمیشن تھی۔ہمیں بتایا گیا کہ سب کچھ مفت ہے۔ہم نے آنکھیں بند کیں اور جب کھلیں تو معلوم ہوا کہ ہمارا وقت اور آزادی دونوں چھن چکے ہیں۔ہم میں سے اکثر چغد لوگوں کے ہاتھ میں سمارٹ فون موجود ہے اور یہ کئی اعتبار سے ہم سے زیادہ سیانا ہے کہ اس نے بہت کچھ کھایا پیا ہوا ہے۔مثال کے طور پر اس نے ہاتھ کی گھڑی کھائی، ٹارچ لائٹ کھا گیا،یہ خط و کتابت کھا گیا، یہ کتاب کھا گیا، یہ ریڈیو کھا گیا، ٹیپ ریکارڈ کھا گیا، کیمرے کو کھا گیا، کیلکولیٹر کو نگل گیا۔ یہ پڑوس کی دوستی، میل محبت، ہمارا سکون، تعلقات، یاد داشت، نیند، توجہ اور ارتکاز ڈکار گیا۔کمبخت اتنا سب کچھ کھا کر ''اسمارٹ فون'' بنا ہے۔بدلتی دنیا کا ایسا اثر ہونے لگا ہے کہ انسان پاگل اور فون اسمارٹ ہوگیا ہے۔جب تک فون تار سے جڑا تھا، انسان آزاد تھا۔جب فون آزاد ہو گیا، انسان فون سے بندھ گیا۔ دیکھا جائے تو انگلیاں ہی آج کل رشتے نبھا رہی ہیں۔زبان سے نبھانے کا وقت کہاں ہے؟
اگر ہم اپنے ارد گرد دیکھیں تو سب ٹچ میں مصروف ہیں۔ پر ٹچ میں کوئی نہیں ہے۔ یہاں مجھے ایک مشہور سوامی جی کا واقعہ یاد آتا ہے۔سوامی جی نے جوگاجوگ (کا نٹیکٹ) اور سنجوگ (کنکشن) کے حوالے سے بات کی تھی اور ایک مشہور صحافی نے کڑے تیوروں کے ساتھ انہیں گھیر لیا تھا اور ہوا میں ہاتھ لہراتے ہوئے کہا، باباجی، آپ کی بات کی سمجھ نہیں آئی۔سوامی جی کے چہرے پر ایک مسکان سی ابھری 'کوئی بات نہیں، ابھی سمجھ لیتے ہیں۔یہ بتاؤ کہ کہاں کے رہنے والے ہو؟'صحافی کے چہرے پر ناگواری کے اثرات نمایاں ہوئے ۔تاہم اس نے ان پر قابو پاتے ہوئے اپنے علاقے کے بارے میں بتا دیا.
'ہوں، کل کتنے لوگ ہو؟ والدین، بہن بھائی؟' دوسرا سوال آیا۔صحافی نے قدرے غور سے باباجی کو دیکھا۔اسے ایسا لگا جیسے الٹا اس کا انٹرویو شروع ہوگیا ہے۔'ہم، تین بہن بھائی ہیں۔والدہ رخصت ہوچکی ہیں، والد حیات ہیں'.اس نے بوجھل لہجے میں جواب دیا۔'ہوں، تو اپنے والد سے آخری دفعہ کب رابطہ ہوا؟'ایک ماہ پہلے '. صحافی نے روکھے لہجے میں جواب دیا۔ سوامی جی، بدستور ہشاش بشاش تھے.' تم اپنے بھائیوں، بہنوں سے ملتے ہو؟ آخری ملاقات کب ہوئی تھی؟ ملتا ہوں،آخری بار تین مہینے پہلے ملے تھے.' اس کے لہجے میں کھردرا پن نمایاں ہورہا تھا۔اچھا تو تم بہن بھائی آپس میں رابطہ رکھتے ہو؟ آخری مرتبہ پورا خاندان کب اکٹھا ہوا تھا؟اس مرتبہ صحافی کے ماتھے پر پسینے کے قطرے ابھرے تھے.' خاندان تو دوسال پہلے اکٹھا ہوا تھا'.'بہت خوب. تو کتنا وقت تم لوگوں نے ایک ساتھ بتایا؟ '' تقریباً تین دن کے آس پاس'.اس نے تھوک نگلتے ہوئے کہا.
'ہوں۔تو تم سب بہن بھائیوں نے اپنے باپ کے ساتھ کتنا وقت گزارا؟ سوامی جی اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔ صحافی کا سانس پھول رہا تھا اور اس نے خلا میں گھورنا شروع کر دیا۔'کیا تم لوگوں نے ناشتہ اکٹھے کیا یا رات کا کھانا ایک ساتھ کھایا؟ کیا اپنے باپ کی صحت کی خبرلی؟ اس کے پاؤں دبائے؟ اس سے پوچھا کہ تمہاری ماں کے بغیر وہ کیسا محسوس کرتا ہے؟'صحافی کے چہرے پر عجیب و غریب سے تاثرات ابھرے۔اس کی آنکھیں نم ہونے لگی تھیں اور سانس مزید بوجھل ہوگیا تھا۔سوامی جی چہرے پر شفقت کے تاثرات لیے ہوئے اس کی طرف جھکے اور اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا.' معاف کرنا اگر انجانے میں میری کسی بات نے دکھ پہنچایا ہو۔میں تو بس تمہارے سوال کا جواب دے رہا تھا۔اپنے باپ کے ساتھ، بہن بھائیوں کے ساتھ تمہارا کانٹیکٹ تو ہے مگر کنکشن نہیں ہے۔تعلق دل کا دل سے ہوتا ہے۔یہ ساتھ جڑ کر بیٹھنے سے، ایک ساتھ قہقہہ لگانے سے، ایک ہی لے میں رونے سے، ایک پلیٹ میں کھانے سے، وقت ایک ساتھ بتانے سے، ہاتھ پر ہاتھ مارنے سے،گلے لگانے سے، کندھے سے کندھا جوڑنے سے بنتا ہے۔اس میں روایتی حال چال نہیں بلکہ سب ٹھیک ہے کی تہ میں اترا جاتا ہے۔آنکھوں میں دیکھا جاتا ہے، بدن بولی کو سمجھا جاتا ہے۔رابطہ اور تعلق دو الگ چیزیں ہیں.'۔
صحافی نے نمناک آنکھوں سے باباجی کو دیکھا اور سر ہلایا۔اس نے زندگی کا سب سے بڑا سبق سیکھ لیا تھا۔
ہمارے دور کی سب سے بڑی وبا کانٹیکٹ (رابطہ) بنانا ہے۔اب دو چار سو کی بجائے ہمارے فون میں ہزاروں افراد کے نمبر ہوتے ہیں۔ تاہم اس بھاگم دوڑی میں کنکشن (تعلق) قربان ہوگیا ہے۔
دنیا کے ذہین ترین اور نامور افراد میں سے ایک ٹونی بیوزان ہیں۔ان کے ساتھ میری پہلی ملاقات بہت دلچسپ رہی تھی۔ٹونی تخلیقی معاملات اور انسانی دماغ کے استعمال پر دنیا بھر میں ماہر مانا جاتا ہے۔ اس کی ڈیڑھ سو سے زیادہ کتابیں، پچاس سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔ اس کی ایجاد کردہ تکنیک مائنڈ میپنگ دنیا بھر میں کروڑوں افراد استعمال کرتے ہیں، جن میں درجنوں ملکوں کے سربراہان مملکت بھی شامل ہیں۔میں ٹونی کو پاکستان آنے کی دعوت دینے کے لیے پہنچا تھا، اور مجھے معلوم نہیں تھا کہ آج میں اس سے بہت قیمتی سبق حاصل کرکے جاؤں گا۔آدھ گھنٹے میں میرا فون چار دفعہ بجا اور مجھے ایکسکیوزمی کہہ کر کال سننا پڑی۔پانچویں دفعہ فون بجا تو ٹونی نے میز پر زور سے مکہ مارا اور غراتے ہوئے کہا 'شٹ اپ، ناؤ یو آر انسلٹنگ می'. میں نے سکتے کے عالم میں اسے دیکھا اور اگلے دس منٹ میں ٹونی نے مجھے کمیونیکیشن کے آداب پر سیر حاصل لیکچر دے مارا'میں دنیا میں بہت کچھ لے کر آیا ہوں مگر تمہارے لیے میرے پاس دو خاص تحفے ہیں۔ایک میرا وقت اور دوسرا میری توجہ۔جو وقت میرا تمہارے ساتھ بیتے گا، دنیا کی کوئی طاقت اور زروجواہر وہ وقت واپس نہیں لوٹا سکتے۔ تاہم اس وقت میں اگر میں تمہاری طرف متوجہ نہیں ہوں تو میں تمہاری توہین کررہا ہوں۔اگر میں فون سنتا ہوں تو تمہیں بتارہا ہوں کہ فون پر موجود شخص تم سے زیادہ اہم ہے۔اور یاد رکھو، کسی ملاقات میں فون میز پر سامنے رکھنا ایک طرح سے اپنے جنسی اعضاء نمائش کے لیے رکھنے کے مترادف ہے۔اور ہاں اگر تم معلوم کرنا چاہتے ہو کہ تم زندگی میں کتنے کامیاب اور کامران ہو تو اسکا ایک دلچسپ ٹیسٹ یہ کہ تم کتنا عرصہ فون بند رکھ سکتے ہو یا اس کو سننے سے انکار کرسکتے ہو ۔
تو پیارے پڑھنے والے، آج اپنا فون بند کرکے یہ چھوٹا سا تجربہ کرلیتے ہیں کہ ہم کتنے کامیاب ہیں اور وقت اپنی مرضی سے استعمال کرنے پر قادر ہیں۔آؤ، رابطہ نہیں، تعلق استوار کرتے ہیں۔ اپنے ارد گرد موجود جان لیوا شور سے جان چھڑا کر اپنے پیاروں کے ہاتھوں میں ہاتھ دیتے ہیں، ان کے لمس کو محسوس کرتے ہیں، ان کی آنکھوں کے گرد پڑنے والی لکیروں کو غور
سے دیکھتے ہیں، ان کی باتوں کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم توجہ سے زیادہ قیمتی تحفہ ایک دوسرے کو نہیں دے سکتے ہیں۔